ذرا بند قبا دیکھ 

پاکستان نے جو مقام بھٹو مرحوم کی خارجہ پالیسیوں سے مسلم دنیا میں بنایا تھا، اسے جنرل ضیا کی آمریت نے ملیامیٹ کر دیا۔

muqtidakhan@hotmail.com

KARACHI:
چند روز قبل بلوچستان کے شہر چمن سے ملحق پاک افغان سرحد پر واقع کلی لقمان اور کلی جہانگیر پر افغان بارڈر پولیس کی پاکستانی مردم شماری کے عملہ پر فائرنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

گزشتہ پیر کو ایرانی فوج کے سربراہ جنرل محمد حسین باقری نے دھمکی دی کہ پاکستان میں دہشتگردی کے ٹھکانے ختم نہ ہوئے، تو سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعے ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔ بھارت سے قیام پاکستان کے وقت سے اختلافات چلے آ رہے ہیں۔ گویا اس وقت ہمارے تعلقات اپنے تینوں پڑوسیوں سے کشیدہ ہیں، جب کہ چوتھی طرف سمندر ہے۔

مانا کہ بھارت روز اول سے دشمنی پر آمادہ ہے۔ کشمیر کا قضیہ، سرکریک اور سیاچن وجہ تنازعہ ہیں۔ اس نے قیام پاکستان کے بعد دریاؤں کا پانی بند کرکے ہمیں زچ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ تین رسمی اور دو غیر رسمی جنگیں ہوچکی ہیں۔ افغانستان بھی ہمارا مخالف رہا ہے۔ ڈیورنڈ لائن پر اختلاف پہلے دن سے چلا آرہا ہے۔ وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں ہماری رکنیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ وہ احسان فراموش بھی ہے۔ ہم نے اسے سوویت ''جارحیت'' سے بچانے کے لیے جنگجو جتھے اپنے یہاں تیار کرکے وہاں بھیجے۔ اس کے لاکھوں پناہ گزینوں کو اپنے یہاں جگہ ہی نہیں دی، بلکہ بیشتر پاکستانی شہریت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ہم نے طالبان کی حمایت بھی کی مگر ان کا معاملہ وہی ہے، یعنی ڈھاک کے تین پات۔

جہاں تک ایران کا معاملہ ہے تو یہ وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے ہمیں تسلیم کیا۔ افغان مخالفت کے خلاف سینہ سپر ہوکر اقوام متحدہ میں ہماری رکنیت کے لیے پرزور مہم چلائی۔ 1965ء کی جنگ کے دوران اس نے غیر جنگی جہازوں کو اپنی سرزمین پر کھڑا کرنے کی اجازت دی۔ 1964ء میں علاقائی تعاون کی تنظیم (RCD) قائم ہوئی، جس میں پاکستان، ایران اور ترکی شامل تھے۔ یہ تنظیم خطے کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے جارہی تھی۔ 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد ختم ہوگئی۔ مگر ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم رہے۔

1979ء اس خطے کی تاریخ میں خصوصیت کا حامل سال ہے۔ اس برس دو اہم واقعات رونما ہوئے۔ اول، انقلاب ایران۔ دوئم، افغانستان میں سوویت فوجوں کی آمد۔ اس نئی صورتحال نے شمال مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی سیاست کو مکمل طور پر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں کہ سعودی عرب سمیت خلیجی امارات کے حکمرانوں کے شہنشاہ کے دور میں ایران کے ساتھ جو قدرے بہتر تعلقات تھے، وہ دشمنی میں کیوں تبدیل ہوگئے؟ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس صورتحال کا پس منظر جہاں فقہی یا مسلکی اختلاف ہے' وہاں ان کے اپنے ممالک میں پشتینی حکمرانی کے خلاف جاری جدوجہد کے تیز ہوجانے کا خوف ہے۔ مگر عوام کو فقہی اور مسلکی اختلاف کی بنا پر تقسیم کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف افغانستان میں جب سوویت فوجیں داخل ہوئیں، تو امریکا کے ایما پر جہاد شروع کرانے کے لیے پاکستان میں جنگجو جتھے تیار کیے گئے۔ اس صورتحال نے بھی صدیوں پہ محیط فقہی اختلاف کو مزید تقویت پہنچائی۔ ساتھ ہی یہ تصور بھی پیدا ہوا کہ جب ایک فقہہ کے علما اقتدار میں آسکتے ہیں، تو کسی دوسرے فقہہ یا مسلک کے علما کیوں نہیں آسکتے۔ اس صورتحال نے مذہب کے بجائے مذہبیت (Religiosity) کے تصور کو مضبوط کیا۔ جس کے نتیجے میں مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کو مزید فروغ حاصل ہوا۔

پاکستان نے جو مقام بھٹو مرحوم کی خارجہ پالیسیوں سے مسلم دنیا میں بنایا تھا، اسے جنرل ضیا کی آمریت نے ملیامیٹ کر دیا۔ بھٹو جناح کے ویژن کے امین تھے۔ جناح بھی کسی فقہی، فرقہ وارانہ یا مسلکی جھنجھٹ میں الجھے بغیر وسیع البنیاد مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ برٹش انڈیا میں مسلمانوں کو انھوں نے اسی بنیاد پر مجتمع کیا تھا۔ یہی پالیسی وہ عالمی سطح پر اختیار کرنے کے حامی تھے۔ زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہیں کی۔ ان کے جانشینوں میں وہ بصیرت اور دور اندیشی نہیں تھی کہ وہ ان تصورات پر عمل کرتے، جو جناح کا ویژن تھے۔ چنانچہ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی داخلہ کے ساتھ خارجہ پالیسی بھی بے سمت ہوتی چلی گئی۔


1962ء میں جب بھٹو کو وزارت خارجہ کا قلمدان ملا اور ایوب خان نے انھیں قدرے فری ہینڈ دیا، تو انھوں نے خارجہ پالیسی کو ازسر نو ترتیب دینے کی کوشش کی۔ چین کے ساتھ حسین شہید سہروردی کے دور میں شروع ہونے والے تعلقات کو مزید مستحکم کیا۔ لیکن مسلم دنیا ان کا اصل مرتکز تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے انڈونیشیا کے احمد سوئیکارنو، الجرائر کے بن باللہ اور پھر حوری بومدین کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کیے۔ تمام خلیجی ممالک کے علاوہ مصر کے ساتھ ایک دہائی سے جاری سرد مہری کو توڑنے کی کوشش کی۔ ایران اور ترکی کے ساتھ علاقائی تنظیم برائے ترقی (RCD) کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔

1966ء میں اقتدار سے علیحدگی اور پھر دسمبر 1971ء میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کا مرتکز (Focus) دنیا کے تمام ممالک بالخصوص مسلم ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا تھا۔ بانی پاکستان کی طرح بھٹو مرحوم بھی وسیع البنیاد خارجہ پالیسی کے حامی تھے۔ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں فروری 1974ء میں لاہور میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد ممکن ہو سکا۔ جس میں مسلم ممالک کے بیشتر سربراہان نے شرکت کی۔

بھٹو مرحوم ہی کی کاوشوں سے ہنرمند اور غیر ہنرمند افرادی قوت کے خلیجی ممالک میں روزگار کا سلسلہ شروع ہوا۔ بھٹو مرحوم ہی کے مشورے پر تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم OPEC نے تیل کی قیمتیں خود متعین کرنے کی خاطر ایک ہفتے تک تیل کی سپلائی بند کر کے ترقی یافتہ ممالک کو اس مطالبہ کو منظور کرنے پر مجبور کیا۔

بھٹو مسلم دنیا کا ایک علیحدہ بینک قائم کرنے کے خواہشمند تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ مسلم دنیا بالخصوص پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کی منت سماجت کرکے قرضہ حاصل کرنے کے بجائے اس بینک سے قرض لے۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ پاکستان میں صنعتکاری کے لیے مسلم دنیا کے امیر ممالک سرمایہ کاری کریں، تاکہ پاکستان کی مہارت اور خلیجی ممالک کا سرمایہ مسلم دنیا کی سیاسی وعسکری قوت کو مستحکم کرنے کا باعث بنے۔ بھٹو پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کی خواہش میں عالمی قوتوں کی سازشوں کا نشانہ بن کر تختہ دار تک پہنچادیے گئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

جنرل ضیا نے اس ملک کو یک مسلکی تھیوکریسی کی جانب دھکیلنے کی کوتاہ بینی پر مبنی جو پالیسیاں شروع کیں، اس کا خمیازہ پاکستان آج بھگت رہا ہے۔ ملک میں مذہبی تنگ نظری اور جنونیت کے ساتھ متشدد فرقہ واریت کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ اسلحہ اور منشیات عام ہوئیں۔ عالمی سطح پر تعلقات میں بگاڑ آیا۔ خاص طور پر مسلم ممالک میں ہماری پوزیشن خاصی حد تک خراب ہوچکی ہے۔ ایران کے ساتھ گرمجوشی والے تعلقات سردمہری میں تبدیل ہوگئے۔ بھٹو نے شملہ معاہدے کے ذریعے کشمیر پر حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا تھا۔ جنرل ضیا نے افغانستان سے فارغ جنگجوؤں کو وہاں برسرپیکار کرکے نہ صرف اس معاہدے کو سبوتاژ کیا، بلکہ عالمی سطح پر کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو مذہبی و مسلکی رنگ دے کر نقصان پہنچایا۔

آج اگر بھٹو یا ان کی دختر بینظیر شہید زندہ ہوتیں تو جنرل راحیل شریف کو اس طرح 39 ملکی فوج میں شامل نہ ہونے دیتیں۔ اگر شامل ہونا ناگزیر ہوتا تو ایران سمیت ان تمام دوست ممالک کو اعتماد میں لے کر کوئی فیصلہ کرتے، جو اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ غور کیا جائے کہ ہم نے غلط پالیسیوں پر مسلسل اصرار کرکے کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔ آج جنوب میں سمندر کو چھوڑ کر کوئی بھی پڑوسی ہمارا دوست نہیں ہے، حتیٰ کہ سری لنکا، نیپال اور بھوٹان بھی ہم سے خوش نہیں۔ بنگلہ دیش بھی شدید ناراض ہے۔

چین، جس کی دوستی پر ہمیں فخر ہے، وہ بھی ہماری بیشتر پالیسیوں سے نالاں ہے۔ اس نے اپنے صوبے سنکیانگ میں جو احکامات جاری کیے ہیں، وہ ہمارے لیے نوشتہ دیوار ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے بھارت میں متعین سفیر نے CPEC کی بابت جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ بھی غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ پھر عرض ہے کہ ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے بغیر اس دنیا میں چلنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔
Load Next Story