ہماری قومی سوچ تبدیل کی گئی ہے

اب ہماری قومی سوچ خوف، ڈر، ذاتی منفعت اوربھرپورمنافقت کا مجموعہ ہے۔

raomanzarhayat@gmail.com

ISLAMABAD:
کوئی بھی ملک اپنی کمزوریوں پرنظرڈالے بغیرترقی نہیں کرسکتا۔ترقی کے لفظ کے بجائے ''بھرپورترقی'' نہیں کرسکتا۔ خامیاں پتہ چل جائیں اورانھیں ختم کرنے کاجذبہ ہوتوتنزلی کے سفرکو روکا جاسکتا ہے۔ جب قومی کمزوریاں زائل کردی جائیں توملک ترقی یافتہ بن جاتاہے۔مثالیں ہرطرف بکھری پڑی ہیں۔ مگر ان پرتدبرکرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔نہ قوم،نہ فوج،نہ عدلیہ اورنہ ہی کسی بھی دورکی حکومت۔

پاکستان،شمالی کوریا،سعودی عرب،ایران اور اس جیسے دیگر کمزور ممالک میں ایک حقیقت یکساں ہے۔ان تمام ملکوں میں قومی سوچ اورفکرکوانتہائی عامیانہ طریقے سے تبدیل کیاگیاہے۔کبھی کسی فوجی حکمران نے، توکبھی کسی جمہوری لیڈرنے،کبھی مذہبی رہنماؤں کے گروہ نے اورکبھی ریاست کے بھیانک جبرنے۔ان جیسے تمام ممالک دعویٰ توکرسکتے ہیں کہ ترقی کررہے ہیں مگروہ ترقی کرناجانتے ہی نہیں۔شمالی کوریاایک انتہائی غریب ملک ہے۔اس میں ایک ہی خاندان کی بادشاہت قائم ہے۔

دادا،باپ اوراب بیٹا۔فوجی طرزکی وردی پہن کرلوگوں نے اپنی شکلیں بھی ایک جیسی کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔شمالی کوریاکاموجودہ حکمران کیاکہہ رہاہے۔ہماری قوم خطرے میں ہے۔امریکا اورجاپان ہمارے دشمن ہیں۔ہمیں ہر وقت مہلک سے مہلک ہتھیاربنانے میں مصروف ہوناچاہیے۔ہمیں ایٹمی میزائل بنانے چاہیئں۔اس ملک میں کوئی یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتاکہ جناب شمالی کوریاکے عوام توغربت کے ہاتھوں بربادہوچکے ہیں۔

لوگ ملک چھوڑنے پرمجبورہوچکے ہیں۔ مگرنہیں،ان کے قومی لیڈر اپنی دھن میں مگن ہیں۔ملک کوسیکیورٹی کے نام پربربادکرو،اوراپنے آپ کواتناعظیم ظاہرکروکہ لوگ کسی اورطرف دیکھنے کے قابل نہ رہیں۔جوبتایاجارہاہے صرف اسے سچ مانیں۔ شمالی کوریا فکری دھارے کوگدلا بنانے کی مثال ہے۔

پاکستان کی طرف دیکھناضروری ہے۔یہ کئی لحاظ سے خوش قسمت ملک ہے اورکئی لحاظ سے انتہائی بدقسمت۔مسلمان ممالک میں یہ واحدملک تھااورہے جوترقی کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ذہین اورمحنتی لوگ،ترقی کے لیے بے قرار نوجوان نسل۔ مگر سوچنا چاہیے کہ غلطی کہاں ہوئی اور اس کا ہمیں ادراک ہے بھی یا نہیں۔طالبعلم کی دانست میں ہمارے ملک کی قومی سوچ کوانتہائی برے طریقے سے تبدیل کیاگیا ہے۔اسے آپ سوشل انجینئرنگ کی بھیانک مثال بھی کہہ سکتے ہیں۔

سٹینلے والپورٹ سے لے کرتمام آزاد تاریخ دان اس رائے کابرملااظہارکرتے ہیں کہ قائداعظم ملک کوقطعاً مذہبی ریاست نہیں بناناچاہتے تھے۔انھوں نے کابینہ کے جتنے اجلاس بلائے،ان تمام میں ان کی فکری اورسیاسی سوچ کھل کرسامنے نظرآتی ہے۔ زندگی میں ان کے خیالات پرتنقیدکرنے والے لوگ بہت کم تھے۔یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ انھیں ہمت نہیں تھی کہ قائدکے لبرل خیالات یاتقاریرسے برملااختلاف کرسکیں۔مگرجیسے ہی قائد دنیاسے رخصت ہوئے، وہ تمام قوتیں جن کا پاکستان بنانے میں کوئی حصہ نہیں تھا، کھل کرسامنے آگئیں۔

یہ ابتدائی مرحلہ تھا،جس میں ملک میں فلاحی رجحانات کے بجائے مذہبی رجحانات کوبرتری دینے کی کوشش کی گئی۔لیکن اس وقت معاشرے میں اتنی طاقت اورجان تھی کہ اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیاگیا۔عام لوگ مذہبی جماعتوں کوکبھی ووٹ نہیں ڈالتے ۔طویل عرصے تک مذہبی سیاسی جماعتیں کسی بھی فیصلہ کن پوزیشن میں نہیں آسکیں۔ فوج اور سول سروس بھی عمومی طور پر غیرجانبدارتھیں۔لوگوں کی اہلیت کا تعین مذہبی رجحانات کی بنیاد پر قطعاً نہیں ہوتا تھا۔

شائدآپ کے لیے خبر ہو کہ لاہور، کراچی، پشاوراورکوئٹہ میں لاکھوں غیرملکی سیاحت کے لیے آتے تھے۔ہمارے شمالی علاقہ جات، غیرملکی سیاحوں کی جنت تھے۔ملک میںتشددپسندانہ روش کوکسی طرح بھی قبول نہیں کیاجاتاہے۔عام لوگ دین کے تمام فرائض بڑے سکون سے اداکرتے تھے۔ یہ معاملہ کسی نہ کسی طریقے سے1977ء تک لڑکھڑا لڑکھڑاکرچلتارہا۔

1977ء میں جنرل ضیاء الحق کواحساس ہواکہ مذہب کے نام پرلوگوں پرحکومت بہت آسانی سے کی جاسکتی ہے۔میری نظرمیں وہ ایک انتہائی ذہین انسان تھا۔شخصی طورپرکافی حدتک صاف ستھرا، مگر امورِ حکومت میں بے انتہا جابر شخص۔پی این اے کی نظام مصطفیٰ تحریک کاجائزہ لینے کے بعداس نتیجہ پرپہنچ چکا تھاکہ عوامی سطح پرمذہب کوایک سیاسی ہتھیار کے طور پرکامیابی سے استعمال کیاجاسکتاہے۔اس نے یہی کیا۔مذہب کواپنی حکومت کی خامیاں چھپانے کے لیے ایک ڈھال بناڈالا۔


جنرل ضیاء نے بڑے آرام سے یہ نسخہ قوم پرآزمایا۔عملی نتیجہ کیا نکلا۔ اس کاجائزہ لینا بے حدضروری ہے۔جن کاموں کوروکنے کے لیے یہ سب کچھ کیاگیا،جوہری طورپروہ تمام علتیں پورے معاشرے میں پہلے سے بھی زیادہ قوت سے پھیل گئیں۔ضیاء الحق نے پورے معاشرے کے اندر بنیادی تبدیلیاں کرنے کی بھرپور کوشش کی۔اپنی حکومتی سوچ کواسلامی قرار دیا۔ مقابلے پر جس فریق نے کوئی بھی مختلف بات کی، اسے سزا کا مستحق ٹھہرایاگیا۔

کون نہیں جانتاکہ مذہبی تشدد پسندانہ تنظیموں کوریاست کی چھتری تلے کس نے پروان چڑھایا۔آپ کسی بھی سنجیدہ آدمی سے سوال کریں کہ آیافرقہ پرستی ہمارے ملک میں ضیاء الحق دورسے پہلے اس شدت سے موجود تھی؟۔ جواب بالکل سیدھاہوگا۔پورے ملک میں مذہبی فرقہ پرستی کی شدت اورحدت بہت کم تھی۔ مگر ضیاء الحق نے سماج میں وہ زہرگھولاکہ مسلکی اختلاف، اسلام اور کفرمیں جنگ کی بنیاد بن گیا۔ساتھ ساتھ افغانستان میں جہادکے نام پرلاکھوں لوگ ماردیے گئے۔نسلیں بربادہوگئیں۔ مجموعی نقصان یہ پہنچاکہ پورے ملک میں اعتدال پسند طبقہ خوف زدہ ہوگیا۔

ریاست پوری طاقت کے ساتھ ان لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی جن کے مذہبی اورفکری رجحانات میں تشدد کا عنصر تھا ۔بنیادی قوانین میں تبدیلی سے لے کر معاشرے کی سوشل انجینئرنگ کاکام اس کرخت طریقے سے کیاگیاکہ قوم کی اکثریت ایک''مخصوص رویہ'' کی قائل ہوگئی۔یہ کلچرمنافقت کا تھا۔آپ لوگوں کے سامنے ایک فرشتہ نظرآئیں،مگرتخلیے میں اس کے بالکل برعکس کریں۔اس منافقت نے اتنی گرد اُڑائی کہ پوری قوم کا معتدل رویہ غائب ہونا شروع ہوگیا۔وہ کام جو1948ء سے آہستہ آہستہ شروع کیاگیا،1977ء میں مضبوط کانٹے دار درخت بن چکاتھا۔

جنرل ضیاء کے بعدبالواسطہ یابلاواسطہ ان نظریات کوروکنے یاٹوکنے کی ہمت کسی سیاستدان یا فوجی میں نہیں رہی۔مقتدرحلقہ سمجھ گیاکہ مذہب، پاکیزگی اورمنافقت کی آڑمیں سارے کام کیے جا سکتے ہیں۔ناجائزمالی وسائل حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ چھپ کرتمام''ممنوعہ لذتیں''حاصل کی جاسکتیں ہیں۔ جن کاذکردن کے اُجالے میں کرناگناہ تصورکیا جاتا ہے۔قومی سیاستدانوں کی اکثریت اسی فلسفہ پرعمل پیراہوگئی اورپھردیکھا دیکھی یہی ہماراعمومی رویہ بننا شروع ہوگیا۔

لوگ جنرل مشرف کو لبرل گردانتے ہیں۔مگرعملی صورتحال کاجائزہ لیں توایک حقیقت اس طرح سامنے آتی ہے کہ انسان سرپکڑلیتاہے۔ ان کے دور میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مذہبی جماعتوں کوصوبائی اورقومی اقتدارمیں مکمل اختیارکے ساتھ شامل کیاگیا۔خیبرپختونخوا میں پانچ سال تک مذہبی بنیادوں پرحکومت قائم کرائی گئی ۔ ضیاء الحق کے بعد مقتدرحلقوں میں مذہبی رہنماؤں کوتخت نشین کرنے والا جنرل پرویزمشرف تھا۔

مختلف ادوارمیں حکومت اورریاستی اکابرین نے ہرطریقے سے مذہبی سوچ کی ایک خاص شکل کوایسا تنا آوردرخت بنادیاکہ پوراملک اس کے سائے بلکہ آسیب میں آگیا۔مغربی دنیاکے غیرجانبدارسیاسی محققین ان معاملات پربہت زیادہ تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ایک زمانے میں پاکستان کواسی سوچ کی بنیاد پر دنیا کاسب سے خطرناک ملک قراردیاجاتاتھا۔

عملی صورتحال یہ ہے کہ ملک کے ہرشعبہ میں ایک مخصوص فکری رویے کوبہترسمجھاجاتاہے۔اسلام جیسے عظیم مذہب کوآج بھی ایک ہتھیارکے طور پر سیاسی اورغیرسیاسی مقاصدکے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔ حالات کی بے رحمی دیکھیے کہ وہی حلقہ جس نے یہ سب کچھ شروع کیاتھا،آج اپنے آپ کوانہی لوگوں کے ہاتھوں غیرمحفوظ سمجھتاہے۔مستونگ میں مذہبی جماعت کے قافلے پرحملہ، اس شدت پسندی کاوہ رخ دکھا رہا ہے،جسے ہم کبھی بھی تسلیم نہیں کرتے۔

دانشور، ادیب، لکھاری،شاعر،سیاستدان اورمقتدرلوگ اب اس درجہ غیرمحفوظ ہیں کہ کوئی بھی ملک کے تبدیل شدہ قومی بیانیے کے متضاد بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ ہر ایک کومعلوم ہے کہ ذرا سے اعتراض کرنے پرنامعلوم گولی سے مارا جا سکتا ہے۔بدقسمتی سے چاردہائیوں میں قومی بیانیہ اورسوچ اس درجہ تبدیل کردی گئی ہے بلکہ مسخ کردی گئی ہے کہ اب کوئی بھی دلیل کی بنیاد پراس کی مخالفت نہیں کر سکتا۔

اب ہماری قومی سوچ خوف، ڈر، ذاتی منفعت اوربھرپورمنافقت کا مجموعہ ہے۔اس بھیانک جن کے سامنے فی الوقت کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ شائد چند سالوں میں قدرت ہم پر مہربان ہوجائے اورہم سچ کی دوائی کھاکراپنی قومی سوچ کا دھارابدل سکیں۔مگر ابھی توسب خوف زدہ ہیں۔
Load Next Story