لوڈ شیڈنگ پر ہنگامے‘ حکومت بھی اضطراب کا شکار نظرآتی ہے
لوڈ شیڈنگ پر ہنگامے‘ حکومت بھی اضطراب کا شکار نظرآتی ہے
تمام تر حکومتی دعوئوں اور کمیٹیاں درکمیٹیاں تشکیل دینے اور آئے روز صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کی طرف سے غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سخت نوٹس لینے کے باوجود لوڈشیڈنگ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ہرشخص سراپااحتجاج ہے۔
حکومت ایک طرف سحروافطار میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کے اعلانات کررہی ہے جبکہ دوسری طرف پورے ملک میں اندھیروں کا مکمل راج ہے۔ توانائی کے بدترین بحران سے جہاں ملک کی معیشت کا پہیہ جام ہوچکا ہے وہاں لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں۔ اب عوام کے صبر کا پیمانہ اس حد تک لبریز ہوچکا ہے کہ متعدد شہروں میں توڑپھوڑ سے حکومتی املاک کو نذرآتش کردیاگیا ہے،کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا ہے۔
لوگ صدر اوروزیراعظم کے کھوکھلے بیانات سے عاجز آچکے ہیں۔آئے روز اعلیٰ سطحی اجلاسوں کانتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔ اپوزیشن جماعتیں تو شروع سے ہی لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی احتجاج میں بڑی حد تک شامل تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اس احتجاج میں پیش پیش ہیں۔
اب تو حکومتی صفوں میں بھی لوڈشیڈنگ نے ایک اضطراب اور خوف کی لہر پیدا کردی ہے۔ حکومتی شخصیات نے عوامی غیظ وغصب سے بچنے کیلئے اپنے آبائی حلقوں کا رخ تک کرنا چھوڑدیا ہے۔ بعض ارکان اسمبلی کی املاک تک اس احتجاج کی نذر ہوچکی ہیں۔
اٹک سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی اور وزیرمملکت برائے دفاع سردار سلیم حیدر خان کے صبر کا پیمانہ کچھ اس حد تک اس خوفناک لوڈشیڈنگ کے خلاف لبریز ہوگیا کہ انہوں نے بادل نخواستہ اپنے حلقے کے عوام کے صدائے احتجاج کے سامنے اسلام آباد میں واقع نیشنل پاور کنٹرول سنٹر پر حامیوں کے ہمراہ اچانک دھاوا بول دیا اور نیشنل پاور کنٹرول سنٹر کے جنرل منیجر سمیت دیگر عملے کو دوگھنٹے سے زائد دیرتک یرغمال بنائے رکھا اور دفتر کے باہر گارڈ کھڑے کردیئے۔
وزیراعظم راجہ پرویزاشرف ،وزیرپانی وبجلی احمدمختار چوہدری اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری قاضی ایوب کے بار بار رابطے کرنے کے بعد سردار سلیم حیدرخان نے دفترپر قبضہ ختم نہ کیا۔
وزیرمملکت برائے دفاع سردارسلیم حیدر کے سرکاری دفتر پر دھاوابولنے اور تمام سٹاف کو دوگھنٹے تک یرغمال بنائے رکھنے کے غیر معمولی واقعہ نے حکومتی حلقوں میں شدید تشویش کی لہر پیداکر دی ۔کابینہ کے ارکان اورارکان قومی اسمبلی جن کا تعلق حکمران جماعت سے ہے اگر وہ اس حد تک جاسکتے ہیں تو معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگاناکچھ مشکل نہیں ۔
بعض حکومتی شخصیات نے اپنے حلقے کے عوام کے احتجاج کے باعث اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کی دھمکی دیدی ہے۔ بجلی کا بڑھتا ہوابحران آئندہ عام انتخابات پر براہ راست اثرانداز ہوگا۔پیپلزپارٹی کی ساکھ اور مقبولیت کے حوالے سے لوڈشیڈنگ نے کئی سوالات پیدا کردیئے ہیں۔
آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے حکمران جماعت کے سامنے یہ بحران ایک بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔اپوزیشن جماعتیں بجلی کے بحران کو ایک انتخابی ایشو کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔عوامی احتجاج میں تشدد کے عنصر نے امن وامان کی صورتحال کو مزید سنگین تر بنادیا ہے ۔
صدر آصف علی زرداری نے ملک کو درپیش چیلنجز اور مسائل پر مشاورت کیلئے وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کو کل جماعتی کانفرنس طلب کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم این آر او کیس کی وجہ سے اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں گومگو جیسی صورت حال کا سامنا کررہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے قومی ایشوز پر اب تک کسی سیاسی جماعت سے رابطہ نہیں کیا۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے مجوزہ کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد پر تحفظات کااظہار کیاہے۔ لیگی قائدین نے راقم کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس سے پہلے بھی کل جماعتی کانفرنس ہوچکی ہیں تاہم کسی اعلامیے اور قرارداد پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
صدر زرداری ایک سے زائد مرتبہ یہ عزم دہراچکے ہیں کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے اور عام انتخابات میں دھاندلی کریں گے نہ کرنے دیں گے۔ ایوان صدر اسلام آباد میں عسکری اور سیاسی قیادت کے ایک مشاورتی اجلاس کے انعقاد کی بابت یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ یہ اجلاس نگران سیٹ اپ کے تناظر میں ہواتھا
جبکہ دوسری طرف صدر کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایسی قیاس آرائیوں کو مسترد کرتا ہوئے کہاکہ یہ اجلاس نگران سیٹ اپ کے بارے میں نہیں تھا اور آرمی چیف کی شرکت کی اطلاعات بے بنیاد ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران وزیراعظم کے معاملے پر مشاورت اب دستوری ضرورت بن چکی ہے۔ فریقین کے درمیان اتفاق رائے آئندہ انتخابات کے حوالے سے سنگ میل ثابت ہوگا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک بار پھر سوئس حکام کو خط لکھنے کیلئے حکومت کی کورٹ میں گیند پھینک دی ہے۔وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کو سپریم کورٹ نے دوہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے خط لکھنے کیلئے 8اگست کی ڈیڈ لائن دیدی ہے۔بیشتر سیاسی مبصرین کا اس امر پر مکمل اتفاق ہے کہ حکومت عدالتی احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے قطعاً خط نہیں لکھے گی اور حکومت، عدلیہ محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا۔سپریم کورٹ نے توہین عدالت سے متعلق قانون سازی کے خلاف آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ وزیراعظم کو استثنیٰ نہیں دیا،
صدر کو بھی نہیں دیں گے کسی کو عدالتی احکامات کی تضحیک کرنے کا حق حاصل نہیں،حکومت کی خلاف ورزی توہین عدالت ہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان جاری تنائو اور کشمکش کو ختم کرانے کے لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سرگرم عمل ہوگئی ہے۔ بار کے عہدیداروں نے صدر زرداری اور چیف جسٹس کے ساتھ ملاقاتیں کرکے درمیانی راستہ نکالنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔
حکومت ایک طرف سحروافطار میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کے اعلانات کررہی ہے جبکہ دوسری طرف پورے ملک میں اندھیروں کا مکمل راج ہے۔ توانائی کے بدترین بحران سے جہاں ملک کی معیشت کا پہیہ جام ہوچکا ہے وہاں لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں۔ اب عوام کے صبر کا پیمانہ اس حد تک لبریز ہوچکا ہے کہ متعدد شہروں میں توڑپھوڑ سے حکومتی املاک کو نذرآتش کردیاگیا ہے،کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا ہے۔
لوگ صدر اوروزیراعظم کے کھوکھلے بیانات سے عاجز آچکے ہیں۔آئے روز اعلیٰ سطحی اجلاسوں کانتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔ اپوزیشن جماعتیں تو شروع سے ہی لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی احتجاج میں بڑی حد تک شامل تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اس احتجاج میں پیش پیش ہیں۔
اب تو حکومتی صفوں میں بھی لوڈشیڈنگ نے ایک اضطراب اور خوف کی لہر پیدا کردی ہے۔ حکومتی شخصیات نے عوامی غیظ وغصب سے بچنے کیلئے اپنے آبائی حلقوں کا رخ تک کرنا چھوڑدیا ہے۔ بعض ارکان اسمبلی کی املاک تک اس احتجاج کی نذر ہوچکی ہیں۔
اٹک سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی اور وزیرمملکت برائے دفاع سردار سلیم حیدر خان کے صبر کا پیمانہ کچھ اس حد تک اس خوفناک لوڈشیڈنگ کے خلاف لبریز ہوگیا کہ انہوں نے بادل نخواستہ اپنے حلقے کے عوام کے صدائے احتجاج کے سامنے اسلام آباد میں واقع نیشنل پاور کنٹرول سنٹر پر حامیوں کے ہمراہ اچانک دھاوا بول دیا اور نیشنل پاور کنٹرول سنٹر کے جنرل منیجر سمیت دیگر عملے کو دوگھنٹے سے زائد دیرتک یرغمال بنائے رکھا اور دفتر کے باہر گارڈ کھڑے کردیئے۔
وزیراعظم راجہ پرویزاشرف ،وزیرپانی وبجلی احمدمختار چوہدری اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری قاضی ایوب کے بار بار رابطے کرنے کے بعد سردار سلیم حیدرخان نے دفترپر قبضہ ختم نہ کیا۔
وزیرمملکت برائے دفاع سردارسلیم حیدر کے سرکاری دفتر پر دھاوابولنے اور تمام سٹاف کو دوگھنٹے تک یرغمال بنائے رکھنے کے غیر معمولی واقعہ نے حکومتی حلقوں میں شدید تشویش کی لہر پیداکر دی ۔کابینہ کے ارکان اورارکان قومی اسمبلی جن کا تعلق حکمران جماعت سے ہے اگر وہ اس حد تک جاسکتے ہیں تو معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگاناکچھ مشکل نہیں ۔
بعض حکومتی شخصیات نے اپنے حلقے کے عوام کے احتجاج کے باعث اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کی دھمکی دیدی ہے۔ بجلی کا بڑھتا ہوابحران آئندہ عام انتخابات پر براہ راست اثرانداز ہوگا۔پیپلزپارٹی کی ساکھ اور مقبولیت کے حوالے سے لوڈشیڈنگ نے کئی سوالات پیدا کردیئے ہیں۔
آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے حکمران جماعت کے سامنے یہ بحران ایک بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔اپوزیشن جماعتیں بجلی کے بحران کو ایک انتخابی ایشو کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔عوامی احتجاج میں تشدد کے عنصر نے امن وامان کی صورتحال کو مزید سنگین تر بنادیا ہے ۔
صدر آصف علی زرداری نے ملک کو درپیش چیلنجز اور مسائل پر مشاورت کیلئے وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کو کل جماعتی کانفرنس طلب کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم این آر او کیس کی وجہ سے اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں گومگو جیسی صورت حال کا سامنا کررہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے قومی ایشوز پر اب تک کسی سیاسی جماعت سے رابطہ نہیں کیا۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے مجوزہ کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد پر تحفظات کااظہار کیاہے۔ لیگی قائدین نے راقم کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس سے پہلے بھی کل جماعتی کانفرنس ہوچکی ہیں تاہم کسی اعلامیے اور قرارداد پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
صدر زرداری ایک سے زائد مرتبہ یہ عزم دہراچکے ہیں کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے اور عام انتخابات میں دھاندلی کریں گے نہ کرنے دیں گے۔ ایوان صدر اسلام آباد میں عسکری اور سیاسی قیادت کے ایک مشاورتی اجلاس کے انعقاد کی بابت یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ یہ اجلاس نگران سیٹ اپ کے تناظر میں ہواتھا
جبکہ دوسری طرف صدر کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایسی قیاس آرائیوں کو مسترد کرتا ہوئے کہاکہ یہ اجلاس نگران سیٹ اپ کے بارے میں نہیں تھا اور آرمی چیف کی شرکت کی اطلاعات بے بنیاد ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران وزیراعظم کے معاملے پر مشاورت اب دستوری ضرورت بن چکی ہے۔ فریقین کے درمیان اتفاق رائے آئندہ انتخابات کے حوالے سے سنگ میل ثابت ہوگا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک بار پھر سوئس حکام کو خط لکھنے کیلئے حکومت کی کورٹ میں گیند پھینک دی ہے۔وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کو سپریم کورٹ نے دوہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے خط لکھنے کیلئے 8اگست کی ڈیڈ لائن دیدی ہے۔بیشتر سیاسی مبصرین کا اس امر پر مکمل اتفاق ہے کہ حکومت عدالتی احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے قطعاً خط نہیں لکھے گی اور حکومت، عدلیہ محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا۔سپریم کورٹ نے توہین عدالت سے متعلق قانون سازی کے خلاف آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ وزیراعظم کو استثنیٰ نہیں دیا،
صدر کو بھی نہیں دیں گے کسی کو عدالتی احکامات کی تضحیک کرنے کا حق حاصل نہیں،حکومت کی خلاف ورزی توہین عدالت ہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان جاری تنائو اور کشمکش کو ختم کرانے کے لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سرگرم عمل ہوگئی ہے۔ بار کے عہدیداروں نے صدر زرداری اور چیف جسٹس کے ساتھ ملاقاتیں کرکے درمیانی راستہ نکالنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔