حکومت کی خاموشی

ایک چپ سو کو ہراتی ہے اور شاید وزیراعظم بھی اپنے متعلق کہی گئی باتوں پر اسی لیے خاموش رہتے ہیں

ملک کے اہم معاملات اور بعض رہنماؤں کے حکمرانوں سے متعلق بیانات کے جواب میں حکمرانوں کی طرف سے اختیار کی جانے والی مبینہ خاموشی نت نئی افواہوں کو جنم دیتی آئی ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے ترجمان بھی شاید اس لیے جواب نہیں دیتے کہ شاید وہ درست ہے۔

حکومت کے ترجمانوں کا تقرر اس لیے ہوتا ہے کہ وہ میڈیا میں حکومت سے متعلق منفی آنے والے بیانات پر نظر رکھیں اور منفی بیانات کی تردید یا وضاحت کریں مگر ایسا بھی بہت کم ہو رہا ہے جس سے ملک میں افواہیں پھیلتی ہیں اور حکومت کے مخالفین کو اپنی منفی باتوں کو مزید اچھالنے کا موقعہ خود بخود ہی مل جاتا ہے۔

کہتے ہیں ایک چپ سو کو ہراتی ہے اور شاید وزیراعظم بھی اپنے متعلق کہی گئی باتوں پر اسی لیے خاموش رہتے ہیں مگر وزیر اعظم کی خاموشی ان کے خلاف ہی استعمال کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے گزشتہ دنوں دعویٰ کیا کہ اسلام آباد دھرنوں کے موقعے پر مایوس ہوکر حکومت نے مستعفی ہونے کا کہا تھا مگر میں نے اسے مستعفی ہونے سے منع کیا اور اس موقعے پر پیپلز پارٹی نے موجودہ حکومت کو نہیں بلکہ ملک میں جمہوریت کو بچایا تھا اس بیان کی تردید نہیں ہوئی۔

سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے ملک میں ہونے والے بڑے ترقیاتی کاموں میں بڑے پیمانے پرکرپشن کے الزامات عائد کر رہے ہیں مگر وہ اس سلسلے میں کسی خاص منصوبے کا نام نہیں لیتے اور روایتی الزامات لگا دیتے ہیں جس پر حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا تو لوگ سمجھتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔

عمران خان کو تو وفاق اور پنجاب کے کرائے گئے ہر کام میں کرپشن نظر آتی ہے اور وہ منصوبوں کا نام لے کر کرپشن کے مبینہ الزامات عائد کرتے آرہے ہیں جن کی سرکاری طور پر کوئی تردید کی گئی ہے اور نہ کبھی حکومت کو بدنام کرنے کے سلسلے پر وفاقی اور پنجاب کے سربراہوں کی طرف سے تردید تو کیا کبھی کسی متعلقہ سرکاری محکمے کی طرف سے الزامات لگانے والوں کو کوئی عدالتی نوٹس نہیں بھیجا گیا ہے۔ وفاقی اور پنجاب کی حکومتیں مخالفین کے مبینہ الزامات کو اہمیت نہیں دیتیں مگر ملک کے عوام یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ الزامات میں حقیقت ضرور ہے اور اسی لیے تردید نہیں کی جاتی۔

اخبار میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو سب سے زیادہ ایماندار سمجھا جاتا ہے جب کہ آصف علی زرداری کا نام دونوں شریف بھائیوں کے مقابلے میں ایماندار نہ ہونے میں بہت آگے ہے مگر ان کا ایماندار نہ ہونا کبھی ثابت نہیں ہوا۔ وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ مخالفین کی طرف سے ان پر لگائے جانے والے الزامات پر عوام یقین نہیں رکھتے اور الزامات کی تردید سے مخالفین کو اہمیت ملتی ہے تو حقیقت میں ایسا بھی نہیں ہے۔


میڈیا نے عوام میں اب سیاسی شعور اجاگر کر رکھا ہے اور ممکن ہے کہ عوام کی ایک غیر سیاسی تعداد حکومت کی خاموشی کی وجہ سے ایسے الزام درست بھی سمجھنے لگی ہو کیونکہ ان کی تردید جو نہیں ہوتی لیکن حکومتی تردید کے نہ آنے سے لازمی نہیں کہ حکومت مخالفین کے الزامات کو درست سمجھا جائے کیونکہ حکومت کے ہر کام میں نقص نکالنا اور الزامات کا کھیل کھیلنا اپوزیشن کا سیاسی ایجنڈہ ہوتا ہے ۔ شریف برادران کے حامی کبھی اپنے قائدین پر لگائے جانے والے مبینہ الزامات کو قطعی تسلیم نہیں کرتے تو الزامات لگانے والوں کے حامی اور حکومت کے مخالفین فوراً تسلیم کرلیتے ہیں۔

وزیر اعظم پر اعتماد کی ان کے مخالفین کی تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ سال لندن میں اپنے دل کا جو آپریشن کرایا تھا وہ اسے بھی تسلیم نہیں کرتے اور علامہ طاہر القادری تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ لندن کے مذکورہ اسپتال میں دل کا آپریشن ہی نہیں ہوتا، ایک عالم دین کے اس بیان کی بھی کہیں سے تردید ہوئی اور نہ پانامہ لیکس پر روزانہ صفائیاں پیش کرنے والوں نے علامہ کو جواب دیا۔

بھارتی جاسوس کلبھوشن کے اہم مسئلے پر حکومت کی مسلسل خاموشی تو ایسا معاملہ بن گیا ہے جس کو سینیٹ میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ حکمران اپنے منہ سے کلبھوشن کا نام ہی لے دیں تو پچاس ہزار روپے خیرات کروں گا مگر پھر بھی حکومت نے خاموشیاختیار کیے رکھی اور چوہدری اعتزاز کے 50 ہزار روپے بچ گئے۔

ماضی میں مسلم لیگ ن کے ساتھ طویل رفاقت رکھنے اور اس کی حکومت میں شامل رہنے والے مسلم لیگی رہنما شیخ رشید احمد، چوہدری شجاعت، چوہدری پرویز الٰہی اور پیپلز پارٹی کے ماضی میں نواز شریف کی وکالت کرنے والے چوہدری اعتزاز احسن، ماضی کے قریبی ساتھی علامہ طاہر القادری اور عمران خان نے تو وزیر اعظم سے سیاسی اختلافات کو ذاتی مخالفت کا رنگ دے کر وزیر اعظم پر چار سال سے کڑی تنقید اور مختلف الزامات کی بوچھاڑ شروع کر رکھی ہے۔

عمران خان ہر تعمیری کام میں حکومت پر کرپشن کا الزام لگانا اپنی ترجیح بنا چکے ہیں مگر حکومت کی خاموشی نہیں توڑ سکے۔ حکومت کے کٹر مخالف اسے اشتعال بھی دلاتے ہیں تو مسلم لیگ ن کی قیادت کبھی کبھی جلسوں میں ان پر تنقید تو کر دیتی ہے مگر اپنے مخالفین کی طرح جواب میں ذاتی الزام تراشی نہیں کرتی جو سیاسی اور اخلاقی طور پر درست بھی ہے مگر اہم معاملات پر زباں بندی اور بے بنیاد الزامات کے جواب میں خاموشی درست نہیں ہے۔ وہ دور گزر گیا جب رہنما سمجھتے تھے کہ تنقید کا جواب نہ دینا ہی بہتر ہے اس لیے وہ غلط خبروں کی تردید نہیں کرتے تھے مگر اب وزیر اعظم کا سامنا عمران خان، شیخ رشید، طاہر القادری اور پرویز الٰہی سے ہی نہیں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے سے ہے جنھیں جو لکھ کر دیا جاتا ہے وہ پڑھ دیتے ہیں۔

اب الزامات لگانے والے اور جھوٹ بولنے والے اس تواتر سے جھوٹ بولتے ہیں کہ جھوٹ بھی سچ لگتا ہے اور جھوٹے الزامات پر مسلم لیگ ن کی قیادت کے خاموش رہنے سے اب اس کی سیاست ہی نہیں اخلاقی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے اور وہ غیر جانبدار حلقے جو اس کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں حیران ہیں اورحکومت پر لگنے والے الزامات پر یقین نہ رکھتے ہوئے بھی یقین کرنے پر مجبور ہیں جس کی ذمے دار خود حکومت کی خاموش رہنے کی پالیسی ہے۔

عمران خان پانامہ لیکس میں نام نہ ہونے کی وجہ سے حکمرانوں کو بے گناہ نہیں بلکہ اپنے پے درپے الزامات سے مجرم تک قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ کام عدالتوں کا ہے۔ حکمرانوں کو اپنی صفائی کے لیے اب خاموشی ہی ترک نہیں کرنا پڑے گی بلکہ اپنے دامن پر لگائے جانے والے دھبوں کو بھی صاف کرنا ہوگا وگرنہ یہی الزامات انتخابی مہم میں مزید سنگین ہوجائیں گے۔
Load Next Story