ماؤں پر مری آج عجب وقت پڑا ہے
جس سمت ہمارے سماج کا سفینہ حیات گامزن ہے وہ ہم سب کے لیے اور خصوصاً ماؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہے
لاہور:
جس سمت ہمارے سماج کا سفینہ حیات گامزن ہے وہ ہم سب کے لیے اور خصوصاً ماؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہمارے بچوں کے لیے جابجا تربیت تو عام مگر جوہر قابل نہیں۔ تو کیا تعمیر ہو جس سے آدم کی، یہ وہ گل ہی نہیں یا پھر ان کے پروان چڑھانے میں ہم سے کوئی بھول ہورہی ہے، کیوں ہماری نئی نسل میں شارٹ کٹ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔
17-18 ویں صدی کے نابغہ روزگار سپوت جنھوں نے پوری دنیا کی ذہنیت و سمت کو بدل کر رکھ دیا وہ کیسی عظیم ماؤں کی کوکھ میں تربیت پاتے تھے، جو اپنے بچوں کی بہترین پرورش، تعلیم و تربیت پر اپنا تن من دھن وار کر انھیں اس قابل بناتی تھیں کہ وہ اپنے ملک وقوم کے لیے باعث فخر ہوئے، جو انتہائی کم وسائل کے باوجود دنیا کو بہت کچھ دے کر رخصت ہوئے۔
زندگی کے ابتدائی سال ہر بچہ مادر آغوش میں سیکھتا و پروان چڑھتا ہے، اس کی تر بیت کی اہم ذمے داری باپ سے زیادہ ماں پر لاگو ہوتی ہے، بچے کو ہر تکلیف میں ماں یاد آتی ہے کہ شعوری طور پر وہ ماں سے قریب ہوتا ہے، اس کی باتیں، نصیحتیں ہمیشہ یاد رہتی ہیں، پھر کیوں ہم نے اپنے بچوں کی جھولی میں دنیا داری کے نام پر جھوٹ، ریاکاری اور دکھاوا ڈال دیا ہے۔
میں اکثر پڑھائی کے دوران اسٹوڈنٹس کی نفسیات سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں، فری پریڈ میں ان سے بات کرتی ہوں، مجھے افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ اکثر بچے جھوٹ بولتے ہیں، ٹیچر ہم ارلی مارننگ اٹھ کر پڑھائی کرتے ہیں، اسکول وین میں بھی پڑھتے ہوئے جاتے ہیں۔ جب کہ بچے کی چھوٹی بہن بول پڑتی ہے ٹیچر! یہ جھوٹ کہتا ہے، مما بڑی مشکلوں سے اسے صبح اٹھا کر تیار کرتی ہیں۔ ان بچوں کی نالج بھی شاندار ہے، مگر کس طرح استعمال ہورہی ہے، اس کی ایک مثال کہ یہ اسٹوڈنٹس کاروں کی برانڈ کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں، اچھی بات ہے، مگر افسوس یہ محض علم نہیں بلکہ اپنے اسٹیٹس کو شو کرنے کے لیے ہوتی ہے۔
بچہ کہتا ہے ٹیچر یہ گاڑی کے کونے میں اس کا برانڈ نام کیوں لکھا ہوتا ہے، ہماری گاڑی کے کونے پر بھی لکھا ہے۔ وہ ایک قیمتی گاڑی کا نام لیتا ہے، میں اسے غور سے دیکھتی ہوں، وہ معصوم صورت بنا کر مجھے دیکھتا ہے، پھر فخریہ اپنے ساتھیوں کی جانب مسکراتا ہے۔ میں اسے دیکھتی رہ جاتی ہوں، کون سکھاتا ہے انھیں اس انداز سے سوچنا، بات سے بات نکالنا۔ دکھاوا، جھوٹ، نفرت، خودپسندی اور ہٹ دھرمی، یہ سب ان کی رگوں میں کس نے سرائیت کردی ہے؟
وہ مائیں کیوں خوشی سے پھولے نہیں سماتی، جب ان کا بچہ کسی ایسے سے بدتمیزی کرتا ہے جس سے وہ چڑتی ہیں۔ مائیں بچے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ گویا کوئی کارنامہ انجام دیا ہو، لیکن کچھ عرصے بعد جس عفریت کی انھوں نے حوصلہ افزائی کی تھی، وہ رویہ بچہ ان کے ساتھ اپناتا ہے تو افسوس کیوں ہوتا ہے، آپ نے تو بچے کو صبر و برداشت، بڑوں کا لحاظ کرنا سکھایا نہیں، تو وہی اصول وہ آپ کے ساتھ بھی لاگو کرے گا۔
بچے کا ذہن ایک صاف کینوس کی مانند ہے، جس میں آپ کو رنگ بھرنا ہے، چاہیں تو انمٹ خوبصورت کردار کا رنگ بھردیں، مرضی ہو تو بدصورت، خوفناک، دنیا پر بوجھ بننے والے انسان کشید کریں۔ قدرت نے ماؤں کو اتنا بڑا درجہ عطا کیا، جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی، باپ سے تین گنا زیادہ حق دیدیا، یہ سب انعام ایک بھاری ذمے داری کا تقاضا کرتا ہے۔
اللہ نے ماؤں کے دلوں میں محبت سے لبریز ایک وسیع سمندر رکھ دیا۔ مشکل و مصیبت کے وقت ہمیں سب سے پہلے ماں یاد آتی ہے، اگر زندہ ہو تو اسے خود بھی الہام ہوجاتا ہے، وہ بے چین ہوجاتی ہے، اسے کسی پل قرار نہیں آتا۔ ماں کو قدرت نے نجانے کون سی کیمسٹری سے بنایا ہے کہ وہ زندگی اپنی گزارتی ہے، مگر عمر کی تمام سانسیں اپنے بچوں میں پیار منتقل کرتی رہتی ہے۔ اس کا سونا، جاگنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سب اولاد کے لیے ہوتا ہے، جس طرح ماں بننا، ایک نئی زندگی جنم دینا اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، اسی طرح اولاد کی پرورش و تربیت بھی ماں کے لیے ایک امتحان ہے۔ مگر ماؤں نے اپنی ترجیحات بدل دی ہیں۔
آج کی مائیں اپنے بچوں کی مادی ضروریات کا خیال پہلے زمانے کی ماؤں سے بہت زیادہ رکھتی ہیں، مگر اسے ایک بڑا آدمی بننے کے لیے کس قسم کی شخصیت میں ڈھلنا ہے، وہ اس سے چوک گئی ہیں۔ تعلیم کے ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ تربیت کے حوالے سے کیا ماں کی اتنی ذمے داری ہے کہ وہ بچے کو صبح اسکول بھیجے اور شام کو ٹیوشن کے حوالے کردے۔
بچہ سارا دن گھر سے باہر رہتا ہے، اسے ماں کی قربت میسر ہی نہیں ہوتی، چند ایسے قیمتی لمحات جنھیں وہ ساری زندگی کا حاصل سمجھ سکے وہ ان سے محروم رہتا ہے۔ یہ وہی بچے ہوتے ہیں جنھیں دنیا کی تمام نعمتیں میسر ہوتی ہیں مگر ماں کی توجہ اور قرب حاصل نہیں ہوتا۔ بڑے ہوکر خراب دوستوں کی بیٹھک میں نشہ و جرائم میں پڑ کر شوقیہ وارداتیں کرتے ہیں۔
اکثر مائیں اولاد کی سرگرمیوں سے بے خبر، بے فکر رہتی ہیں، انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ بچہ کن دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے، شغل کے طور پر کرنے والے چھوٹے چھوٹے جرم کب ایک بڑے مجرم کو جنم دیتے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے میں برائیاں، چوری، اسٹریٹ کرائمز، چھیناجھپٹی، ماردھاڑ کی برائیاں تیزی سے پھیلتی جارہی ہیں۔ دہشت گردوں کی تو یہاں بات ہی نہیں ہورہی کہ تشدد کا رجحان وہ بچپن سے گھروں میں دیکھتے ہیں۔
آج سے بیس تیس سال قبل جو ٹی وی ڈرامے اور کہانیاں بچوں کے لیے لکھی گئیں، وہ اس دور میں سودمند تھیں، مگر آج کے بچے اس دور سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ موجودہ تیز رفتار دور میں نت نئی ایجادات کے ساتھ یہ انٹرنیٹ، موبائل، سوشل میڈیا چیلنج بھی ہے کہ اس سے کس طرح ہماری نسلوں کو فائدہ حاصل کرنا ہے، ہمیں سکھانا ہے۔ اس کا متبادل اب اہل دانش اور خاص کر ماؤں کو ہی ڈھونڈنا ہوگا۔
یہ کام اساتذہ کے ساتھ اب ماؤں کی ذہانت پر مبنی ہے۔ ہم پہلے سنتے تھے کم بچے خوشحال گھرانہ یا بچے دو ہی اچھے وغیرہ۔ لیکن اب غور کرنا ہوگا کہ کم بچے پیدا کرکے، انھیں دنیاوی آسائشوں میں پروان چڑھا کر بھی اگر ایک اچھا انسان نہ بناسکے، تو پھر ہم تہی دامن ہی رہے۔ بیشک! ماؤں پر مری آج عجب وقت پڑا ہے۔
جس سمت ہمارے سماج کا سفینہ حیات گامزن ہے وہ ہم سب کے لیے اور خصوصاً ماؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہمارے بچوں کے لیے جابجا تربیت تو عام مگر جوہر قابل نہیں۔ تو کیا تعمیر ہو جس سے آدم کی، یہ وہ گل ہی نہیں یا پھر ان کے پروان چڑھانے میں ہم سے کوئی بھول ہورہی ہے، کیوں ہماری نئی نسل میں شارٹ کٹ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔
17-18 ویں صدی کے نابغہ روزگار سپوت جنھوں نے پوری دنیا کی ذہنیت و سمت کو بدل کر رکھ دیا وہ کیسی عظیم ماؤں کی کوکھ میں تربیت پاتے تھے، جو اپنے بچوں کی بہترین پرورش، تعلیم و تربیت پر اپنا تن من دھن وار کر انھیں اس قابل بناتی تھیں کہ وہ اپنے ملک وقوم کے لیے باعث فخر ہوئے، جو انتہائی کم وسائل کے باوجود دنیا کو بہت کچھ دے کر رخصت ہوئے۔
زندگی کے ابتدائی سال ہر بچہ مادر آغوش میں سیکھتا و پروان چڑھتا ہے، اس کی تر بیت کی اہم ذمے داری باپ سے زیادہ ماں پر لاگو ہوتی ہے، بچے کو ہر تکلیف میں ماں یاد آتی ہے کہ شعوری طور پر وہ ماں سے قریب ہوتا ہے، اس کی باتیں، نصیحتیں ہمیشہ یاد رہتی ہیں، پھر کیوں ہم نے اپنے بچوں کی جھولی میں دنیا داری کے نام پر جھوٹ، ریاکاری اور دکھاوا ڈال دیا ہے۔
میں اکثر پڑھائی کے دوران اسٹوڈنٹس کی نفسیات سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں، فری پریڈ میں ان سے بات کرتی ہوں، مجھے افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ اکثر بچے جھوٹ بولتے ہیں، ٹیچر ہم ارلی مارننگ اٹھ کر پڑھائی کرتے ہیں، اسکول وین میں بھی پڑھتے ہوئے جاتے ہیں۔ جب کہ بچے کی چھوٹی بہن بول پڑتی ہے ٹیچر! یہ جھوٹ کہتا ہے، مما بڑی مشکلوں سے اسے صبح اٹھا کر تیار کرتی ہیں۔ ان بچوں کی نالج بھی شاندار ہے، مگر کس طرح استعمال ہورہی ہے، اس کی ایک مثال کہ یہ اسٹوڈنٹس کاروں کی برانڈ کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں، اچھی بات ہے، مگر افسوس یہ محض علم نہیں بلکہ اپنے اسٹیٹس کو شو کرنے کے لیے ہوتی ہے۔
بچہ کہتا ہے ٹیچر یہ گاڑی کے کونے میں اس کا برانڈ نام کیوں لکھا ہوتا ہے، ہماری گاڑی کے کونے پر بھی لکھا ہے۔ وہ ایک قیمتی گاڑی کا نام لیتا ہے، میں اسے غور سے دیکھتی ہوں، وہ معصوم صورت بنا کر مجھے دیکھتا ہے، پھر فخریہ اپنے ساتھیوں کی جانب مسکراتا ہے۔ میں اسے دیکھتی رہ جاتی ہوں، کون سکھاتا ہے انھیں اس انداز سے سوچنا، بات سے بات نکالنا۔ دکھاوا، جھوٹ، نفرت، خودپسندی اور ہٹ دھرمی، یہ سب ان کی رگوں میں کس نے سرائیت کردی ہے؟
وہ مائیں کیوں خوشی سے پھولے نہیں سماتی، جب ان کا بچہ کسی ایسے سے بدتمیزی کرتا ہے جس سے وہ چڑتی ہیں۔ مائیں بچے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ گویا کوئی کارنامہ انجام دیا ہو، لیکن کچھ عرصے بعد جس عفریت کی انھوں نے حوصلہ افزائی کی تھی، وہ رویہ بچہ ان کے ساتھ اپناتا ہے تو افسوس کیوں ہوتا ہے، آپ نے تو بچے کو صبر و برداشت، بڑوں کا لحاظ کرنا سکھایا نہیں، تو وہی اصول وہ آپ کے ساتھ بھی لاگو کرے گا۔
بچے کا ذہن ایک صاف کینوس کی مانند ہے، جس میں آپ کو رنگ بھرنا ہے، چاہیں تو انمٹ خوبصورت کردار کا رنگ بھردیں، مرضی ہو تو بدصورت، خوفناک، دنیا پر بوجھ بننے والے انسان کشید کریں۔ قدرت نے ماؤں کو اتنا بڑا درجہ عطا کیا، جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی، باپ سے تین گنا زیادہ حق دیدیا، یہ سب انعام ایک بھاری ذمے داری کا تقاضا کرتا ہے۔
اللہ نے ماؤں کے دلوں میں محبت سے لبریز ایک وسیع سمندر رکھ دیا۔ مشکل و مصیبت کے وقت ہمیں سب سے پہلے ماں یاد آتی ہے، اگر زندہ ہو تو اسے خود بھی الہام ہوجاتا ہے، وہ بے چین ہوجاتی ہے، اسے کسی پل قرار نہیں آتا۔ ماں کو قدرت نے نجانے کون سی کیمسٹری سے بنایا ہے کہ وہ زندگی اپنی گزارتی ہے، مگر عمر کی تمام سانسیں اپنے بچوں میں پیار منتقل کرتی رہتی ہے۔ اس کا سونا، جاگنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سب اولاد کے لیے ہوتا ہے، جس طرح ماں بننا، ایک نئی زندگی جنم دینا اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، اسی طرح اولاد کی پرورش و تربیت بھی ماں کے لیے ایک امتحان ہے۔ مگر ماؤں نے اپنی ترجیحات بدل دی ہیں۔
آج کی مائیں اپنے بچوں کی مادی ضروریات کا خیال پہلے زمانے کی ماؤں سے بہت زیادہ رکھتی ہیں، مگر اسے ایک بڑا آدمی بننے کے لیے کس قسم کی شخصیت میں ڈھلنا ہے، وہ اس سے چوک گئی ہیں۔ تعلیم کے ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ تربیت کے حوالے سے کیا ماں کی اتنی ذمے داری ہے کہ وہ بچے کو صبح اسکول بھیجے اور شام کو ٹیوشن کے حوالے کردے۔
بچہ سارا دن گھر سے باہر رہتا ہے، اسے ماں کی قربت میسر ہی نہیں ہوتی، چند ایسے قیمتی لمحات جنھیں وہ ساری زندگی کا حاصل سمجھ سکے وہ ان سے محروم رہتا ہے۔ یہ وہی بچے ہوتے ہیں جنھیں دنیا کی تمام نعمتیں میسر ہوتی ہیں مگر ماں کی توجہ اور قرب حاصل نہیں ہوتا۔ بڑے ہوکر خراب دوستوں کی بیٹھک میں نشہ و جرائم میں پڑ کر شوقیہ وارداتیں کرتے ہیں۔
اکثر مائیں اولاد کی سرگرمیوں سے بے خبر، بے فکر رہتی ہیں، انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ بچہ کن دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے، شغل کے طور پر کرنے والے چھوٹے چھوٹے جرم کب ایک بڑے مجرم کو جنم دیتے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے میں برائیاں، چوری، اسٹریٹ کرائمز، چھیناجھپٹی، ماردھاڑ کی برائیاں تیزی سے پھیلتی جارہی ہیں۔ دہشت گردوں کی تو یہاں بات ہی نہیں ہورہی کہ تشدد کا رجحان وہ بچپن سے گھروں میں دیکھتے ہیں۔
آج سے بیس تیس سال قبل جو ٹی وی ڈرامے اور کہانیاں بچوں کے لیے لکھی گئیں، وہ اس دور میں سودمند تھیں، مگر آج کے بچے اس دور سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ موجودہ تیز رفتار دور میں نت نئی ایجادات کے ساتھ یہ انٹرنیٹ، موبائل، سوشل میڈیا چیلنج بھی ہے کہ اس سے کس طرح ہماری نسلوں کو فائدہ حاصل کرنا ہے، ہمیں سکھانا ہے۔ اس کا متبادل اب اہل دانش اور خاص کر ماؤں کو ہی ڈھونڈنا ہوگا۔
یہ کام اساتذہ کے ساتھ اب ماؤں کی ذہانت پر مبنی ہے۔ ہم پہلے سنتے تھے کم بچے خوشحال گھرانہ یا بچے دو ہی اچھے وغیرہ۔ لیکن اب غور کرنا ہوگا کہ کم بچے پیدا کرکے، انھیں دنیاوی آسائشوں میں پروان چڑھا کر بھی اگر ایک اچھا انسان نہ بناسکے، تو پھر ہم تہی دامن ہی رہے۔ بیشک! ماؤں پر مری آج عجب وقت پڑا ہے۔