صوبے میں اغوابرائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتیں

صوبے میں امن و امان کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔

صوبے میں امن و امان کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ فوٹو: فائل

بلوچستان کے علاقے مستونگ کے قریب کوئٹہ آتے ہوئے سرجن ڈاکٹر دین محمد کو نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا جن کا تاحال کوئی پتہ نہیں ہے۔ تاہم ڈاکٹرز تنظیموں کے ذرائع کے مطابق ڈاکٹر دین محمد کی بازیابی کیلئے کروڑوں روپے تاوان کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اغواء برائے تاوان کی یہ وارداتیںکوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوںمیںبڑھتی جارہی ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد کی بازیابی کیلئے ڈاکٹرز تنظیموں نے پہلے سرکاری ہسپتالوں میں علامتی ہڑتالیں کیں ، اب انہوں نے مکمل ہڑتال کردی ہے۔ نجی ہسپتالوں میں بھی ڈاکٹرز نے مریضوں کو دیکھنا بند کردیا ہے۔

اس سے قبل ڈاکٹرز صرف سرکاری ہسپتالوں میں ہڑتالیں کرتے چلے آرہے تھے اور شام کو وہ نجی ہسپتالوں اور اپنے پرائیویٹ کلینکس میںبیٹھا کرتے تھے جہاں وہ بھاری فیس لے کر مریضوںکا علاج کرتے تھے۔ اس پر عوامی حلقوں کی طرف سے ہمیشہ تنقید کی گئی۔ ایسی صورتحال ڈاکٹر دین محمد کے اغواء کے بعد بھی پیدا ہوئی تھی۔ بعد ازاں ڈاکٹرز تنظیموں نے حکمت عملی بدلتے ہوئے اپنی ہڑتال کا دائرہ وسیع کیا۔

اگرچہ ڈاکٹروں کی ہڑتال سے عام لوگ کافی متاثر ہورہے ہیں۔غریب لوگوں جو صوبے کے دوردراز علاقوں سے بغرض علاج صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں آتے ہیں، سخت تکلیف میں مبتلا ہیں۔ ڈاکٹرز تنظیموں نے اپنے ساتھی ڈاکٹرز کی بازیابی کیلئے یہ اقدام حکومت پر پریشر بڑھانے کیلئے کیاہے لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

اس نے ابھی تک ڈاکٹروں کی ہڑتال کا کوئی سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت اس ہڑتال کا نوٹس لے کر ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے سے مذاکرات کرتی لیکن حکومت کی طرف سے ڈاکٹروں سے مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی تک تشکیل نہیں دی گئی۔ سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو بھی احتجاج کا ایسا راستہ اپنانا چاہئے جس سے حکومت پر پریشر بھی پڑے اور عام لوگ بھی متاثر نہ ہوں ۔


صوبے میں امن و امان کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ فرنٹیئر کور بلوچستان کو پولیس کے اختیارات دیئے جارہے ہیں۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دعوے کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کر رہے ہیں، صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سوخفیہ کیمرے مزید لگائے جارہے ہیں، پولیس ، ایف سی ، لیویز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انفاریشن کا تبادلہ کرکے جرائم پیشہ افرادکے خلاف مشترکہ کارروائیاں کریں گے۔

کوئٹہ شہر کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کا ڈیٹا تیار کیا جارہا ہے لیکن ایسے کوئی اقدامات دکھائی نہیں دیتے ماسوائے شہر کے ہر چوک اور سڑک پر دن رات پولیس اور ایف سی اہلکار گاڑیوں کو قطار میں کھڑا کرکے شریف شہریوں کو چیکنگ کے نام پر بلا وجہ تنگ کیاجاتا ہے۔

شہری الزام عائد کرتے ہیں کہ حکومت کے ان اعلانات کے بعد پولیس اور ایف سی اہلکاروں کے مزے ہوگئے ہیں جو چیکنگ کے درمیان روزے داروں کو تنگ بھی کرتے ہیں اور اپنی جیبیں بھی گرم کرتے ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے عوام میں پولیس اور ایف سی کے خلاف ہمدردی کے بجائے مزید نفرت اور غصہ میں اضافہ ہورہا ہے لہذا اس کا فوری طور پر تدارک کیا جائے اور اس بات پر غور کیا جائے کہ شہر میں اتنی چیکنگ، پولیس اورایف سی کے گشت میں اضافے کے باوجود سٹریٹ کرائمز کی شرح میں اضافہ کیوں ہوا ہے ۔

رمضان المبارک کے باعث سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں میں جو تیزی آئی تھی اب وہ کم ہوگئی ہے۔ رمضان المبارک کے بعد ان میں ایک مرتبہ پھر تیزی آنے کی توقع ہے کیونکہ بلوچستان کی قوم پرست اور دیگر جماعتوں کی نظریں اسلام آباد پر لگی ہوئیں ہیں جہاں سے مختلف خبریں آرہی ہیں کہ شاید کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔

اس حوالے سے صوبے کی قوم پرست اور دیگر جماعتیں بھی اپنا ہوم ورک کررہی ہیں ۔ انہوں نے ایک دوسرے سے رابطے بھی بڑھائے ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ عید الفطر کے بعد بلوچستان میں بعض سیاسی اتحاد تشکیل پائیں گے اور بعض سیاسی شخصیات بھی مختلف سیاسی و قوم پرست جماعتوں میں شمولیت اختیار کریں گے ۔

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف رمضان المبارک کے بعد چاروں صوبوں کا دورہ کررہے ہیں۔ یہ سننے میں آیا ہے کہ وہ آغاز بلوچستان سے کریں گے۔ ان کے اس دورے کے دوران بلوچستان میں بعض سیاسی شخصیات کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت بھی متوقع ہے۔
Load Next Story