زائد اسٹاف نے ادارے کو تباہ کردیا واٹر بورڈ کی نجکاری کی جائے پبلک اکائونٹس کمیٹی
سالانہ آمدنی 5 ارب جبکہ صرف بجلی کابل سالانہ7ارب ہے.
لاہور:
سندھ اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی) نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) کی سالانہ آمدنی 5 ارب روپے ہے جبکہ اس کا صرف بجلی کا بل سالانہ7 ارب روپے ہے اور دیگر اخراجات ان کے علاوہ ہیں۔
پی اے سی نے تجویز دی ہے کہ اس ادارے کو یا تو چلنے کے قابل بنایا جائے یا پھر اس کی نجکاری کردی جائے، پی اے سی نے واٹر بورڈ سے نادہندہ سول و فوجی افسروں ، ججوں اور سیاستدانوں کی فہرست بھی طلب کرلی اور واٹر بورڈ کو حکم دیا ہے کہ ان سے واجبات فوری طور پر وصول کیے جائیں لیکن سب سے پہلے وزرا اور سیاستدانوں سے وصول کیے جائیں، پی اے سی کا اجلاس چیئرمین جام تماچی انڑ کی صدارت میں بدھ کو سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم نمبر1میں ہوا جس میں واٹر بورڈ کے سالانہ حسابات برائے مالی سال 2010-11 کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں واٹر بورڈ کے 16 آڈٹ پیراز پیش کیے گئے جن میں ایک ارب 40 کروڑ روپے کی مالی بے قاعدگیاں تھیں ، ان میں سے صرف2آڈٹ پیراز کا فیصلہ ہوسکا ، 12 آڈٹ پیراز موخر کردیے گئے جبکہ 2آڈٹ پیراز کی متعلقہ دستاویزات پیش نہ کیے جانے پر پی اے سی نے برہمی کا اظہار کیا، ڈائریکٹر لوکل کونسلز محمد علی شاہ بخاری نے اجلاس کو بتایا کہ واٹر بورڈ کی کل سالانہ آمدنی 5ارب روپے ہے جبکہ اس کا صرف بجلی کا بل7ارب روپے ہے، یہ ادارہ کیسے چلے گا؟۔
پی اے سی کے چیئرمین جام تماچی انڑ نے کہا کہ حکومت نے واٹر بورڈ سمیت مختلف اداروں کو خودمختاری اس لیے دی تھی کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر بنائیں لیکن اختیارات کے ناجائز استعمال اور ضرورت سے زائد اسٹاف نے اس ادارے کو تباہ کردیا، واٹر بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) مصباح الدین فرید نے بتایا کہ چیف منسٹر ہائوس، گورنر ہائوس، ائیرپورٹ سیکیورٹی فورس ، اعلیٰ فوجی اور سول افسران، سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ججز، وزرا اور سیاستدان پانی کا بل نہیں دیتے، صرف 2010 میں مذکورہ اداروں اور لوگوں پر 2کروڑ 30 لاکھ روپے کے واجبات ہیں، پی اے سی نے ہدایت کی کہ ان کی فہرست دی جائے۔
انھوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی اداروں پر پانی کے بلوںکی مد میں 22 ارب روپے واجب الادا ہیں، انھوں نے کہا کہ مذکورہ اداروں کے علاوہ کچی آبادیوں سے بھی ریکوری نہیں ہوتی،60سالوں سے پمپنگ اسٹیشنوں کی مشینری کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے، محمد علی شاہ بخاری نے اجلاس کو بتایا کہ ایک طرف واٹر بورڈ والے کہتے ہیں کہ ان کے پاس پیسے نہیں جبکہ دوسری طرف وہ مفت ٹینکر سروس چلاتے ہیں، یہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔
ایم ڈی واٹر بورڈ نے بتایا کہ سب سے زیادہ مفت ٹینکرز ججوں کو دیے جاتے ہیں اور وہاں سے پیسے نہیں ملتے، جام تماچی انڑ نے کہا کہ پہلے سیاستدانوں اور وزرا سے بل وصول کیے جائیں اس کے بعد دیگر لوگوں کی بات کی جائے، رکن سندھ اسمبلی عامر معین پیرزادہ نے کہا کہ بڑے بڑے اداروں کے سامنے واٹر بورڈ والے بے بس ہیں ، یہ ان سے پیسے کیسے مانگ سکتے ہیں؟، اجلاس میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز سندھ کئی سالوں سے واٹر بورڈ کے بنگلہ میں رہائش پذیر ہیں نہ تو وہ کرایہ دیتے ہیں اور نہ ہی یوٹیلٹی بل ادا کرتے ہیں ، ان کے یوٹیلٹی بلز بھی واٹر بورڈ والے ادا کرتے ہیں۔
اجلاس کو یہ بھی بتایا گیا کہ واٹر بورڈ کے ملازمین کی رہائشگاہوں کے بل بھی واٹر بورڈ ادا کرتا ہے، آڈٹ حکام نے اس بات پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ واٹر بورڈ کے ملازمین کی تنخوائوں میں یوٹیلٹی بلز بھی شامل ہوتے ہیں لہٰذا یہ بل ملازمین کو خود ادا کرنے چائیں، بعض ملازمین واٹر بورڈ کے بنگلوں میں رہائش پذیر ہیں اور وہ تنخوائوں میں ہائوس رینٹ بھی لے رہے ہیں، یہ بڑی مالی بے قاعدگیاں ہیں، سابق ایم ڈی واٹر بورڈ اور موجودہ اسپیشل سیکریٹری محکمہ بلدیات سلمان چانڈیو نے اجلاس کو بتایا کہ واٹر بورڈ کے ملازمین ضروری سروس فراہم کرتے ہیں اور وہ 24 گھنٹے دستیاب رہتے ہیں اس لیے ہم انہیں یہ سہولت دیتے ہیں۔
پی اے سی ان کی اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوئی، پی اے سی نے اس بات پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا کہ واٹر بورڈ نے مذکورہ مالی سال کے دوران نادہندگان ایک روپے کی بھی وصولی نہیں کی، پی اے سی نے نادہندگان کی فہرست کی فراہمی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ واجبات جلد وصول کیے جائیں اور آڈٹ پیراز کا بھی جلد فیصلہ کیا جائے،بعد ازاں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایم ڈی واٹر بورڈ مصباح الدین فرید نے کہا کہ ڈی جی رینجرز سندھ1982سے واٹر بورڈ کے بنگلے میں رہائش پذیر ہیں، یہ کوئی قبضہ نہیں،خیر سگالی کے طور پر یہ بنگلہ دیا گیا ہے کیونکہ رینجرز کراچی کے شہریوں کی حفاظت کرتی ہے۔
سندھ اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی) نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) کی سالانہ آمدنی 5 ارب روپے ہے جبکہ اس کا صرف بجلی کا بل سالانہ7 ارب روپے ہے اور دیگر اخراجات ان کے علاوہ ہیں۔
پی اے سی نے تجویز دی ہے کہ اس ادارے کو یا تو چلنے کے قابل بنایا جائے یا پھر اس کی نجکاری کردی جائے، پی اے سی نے واٹر بورڈ سے نادہندہ سول و فوجی افسروں ، ججوں اور سیاستدانوں کی فہرست بھی طلب کرلی اور واٹر بورڈ کو حکم دیا ہے کہ ان سے واجبات فوری طور پر وصول کیے جائیں لیکن سب سے پہلے وزرا اور سیاستدانوں سے وصول کیے جائیں، پی اے سی کا اجلاس چیئرمین جام تماچی انڑ کی صدارت میں بدھ کو سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم نمبر1میں ہوا جس میں واٹر بورڈ کے سالانہ حسابات برائے مالی سال 2010-11 کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں واٹر بورڈ کے 16 آڈٹ پیراز پیش کیے گئے جن میں ایک ارب 40 کروڑ روپے کی مالی بے قاعدگیاں تھیں ، ان میں سے صرف2آڈٹ پیراز کا فیصلہ ہوسکا ، 12 آڈٹ پیراز موخر کردیے گئے جبکہ 2آڈٹ پیراز کی متعلقہ دستاویزات پیش نہ کیے جانے پر پی اے سی نے برہمی کا اظہار کیا، ڈائریکٹر لوکل کونسلز محمد علی شاہ بخاری نے اجلاس کو بتایا کہ واٹر بورڈ کی کل سالانہ آمدنی 5ارب روپے ہے جبکہ اس کا صرف بجلی کا بل7ارب روپے ہے، یہ ادارہ کیسے چلے گا؟۔
پی اے سی کے چیئرمین جام تماچی انڑ نے کہا کہ حکومت نے واٹر بورڈ سمیت مختلف اداروں کو خودمختاری اس لیے دی تھی کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر بنائیں لیکن اختیارات کے ناجائز استعمال اور ضرورت سے زائد اسٹاف نے اس ادارے کو تباہ کردیا، واٹر بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) مصباح الدین فرید نے بتایا کہ چیف منسٹر ہائوس، گورنر ہائوس، ائیرپورٹ سیکیورٹی فورس ، اعلیٰ فوجی اور سول افسران، سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ججز، وزرا اور سیاستدان پانی کا بل نہیں دیتے، صرف 2010 میں مذکورہ اداروں اور لوگوں پر 2کروڑ 30 لاکھ روپے کے واجبات ہیں، پی اے سی نے ہدایت کی کہ ان کی فہرست دی جائے۔
انھوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی اداروں پر پانی کے بلوںکی مد میں 22 ارب روپے واجب الادا ہیں، انھوں نے کہا کہ مذکورہ اداروں کے علاوہ کچی آبادیوں سے بھی ریکوری نہیں ہوتی،60سالوں سے پمپنگ اسٹیشنوں کی مشینری کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے، محمد علی شاہ بخاری نے اجلاس کو بتایا کہ ایک طرف واٹر بورڈ والے کہتے ہیں کہ ان کے پاس پیسے نہیں جبکہ دوسری طرف وہ مفت ٹینکر سروس چلاتے ہیں، یہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔
ایم ڈی واٹر بورڈ نے بتایا کہ سب سے زیادہ مفت ٹینکرز ججوں کو دیے جاتے ہیں اور وہاں سے پیسے نہیں ملتے، جام تماچی انڑ نے کہا کہ پہلے سیاستدانوں اور وزرا سے بل وصول کیے جائیں اس کے بعد دیگر لوگوں کی بات کی جائے، رکن سندھ اسمبلی عامر معین پیرزادہ نے کہا کہ بڑے بڑے اداروں کے سامنے واٹر بورڈ والے بے بس ہیں ، یہ ان سے پیسے کیسے مانگ سکتے ہیں؟، اجلاس میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز سندھ کئی سالوں سے واٹر بورڈ کے بنگلہ میں رہائش پذیر ہیں نہ تو وہ کرایہ دیتے ہیں اور نہ ہی یوٹیلٹی بل ادا کرتے ہیں ، ان کے یوٹیلٹی بلز بھی واٹر بورڈ والے ادا کرتے ہیں۔
اجلاس کو یہ بھی بتایا گیا کہ واٹر بورڈ کے ملازمین کی رہائشگاہوں کے بل بھی واٹر بورڈ ادا کرتا ہے، آڈٹ حکام نے اس بات پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ واٹر بورڈ کے ملازمین کی تنخوائوں میں یوٹیلٹی بلز بھی شامل ہوتے ہیں لہٰذا یہ بل ملازمین کو خود ادا کرنے چائیں، بعض ملازمین واٹر بورڈ کے بنگلوں میں رہائش پذیر ہیں اور وہ تنخوائوں میں ہائوس رینٹ بھی لے رہے ہیں، یہ بڑی مالی بے قاعدگیاں ہیں، سابق ایم ڈی واٹر بورڈ اور موجودہ اسپیشل سیکریٹری محکمہ بلدیات سلمان چانڈیو نے اجلاس کو بتایا کہ واٹر بورڈ کے ملازمین ضروری سروس فراہم کرتے ہیں اور وہ 24 گھنٹے دستیاب رہتے ہیں اس لیے ہم انہیں یہ سہولت دیتے ہیں۔
پی اے سی ان کی اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوئی، پی اے سی نے اس بات پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا کہ واٹر بورڈ نے مذکورہ مالی سال کے دوران نادہندگان ایک روپے کی بھی وصولی نہیں کی، پی اے سی نے نادہندگان کی فہرست کی فراہمی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ واجبات جلد وصول کیے جائیں اور آڈٹ پیراز کا بھی جلد فیصلہ کیا جائے،بعد ازاں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایم ڈی واٹر بورڈ مصباح الدین فرید نے کہا کہ ڈی جی رینجرز سندھ1982سے واٹر بورڈ کے بنگلے میں رہائش پذیر ہیں، یہ کوئی قبضہ نہیں،خیر سگالی کے طور پر یہ بنگلہ دیا گیا ہے کیونکہ رینجرز کراچی کے شہریوں کی حفاظت کرتی ہے۔