مسلم لیگ ن کی داخلی جنگ امیرمقام کے خواب پورے ہوسکیں گے

(ن)لیگ کے سربراہ میاں نوازشریف نے اپنے داماد کی پارٹی رکنیت معطل کردی ہے

(ن)لیگ کے سربراہ میاں نوازشریف نے اپنے داماد کی پارٹی رکنیت معطل کردی ہے : فائل فوٹو

مسلم لیگ(ن)میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ غیر متوقع نہیں۔ جس دن امیر مقام اور ان کے ساتھی مسلم لیگ(ن)میں شامل ہوئے تھے اور پیر صابر شاہ اور ان کے قریبی ساتھیوں کے چہروں کے پر جو تاثرات تھے، انھیں دیکھتے ہوئے واضح ہوگیا تھاکہ اب مسلم لیگ (ن)کے اندر تخت وتاج کی جنگ ضرور شروع ہوگی۔

حسب توقع یوتھ ونگ سے شروع ہونے والی یہ جنگ پارٹی کے صوبائی سیٹ اپ تک پہنچ چکی ہے جس کی پاداش میں (ن)لیگ کے سربراہ میاں نوازشریف نے اپنے داماد کی پارٹی رکنیت معطل کردی ہے۔ یہ سلسلہ یہاں پر نہیں رکے گا۔ اس کے ڈانڈے بہت دور جاکر ملتے ہیں۔

کیپٹن صفدر نواز شریف کے داماد ہونے کا فائدہ تب سے اٹھارہے ہیںجب انھیں فوج سے سول بیوروکریسی میں شامل کرتے ہوئے اے سی ماڈل ٹائون لاہور تعینات کیا گیا تھا۔ اس وقت خیبرپختونخوا میں سردار مہتاب احمد خان بطور وزیراعلیٰ حکومت چلارہے تھے جہاں آٹے کا شدید بحران پیداہوا اورکئی فلور ملوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ان میں مانسہرہ میں کیپٹن صفدر کی فلور مل بھی شامل تھی۔

کیپٹن صفدر کے اب تک خاموش رہنے اور خود کو یوتھ ونگ کی سرگرمیوں تک محدود رکھنے کی وجہ صوبہ میں پارٹی کے اندر پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب کا متبادل نہ ملنا تھا۔ (ن)لیگ میں کچھ عرصہ قبل ہونے والے صوبائی تنظیمی انتخابات سے پہلے پارٹی کے معاملات سردار مہتاب ہی کے حوالے تھے۔

تاہم جاننے والے کہتے ہیںکہ سردار مہتاب اپنی مزاج کے اعتبار سے پارٹی کو اس انداز سے نہیں چلاسکے۔ اسی لیے پارٹی کی صوبہ میں باگ ڈور ایک مرتبہ پھر پیر صابر شاہ کے حوالے کردی گئی۔ البتہ اس دوران بھرپور طریقہ سے کوشش کی گئی کہ اقبال ظفر جھگڑا کو پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب کے متبادل کے طور پر پیش کیا جاسکے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔


سوال یہ ہے کہ اس کے پیچھے کون تھا اور اب امیر مقام اور ان کے ساتھیوں کے مسلم لیگ (ق)سے الگ ہوکر مسلم لیگ(ن)میں شامل ہونے کے بعد تو سردار مہتاب اور پیر صابر شاہ کے مدمقابل کھڑا کرنے کیلیے متبادل مل گئے ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ(ن)کی داخلی جنگ شروع کی گئی۔

یہ بات تو سامنے کی ہے کہ جب امیر مقام مسلم لیگ(ق)کو چھوڑ کر مسلم لیگ(ن)میں شامل ہونے کیلئے رائے ونڈ میں میاں نواز شریف سے حتمی مذاکرات کررہے تھے تو ان کے ساتھ فرید طوفان بھی موجود تھے۔ وہی فرید طوفان جو 1990ء میں اے این پی اور مسلم لیگ(ن)کی مخلوط حکومت میں اہم پوزیشن میں شامل رہے،

جو 1997 ء میں بھی دونوں پارٹیوں کی مخلوط حکومت میں سینئر وزیر کا سٹیٹس انجوائے کرتے رہے۔ انھوں نے ہی نہ صرف امیر مقام کومسلم لیگ(ن)میں شامل کرایا بلکہ اب وہ انھیں صوبے میں اہم ذمہ داری دلانے کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ امیر مقام کی سیاست کا محور خیبرپختونخوا ہے۔ اسی سبب امیر مقام پارٹی میں مرکزی عہدے کے طالب نہیں ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش یہی ہے کہ وہ (ق)لیگ کے صوبائی صدرتھے تو اب (ن)لیگ میں بھی یہی عہدہ حاصل کریں۔

خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ(ق)کی صدارت تو سلیم سیف اللہ کے پاس تھی جو صوبہ میں (ق)لیگ کے پہلے باقاعدہ صدر تھے تاہم جب ایم ایم اے کے ٹکٹ پر 2002ء کے الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیر مقام کے معاملات (ق)لیگ کے گارڈ فادر اور اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ طے پائے تو یہ صدارت سلیم سیف اللہ سے لے کر امیر مقام کے حوالے کردی گئی۔

اگر پرویز مشرف کا ہاتھ امیر مقام کے سر پر نہ ہوتا تو کیا امیر مقام ،سلیم سیف اللہ سے صدارت لے سکتے تھے؟اس کا بہتر جواب وہ خود دے سکتے ہیں۔ تاہم اب جبکہ (ن)لیگ میں ان کے سر پر ایسا کوئی ہاتھ نہیں تو فرید طوفان جیسے ساتھی پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب احمد خان کو منظر سے ہٹا کر مسلم لیگ(ن)کی صوبائی ڈرائیونگ سیٹ امیر مقام کے پاس دیکھناچاہتے ہیں۔ مسلم لیگ(ق)اور مسلم لیگ(ن)کے معاملات میں فرق ہے۔

(ق)لیگ حادثاتی طور پر وجود میں آئی تھی جسے حادثاتی لیڈر ہی ملے جبکہ مسلم لیگ(ن) نے 2002 ء کے انتخابات میں جو بہت کچھ کھویا تھا، اس میں سے کافی کچھ 2008 ء کے انتخابات میںحاصل بھی کرلیا۔ مسلم لیگ(ن)کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کسی بھی طور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پرانے لیگی امیر مقام کو بطور صوبائی صدر قبول کرلیں گے ۔
Load Next Story