قومی ایشوز کا ایکشن ری پلے کیوں
آج بلاشبہ سیاسی صورتحال گمبھیر اور ملکی تاریخ کے ایک نازک ترین دورانیے کی آئینہ دار ہے۔
منگل کو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف نے نیوز لیکس کا معاملہ اٹھاتے ہوئے رپورٹ ایوان کے سامنے لانے کا مطالبہ کردیا جب کہ اپوزیشن کی طرف سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سینیٹ سے منظور کردہ بل حکومتی مخالفت پر کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا جب کہ وزیر قانون زاہد حامد نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا یہ معاملہ پہلے ہی سپریم کورٹ میں ہے، اس سے متعلق عدالت عظمیٰ پہلے ہی آبزرویشن دے چکی ہے، بل بنیادی انسانی حقوق کے خلاف اور آئین سے متصادم ہے، اب مزید ایسے کسی بل کی ضرورت نہیں۔
صائب انداز نظر تو یہ ہے کہ مذکورہ دونوں ایشوز پر فیصلہ ہوچکا، پاناما لیکس پر قومی اسمبلی میں بحث ہوئی، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دے دیا ہے، اب عدالتی حکم کے تحت جے آئی ٹی میں کیس کی تحقیقاتی سماعت جاری ہے ، وزیراعظم اور انکے بچوں کے ٹی وی انٹرویوز طلب کیے گئے ہیں، سپریم کورٹ 22 مئی کو پیش رفت کا جائزہ لے گی، تو تعجب کی بات ہے کہ پھر ''ایکشن ری پلے'' کے لیے قومی اسمبلی کا ایوان کیوں چنا گیا؟ جب کہ سیاسی جماعتوں اور فریقین کو اپنی ساری توجہ جے آئی ٹی پر مرکوز کرنی چاہیے.
حکومتی حلقوں اور وزراء کو بھی سیاست برائے سیاست کی فرسودہ شٹل ڈپلومیسی کا سلسلہ بند کرنا چاہیے، اس سے معاملات میں بہتری نہیں آئے گی، دوسری جانب لازم ہے کہ حکومت اپوزیشن کی سنجیدہ اور بامقصد تحاریک یا قراردادوں پر بحث کے لیے سنجیدہ ماحول پیدا کرے اور جمہوری رویہ اپنائے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین کشمکش صرف پوائنٹ اسکورنگ یا ''چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد'' جیسی بازیگری ہے جسے نرم سے نرم الفاظ میں غیر سنجیدہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
سیاست دانوں کو ادراک کرنا چاہیے کہ سپریم کورٹ ، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پاناما لیکس کے ضمن میں خاصی معنی خیز بحث ہوتی رہی ہے، عدالت عظمیٰ نے پاناما کیس کی اولین سماعتوں میں عدالتی کمیشن کی تشکیل کا آپشن بھی دیا، ٹرمز آف ریفرنس(ٹی او آر) کی منظوری اور ان پر وسیع تر اتفاق رائے کے لیے متواتر بے نتیجہ اجلاس بھی ہوئے ، اگر ان کی منظوری ہوجاتی تو کتنا قیمتی وقت بچ جاتا ، بے یقینی کی تاریک سرنگ سے امید کی روشنی کی کوئی کرن بھی پھوٹ سکتی تھی ، یہی مناسب وقت تھا جب کہ قانون سازی اور انتہائی جرات مندانہ فیصلوں سے بحران کو ٹالا جاسکتا تھا۔
آج بلاشبہ سیاسی صورتحال گمبھیر اور ملکی تاریخ کے ایک نازک ترین دورانئے کی آئینہ دار ہے اور صبر آزما داخلی ، علاقائی اور عالمی تناظر میں سیاسی رہنماؤں سے قوم بجا طور پر یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ حکمت و تدبر، دانش مندی، دور اندیشی اور سنجیدہ طرز سیاست کا مظاہرہ کریں گے ، سیاسی اختلاف رائے ملک کے بہترین مفاد میں ہو تو کوئی اندیشہ نہیں، وطن عزیز کو ان گنت اعصاب شکن چیلنجز درپیش ہیں ، ان سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی وژن، درد مندی اور قومی سوچ کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ میں نئے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹھوس قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ ملک بحران سے نجات پائے اور قوم جمہوری ثمرات سے مستفیض ہو۔ تاہم قومی اسمبلی میں جو بل پیش ہوکر مسترد ہوا یا نیوز لیکس کے حوالہ سے پرانے مطالبات یا معروضات سامنے لائی گئیں ، حالانکہ زندگی صرف پاناما نہیں کچھ اور بھی ہے۔
ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے فاضل اراکین کا کہنا تھا کہ نیوز لیکس کا معاملہ حکومت اور فوج کے درمیان نہیں بلکہ ملکی سلامتی سے متعلق ہے، یہ اگر ملکی سلامتی کا مسئلہ نہیں ہے تو پھر کورکمانڈرز کے اجلاس میں شرکاء اور وزیر داخلہ اس کو قومی سلامتی کا مسئلہ کیوں قرار دیتے رہے، کور کمانڈرز اور وزیر داخلہ پہلے اپنے بیانات سے دستبردار ہوں ، کسی نے کہا پاکستان کی سلامتی اور خارجہ امور کے بارے میں پالیسیاں بنانا کسی ادارے کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا کام ہے، ملکی سلامتی سے متعلق اہم امور بند کمروں کے اجلاس میں طے کر لیے گئے اور عوام کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا.
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کی طرف سے ٹویٹ واپس لینے سے معاملہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس بارے میں حکومت کو جواب دہ ہونا پڑیگا، نیوز لیکس کے حوالے سے خبر رکوانے کے لیے قانون موجود نہیں تھا، جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ان کا اس سے کیا تعلق تھا، قوم کو حقائق بتائے جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ نیوز لیکس کا معاملہ ختم ہوگیا، وزیراعظم کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر سے تفصیلی بات چیت ہوئی، ٹویٹ واپس لیا گیا، ترجمان پاک فوج نے کہا کہ وزیراعظم فائنل اتھارٹی ہیں، ِ ٹویٹ حکومتی ادارے یا کسی شخصیت کے خلاف نہ تھا، پاک فوج کے ترجمان نے مزید کہا کہ جمہوریت کی حمایت اور آئین کی بالادستی کے لیے پر عزم ہیں، فوج کے اہم ادارہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ فوج اور حکومت کو آمنے سامنے کھڑا کرنا افسوس ناک ہے۔ یوں ادارہ جاتی اور حکومتی سطح پر خیر سگالی کا قابل تحسین اور خوش آیند ماحول پیدا ہوگیا ہے جس کے بعد سیاسی رہنماؤں کو مستقبل کے سفر کی تیاری کا سوچنا چاہیے۔
صائب انداز نظر تو یہ ہے کہ مذکورہ دونوں ایشوز پر فیصلہ ہوچکا، پاناما لیکس پر قومی اسمبلی میں بحث ہوئی، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دے دیا ہے، اب عدالتی حکم کے تحت جے آئی ٹی میں کیس کی تحقیقاتی سماعت جاری ہے ، وزیراعظم اور انکے بچوں کے ٹی وی انٹرویوز طلب کیے گئے ہیں، سپریم کورٹ 22 مئی کو پیش رفت کا جائزہ لے گی، تو تعجب کی بات ہے کہ پھر ''ایکشن ری پلے'' کے لیے قومی اسمبلی کا ایوان کیوں چنا گیا؟ جب کہ سیاسی جماعتوں اور فریقین کو اپنی ساری توجہ جے آئی ٹی پر مرکوز کرنی چاہیے.
حکومتی حلقوں اور وزراء کو بھی سیاست برائے سیاست کی فرسودہ شٹل ڈپلومیسی کا سلسلہ بند کرنا چاہیے، اس سے معاملات میں بہتری نہیں آئے گی، دوسری جانب لازم ہے کہ حکومت اپوزیشن کی سنجیدہ اور بامقصد تحاریک یا قراردادوں پر بحث کے لیے سنجیدہ ماحول پیدا کرے اور جمہوری رویہ اپنائے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین کشمکش صرف پوائنٹ اسکورنگ یا ''چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد'' جیسی بازیگری ہے جسے نرم سے نرم الفاظ میں غیر سنجیدہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
سیاست دانوں کو ادراک کرنا چاہیے کہ سپریم کورٹ ، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پاناما لیکس کے ضمن میں خاصی معنی خیز بحث ہوتی رہی ہے، عدالت عظمیٰ نے پاناما کیس کی اولین سماعتوں میں عدالتی کمیشن کی تشکیل کا آپشن بھی دیا، ٹرمز آف ریفرنس(ٹی او آر) کی منظوری اور ان پر وسیع تر اتفاق رائے کے لیے متواتر بے نتیجہ اجلاس بھی ہوئے ، اگر ان کی منظوری ہوجاتی تو کتنا قیمتی وقت بچ جاتا ، بے یقینی کی تاریک سرنگ سے امید کی روشنی کی کوئی کرن بھی پھوٹ سکتی تھی ، یہی مناسب وقت تھا جب کہ قانون سازی اور انتہائی جرات مندانہ فیصلوں سے بحران کو ٹالا جاسکتا تھا۔
آج بلاشبہ سیاسی صورتحال گمبھیر اور ملکی تاریخ کے ایک نازک ترین دورانئے کی آئینہ دار ہے اور صبر آزما داخلی ، علاقائی اور عالمی تناظر میں سیاسی رہنماؤں سے قوم بجا طور پر یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ حکمت و تدبر، دانش مندی، دور اندیشی اور سنجیدہ طرز سیاست کا مظاہرہ کریں گے ، سیاسی اختلاف رائے ملک کے بہترین مفاد میں ہو تو کوئی اندیشہ نہیں، وطن عزیز کو ان گنت اعصاب شکن چیلنجز درپیش ہیں ، ان سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی وژن، درد مندی اور قومی سوچ کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ میں نئے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹھوس قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ ملک بحران سے نجات پائے اور قوم جمہوری ثمرات سے مستفیض ہو۔ تاہم قومی اسمبلی میں جو بل پیش ہوکر مسترد ہوا یا نیوز لیکس کے حوالہ سے پرانے مطالبات یا معروضات سامنے لائی گئیں ، حالانکہ زندگی صرف پاناما نہیں کچھ اور بھی ہے۔
ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے فاضل اراکین کا کہنا تھا کہ نیوز لیکس کا معاملہ حکومت اور فوج کے درمیان نہیں بلکہ ملکی سلامتی سے متعلق ہے، یہ اگر ملکی سلامتی کا مسئلہ نہیں ہے تو پھر کورکمانڈرز کے اجلاس میں شرکاء اور وزیر داخلہ اس کو قومی سلامتی کا مسئلہ کیوں قرار دیتے رہے، کور کمانڈرز اور وزیر داخلہ پہلے اپنے بیانات سے دستبردار ہوں ، کسی نے کہا پاکستان کی سلامتی اور خارجہ امور کے بارے میں پالیسیاں بنانا کسی ادارے کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا کام ہے، ملکی سلامتی سے متعلق اہم امور بند کمروں کے اجلاس میں طے کر لیے گئے اور عوام کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا.
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کی طرف سے ٹویٹ واپس لینے سے معاملہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس بارے میں حکومت کو جواب دہ ہونا پڑیگا، نیوز لیکس کے حوالے سے خبر رکوانے کے لیے قانون موجود نہیں تھا، جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ان کا اس سے کیا تعلق تھا، قوم کو حقائق بتائے جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ نیوز لیکس کا معاملہ ختم ہوگیا، وزیراعظم کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر سے تفصیلی بات چیت ہوئی، ٹویٹ واپس لیا گیا، ترجمان پاک فوج نے کہا کہ وزیراعظم فائنل اتھارٹی ہیں، ِ ٹویٹ حکومتی ادارے یا کسی شخصیت کے خلاف نہ تھا، پاک فوج کے ترجمان نے مزید کہا کہ جمہوریت کی حمایت اور آئین کی بالادستی کے لیے پر عزم ہیں، فوج کے اہم ادارہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ فوج اور حکومت کو آمنے سامنے کھڑا کرنا افسوس ناک ہے۔ یوں ادارہ جاتی اور حکومتی سطح پر خیر سگالی کا قابل تحسین اور خوش آیند ماحول پیدا ہوگیا ہے جس کے بعد سیاسی رہنماؤں کو مستقبل کے سفر کی تیاری کا سوچنا چاہیے۔