کیا عورت صرف جسم ہے
آج کسی بھی ملک میں جا کر دیکھئے عورت اپنا ’’کیریئر‘‘ صرف شوبز اور ماڈلنگ سے وابستہ سمجھتی ہے۔
این جی اوز، انکم سپورٹ اسکیموں یا ایسے نیک ذرایع سے جو پیسہ ''غریب'' کے ہاتھ میں آتا ہے ''غریب'' کو واوین میں بند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے مفت کے مال کے لیے تقسیم کا کام بھی نہایت ہی غریبانہ طریقے پر حکومت کے منتخب نمایندے اور افسر کرتے ہیں اور غریب اور مستحق وہی ہوتے ہیں جو ان کا منظور شدہ ہو، اس بنیاد پر پاکستان میں تقریباً ہر کوئی ''غریب'' ہے۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ
غریب تو تجھے خدا نے بنایا
لیکن یہ بے غیرت کس نے بنایا؟
بہرحال یہ جتنی بھی رقومات ''غریبوں'' میں بانٹی جاتی ہیں وہ پیسے لیتے ہی بازار کا رخ کرتے ہیں اور دنیا جہاں کی غیر ضروری اور فضول خریداری کرتے ہیں، آٹا، دال، گھی وغیرہ بہت کم خریدتے ہیں، موبائل، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، بسکٹ یا کھانے پینے کی بلا ضرورت چیزیں، کیوں کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیسہ جتنی آسانی سے آتا ہے اتنی آسانی سے چلا بھی جاتا ہے کیونکہ بین الاقوامی تجارتی مافیا نے اشتہار بازی کے ذریعے ایسی بہت ساری چیزوں کو ''ضروریات'' بنایا ہوا ہے جو ''ضروریات'' بالکل بھی نہیں، تعیشات ہیں۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم ڈرائنگ روم یا عالی شان دفتر میں منرل واٹر سامنے رکھ کر لکھنے والوں میں سے نہیں اس لیے پیر ابھی زمین پر ہی ہیں، بازاروں میں پیدل چلتے ہیں، بسوں میں سفر کرتے ہیں، ہوٹلوں اور عوامی جگہوں میں اٹھتے بیٹھتے اور کہتے سنتے رہتے ہیں، اس لیے حق الیقین کی حد تک جانتے ہیں کہ اگر کسی نے ہزار میں ایک فرد بھی ایسا دکھایا جس نے ان مفت کی بھیک سے کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہو تو جو چور کی سزا وہ ہماری ... سوری جو ''شریف آدمی'' کی سزا وہ ہماری کیوں کہ چور کو سزا دینے کی ہمارے ہاں کوئی روایت ہے ہی نہیں۔
بات بہت زیادہ وسیع و عریض ہے لیکن ہم اسے اختصار میں بیان کریں گے کہ اس وقت دنیا میں کسی بھی ''حکومت'' کی حکومت نہیں ہے حتیٰ کہ امریکی حکومت کی بھی امریکا پر حکومت نہیں ہے، ہمارا مطلب ہے جسے حکومت کہا جاتا ہے اور کہنا چاہیے بلکہ ساری دنیا کے ہر ہر چپے ہر ہر پتے ہر ہر فرد اور اس کی ہر سانس پر بین الاقوامی مالی مافیا کا قابوس مسلط ہے یا یوں کہئے کہ یہ دنیا ایک بڑا جسم ہے جس کی رگ رگ میں سوئی پیوست ہے جو اس کا خون کھینچتی ہے اور آگے اپنے سے بڑے پائپ میں پہنچاتی ہے، وہ اپنے سے بڑے پائپ میں اور وہ اپنے سے بڑے پائپ میں، یوں سارا خون جمع ہو کر ایک جگہ جمع ہوتا ہے جہاں اس سے منافع کھینچ کر ایک دوسرے پائپ میں ڈالا جاتا ہے جو اسی طرح پھیلتا ہوا منافع جمع کر کے واپس پہنچاتا ہے۔
اسلحے کی انڈسٹری اس کی تجارت اور مطلوبہ مقامات تک پہنچانے کا معاملہ تو آپ کی سمجھ میں آگیا ہو گا اور اس کی موجودگی میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ''خونریزی'' کا خاتمہ ہو جائے، نام کچھ بھی دے لیجیے دہشت گردی، شر پسندی، شدت پسندی، جہاد، جنگ، آزادی یا ملکوں کے درمیان تنازعات کی آب یاری اور پھر عوام کا خون نچوڑ کر اسلحہ کے ڈھیر ... آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن جنگ کوئی بھی ہو کہیں بھی ہو سرد ہو یا گرم ... یا اس کی تیاریاں یہ سب کے سب جو ان میں شامل ہوتے ہیں ایک طرح سے بین الاقوامی ''مافیا'' کے کارکن ہوتے ہیں وہ بھی جو مرتا ہے اور وہ بھی جو مارتا ہے وہ بھی جو شر پسندی کرتا ہے اور وہ بھی جو شر پسندی ختم کرتا ہے۔
اسلحہ کی بڑی انڈسٹری کے بعد دوسری سب سے بڑی منافع بخش انڈسٹری فحاشی اور منشیات کی ہے کیوں کہ اس کی گود میں جرائم بھی پلتے ہیں این جی اوز بھی پلتی ہیں فروخت کرنے والے بھی اپنا حصہ اٹھاتے ہیں اور شکار ہونے والے، پھر ان کو بحال کرنے والے بھی اس گنگا میں نہاتے ہیں۔ شاید یہ بات نام نہاد آزادی نسواں کے علمبرداروں کو اچھی نہ لگے لیکن حقوق نسواں یعنی عورتوں کے حقوق عورتوں کی آزادی کا شور اس لیے نہیں مچا ہے کہ عورت کو بحیثیت انسان آزادی دینا مقصود ہے۔
بھارت پاکستان اور اس طرح کے دوسرے ترقی پذیر (یہ بھی بڑا گمراہ کن لفظ ہے) ممالک جہاں ابھی ''انسان'' کو حقوق میسر نہیں وہاں مرد و عورت کے حقوق کی بات ایسی ہے جیسے گوشت ابھی موجود نہ ہو اور بوٹیوں کی تقسیم شروع ہو جائے، بستی ابھی بسی نہ ہو اور سودا بیچنے والے اپنے ٹھیئے جما دیں، یہ سارا چکر عورت کی ذات کو نہیں بلکہ اس کے ''جسم'' کو کیش کرنے بلکہ انڈسٹری بنانے کے لیے ہے ،کیا کوئی عورت مختصر لباس پہنکر کے اپنے حقوق حاصل کر لیتی ہے؟ کیا اس کی غلامی صرف کپڑوں تک محدود ہے؟
ایسا کچھ بھی نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ھمہ اقسام کی تجارتوں جس کا آخری سرا بین الاقوامی مالی مافیا تک پہنچتا ہے عورت کا جسم بہت ہی مددگار اور معاون ہے، بے چاری عورت سمجھتی ہے کہ وہ آزاد ہو گئی ہے حالانکہ اسے اس طور پر اور اس کمال ہنر مندی سے ہیپناٹائز اور برین واش کیا گیا ہے کہ اب زور زبردستی کے بجائے خود کو مسکراتے ہوئے بلکہ اتراتے ہوئے نیلام کے چبوترے پر جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
آج کسی بھی ملک میں جا کر دیکھئے عورت اپنا ''کیریئر'' صرف شوبز اور ماڈلنگ سے وابستہ سمجھتی ہے، وہ بھول چکی ہے کہ اس کے پاس دماغ بھی ہے یا تعلیم و ہنر میں بھی کمال دکھا سکتی ہے یا اس کی کچھ اور حیثیتیں بیٹی، بہن، ماں اور بیوی کی بھی ہیں کیوں کہ اہل تجارت کو عورت یا انسان یا ماں بیٹی بہن نہیں چاہیے صرف ایک جسم چاہیے، یا صاف الفاظ میں کہئے تو اسے انسان سے بھی نیچے گرا کر ''آئٹم'' کے درجے پر لایا گیا ہے اور ''آئٹم'' صرف تجارت کی اصطلاح ہے نہ کہ انسانیت کی، لیکن معاملہ صرف یہیں تک نہیں بلکہ اس کے ذریعے اور بھی بہت کچھ تجارتی اور مالیاتی اغراض پورے کیے جاتے ہیں، ایک طرح سے اسے ایک ملٹی پرپز تجارتی آئٹم بنایا گیا جس کے ساتھ ساتھ کہیں نہ کہیں منشیات اور جرائم بھی جڑ جاتے ہیں جو جنگوں، دہشت گردوں اور خونریزیوں کے لیے خام مال یا افرادی قوت فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
غریب تو تجھے خدا نے بنایا
لیکن یہ بے غیرت کس نے بنایا؟
بہرحال یہ جتنی بھی رقومات ''غریبوں'' میں بانٹی جاتی ہیں وہ پیسے لیتے ہی بازار کا رخ کرتے ہیں اور دنیا جہاں کی غیر ضروری اور فضول خریداری کرتے ہیں، آٹا، دال، گھی وغیرہ بہت کم خریدتے ہیں، موبائل، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، بسکٹ یا کھانے پینے کی بلا ضرورت چیزیں، کیوں کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیسہ جتنی آسانی سے آتا ہے اتنی آسانی سے چلا بھی جاتا ہے کیونکہ بین الاقوامی تجارتی مافیا نے اشتہار بازی کے ذریعے ایسی بہت ساری چیزوں کو ''ضروریات'' بنایا ہوا ہے جو ''ضروریات'' بالکل بھی نہیں، تعیشات ہیں۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم ڈرائنگ روم یا عالی شان دفتر میں منرل واٹر سامنے رکھ کر لکھنے والوں میں سے نہیں اس لیے پیر ابھی زمین پر ہی ہیں، بازاروں میں پیدل چلتے ہیں، بسوں میں سفر کرتے ہیں، ہوٹلوں اور عوامی جگہوں میں اٹھتے بیٹھتے اور کہتے سنتے رہتے ہیں، اس لیے حق الیقین کی حد تک جانتے ہیں کہ اگر کسی نے ہزار میں ایک فرد بھی ایسا دکھایا جس نے ان مفت کی بھیک سے کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہو تو جو چور کی سزا وہ ہماری ... سوری جو ''شریف آدمی'' کی سزا وہ ہماری کیوں کہ چور کو سزا دینے کی ہمارے ہاں کوئی روایت ہے ہی نہیں۔
بات بہت زیادہ وسیع و عریض ہے لیکن ہم اسے اختصار میں بیان کریں گے کہ اس وقت دنیا میں کسی بھی ''حکومت'' کی حکومت نہیں ہے حتیٰ کہ امریکی حکومت کی بھی امریکا پر حکومت نہیں ہے، ہمارا مطلب ہے جسے حکومت کہا جاتا ہے اور کہنا چاہیے بلکہ ساری دنیا کے ہر ہر چپے ہر ہر پتے ہر ہر فرد اور اس کی ہر سانس پر بین الاقوامی مالی مافیا کا قابوس مسلط ہے یا یوں کہئے کہ یہ دنیا ایک بڑا جسم ہے جس کی رگ رگ میں سوئی پیوست ہے جو اس کا خون کھینچتی ہے اور آگے اپنے سے بڑے پائپ میں پہنچاتی ہے، وہ اپنے سے بڑے پائپ میں اور وہ اپنے سے بڑے پائپ میں، یوں سارا خون جمع ہو کر ایک جگہ جمع ہوتا ہے جہاں اس سے منافع کھینچ کر ایک دوسرے پائپ میں ڈالا جاتا ہے جو اسی طرح پھیلتا ہوا منافع جمع کر کے واپس پہنچاتا ہے۔
اسلحے کی انڈسٹری اس کی تجارت اور مطلوبہ مقامات تک پہنچانے کا معاملہ تو آپ کی سمجھ میں آگیا ہو گا اور اس کی موجودگی میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ''خونریزی'' کا خاتمہ ہو جائے، نام کچھ بھی دے لیجیے دہشت گردی، شر پسندی، شدت پسندی، جہاد، جنگ، آزادی یا ملکوں کے درمیان تنازعات کی آب یاری اور پھر عوام کا خون نچوڑ کر اسلحہ کے ڈھیر ... آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن جنگ کوئی بھی ہو کہیں بھی ہو سرد ہو یا گرم ... یا اس کی تیاریاں یہ سب کے سب جو ان میں شامل ہوتے ہیں ایک طرح سے بین الاقوامی ''مافیا'' کے کارکن ہوتے ہیں وہ بھی جو مرتا ہے اور وہ بھی جو مارتا ہے وہ بھی جو شر پسندی کرتا ہے اور وہ بھی جو شر پسندی ختم کرتا ہے۔
اسلحہ کی بڑی انڈسٹری کے بعد دوسری سب سے بڑی منافع بخش انڈسٹری فحاشی اور منشیات کی ہے کیوں کہ اس کی گود میں جرائم بھی پلتے ہیں این جی اوز بھی پلتی ہیں فروخت کرنے والے بھی اپنا حصہ اٹھاتے ہیں اور شکار ہونے والے، پھر ان کو بحال کرنے والے بھی اس گنگا میں نہاتے ہیں۔ شاید یہ بات نام نہاد آزادی نسواں کے علمبرداروں کو اچھی نہ لگے لیکن حقوق نسواں یعنی عورتوں کے حقوق عورتوں کی آزادی کا شور اس لیے نہیں مچا ہے کہ عورت کو بحیثیت انسان آزادی دینا مقصود ہے۔
بھارت پاکستان اور اس طرح کے دوسرے ترقی پذیر (یہ بھی بڑا گمراہ کن لفظ ہے) ممالک جہاں ابھی ''انسان'' کو حقوق میسر نہیں وہاں مرد و عورت کے حقوق کی بات ایسی ہے جیسے گوشت ابھی موجود نہ ہو اور بوٹیوں کی تقسیم شروع ہو جائے، بستی ابھی بسی نہ ہو اور سودا بیچنے والے اپنے ٹھیئے جما دیں، یہ سارا چکر عورت کی ذات کو نہیں بلکہ اس کے ''جسم'' کو کیش کرنے بلکہ انڈسٹری بنانے کے لیے ہے ،کیا کوئی عورت مختصر لباس پہنکر کے اپنے حقوق حاصل کر لیتی ہے؟ کیا اس کی غلامی صرف کپڑوں تک محدود ہے؟
ایسا کچھ بھی نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ھمہ اقسام کی تجارتوں جس کا آخری سرا بین الاقوامی مالی مافیا تک پہنچتا ہے عورت کا جسم بہت ہی مددگار اور معاون ہے، بے چاری عورت سمجھتی ہے کہ وہ آزاد ہو گئی ہے حالانکہ اسے اس طور پر اور اس کمال ہنر مندی سے ہیپناٹائز اور برین واش کیا گیا ہے کہ اب زور زبردستی کے بجائے خود کو مسکراتے ہوئے بلکہ اتراتے ہوئے نیلام کے چبوترے پر جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
آج کسی بھی ملک میں جا کر دیکھئے عورت اپنا ''کیریئر'' صرف شوبز اور ماڈلنگ سے وابستہ سمجھتی ہے، وہ بھول چکی ہے کہ اس کے پاس دماغ بھی ہے یا تعلیم و ہنر میں بھی کمال دکھا سکتی ہے یا اس کی کچھ اور حیثیتیں بیٹی، بہن، ماں اور بیوی کی بھی ہیں کیوں کہ اہل تجارت کو عورت یا انسان یا ماں بیٹی بہن نہیں چاہیے صرف ایک جسم چاہیے، یا صاف الفاظ میں کہئے تو اسے انسان سے بھی نیچے گرا کر ''آئٹم'' کے درجے پر لایا گیا ہے اور ''آئٹم'' صرف تجارت کی اصطلاح ہے نہ کہ انسانیت کی، لیکن معاملہ صرف یہیں تک نہیں بلکہ اس کے ذریعے اور بھی بہت کچھ تجارتی اور مالیاتی اغراض پورے کیے جاتے ہیں، ایک طرح سے اسے ایک ملٹی پرپز تجارتی آئٹم بنایا گیا جس کے ساتھ ساتھ کہیں نہ کہیں منشیات اور جرائم بھی جڑ جاتے ہیں جو جنگوں، دہشت گردوں اور خونریزیوں کے لیے خام مال یا افرادی قوت فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔