ہم مقروض لوگ اس مٹی کے
پاکستان کی خود مختاری تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان کی سرحد عبور کرتے رہیں گے
KARACHI:
یا تو قومی سطح پر امریکی حکمرانوں کی پریشانی بہت بڑھ گئی ہے یا پھر ان کی رعونت عروج پر ہے کہ وہ جس کسی کی جی چاہتے ہیں پت اتار کر اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ پاکستان کی وزیر خارجہ کے ساتھ انھوں نے ایسا ہی کرنے کی خواہش کی لیکن جیسا کہ ہمارے ہاں دیہات میں کہا جاتا ہے کہ کسی کی عزت اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے
ہماری عزت ہماری وزیر خارجہ کے ہاتھ میں تھی کہ ہم نے ترکی بہ ترکی جواب دے کر اپنی تسلی کر لی۔ مختصر سی خبر کے مطابق امریکی صدر اوباما کے ایک مشیر ریٹائرڈ جنرل ڈنکلس ای لیوٹ نے بحث میں پاکستانی وزیر خارجہ سے کہا کہ وہ پاکستان کی خود مختاری تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان کی سرحد عبور کرتے رہیں گے۔
پاکستانی سفیر نے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات اور ایک دوسرے پر انحصار کا تفصیل سے ذکر کیا اور ڈٹ کر اپنے موقف کی وضاحت کی، خبروں کے مطابق دونوں میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ کسی بڑے امریکی کے ساتھ کسی پاکستانی کی تلخی کا یہ پہلا موقع تھی۔
امریکا اور ہمارا عمر بھر کا ساتھ ہے۔ ہمارے باہمی تعلقات دونوں ملکوں کی ضرورتوں کے مطابق بڑھتے گھٹتے رہے ہیں، میرے خیال میں یہ ہمارے حکمرانوں کا قصور ہے اور بھارتیوں کی چالاکی ہے کہ امریکا بھارت کی طرف زیادہ جھک گیا جب کہ پاکستان ایسا گیا گزرا نہیں تھا کہ بھارت اس پر حاوی ہو جاتا۔
بھارت ایک بڑا ملک ہے، رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بھی، پھر وہ ایک غیر مسلم ملک ہے اور روایتی اور تاریخی طور پر مسلمانوں کے خلاف ہے جس کا اظہار وہ زبانی کلامی بھی اور عملاً بھی کرتا رہتا ہے۔ اب تو اس کی پاکستان دشمنی اس قدر مستحکم ہو چکی ہے کہ اس پر بحث کی گنجائش بھی نہیں رہی۔ آخر کس قانون کے تحت اس نے مشرقی پاکستان پر یک طرفہ حملہ کیا اور ملک کو دو ٹکڑے کر دیا۔
یہ ہماری کمزوری سہی لیکن کسی کمزور پر حملہ اور اس کو ختم کرنے کا آخر کیا جواز ہے اور پھر یہ تاریخی جواز تو غیرت مند پاکستانیوں کو یاد رہنا چاہیے جو مشرقی پاکستان میں کامیابی کے بعد اندرا گاندھی وزیراعظم بھارت نے کہی تھی، ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ یہ اس نے بالکل درست کہا۔ ہمارے ہاں آج کی طرح تب بھی میر جعفر اور صادق موجود تھے جنہوں نے ہندوئوں کے لیے ہمارے راستے ہموار کیے،
ان میں سے آج بھی کوئی واہگہ سرحد کو مسمار کرنے کی فکر میں ہے تو کوئی پاکستان کے جواز کو ہی چیلنج کرتا ہے۔ دو سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کی بات کا تو میں گواہ ہوں جنہوں نے دو ملکوں میں تعلقات کو نئے سرے سے قائم کرنے کی بات کی اور تقسیم کو نشانہ بنایا۔ یہ ٹیلی وژن پر موجود ہے اور پاکستانیوں نے دیکھا بھی ہے۔ یہی سلسلہ سیاست دانوں کے ذریعہ بعض دانشوروں تک پہنچا ہے جو پاکستان کو غیر ضروری اور غیر مفید سمجھتے ہیں یا بعض صورتوں میں نقصان دہ بھی۔ یہ بحث ٹیلی وژن اور اخبارات میں شروع ہو چکی ہے اور رفتہ رفتہ پھیلتی جا رہی ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری ایسی ہی کمزوریاں دشمنوں کو یہ ہمت بھی دیتی ہیں کہ وہ جیتے جاگتے پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔ امریکی صدر اوباما کے اس فوجی مشیر نے حد سے بڑھ کر بات کی ہے، میں اس خاتون کو داد دیتا ہوں جو ہماری وزیر خارجہ ہیں کہ انھوں نے اپنا موقف سختی کے ساتھ بیان کیا اگر اس وقت وہ اپنی پارٹی کے اثر میں ہوتیں تو شاید ایسا لہجہ اختیار نہ کرتیں کیونکہ امریکا کے ساتھ ایسی گستاخی نئی پاکستانی سیاست کے لیے اب موزوں اور مفید نہیں رہی۔
مجھے میری تنہائی کھا جاتی ہے اور جب کوئی ساتھ دینے والا نہیں ملتا تو میں اکیلا پریشان ہو جاتا ہوں۔ کئی دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ پاکستان کے ان دانشوروں سے ان کی زبان میں بات کی جائے جو پاکستان پر اپنی برہمی چھپا نہیں پاتے اور جب بھی موقع ملتا ہے اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
قارئین کو اندازہ ہے کہ ان دنوں پاکستان کو حالات نے اس قدر اہمیت دے دی ہے کہ یہاں کی صنعت میں نہیں یہاں کے میڈیا میں بیرونی سرمایہ کاری بہت بڑھ گئی ہے اور ضرورت کے مطابق بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے حکومتوں کے لیے ایسی سرمایہ کاری کچھ مشکل نہیں ہوتی۔ اس سے زیادہ تو کوئی انجینئر کسی ٹھیکے میں کھا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں اگر شاباش کے ساتھ ساتھ چائے پانی بھی ملتا رہے تو غنیمت ہے جس ملک میں ایک ڈالر قریباً سو روپے کا ہو اس ملک میں تو چند ڈالر ہی بہت ہیں۔ میں اپنے ہم خیال دوستوں سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنے علم اور فن کی زکوٰۃ نکالا کریں اور کبھی کبھار کسی دانشور کی خبر لے لیا کریں۔ میں ان میں سے کئی ایک کو جانتا ہوں،
یہ اندر سے کھوکھلے لوگ ہیں جو کمال جسارت کے ساتھ اپنی تحریروں میں اپنی تعریف خود لکھتے ہیں جو ان کی اصل اوقات کو ظاہر کرتی ہے۔ دراصل ہمارا اشرافیہ ان کا آئیڈیل ہے اور اس کے اسٹائل کی زندگی بسر کرنا ان کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ میں آپ کو ان لوگوں کی اس چھپی خواہش کے نمونے نہیں دکھانا چاہتا پردہ ہی رہے تو بہتر ہے
اب جب بات شروع ہو گئی ہے تو کسی نے میرا ساتھ دیا نہ دیا اور مجھے اپنی بات لکھنے اور اس کے چھپنے کا موقع ملا تو میں اپنی بساط بھر ان کو جواب دینے کی کوشش کروں گا کیونکہ وہ میرے جیسے کرائے کے مکان میں رہنے اور دہاڑی پر زندگی بسر کرنے والے کا کیا بگاڑ لیں گے لیکن جواب دینا تو لازم ہے کہ یہ اس ملک کی مٹی کا حق ہے۔ مجھے یہ شعر صحیح طور پر یاد نہیں لیکن افتخار عارف میرا دوست مجھے معاف کر دے گا
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
ہم مقروض ایسے قرض اتارتے رہیں گے۔
یا تو قومی سطح پر امریکی حکمرانوں کی پریشانی بہت بڑھ گئی ہے یا پھر ان کی رعونت عروج پر ہے کہ وہ جس کسی کی جی چاہتے ہیں پت اتار کر اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ پاکستان کی وزیر خارجہ کے ساتھ انھوں نے ایسا ہی کرنے کی خواہش کی لیکن جیسا کہ ہمارے ہاں دیہات میں کہا جاتا ہے کہ کسی کی عزت اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے
ہماری عزت ہماری وزیر خارجہ کے ہاتھ میں تھی کہ ہم نے ترکی بہ ترکی جواب دے کر اپنی تسلی کر لی۔ مختصر سی خبر کے مطابق امریکی صدر اوباما کے ایک مشیر ریٹائرڈ جنرل ڈنکلس ای لیوٹ نے بحث میں پاکستانی وزیر خارجہ سے کہا کہ وہ پاکستان کی خود مختاری تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان کی سرحد عبور کرتے رہیں گے۔
پاکستانی سفیر نے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات اور ایک دوسرے پر انحصار کا تفصیل سے ذکر کیا اور ڈٹ کر اپنے موقف کی وضاحت کی، خبروں کے مطابق دونوں میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ کسی بڑے امریکی کے ساتھ کسی پاکستانی کی تلخی کا یہ پہلا موقع تھی۔
امریکا اور ہمارا عمر بھر کا ساتھ ہے۔ ہمارے باہمی تعلقات دونوں ملکوں کی ضرورتوں کے مطابق بڑھتے گھٹتے رہے ہیں، میرے خیال میں یہ ہمارے حکمرانوں کا قصور ہے اور بھارتیوں کی چالاکی ہے کہ امریکا بھارت کی طرف زیادہ جھک گیا جب کہ پاکستان ایسا گیا گزرا نہیں تھا کہ بھارت اس پر حاوی ہو جاتا۔
بھارت ایک بڑا ملک ہے، رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بھی، پھر وہ ایک غیر مسلم ملک ہے اور روایتی اور تاریخی طور پر مسلمانوں کے خلاف ہے جس کا اظہار وہ زبانی کلامی بھی اور عملاً بھی کرتا رہتا ہے۔ اب تو اس کی پاکستان دشمنی اس قدر مستحکم ہو چکی ہے کہ اس پر بحث کی گنجائش بھی نہیں رہی۔ آخر کس قانون کے تحت اس نے مشرقی پاکستان پر یک طرفہ حملہ کیا اور ملک کو دو ٹکڑے کر دیا۔
یہ ہماری کمزوری سہی لیکن کسی کمزور پر حملہ اور اس کو ختم کرنے کا آخر کیا جواز ہے اور پھر یہ تاریخی جواز تو غیرت مند پاکستانیوں کو یاد رہنا چاہیے جو مشرقی پاکستان میں کامیابی کے بعد اندرا گاندھی وزیراعظم بھارت نے کہی تھی، ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ یہ اس نے بالکل درست کہا۔ ہمارے ہاں آج کی طرح تب بھی میر جعفر اور صادق موجود تھے جنہوں نے ہندوئوں کے لیے ہمارے راستے ہموار کیے،
ان میں سے آج بھی کوئی واہگہ سرحد کو مسمار کرنے کی فکر میں ہے تو کوئی پاکستان کے جواز کو ہی چیلنج کرتا ہے۔ دو سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کی بات کا تو میں گواہ ہوں جنہوں نے دو ملکوں میں تعلقات کو نئے سرے سے قائم کرنے کی بات کی اور تقسیم کو نشانہ بنایا۔ یہ ٹیلی وژن پر موجود ہے اور پاکستانیوں نے دیکھا بھی ہے۔ یہی سلسلہ سیاست دانوں کے ذریعہ بعض دانشوروں تک پہنچا ہے جو پاکستان کو غیر ضروری اور غیر مفید سمجھتے ہیں یا بعض صورتوں میں نقصان دہ بھی۔ یہ بحث ٹیلی وژن اور اخبارات میں شروع ہو چکی ہے اور رفتہ رفتہ پھیلتی جا رہی ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری ایسی ہی کمزوریاں دشمنوں کو یہ ہمت بھی دیتی ہیں کہ وہ جیتے جاگتے پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔ امریکی صدر اوباما کے اس فوجی مشیر نے حد سے بڑھ کر بات کی ہے، میں اس خاتون کو داد دیتا ہوں جو ہماری وزیر خارجہ ہیں کہ انھوں نے اپنا موقف سختی کے ساتھ بیان کیا اگر اس وقت وہ اپنی پارٹی کے اثر میں ہوتیں تو شاید ایسا لہجہ اختیار نہ کرتیں کیونکہ امریکا کے ساتھ ایسی گستاخی نئی پاکستانی سیاست کے لیے اب موزوں اور مفید نہیں رہی۔
مجھے میری تنہائی کھا جاتی ہے اور جب کوئی ساتھ دینے والا نہیں ملتا تو میں اکیلا پریشان ہو جاتا ہوں۔ کئی دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ پاکستان کے ان دانشوروں سے ان کی زبان میں بات کی جائے جو پاکستان پر اپنی برہمی چھپا نہیں پاتے اور جب بھی موقع ملتا ہے اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
قارئین کو اندازہ ہے کہ ان دنوں پاکستان کو حالات نے اس قدر اہمیت دے دی ہے کہ یہاں کی صنعت میں نہیں یہاں کے میڈیا میں بیرونی سرمایہ کاری بہت بڑھ گئی ہے اور ضرورت کے مطابق بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے حکومتوں کے لیے ایسی سرمایہ کاری کچھ مشکل نہیں ہوتی۔ اس سے زیادہ تو کوئی انجینئر کسی ٹھیکے میں کھا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں اگر شاباش کے ساتھ ساتھ چائے پانی بھی ملتا رہے تو غنیمت ہے جس ملک میں ایک ڈالر قریباً سو روپے کا ہو اس ملک میں تو چند ڈالر ہی بہت ہیں۔ میں اپنے ہم خیال دوستوں سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنے علم اور فن کی زکوٰۃ نکالا کریں اور کبھی کبھار کسی دانشور کی خبر لے لیا کریں۔ میں ان میں سے کئی ایک کو جانتا ہوں،
یہ اندر سے کھوکھلے لوگ ہیں جو کمال جسارت کے ساتھ اپنی تحریروں میں اپنی تعریف خود لکھتے ہیں جو ان کی اصل اوقات کو ظاہر کرتی ہے۔ دراصل ہمارا اشرافیہ ان کا آئیڈیل ہے اور اس کے اسٹائل کی زندگی بسر کرنا ان کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ میں آپ کو ان لوگوں کی اس چھپی خواہش کے نمونے نہیں دکھانا چاہتا پردہ ہی رہے تو بہتر ہے
اب جب بات شروع ہو گئی ہے تو کسی نے میرا ساتھ دیا نہ دیا اور مجھے اپنی بات لکھنے اور اس کے چھپنے کا موقع ملا تو میں اپنی بساط بھر ان کو جواب دینے کی کوشش کروں گا کیونکہ وہ میرے جیسے کرائے کے مکان میں رہنے اور دہاڑی پر زندگی بسر کرنے والے کا کیا بگاڑ لیں گے لیکن جواب دینا تو لازم ہے کہ یہ اس ملک کی مٹی کا حق ہے۔ مجھے یہ شعر صحیح طور پر یاد نہیں لیکن افتخار عارف میرا دوست مجھے معاف کر دے گا
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
ہم مقروض ایسے قرض اتارتے رہیں گے۔