صدر زرداری کی سیاسی بڑھک

کوئی کہانی گھڑ کے دُنیا کے سامنے لانے سے پہلے تھوڑی بہت سوچ بچار بھی کر لینا چاہیے

nusrat.javeed@gmail.com

بڑھک لگانا دُنیا بھر کے سیاستدانوں کی فطری مجبوری ہوا کرتی ہے۔ انھیں سنہرے خواب دکھا کر لوگوں سے ووٹ لینا ہوتے ہیں۔ اقتدار میں ہوں تو اسے بچاکر رکھنا اور طویل تر کرنا ہوتا ہے۔ اس سب کے باوجود کسی بھی سیاستدان کو اپنے حامیوں کو تسلی دینے اور ان کا حوصلہ برقرار رکھنے کے لیے کوئی کہانی گھڑ کے دُنیا کے سامنے لانے سے پہلے تھوڑی بہت سوچ بچار بھی کر لینا چاہیے۔

آصف علی زرداری تو ویسے بھی بڑے حقیقت پسند سیاستدان ہیں۔2008 کے انتخابات کے بعد ان کی جماعت کو محترمہ بینظیر بھٹو کے المناک قتل کے باوجود قومی اسمبلی میں ایسی اکثریت نہیں ملی تھی جو ایک پائیدار اور مستحکم حکومت قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکے۔ اپنی مجبوریوں اور مشکلات کو بڑی عقل مندی سے سمجھتے ہوئے موصوف نے نواز شریف کو بڑا بھائی بنانے کا اعلان کر دیا۔ اپنی جماعت کے قدیمی جیالوں کے دلوں میں جمع غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے ایم کیو ایم سے محبت بڑھائی۔ اے این پی کے اسفندیار ولی کے ساتھ اپنے ذاتی اور خاندانی رشتوں کو پوری طرح استعمال کیا۔

مولانا فضل الرحمن کی چاپلوسی کی۔ بلوچستان سے معافی مانگی اور ''قومی مفاہمت'' کا راگ الاپتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو نہ صرف وزیر اعظم منتخب کرایا بلکہ قومی اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں سے اعتماد کا ووٹ بھی دلوا دیا۔ بات مگر جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی پر آ کر اٹک گئی۔ بالآخر انھیں بحال کرنا ہی پڑا۔ مگر اس بحالی کا حکمران جماعت کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ سارا کریڈٹ نوازشریف اپنے لاہور والے گھر سے پولیس کے ناکے توڑ کر گوجرانوالہ پہنچ جانے کے سبب لے گئے۔

ارادہ ان کا راولپنڈی جانے کا تھا۔ ان کے مارچ اور ارادے نے امریکی وزیر خارجہ کو فون کر نے پر مجبور کر دیا۔ پھر جنرل کیانی بھی متحرک ہوئے اور ان ہی کے فون کے باعث نواز شریف لاہور واپس چلے گئے۔ آزاد عدلیہ بحال ہو کر بھی حکومت کی کوئی مدد نہ کر پائی۔ یوسف رضا گیلانی اور ان کے وزراء کی بری حکومت کو لوگوں کے سامنے بے نقاب کرتی رہی۔ اب تو حالت یہ ہے کہ گیلانی صاحب''وہ چٹھی'' نہ لکھنے کی وجہ سے بہت ساری رسوائی کے بعد فارغ کر دیے گئے ہیں۔

ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف قومی اسمبلی سے211 ووٹ لے کر منتخب ضرور ہو گئے ہیں۔ مگر ہمارا بے باک میڈیا ان کی رخصتی کے دن گن رہا ہے۔ فی الحال 8 اگست تک کی مہلت ہے۔ اسے کہاں تک کھینچا جا سکتا ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی۔ اگرچہ ہمارے ہاں آئین اور قانون کی باریکیوں کو مجھ سے کہیں زیادہ بہتر سمجھنے والے صحافی تواتر سے یہ مشورے دینا شروع ہو گئے ہیں کہ ''اس چٹھی'' کو لکھنے والے معاملے کو ایک اور وزیر ا عظم کو گھر بھیجنے کے بجائے کسی اور طریقے سے سلجھایا جائے۔

ان کے مشوروں کی بھرمار سے تنگ آ کر میری موٹی عقل یہ بات یاد دلانے پر مجبور ہوگئی کہ انصاف سب کے لیے برابر سمجھا جایا کرتا ہے۔ ''راجہ رینٹل'' کے سر میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ ان کے ساتھ گیلانی صاحب سے مختلف سلوک روار کھا جائے۔ میری بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ ''اس چٹھی'' پر ہونے والی آخری سماعت میں جسٹس کھوسہ صاحب اور اٹارنی جنرل عرفان قادر کے درمیان کچھ معنی خیز فقروں کا تبادلہ ہوا۔ ''درمیانی راہ'' کا تذکرہ ہوا۔

آئین اور قانون کی باریکیوں کو مجھ سے کہیں زیادہ بہتر سمجھنے والے ذہین و فطین لکھاریوں نے بڑے فخر سے موٹی عقل والوں کو یاد دلانا شروع کر دیا کہ ''ہم نہ کہتے تھے۔'' یہ الگ بات ہے کہ اگر یہ ذہین وفطین افراد اس ''چٹھی'' کے معاملے پر ہونے والی آخری سماعت کے اختتام پر جاری کردہ حکم کو غور سے پڑھیں تو اس میں ''درمیانی راہ'' نکالنے کی امید بڑھانے والے مکالموں کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ معاملہ وہیں پر اٹکا ہوا نظر آ رہا ہے


جہاں گیلانی صاحب کے آخری دنوں میں پھنسا ہوا نظر آیا کرتا تھا۔ عوام کو تحقیق کی ضرورت محسوس ہوتی ہے نہ کوئی ان کی سہولت کے لیے یہ کام کرنے کا تردد کرتا ہے۔ وہ تو کچھ کہنے کو فسانے ڈھونڈا کرتے ہیں اور آج کل خلق خدا کو بتایا جا رہا ہے کہ میکاولی کا چالاک پاکستانی پیروکار آصف علی زرداری بجائے نئے انتخابات کرانے میں مدد دینے کے موجودہ اسمبلیوں کی مدت کو کم از کم ایک سال بڑھانے کے منصوبے بنا رہا ہے تا کہ وہ انھی اسمبلیوں سے آیندہ پانچ سال کے لیے بھی پاکستان کا صدر منتخب ہو سکے۔

ایم کیو ایم نے گول میز کانفرنس کے لیے جو ملاقاتیں شروع کی تھیں، ان کو مذکورہ بالا منصوبے کا شاخسانہ ہی سمجھا جا رہا ہے۔ میرا ذاتی خیال تو یہی تھا اور اب بھی ہے کہ ایم کیو ایم کی گول میز کانفرنس بلانے کا اصل مقصد دراصل اس ملک کی جماعتوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ ان کا پاکستان پیپلز پارٹی سے کوئی ناقابل تنسیخ نکاح نہیں ہوا ہے۔ سیاست میں ساتھی اور اتحادی مستقل بنیادوں پر نہیں بنایا کرتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حریف اور حلیف بھی بدلتے رہتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف والے اس پیغام کو سمجھ ہی نہ پائے۔ ان کی عدم دلچسپی نے ایم کیو ایم کو پاکستان پیپلز پارٹی سے جڑے رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے منظور وسان ابھی تک وزارتِ داخلہ سے فارغ ہوئے وزیر بے محکمہ بنے اپنے گائوں میں خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھے دہی کھا رہے ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کا تعلق بھی خیرپور ضلع سے ہے۔ ظاہر ہے انھوں نے چن چن کر اپنے بھروسے اور اعتماد کے افسران اس ضلع میں ان محکموں میں لگارکھے ہیں جن سے خلقِ خدا کا واسطہ رہتا ہے۔

افسران مدد نہ کریں تو لوگ سیاستدانوں کے پاس پہنچ کر ان افسروں کو فون کراتے ہیں۔ منظور وسان جیسے ''راندہء درگاہ'' سمجھے جانے والے سیاستدانوں کے فون ''پبلک سرونٹ'' نہیں سنا کرتے۔ اسی لیے تو اگلے روز آصف علی زرداری لاڑکانہ سے ان کے گائوں جا پہنچے۔ اُمید ہے اب منظور وسان کے فون سنے جا رہے ہوں گے۔

میں یہ کالم نہ تو منظور وسان کی بپتا سنانے کے لیے لکھ رہا ہوں نہ ان کا تمسخر اڑانے کے لیے۔ وہ جس دھندے میں ہیں اس میں اس طرح کی اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ مجھے حیران تو آصف علی زرداری کے اس دعویٰ نے کیا ہے جو انھوں نے وسان کے گھر جمع شدہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ موصوف نے بڑھک لگائی ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔ وہاں تک تو بات سمجھی جا سکتی ہے مگر یہ دعویٰ میرے لاہور کی گلی کی زبان میں ''زیادہ میٹھا'' ڈالنے والا تو نہیں ہو گیا کہ آیندہ انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی چاروں، جی ہاں چاروں صوبوں میں اپنی حکومت بنائے گی؟

تمام تر برے حالات کے باوجود آصف علی زرداری اگر سندھ میں آیندہ حکومت بنانے کے دعویدار ہوتے تو مجھے حیرت نہ ہوتی۔ مگر باقی صوبے اور خاص کر پنجاب ان کی جماعت کو اقتدار میں کیوں لائیں گے؟ سچی بات ہے اتوار کی رات سے میں اس سوال پر برابر غور کیے چلا جا رہا ہوں۔ مجھے تو کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ یہ سوال لیکن میرے ذہن سے باہر جا کر ہی نہیں دے رہا۔ وجہ یہ ہے کہ میں پوری طرح جانتا ہوں کہ آصف علی زرداری ایک حقیقت پسند سیاستدان ہیں۔

ان کے ذہن میں یقیناً کوئی منصوبہ ہو گا جس کی بنیاد پر وہ یہ بڑھک لگا بیٹھے ہیں۔ یقیناً منصوبے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ مگر ہمیں ان کا پتہ تو لگنا چاہیے تا کہ ہم ان کا تجزیہ کر سکیں۔ فی الحال تو میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آصف علی زرداری کی خیرپور میں لگائی بڑھک کا تعلق اس گھر سے تو نہیں ہے جو آصف علی زرداری کی ذاتی رہائش کے لیے لاہور ایئرپورٹ کے قریب بڑی تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے؟
Load Next Story