ہمارا ملک دنیا کا امیر ترین ملک
ایک زمانہ تھا کہ سیاست جرأت وہمت، حق گوئی و بے باکی ہوا کرتی تھی
ایک زمانہ تھا کہ سیاست جرأت وہمت، حق گوئی و بے باکی ہوا کرتی تھی اور ساتھ ہی عوامی خدمت، اپنے نظریات، اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے ہر صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی کردار سازی پر بھرپور توجہ دینا۔ مگر آج سیاست نہ عوامی خدمت، نہ نظریہ کا تحفظ نہ اصولوں کی پاسداری بلکہ ذاتی فائدے، شہرت اور مالی منفعت بلکہ صرف اور صرف حصول اقتدار کے لیے کی جا رہی ہے۔
اصولوں اور نظریات کا تو یہ عالم ہے کہ جس سیاسی پارٹی کو ذرا مضبوط دیکھا اپنی پارٹی چھوڑ اس میں مع پوری برادری شمولیت اختیار کرلی، وہاں دال گلتی نظر نہ آئی تو اورکسی پارٹی کا رخ کرلیا بس جہاں پارٹی میں اونچا مقام مل جائے، ایسے میں کوئی کسی نظریہ کہاں اورکیسا؟ میدان سیاست میں قدم رکھ دیا تو پھر چاپلوسی، خوشامد، جی حضوری ہی اصول زندگی۔ کسی بھی پارٹی میں ہوں اس اصول کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ آج کی سیاست میں تو جس کو دیکھو اس کی نظر کرسیٔ وزارت عظمیٰ پر مرکوز ہے۔کیا جوان کیا بوڑھا، کیا نیا، کیا گھاگ بلکہ عمر بھر میدان سیاست کے شہسوار رہے ہوں۔
حتیٰ کہ کیا باپ اور کیا بیٹا سب کے سب مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے سہانے سپنے دیکھنے میں مصروف ہیں قطع نظر اس سے کہ اپنے ووٹر کے لیے کچھ کیا اور نہ کچھ کرنے کا آیندہ کوئی ارادہ۔ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ جو کرسیٔ اقتدار پر ایک بار بیٹھ گیا پھر وہ ازخود یہ کرسی چھوڑنے پر ہرگز آمادہ نہیں ہوتا۔ مخالفین کی ہر چال بڑے سے بڑا طوفان (سیاسی، معاشی، ناکارکردگی) انھیں ٹس سے مس نہیں کرسکتا۔
ملک میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی جان دہشت گردی، سیاسی مخالفت، مذہبی جنونیت، بیروزگاری، فاقہ کشی کسی بھی طرح جاتی ہے تو جائے مگر ملک کا جو ایک عدد وزیر داخلہ ہوتا ہے کہ جو ہر داخلی معاملے کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے وہ مجال ہے کہ کسی بھی دردناک، وحشت ناک واقعے پر ذرا بھی خود کو ذمے دار سمجھ لے کیونکہ یہ معاملہ ضمیرکا ہے اگر وہ زندہ ہو (ویسے آج پاکستان میں لوگوں کی اردو اتنی ناقص ہوچکی ہے کہ وہ ضمیر کے معنی ہی نہیں جانتے) اور نہ ہمارے صاحبان اقتدار کسی مہذب ملک کے باشندے ہیں کہ ذرا ذرا سے واقعے پر ازخود (عوام مطالبہ نہ کریں) اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مستعفی ہوجاتے ہیں۔
یہاں یہ عالم ہے کہ مہذب معاشروں سے سیاسی اصول سیکھیں نہ سیکھیں وہاں جائیدادیں بنانے کے گُر ضرور سیکھ لیتے ہیں اورحمایتیوں کا ٹولہ باآواز بلند فرماتا ہے کہ کیوں دیں ہمارے لیڈر استعفیٰ ملک میں جو اچھا برا ہو رہا ہے اس کے وہ ذمے دار نہیں، اول برا کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے۔ غرض یہ کہ ملک لوٹ لیں، کسی کے ہاتھ بیچ دیں یا گروی رکھ دیں یہ حق ان کو عوام نے خود اپنے ووٹ سے منتخب کرکے دیا ہے۔
اب دوسرے مرد میدان سیاست ملکی وقارکو داؤ پر لگا کر کسی سپر پاور کے حکمران کی خوشامد کرکے ان کے مفادات پر خفیہ معاہدے (وعدے) کرکے آیندہ انتخابات میں کچھ ایسی چال چلنے کچھ ایسی دھمکیاں دیں کہ کچھ ہمارے لیے راستہ ہموار ہو۔ یا پھر انتخابات میں بڑی منظم دھاندلی کرکے ہی اقتدار چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں دہشت گردوں کی آشیرباد بھی لی جاسکتی ہے (2013 کے انتخابات میں سوائے 2 پارٹیوں کے باقی سب کو دہشت گردوں نے زد پر لیا ہوا تھا) غرض یہ کہ صورتحال کچھ بھی ہو عوام تو بے چارے نہ پہلے کسی کو اپنے ووٹ سے لائے تھے اور نہ آیندہ لائیں گے۔
ملک میں ہر پانچ سال بعد انتخابی میلہ لگتا ہے۔ قوم کی رہی سہی دولت (جو گرینڈ بدعنوانی سے بچ جاتی ہے) بھی انتخاب پر بڑے پیمانے پر لٹائی جاتی ہے، چہرے یا پارٹی بدل بھی جائے تو طرز حکمرانی بھلا کہاں بدلتا ہے۔ عوام کو حکمرانوں سے جو شکایات برسوں پہلے تھیں آج بھی جوں کی توں ہیں بلکہ آج کل تو وطن عزیز کا کوئی ادارہ بھی ایسا نہیں جہاں اربوں نہیں کروڑوں کی بدعنوانی نہ ہوچکی ہو۔
اگر کسی میں کچھ شرافت یا دیانت داری باقی ہے تو لوگ اس کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کہ یہ بھی بس دکھاوا ہے۔ کوئی اگر اپنی جائز آمدنی سے گزر بسر کر رہا ہے تو بھی لوگوں کو یقین نہیں آتا کہ اس دور میں کوئی ایسا ''معصوم'' بھی ہوسکتا ہے کہ بہتی گنگا میں ہاتھ بھی نہ دھوئے، بڑا چالاک ہے جانے کتنی جائیداد خاندان والوں کے دیگر افراد کے نام سے بنالی ہوگی اور بظاہر سادہ طرز رہائش اختیار کر رکھا ہے۔ یہ تاثر یوں بھی ہے ہر روز ذرایع ابلاغ دو چار اداروں اور کئی نامور شخصیات کے بارے میں اربوں کی کرپشن کی اطلاع دیتے ہیں۔ عوام بے چارے جن کو اگر کہیں گرا پڑا سو روپے کا نوٹ بھی مل جائے تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی بڑی رقم کو کیسے خرچ کریں وہ بے چارے تو حیرت سے سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ کروڑوں، اربوں آخر ہمارے ملک میں آئے کہاں سے اور گئے کہاں؟ اگر ہمارے ملک میں اتنا پیسہ ہے تو پھر ہم پسماندہ و غریب کیوں ہیں۔
یہ ان عوام کی بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے کہ اتنا کچھ ہے تو کیا وہ ملک اور عوام کے لیے ہے؟ وہ تو صرف چند افراد بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے بھی ورکرز نہیں لیڈران کے لیے ہے۔ اگلے انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں۔ عوام سے دلکش وعدے ہر لیڈر کی زبان پر ہیں چار سال حکومت سندھ کو اور نہ وفاقی حکومت کو سندھ اور کراچی کے حالات نظر ہی نہ آئے۔
مگر اب تو وفاقی حکمران بھی سندھ کو پنجاب (لاہور) نہیں بلکہ سوئٹزرلینڈ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ دراصل پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے کاموں میں اتنے مصروف تھے کہ صوبوں کا خیال ہی نہ آیا (گویا صوبے پاکستان نہیں ہیں) اب سارے بنیادی مسائل تمام ہمسایوں سے بہتر تعلقات، ہر طرح کی دہشت گردی اور خارجہ معاملات کو بحسن و خوبی طے کرکے جو فرصت ہوئی (کمر سیدھی کی) تو صوبوں بطور خاص سندھ کے دگرگوں حالات پر بھی نظر پڑی سوچا جو وقت بچا ہے اس میں سندھ کو بھی بنا سنوار کر ان کے ووٹ بھی حاصل کیے جائیں تو اگلے انتخابات میں بھی ہماری کامیابی یقینی ہے۔ یوں بھی حکومت سندھ نے چار سال کھلی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرکے اپنے نامہ اعمال کو مزید سیاہ کرلیا ہے۔
اس کا انداز یہ ہے کہ کھاتے بھی ہیں اور چھپاتے بھی نہیں جب کہ کھا تو دوسرے صوبے بھی رہے ہیں مگر وہ اس کو کچھ نہ کچھ کرکے چھپا جاتے ہیں۔ لہٰذا اب سندھ بھی وفاق کی ذمے داری قرار پایا ہے۔ یہ الگ بات کہ چاہے وہ وفاق ہو یا صوبہ محض بڑے بڑے منصوبوں کے اعلانات صورتحال تبدیل نہیں کرتے بلکہ ان منصوبوں کو بروقت (جو اب ہے ہی نہیں) پورا کرنے سے ترقی ہوتی ہے۔
اصولوں اور نظریات کا تو یہ عالم ہے کہ جس سیاسی پارٹی کو ذرا مضبوط دیکھا اپنی پارٹی چھوڑ اس میں مع پوری برادری شمولیت اختیار کرلی، وہاں دال گلتی نظر نہ آئی تو اورکسی پارٹی کا رخ کرلیا بس جہاں پارٹی میں اونچا مقام مل جائے، ایسے میں کوئی کسی نظریہ کہاں اورکیسا؟ میدان سیاست میں قدم رکھ دیا تو پھر چاپلوسی، خوشامد، جی حضوری ہی اصول زندگی۔ کسی بھی پارٹی میں ہوں اس اصول کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ آج کی سیاست میں تو جس کو دیکھو اس کی نظر کرسیٔ وزارت عظمیٰ پر مرکوز ہے۔کیا جوان کیا بوڑھا، کیا نیا، کیا گھاگ بلکہ عمر بھر میدان سیاست کے شہسوار رہے ہوں۔
حتیٰ کہ کیا باپ اور کیا بیٹا سب کے سب مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے سہانے سپنے دیکھنے میں مصروف ہیں قطع نظر اس سے کہ اپنے ووٹر کے لیے کچھ کیا اور نہ کچھ کرنے کا آیندہ کوئی ارادہ۔ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ جو کرسیٔ اقتدار پر ایک بار بیٹھ گیا پھر وہ ازخود یہ کرسی چھوڑنے پر ہرگز آمادہ نہیں ہوتا۔ مخالفین کی ہر چال بڑے سے بڑا طوفان (سیاسی، معاشی، ناکارکردگی) انھیں ٹس سے مس نہیں کرسکتا۔
ملک میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی جان دہشت گردی، سیاسی مخالفت، مذہبی جنونیت، بیروزگاری، فاقہ کشی کسی بھی طرح جاتی ہے تو جائے مگر ملک کا جو ایک عدد وزیر داخلہ ہوتا ہے کہ جو ہر داخلی معاملے کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے وہ مجال ہے کہ کسی بھی دردناک، وحشت ناک واقعے پر ذرا بھی خود کو ذمے دار سمجھ لے کیونکہ یہ معاملہ ضمیرکا ہے اگر وہ زندہ ہو (ویسے آج پاکستان میں لوگوں کی اردو اتنی ناقص ہوچکی ہے کہ وہ ضمیر کے معنی ہی نہیں جانتے) اور نہ ہمارے صاحبان اقتدار کسی مہذب ملک کے باشندے ہیں کہ ذرا ذرا سے واقعے پر ازخود (عوام مطالبہ نہ کریں) اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مستعفی ہوجاتے ہیں۔
یہاں یہ عالم ہے کہ مہذب معاشروں سے سیاسی اصول سیکھیں نہ سیکھیں وہاں جائیدادیں بنانے کے گُر ضرور سیکھ لیتے ہیں اورحمایتیوں کا ٹولہ باآواز بلند فرماتا ہے کہ کیوں دیں ہمارے لیڈر استعفیٰ ملک میں جو اچھا برا ہو رہا ہے اس کے وہ ذمے دار نہیں، اول برا کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے۔ غرض یہ کہ ملک لوٹ لیں، کسی کے ہاتھ بیچ دیں یا گروی رکھ دیں یہ حق ان کو عوام نے خود اپنے ووٹ سے منتخب کرکے دیا ہے۔
اب دوسرے مرد میدان سیاست ملکی وقارکو داؤ پر لگا کر کسی سپر پاور کے حکمران کی خوشامد کرکے ان کے مفادات پر خفیہ معاہدے (وعدے) کرکے آیندہ انتخابات میں کچھ ایسی چال چلنے کچھ ایسی دھمکیاں دیں کہ کچھ ہمارے لیے راستہ ہموار ہو۔ یا پھر انتخابات میں بڑی منظم دھاندلی کرکے ہی اقتدار چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں دہشت گردوں کی آشیرباد بھی لی جاسکتی ہے (2013 کے انتخابات میں سوائے 2 پارٹیوں کے باقی سب کو دہشت گردوں نے زد پر لیا ہوا تھا) غرض یہ کہ صورتحال کچھ بھی ہو عوام تو بے چارے نہ پہلے کسی کو اپنے ووٹ سے لائے تھے اور نہ آیندہ لائیں گے۔
ملک میں ہر پانچ سال بعد انتخابی میلہ لگتا ہے۔ قوم کی رہی سہی دولت (جو گرینڈ بدعنوانی سے بچ جاتی ہے) بھی انتخاب پر بڑے پیمانے پر لٹائی جاتی ہے، چہرے یا پارٹی بدل بھی جائے تو طرز حکمرانی بھلا کہاں بدلتا ہے۔ عوام کو حکمرانوں سے جو شکایات برسوں پہلے تھیں آج بھی جوں کی توں ہیں بلکہ آج کل تو وطن عزیز کا کوئی ادارہ بھی ایسا نہیں جہاں اربوں نہیں کروڑوں کی بدعنوانی نہ ہوچکی ہو۔
اگر کسی میں کچھ شرافت یا دیانت داری باقی ہے تو لوگ اس کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کہ یہ بھی بس دکھاوا ہے۔ کوئی اگر اپنی جائز آمدنی سے گزر بسر کر رہا ہے تو بھی لوگوں کو یقین نہیں آتا کہ اس دور میں کوئی ایسا ''معصوم'' بھی ہوسکتا ہے کہ بہتی گنگا میں ہاتھ بھی نہ دھوئے، بڑا چالاک ہے جانے کتنی جائیداد خاندان والوں کے دیگر افراد کے نام سے بنالی ہوگی اور بظاہر سادہ طرز رہائش اختیار کر رکھا ہے۔ یہ تاثر یوں بھی ہے ہر روز ذرایع ابلاغ دو چار اداروں اور کئی نامور شخصیات کے بارے میں اربوں کی کرپشن کی اطلاع دیتے ہیں۔ عوام بے چارے جن کو اگر کہیں گرا پڑا سو روپے کا نوٹ بھی مل جائے تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی بڑی رقم کو کیسے خرچ کریں وہ بے چارے تو حیرت سے سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ کروڑوں، اربوں آخر ہمارے ملک میں آئے کہاں سے اور گئے کہاں؟ اگر ہمارے ملک میں اتنا پیسہ ہے تو پھر ہم پسماندہ و غریب کیوں ہیں۔
یہ ان عوام کی بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے کہ اتنا کچھ ہے تو کیا وہ ملک اور عوام کے لیے ہے؟ وہ تو صرف چند افراد بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے بھی ورکرز نہیں لیڈران کے لیے ہے۔ اگلے انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں۔ عوام سے دلکش وعدے ہر لیڈر کی زبان پر ہیں چار سال حکومت سندھ کو اور نہ وفاقی حکومت کو سندھ اور کراچی کے حالات نظر ہی نہ آئے۔
مگر اب تو وفاقی حکمران بھی سندھ کو پنجاب (لاہور) نہیں بلکہ سوئٹزرلینڈ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ دراصل پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے کاموں میں اتنے مصروف تھے کہ صوبوں کا خیال ہی نہ آیا (گویا صوبے پاکستان نہیں ہیں) اب سارے بنیادی مسائل تمام ہمسایوں سے بہتر تعلقات، ہر طرح کی دہشت گردی اور خارجہ معاملات کو بحسن و خوبی طے کرکے جو فرصت ہوئی (کمر سیدھی کی) تو صوبوں بطور خاص سندھ کے دگرگوں حالات پر بھی نظر پڑی سوچا جو وقت بچا ہے اس میں سندھ کو بھی بنا سنوار کر ان کے ووٹ بھی حاصل کیے جائیں تو اگلے انتخابات میں بھی ہماری کامیابی یقینی ہے۔ یوں بھی حکومت سندھ نے چار سال کھلی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرکے اپنے نامہ اعمال کو مزید سیاہ کرلیا ہے۔
اس کا انداز یہ ہے کہ کھاتے بھی ہیں اور چھپاتے بھی نہیں جب کہ کھا تو دوسرے صوبے بھی رہے ہیں مگر وہ اس کو کچھ نہ کچھ کرکے چھپا جاتے ہیں۔ لہٰذا اب سندھ بھی وفاق کی ذمے داری قرار پایا ہے۔ یہ الگ بات کہ چاہے وہ وفاق ہو یا صوبہ محض بڑے بڑے منصوبوں کے اعلانات صورتحال تبدیل نہیں کرتے بلکہ ان منصوبوں کو بروقت (جو اب ہے ہی نہیں) پورا کرنے سے ترقی ہوتی ہے۔