تزکیۂ نفس تطہیر قلب اور رمضان المبارک
روزہ انسانوں کو تقویٰ، ضبطِ نفس، شکر گزاری، ہم دردی، ایثار و قناعت کا خوگر بناتا ہے۔
خواہشات نفسانی کی پیروی انسان کو صراطِ مستقیم سے ہٹا دیتی ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے تقویٰ کا حصول شرطِ اول ہے۔ ہمارا رب چوں کہ نوع انسانی اور خصوصاً امتِ خاتم النبیینؐ پر بہت مہربان ہے اس لیے اس نے مختلف عبادات اور طرز معاشرت کے سنہری اصول دے کر ہمارے لیے اس راہ تک رسائی سہل کردی ہے۔ اسلام یقینا دین فطرت ہے، سو وہ انسان کی پاکیزگی و طہارت پر زور دیتا ہے چاہے وہ ظاہری ہو یا باطنی، مثلاً نماز ظاہری و باطنی پاکیزگی کے حصول کا وہ ذریعہ ہے جس کے لیے کہا گیا : ''بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔''
(سورۃ المعارج:34)
اسی طرح زکوٰۃ کے بارے میں کہا گیا :'' آپ اِن کے مالوں سے صدقہ لیجیے۔ آپ اس کے ذریعے انہیں پاک صاف کردیںگے۔'' (سورۂ توبہ، آیت103)
ازروئے حدیث جس مال میں سے زکوٰۃ نہ نکالی جائے اور اسی مال میں ملی جلی رہے وہ سارے مال کو ناپاک و تباہ کردیتی ہے۔ ان بدنی و مالی عبادات سے ظاہر ہوا کہ ان کا مقصد پاکیزگی و تقویٰ کے ذریعے قرب ربانی کا حصول ہے۔ اسی طرح سے روزے کے لیے فرمایا گیا: ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کیے گئے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔'' (سورۂ بقرہ آیت 183)
رب کے ارشاد کے مطابق روزہ حصول تقویٰ کا ذریعہ ہے۔ پہلی امتوں پر بھی بالخصوص اس عبادات کی فرضیت کا تذکرہ کھلے لفظوں میں کردیا گیا ہے۔ دین کی اتباع اسی صورت ممکن ہے جب نفس کے بے لگام گھوڑے اور منہ زور خواہشات کو قابو کرلیا جائے۔
روزہ انسانوں کو تقویٰ، ضبطِ نفس، شکر گزاری، انسانی ہم دردی، باہمی ایثار و قناعت اور معاشی تعاون کا مقلد بناتا ہے جس طرح سے روح کے بغیر مادی جسم بے کار ہے اسی طرح اگر روزہ اخلاص، تقویٰ اور بے ریائی سے عاری ہو تو محض بھوک پیاس رہ جاتی ہے۔
اس ضمن میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ''جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ عز و جل کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑدے۔'' (بخاری)
مختصراً کہا جائے تو یہ بے جا نہیں ہوگا کہ رمضان المبارک ضبطِ نفس کے لیے تربیتی پروگرام ہے جو تطہیر قلب کے لیے ایک تیر بہ ہدف نسخہ ہے۔ جسے اگر ایک ماہ کے لیے اپنی اصل روح کے ساتھ اپنے آپ پر لاگو کیا جائے تو سارے سال کے لیے تقویٰ، پرہیز گاری، ایثار، باہمی ہم دردی اور تزکیہ و ضبط نفس جیسی عمدہ خوبیوں کو اختیار کرنا سہل ہوجاتا ہے۔ روزہ ہمیں درس دیتا ہے کہ صبر کو پوری روح کے ساتھ اختیار کیا جائے یعنی اگر کوئی ناانصافی بھی کررہا ہو تو احسن طریقے سے نمٹا جائے، بدکلامی، تکرار اور جھگڑے کی نوبت نہ آئے، حلم اور بردباری ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ صفات میں سے ایک ہے، جس کی بنیاد پر جدِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم ؑ، خلیل اللہ کہلائے۔ یہ برداشت، صبر، حلم و بردباری روزے کی زینت ہے۔ اس ضمن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''روزہ ڈھال ہے، لہٰذا روزہ رکھنے والا نہ بے ہودہ بات کرے اور نہ جاہلوں والے کام کرے، اگر کوئی اس سے جھگڑا کرے یا برا بھلا کہے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔''
یہ جملہ جھگڑے اور فساد پر اُکسانے والے نفسِ انسانی اور شیطانِ رجیم کے داؤ پر ایک کاری وار ثابت ہوتا ہے نہ صرف یہ بل کہ آپ کے ساتھ جھگڑے و تکرار پر مائل بندے کی اصلاح کی طرف ایک مثبت پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے۔
جو لوگ اس درجہ ظاہری و باطنی اہتمام و احتساب کے ساتھ ماہ صیام کے روزے رکھتے ہیں ان کے لیے رب کائنات نے کیا کیا انعامات، فضائل اور بشارتیں رکھی ہیں۔ ارشاداتِ ربانی اور احادیثِ نبویؐ کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے:
ارشاد ربانی: ''روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوںگا''
''روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی تو اسے افطار کے وقت ملتی ہے اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ملے گی''
(حدیثِ قدسی۔ابن ماجہ، السنن، فضل الصیام)
احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
''روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریںگے، روزہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش کو پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات کے سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا۔ آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ چناں چہ روزے اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندے کے حق میں قبول کی جائے گی اور اس کے لیے مغفرت اور جنت کا فیصلہ فرمادیا جائے گا۔
(راوی حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ بیہقی، شعب الایمان)
'' جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جسے ''باب الریان'' کہا جاتا ہے اس دروازے سے قیامت کے روز صرف روزے داروں کا داخلہ ہوگا، ان کے سوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہ ہوسکے گا، اس دن پکارا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ بندے جو اللہ کے لیے روزے رکھا کرتے تھے، وہ اس پکار پر چل پڑیںگے، ان کے سوا اس دروازے سے کسی اور کا داخلہ نہیں ہوسکے گا جب وہ روزے دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیںگے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔ پھر کسی کا اس سے داخلہ نہ ہوسکے گا۔'' (بخاری، الجامع الصحیح)
اتنے انعامات و فضائل کا ذکر اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک ماہ صیام کی اہمیت کو بھی واضح کرتا ہے اور سچے روزے داروں کے اعمال کی محبوبیت اور مقبولیت کو بھی۔ ان اعمال میں جہاں دیگر عبادات مثلاً نماز، تسبیح، تلاوت کلام پاک، قیام اللیل شامل ہیں وہیں ایک بہت اعلیٰ عمل خدا کی راہ میں صدقہ یا انفاق فی سبیل اللہ بھی بڑی اہمیت کا حامل اور جزا آفریں ہے۔
صدقے کے متعلق کہا گیا : ''صدقہ کرنے میں جلدی کرو کیوں کہ بلائیں صدقے سے آگے نہیں بڑھ سکتی ہیں بل کہ صدقے سے رک جاتی ہیں۔'' (مشکوٰۃ)
'' قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہ ہوگا تو صدقہ مومن پر سایہ بن جائے گا۔'' (احمد)
ضرورت و اہمیت اس بات کی ہے کہ دیگر نیکیوں کے ساتھ اس ماہ مبارک میں صدقات و خیرات کا اہتمام کریں۔ سحر و افطار کے مواقع پر ان دینی بہن بھائیوں کے لیے بھی انتظام ہو جو مسکین ہیں اور لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ جن کی زندگی اپنی سفید پوشی کے بھرم رکھنے میں گزر جاتی ہے۔ رب کے دیے ہوئے میں سے ایسے لوگوں کا حصہ نکالنا ہی اصل خوشی ہے۔ اپنی حیات میں ماہ صیام کو پانا اپنی خوش بختی سمجھیں اور اس کی پرنور و روح پرور ساعتوں سے نیکیوں، بھلائیوں، صبر و برداشت اور باہمی ایثار کے ذریعے اپنے رب کی رضا و خوش نودی کشید کریں تاکہ ہماری مغفرت ممکن ہوپائے اور اس دروازۂ خاص سے گزر کر جنت میں داخلے کے حق دار ٹھہریں۔
(سورۃ المعارج:34)
اسی طرح زکوٰۃ کے بارے میں کہا گیا :'' آپ اِن کے مالوں سے صدقہ لیجیے۔ آپ اس کے ذریعے انہیں پاک صاف کردیںگے۔'' (سورۂ توبہ، آیت103)
ازروئے حدیث جس مال میں سے زکوٰۃ نہ نکالی جائے اور اسی مال میں ملی جلی رہے وہ سارے مال کو ناپاک و تباہ کردیتی ہے۔ ان بدنی و مالی عبادات سے ظاہر ہوا کہ ان کا مقصد پاکیزگی و تقویٰ کے ذریعے قرب ربانی کا حصول ہے۔ اسی طرح سے روزے کے لیے فرمایا گیا: ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کیے گئے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔'' (سورۂ بقرہ آیت 183)
رب کے ارشاد کے مطابق روزہ حصول تقویٰ کا ذریعہ ہے۔ پہلی امتوں پر بھی بالخصوص اس عبادات کی فرضیت کا تذکرہ کھلے لفظوں میں کردیا گیا ہے۔ دین کی اتباع اسی صورت ممکن ہے جب نفس کے بے لگام گھوڑے اور منہ زور خواہشات کو قابو کرلیا جائے۔
روزہ انسانوں کو تقویٰ، ضبطِ نفس، شکر گزاری، انسانی ہم دردی، باہمی ایثار و قناعت اور معاشی تعاون کا مقلد بناتا ہے جس طرح سے روح کے بغیر مادی جسم بے کار ہے اسی طرح اگر روزہ اخلاص، تقویٰ اور بے ریائی سے عاری ہو تو محض بھوک پیاس رہ جاتی ہے۔
اس ضمن میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ''جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ عز و جل کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑدے۔'' (بخاری)
مختصراً کہا جائے تو یہ بے جا نہیں ہوگا کہ رمضان المبارک ضبطِ نفس کے لیے تربیتی پروگرام ہے جو تطہیر قلب کے لیے ایک تیر بہ ہدف نسخہ ہے۔ جسے اگر ایک ماہ کے لیے اپنی اصل روح کے ساتھ اپنے آپ پر لاگو کیا جائے تو سارے سال کے لیے تقویٰ، پرہیز گاری، ایثار، باہمی ہم دردی اور تزکیہ و ضبط نفس جیسی عمدہ خوبیوں کو اختیار کرنا سہل ہوجاتا ہے۔ روزہ ہمیں درس دیتا ہے کہ صبر کو پوری روح کے ساتھ اختیار کیا جائے یعنی اگر کوئی ناانصافی بھی کررہا ہو تو احسن طریقے سے نمٹا جائے، بدکلامی، تکرار اور جھگڑے کی نوبت نہ آئے، حلم اور بردباری ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ صفات میں سے ایک ہے، جس کی بنیاد پر جدِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم ؑ، خلیل اللہ کہلائے۔ یہ برداشت، صبر، حلم و بردباری روزے کی زینت ہے۔ اس ضمن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''روزہ ڈھال ہے، لہٰذا روزہ رکھنے والا نہ بے ہودہ بات کرے اور نہ جاہلوں والے کام کرے، اگر کوئی اس سے جھگڑا کرے یا برا بھلا کہے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔''
یہ جملہ جھگڑے اور فساد پر اُکسانے والے نفسِ انسانی اور شیطانِ رجیم کے داؤ پر ایک کاری وار ثابت ہوتا ہے نہ صرف یہ بل کہ آپ کے ساتھ جھگڑے و تکرار پر مائل بندے کی اصلاح کی طرف ایک مثبت پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے۔
جو لوگ اس درجہ ظاہری و باطنی اہتمام و احتساب کے ساتھ ماہ صیام کے روزے رکھتے ہیں ان کے لیے رب کائنات نے کیا کیا انعامات، فضائل اور بشارتیں رکھی ہیں۔ ارشاداتِ ربانی اور احادیثِ نبویؐ کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے:
ارشاد ربانی: ''روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوںگا''
''روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی تو اسے افطار کے وقت ملتی ہے اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ملے گی''
(حدیثِ قدسی۔ابن ماجہ، السنن، فضل الصیام)
احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
''روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریںگے، روزہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش کو پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات کے سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا۔ آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ چناں چہ روزے اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندے کے حق میں قبول کی جائے گی اور اس کے لیے مغفرت اور جنت کا فیصلہ فرمادیا جائے گا۔
(راوی حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ بیہقی، شعب الایمان)
'' جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جسے ''باب الریان'' کہا جاتا ہے اس دروازے سے قیامت کے روز صرف روزے داروں کا داخلہ ہوگا، ان کے سوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہ ہوسکے گا، اس دن پکارا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ بندے جو اللہ کے لیے روزے رکھا کرتے تھے، وہ اس پکار پر چل پڑیںگے، ان کے سوا اس دروازے سے کسی اور کا داخلہ نہیں ہوسکے گا جب وہ روزے دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیںگے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔ پھر کسی کا اس سے داخلہ نہ ہوسکے گا۔'' (بخاری، الجامع الصحیح)
اتنے انعامات و فضائل کا ذکر اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک ماہ صیام کی اہمیت کو بھی واضح کرتا ہے اور سچے روزے داروں کے اعمال کی محبوبیت اور مقبولیت کو بھی۔ ان اعمال میں جہاں دیگر عبادات مثلاً نماز، تسبیح، تلاوت کلام پاک، قیام اللیل شامل ہیں وہیں ایک بہت اعلیٰ عمل خدا کی راہ میں صدقہ یا انفاق فی سبیل اللہ بھی بڑی اہمیت کا حامل اور جزا آفریں ہے۔
صدقے کے متعلق کہا گیا : ''صدقہ کرنے میں جلدی کرو کیوں کہ بلائیں صدقے سے آگے نہیں بڑھ سکتی ہیں بل کہ صدقے سے رک جاتی ہیں۔'' (مشکوٰۃ)
'' قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہ ہوگا تو صدقہ مومن پر سایہ بن جائے گا۔'' (احمد)
ضرورت و اہمیت اس بات کی ہے کہ دیگر نیکیوں کے ساتھ اس ماہ مبارک میں صدقات و خیرات کا اہتمام کریں۔ سحر و افطار کے مواقع پر ان دینی بہن بھائیوں کے لیے بھی انتظام ہو جو مسکین ہیں اور لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ جن کی زندگی اپنی سفید پوشی کے بھرم رکھنے میں گزر جاتی ہے۔ رب کے دیے ہوئے میں سے ایسے لوگوں کا حصہ نکالنا ہی اصل خوشی ہے۔ اپنی حیات میں ماہ صیام کو پانا اپنی خوش بختی سمجھیں اور اس کی پرنور و روح پرور ساعتوں سے نیکیوں، بھلائیوں، صبر و برداشت اور باہمی ایثار کے ذریعے اپنے رب کی رضا و خوش نودی کشید کریں تاکہ ہماری مغفرت ممکن ہوپائے اور اس دروازۂ خاص سے گزر کر جنت میں داخلے کے حق دار ٹھہریں۔