سواے ہم نفساں میں لکھتا ہوں
ایک زمانہ تھا جب اس قبیل کی باتیں، خیالات اور تقریریں بہت فیشن میں تھیں۔
KARACHI:
کسی کو ضرورت پیش نہیں آتی کہ وہ اُٹھے اور جا کر مور سے پوچھے کہ اُس پر یک لخت رقص کی کیفیت کیوں طاری ہوجاتی ہے؟
کوئل سے بھی جاکر کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ کیا شے ہے جو اُسے کوکنے پر اُکساتی ہے۔ کسی کو نہیں دیکھا کہ آہوئے رم خورد سے اس کا حال جاننے کی کوشش کرتا ہو۔ لالہ و گل، نسرین و نسترن یا رات کی رانی اور چنبیلی سے بھی رنگ اور خوش بو بکھرانے کا سوال کرنے کا خیال کسی کو نہیں آتا۔ البتہ ادیب سے اور شاعر سے یہ پوچھنے کا موقع گاہے بہ گاہے نکلتا ہی رہتا ہے کہ بھائی آخر تم کیوں لکھتے ہو؟ سوچنا چاہیے کہ آخر رہ رہ کر یہ سوال کیوں کیا جاتا ہے کیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کے کام کو ہر دور اپنے مخصوص منطقی اور عقلی جواز سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتا ہے؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس تفتیش کے پس منظر میں یہ خواہش کارفرما ہو کہ ادیب شاعر سے اقرار حاصل کر لیا جائے کہ وہ فرضِ کفایہ ادا کر رہا ہے، یعنی اپنے زمانے اور اپنی بستی کی اجتماعی ذمہ داری کو اس شخص نے اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھا ہے۔ سو اہلِ دنیا، اہلِ زمانہ کی اپنے فرض سے رُوگردانی پر یہ بستی عذاب سے دوچار نہیں ہوگی۔
وجہ کچھ بھی ہو، یہ طے ہے کہ ادیب و شاعر صرف اپنا کام ہی نہیں کرتے، بلکہ اس کے لیے جواز بھی پیش کرتے ہیں۔ چلیے یوں ہی سہی۔ یہی کیا کم ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، اسے مان لیا جاتا ہے۔ اس پر اعتبار کیا جاتا ہے۔ گویا انھیں اس استفسار کا برا نہیں ماننا چاہیے، بلکہ اس سے تقویت حاصل کرنی چاہیے اور زبانِ حال سے کہنا چاہیے:
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے
خیر، اگر آدمی لکھتا لکھاتا ہے تو پھر اُس کے لیے جواز جوئی میں بھی کیا قباحت ہے، خصوصاً اگر یہ سوال کسی فیشن میگزین یا ٹی وی کے پروگرام میں کر لیا جائے تو آدمی جو جی میں آئے کہہ دے۔ کسی کو کیا فرق پڑتا ہے اور کون ایسی کسی بات پر بھلا زیادہ سنجیدہ ہوتا ہے۔ تاہم اگر یہ سوال کوئی صاحب نظر کرتا ہو تو پھر سوچ سمجھ کر جواب دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ اہلِ نظر سے کچھ کہتے یا پوچھتے ہوئے دراصل گفتگو کی سطح بدل جاتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب اس قبیل کی باتیں، خیالات اور تقریریں بہت فیشن میں تھیں۔ لوگ نہایت طمطراق سے بڑی دانش وری بگھارتے تھے۔ کوئی سماج سدھارنا چاہتا تھا، کسی کو انقلاب لانے کی فکر تھی، کسی کو ڈوبتی انسانیت کا غم لاحق تھا اور کسی پر انسان کو اُس کے اصل منصب پر فائز یا بحال کرانے کی دُھن سوار تھی۔ غرضے کہ اپنے لکھنے لکھانے کی غرض و غایت کے کھاتے میں بڑے بڑے عزائم کا بارِگراں ادیبوں شاعروں نے جانِ ناتواں پر لاد لیا تھا۔ اس امر کے اعتراف میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ اُس وقت جو لوگ اپنے لکھنے کا جواز ایسے بڑے بڑے دعووں کی صورت میں بیان کررہے تھے وہ سب کے سب محض فیشن پرستی کی موج میں بہنے والے لوگ نہیں ہوں گے۔
ماننا چاہیے کہ ان میں کچھ لوگ سچ مچ کے تیس مارخاں بھی ہوں گے، جو حقیقتاً ویسا ہی سمجھتے ہوں گے اور وہی کچھ کرنے کی آرزو بھی رکھتے ہوں گے، جیسا وہ کہتے تھے، لیکن ماجرا تو انھیں بھی وہی پیش آیا جو فیشن پرستوں کی تقدیر بنا۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ فیشن پرستی کی بلاخیز آندھی خس و خاشاک کو ہی نہیں اُڑا لے جاتی، بلکہ اچھے خاصے پیڑوں کو بھی جھاڑتے اور روندتے ہوئے جاتی ہے۔ اب جو پلٹ کر دیکھیے تو ہنسی آتی ہے اور ساتھ ہی عبرت کا سامان بھی ہوجاتا ہے۔
ادیب چاہے جیسا بھی ہو پر ایسا گنوار ہرگز نہ ہو کہ فیشن کے گھوڑے کی پیٹھ پر سواری گانٹھنے کی کوشش کرے یا پھر منہ سے بڑا لقمہ حلق میں ٹھونستا دکھائی دے۔ ادب میں فیشن در آئے تو ادیب بھی لامحالہ لکی ایرانی سرکس کے مسخروں جیسی حرکتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ صاحب! یہ توجہ حاصل کرنے کی خواہش بڑی ظالم چیز ہوتی ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ آج جب ایک بار پھر ادیب کے تخلیقی محرکات جاننے کا سوال تازہ ہوا ہے تو فیشن کا وہ زمانہ مدت ہوئی لدچکا۔ چناںچہ اب تو جس کو جو کہنا ہے سیدھے سبھاؤ اور اپنی اوقات کے مطابق ہی کہنا ہے۔ چلیے اب یہ سوال جو اٹھا ہے تو اپنے زمانے اور اُس میں ادب اور ادیب کی صورتِ حال کو دیکھنے کا بہانہ نکل آیا۔ ویسے خدا جانے آج یاروں کو اس قسم کے کسی سوال پر غور کرنے کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے کہ نہیں۔ چند گنے چنے ادیبوں کی بات اور ہے، وہ تو سوچتے ہی ہوں گے۔ اس لیے کہ سوچنے اور غور و فکر کرنے کی عادت ان کی گھٹی میں پڑی ہوگی۔
ویسے اکثریت ایسے کسی سوال سے دوچار نظر نہیں آتی، بلکہ سچ پوچھیے تو اکثریت اپنے عہد کے کسی بھی سوال یا مسئلے سے دوچار نظر ہی نہیں آتی۔ اس لیے نہیں کہ اس دور نے اپنے ادیب کو کوئی سوال ہی پیش نہیں کیے ہیں، وہ تو کیے ہیں، بلکہ پچھلے ادوار سے کچھ زیادہ ہی کیے ہیں، لیکن آج ادیب کے پاس اُن کے لیے وقت ہی بھلا کب ہے۔ وہ اپنے عہد کے ان سوالوں سے نمٹے یا پھر اپنی دنیا سنوارے۔ ایک ہی کام ہوسکتا ہے۔ اگر آپ ٹوک دیجیے تو جواب آتا ہے کہ آخر ادیب بھی تو انسان ہے، اُس کی بھی زندگی کے تو کچھ تقاضے ہوں گے، دل میں کچھ امنگیں اور آنکھوں میں کچھ خواب ہوں گے۔ کیا اُسے حق نہیں کہ آسودہ اور آسائش کی زندگی کا کچھ سامان فراہم کرپائے۔ بجا ارشاد، لیکن:
جس کو ہو جان و دل عزیز اُس کی گلی میں جائے کیوں
جو اِس گلی میں آجاتا ہے، اُس کا تو حال قال سب بدل جاتا ہے، اُس کی امنگوں اور خوابوں ہی کا نہیں، دل اور آنکھوں کا ماجرا بھی کچھ اور ہوجاتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو پھر کاہے کا ادیب اور کیا larger than life فن کی تمنا۔ گلی ادب کی ہو یا محبوب کی، سلوک تو ایک سا ہی ہوتا ہے، آدمی کے ساتھ۔ چناںچہ یہاں جو آتا ہے، اُس کے تخلیقی محرکات سے پہلے تو اس کی زندگی کے محرکات الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس طلسم کدے میں آکر کلام کرنے والوں کے حرف و صوت میں قوتِ عشق کا سحر ضرور کام کرتا دکھائی دیتا ہے، لیکن یہ قوت دوسروں سے پہلے تو خود یہاں آنے والے کے اپنے مزاج اور کردار پر اثرانداز ہوتی ہے۔
ہم ذاتی سطح پر عرض کریں تو اس سوال کا سیدھا سادا جواب تو یہ ہے کہ قدرت نے دیکھنے کی، سوچنے کی اور اظہار کرنے کی صلاحیت دی ہے، سو بس اسی لیے لکھتے ہیں۔ تاہم لکھنے کا یہ کام شوقیہ گلوکاری جیسا نہیں ہے کہ باتھ روم میں گنگنالیے یا کسی عزیز کی شادی میں تان لگانے کا شوق پورا کرلیا۔ اس کے برعکس یہ جینے کا ناگزیر تقاضا یا لازمۂ حیات ہے، یعنی لکھے بغیر نہیں رہ سکتے، بالکل ایسے ہی جیسے آدمی سانس لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر کسی وجہ سے لکھنا بند ہوجائے تو شاید گھٹن سے دم نکل جائے۔
تاہم کوئی بڑا نظریہ، کوئی بڑا فلسفہ، کوئی عہد آفریں تصور یا کوئی انقلاب آگیں خیال- ایسی کوئی چیز اوڑھنا بچھونا نہیں بنی، یعنی کسی پرائم اوبجیکٹ کے طور پر کبھی پیشِ نظر نہیں رہی۔ ممکن ہے، یہ سب بڑی چیزیں ہوں اور بہت کام آتی ہوں۔ اچھا تو پھر ہوں گی، جن کے لیے ہوں گی۔ ہمیں تو جینے، یعنی لکھنے سے غرض ہے، باقی اس راہ میں جو بھی کچھ ہے، ثانوی ہے۔
جتنا اور جیسا اکتساب ممکن ہے، فطری انداز میں ہو پائے تو ٹھیک ہے۔ الگ سے لادنا کبھی قابلِ قبول نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خیال کہیں ابتدائی دنوں ہی میں دل و دماغ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ ادب زندگی کو جتنا بھی بیان کرتا ہے، جمالیاتی تجربے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ سیاست کی طرح نعرے اور مذہب کی طرح پند و نصائح سے اسے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔ عسکری صاحب ادب کو اپنی چھٹی حس کہتے تھے۔ بڑے آدمی تھے۔ وہ یہ کہہ سکتے تھے۔ ہم جیسے کس منہ سے اور کس برتے پر یہ کہیں۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جینے کی وہ جو ایک جبلی خواہش آدمی کے اندر ہوتی ہے، اُسے ہم نے ادب ہی کے توسط سے دیکھا، جانا اور حتی المقدور برتنے کی خواہش اور کوشش کی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے لیے لکھنا اور جینا گویا ایک ہی حقیقت کا اظہار ہے۔
یہاں تک جو معاملہ تھا وہ بالکل سیدھا تھا۔ اس لیے کہ جو کچھ کہنا تھا وہ ایک عمومی حوالے کے ساتھ کہنا تھا۔ اس سے آگے کا مرحلہ ذرا کڑا ہے۔ اب جو کہنا ہے بہ راہِ راست اپنے بارے میں اور اختصاص کی بنیاد پر کہنا ہے، یعنی آپ کیا کیا لکھتے ہیں اور آخر کیوں لکھتے ہیں؟ اچھا اب یہ کہ ہم تو کچھ تُک بندی کرکے شعر بھی جوڑتے ہیں، افسانے بھی گھڑتے ہیں اور تنقید کے نام پر کچھ تنکے جمع کرنے کا بھی شوق ہے۔ گویا خوب کھٹ راگ ہے زندگی میں۔ دیکھیے جہاں تک شعر گوئی کی بات ہے تو یہ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جیسا آپ کو یونانی کرداروں کی soliloquy میں نظر آتا ہے۔ اصل میں تو یہ خود کلامی ہے، لیکن ذرا باآوازِ بلند ہے۔ یوں یہ آواز دوسروں تک بھی پہنچ رہی ہے۔
ہم چوںکہ مشاعرے نہیں پڑھتے، اس لیے ہمیں کسی پنڈال کی، یعنی مجمعے کی خوشی، توجہ یا داد وغیرہ تو قطعاً درکار نہیں ہوتی۔ سو موضوع کا کوئی التزام ہے اور نہ ہی کسی اظہاری سانچے کی پابندی۔ ایسا نہیں ہے کہ مشاعرے میں آنے والے سارے لوگ ایک خاص ڈھرے پر رہتے ہیں اور انھیں مجمعے کی توجہ یا داد ہر قیمت پر مطلوب ہوتی ہے۔ نہیں، سبھی ایسے تو نہیں ہوں گے۔ ان میں اپنے الگ رنگ کے لوگ بھی یقیناً ہوتے ہوں گے، لیکن مشاعرہ ہمارے یہاں اب پہلے کی طرح ایک تہذیبی ادارہ نہیں رہا ہے، بلکہ فن فیئر قسم کی چیز بن گیا ہے۔ سنجیدہ اور خیال افروز شاعری اب بڑی حد تک یہاں سے رخصت ہوگئی ہے۔ خیر، تو ہم عرض کررہے تھے کہ ہمارے لیے شاعری وہ ذاتی کیفیت ہے جو آواز بن کر لبِ اظہار تک چلی آئی ہے۔
اب رہا افسانہ نگاری کا معاملہ تو ہمیں ذاتی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دل اور دنیا کے بیچ ٹھہرا ہوا لمحہ ہے۔ اس میں کچھ اپنے رنگ ہیں اور کچھ دنیا کے روپ بہروپ۔ اچھا یہ تقسیم بھی کوئی حتمی چیز نہیں ہے، بس ذرا سمجھنے سمجھانے کے لیے ایسا کہا جارہا ہے۔ ورنہ یوں آپ دیکھیے تو یہ جو اپنے رنگ ہوتے ہیں، یہ بھی سب اپنے کب ہوتے ہیں۔ چھان بین کیجیے تو معلوم ہو کہ کہاں کہاں دنیا کی چھوٹ پڑتی ہے۔ بات یہ ہے کہ آپ کو جو رنگ ذرا بھلے معلوم ہوئے، ایسے بھلے کہ اپنے سے لگے، بس وہ آپ نے سینت کر رکھ لیے۔ اسی پر بس نہیں، وہ جو دنیا کے روپ بہروپ کا حال ہے، اُس میں بھی تو کہیں آپ کی اپنی یا آپ کے اندر کسی دور کی، کچھ دیکھے، سنے اور چاہے ہوئے لوگوں کی پرچھائیاں جھلکتی ہیں۔
تو بس یہ ہے کہ کہانی کار آپ بیتی کو جگ بیتی اور جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے کا ڈھب جانتا ہو تو ہی کچھ بات بنتی ہے ورنہ نہیں۔ انتظار حسین صاحب کہا کرتے تھے، کہانی کار کو کبھی سوانح عمری نہیں لکھنی چاہیے۔ پوچھا، مگر صاحب کیوں؟ بولے، خود خراب ہوگا، یا پھر اپنے کرداروں کو خراب کرے گا۔ بہت برسوں بعد سنا کہ وہ اپنی یادیں لکھ رہے ہیں تو پوچھا کہ آپ تو یوں کہتے تھے، اب یہ کیا؟ پہلے ہنس دیے پھر بولے، میرے عزیز پہلے لکھ تو لوں پھر پڑھ کر کچھ پوچھنا۔ ٹھیک کہتے تھے۔ آپ اُن کی یادوں کی دونوں کتابوں ''چراغوں کا دھواں'' اور ''جستجو کیا ہے'' پڑھ لیجیے، دونوں سوانح نہیں ہیں، بلکہ ان میں ایک عہد کا منظرنامہ ہے، تہذیبی، سماجی، اخلاقی، ادبی اور سیاسی دنیا کا نقشہ۔ سو معلوم ہوا کہ بس یہی شعور ایک کہانی کار کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
اب جو ہماری تنقید نگاری ہے تو اس کا معاملہ بالکل صاف اور سیدھا ہے کہ زندگی کو، دنیا کو، انسانوں کو، ان کے رشتوں اور اُن کی جہتوں کو، وقت اور اس کی چال کو، کائنات کو، اس کی آوازوں اور سناٹوں کو، شعر کے، افسانے اور ناول کے پیرائے میں جس طرح دیکھا اور دکھایا جارہا ہے، اُسے سمجھنے سمجھانے کی جستجو کی جائے۔ ادب کا کمال یہ ہے کہ ایبسٹریکٹ اور ایبسرڈ تک کو ریئلٹی کی سطح پر قابلِ فہم بنا دیتا ہے، کریہہ میں سے جمال دریافت کرلیتا ہے، سناٹے میں سے آواز اور آواز میں سے سکوت برآمد کرلیتا ہے۔ جو کچھ آپ سننے اور دیکھنے پر آمادہ نہیں ہوتے، وہ اس طرح سنا، دِکھا اور سمجھا دیتا ہے کہ آپ اُس کی نمائندگی اور طرف داری کرنے لگتے ہیں۔ یہ ادب ہی تو ہے جو آپ کا خدا، کائنات اور انسان سے ایسا رشتہ استوار کردیتا ہے کہ پھر تو آپ خود کو بھی تھری ڈی ایفیکٹ کے ساتھ دیکھنے اور پہچاننے لگتے ہیں۔
چلیے بہت باتیں ہوگئیں، بس اب ختم کرتے ہیں۔ دیکھیے، صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یہ عہدِجدید دراصل فراموش گاری کا زمانہ ہے۔ ایسی زناٹے دار ہوائیں اور ایسی اُتھل پتھل کرتے ہوئے جھکڑ چل رہے ہیں کہ زندگی کی حقیقت، وجود کے معنی، احساس کے رنگ، روح کی روشنی سب کچھ آن کی آن میں نظروں سے اوجھل ہوا جاتا ہے۔ چہروں پر، یادوں اور باتوں پر، افکار و خیالات پر دیکھتے ہی دیکھتے گرد سی جمتی چلی جاتی ہے۔ آدمی کی نظر ہی نہیں، حافظہ بھی دھندلاتا محسوس ہوتا ہے۔ پہلے معاشرہ اور تہذیب بہانے بہانے سے اجتماعی حافظے کو تازہ کرنے کا سامان کرتے رہتے تھے۔
یہ اجنبیت اور تنہائی کا دور ہے۔ اجتماعی حافظہ تو جیسے نابود ہوا جارہا ہے۔ ایسے میں سچ پوچھیے ہمیں تو ادب ہی وہ سایہ وہ چھپر کھٹ نظر آتا ہے، جہاں پناہ مل سکتی ہے آدمی کو، اُس کے احساس کو اور اُس کی روح کو بھی۔ یہاں اُس کے لیے جینے کا سامان بہم ہو جاتا ہے- انفرادی ہی نہیں، اجتماعی سطح پر بھی۔ یہاں نظر اور حافظہ دونوں کی سلامتی ممکن ہے، اس لیے کہ لفظوں کی آواز میں اور ان کے آہنگ میں احساس کی رو اور دل کی دھڑکن سنی جا سکتی ہے۔ سو بس، اے ہم نفساں یہ لکھنا لکھانا اور پڑھنا پڑھانا سب اسی کارن ہے۔
کسی کو ضرورت پیش نہیں آتی کہ وہ اُٹھے اور جا کر مور سے پوچھے کہ اُس پر یک لخت رقص کی کیفیت کیوں طاری ہوجاتی ہے؟
کوئل سے بھی جاکر کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ کیا شے ہے جو اُسے کوکنے پر اُکساتی ہے۔ کسی کو نہیں دیکھا کہ آہوئے رم خورد سے اس کا حال جاننے کی کوشش کرتا ہو۔ لالہ و گل، نسرین و نسترن یا رات کی رانی اور چنبیلی سے بھی رنگ اور خوش بو بکھرانے کا سوال کرنے کا خیال کسی کو نہیں آتا۔ البتہ ادیب سے اور شاعر سے یہ پوچھنے کا موقع گاہے بہ گاہے نکلتا ہی رہتا ہے کہ بھائی آخر تم کیوں لکھتے ہو؟ سوچنا چاہیے کہ آخر رہ رہ کر یہ سوال کیوں کیا جاتا ہے کیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کے کام کو ہر دور اپنے مخصوص منطقی اور عقلی جواز سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتا ہے؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس تفتیش کے پس منظر میں یہ خواہش کارفرما ہو کہ ادیب شاعر سے اقرار حاصل کر لیا جائے کہ وہ فرضِ کفایہ ادا کر رہا ہے، یعنی اپنے زمانے اور اپنی بستی کی اجتماعی ذمہ داری کو اس شخص نے اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھا ہے۔ سو اہلِ دنیا، اہلِ زمانہ کی اپنے فرض سے رُوگردانی پر یہ بستی عذاب سے دوچار نہیں ہوگی۔
وجہ کچھ بھی ہو، یہ طے ہے کہ ادیب و شاعر صرف اپنا کام ہی نہیں کرتے، بلکہ اس کے لیے جواز بھی پیش کرتے ہیں۔ چلیے یوں ہی سہی۔ یہی کیا کم ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، اسے مان لیا جاتا ہے۔ اس پر اعتبار کیا جاتا ہے۔ گویا انھیں اس استفسار کا برا نہیں ماننا چاہیے، بلکہ اس سے تقویت حاصل کرنی چاہیے اور زبانِ حال سے کہنا چاہیے:
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے
خیر، اگر آدمی لکھتا لکھاتا ہے تو پھر اُس کے لیے جواز جوئی میں بھی کیا قباحت ہے، خصوصاً اگر یہ سوال کسی فیشن میگزین یا ٹی وی کے پروگرام میں کر لیا جائے تو آدمی جو جی میں آئے کہہ دے۔ کسی کو کیا فرق پڑتا ہے اور کون ایسی کسی بات پر بھلا زیادہ سنجیدہ ہوتا ہے۔ تاہم اگر یہ سوال کوئی صاحب نظر کرتا ہو تو پھر سوچ سمجھ کر جواب دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ اہلِ نظر سے کچھ کہتے یا پوچھتے ہوئے دراصل گفتگو کی سطح بدل جاتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب اس قبیل کی باتیں، خیالات اور تقریریں بہت فیشن میں تھیں۔ لوگ نہایت طمطراق سے بڑی دانش وری بگھارتے تھے۔ کوئی سماج سدھارنا چاہتا تھا، کسی کو انقلاب لانے کی فکر تھی، کسی کو ڈوبتی انسانیت کا غم لاحق تھا اور کسی پر انسان کو اُس کے اصل منصب پر فائز یا بحال کرانے کی دُھن سوار تھی۔ غرضے کہ اپنے لکھنے لکھانے کی غرض و غایت کے کھاتے میں بڑے بڑے عزائم کا بارِگراں ادیبوں شاعروں نے جانِ ناتواں پر لاد لیا تھا۔ اس امر کے اعتراف میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ اُس وقت جو لوگ اپنے لکھنے کا جواز ایسے بڑے بڑے دعووں کی صورت میں بیان کررہے تھے وہ سب کے سب محض فیشن پرستی کی موج میں بہنے والے لوگ نہیں ہوں گے۔
ماننا چاہیے کہ ان میں کچھ لوگ سچ مچ کے تیس مارخاں بھی ہوں گے، جو حقیقتاً ویسا ہی سمجھتے ہوں گے اور وہی کچھ کرنے کی آرزو بھی رکھتے ہوں گے، جیسا وہ کہتے تھے، لیکن ماجرا تو انھیں بھی وہی پیش آیا جو فیشن پرستوں کی تقدیر بنا۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ فیشن پرستی کی بلاخیز آندھی خس و خاشاک کو ہی نہیں اُڑا لے جاتی، بلکہ اچھے خاصے پیڑوں کو بھی جھاڑتے اور روندتے ہوئے جاتی ہے۔ اب جو پلٹ کر دیکھیے تو ہنسی آتی ہے اور ساتھ ہی عبرت کا سامان بھی ہوجاتا ہے۔
ادیب چاہے جیسا بھی ہو پر ایسا گنوار ہرگز نہ ہو کہ فیشن کے گھوڑے کی پیٹھ پر سواری گانٹھنے کی کوشش کرے یا پھر منہ سے بڑا لقمہ حلق میں ٹھونستا دکھائی دے۔ ادب میں فیشن در آئے تو ادیب بھی لامحالہ لکی ایرانی سرکس کے مسخروں جیسی حرکتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ صاحب! یہ توجہ حاصل کرنے کی خواہش بڑی ظالم چیز ہوتی ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ آج جب ایک بار پھر ادیب کے تخلیقی محرکات جاننے کا سوال تازہ ہوا ہے تو فیشن کا وہ زمانہ مدت ہوئی لدچکا۔ چناںچہ اب تو جس کو جو کہنا ہے سیدھے سبھاؤ اور اپنی اوقات کے مطابق ہی کہنا ہے۔ چلیے اب یہ سوال جو اٹھا ہے تو اپنے زمانے اور اُس میں ادب اور ادیب کی صورتِ حال کو دیکھنے کا بہانہ نکل آیا۔ ویسے خدا جانے آج یاروں کو اس قسم کے کسی سوال پر غور کرنے کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے کہ نہیں۔ چند گنے چنے ادیبوں کی بات اور ہے، وہ تو سوچتے ہی ہوں گے۔ اس لیے کہ سوچنے اور غور و فکر کرنے کی عادت ان کی گھٹی میں پڑی ہوگی۔
ویسے اکثریت ایسے کسی سوال سے دوچار نظر نہیں آتی، بلکہ سچ پوچھیے تو اکثریت اپنے عہد کے کسی بھی سوال یا مسئلے سے دوچار نظر ہی نہیں آتی۔ اس لیے نہیں کہ اس دور نے اپنے ادیب کو کوئی سوال ہی پیش نہیں کیے ہیں، وہ تو کیے ہیں، بلکہ پچھلے ادوار سے کچھ زیادہ ہی کیے ہیں، لیکن آج ادیب کے پاس اُن کے لیے وقت ہی بھلا کب ہے۔ وہ اپنے عہد کے ان سوالوں سے نمٹے یا پھر اپنی دنیا سنوارے۔ ایک ہی کام ہوسکتا ہے۔ اگر آپ ٹوک دیجیے تو جواب آتا ہے کہ آخر ادیب بھی تو انسان ہے، اُس کی بھی زندگی کے تو کچھ تقاضے ہوں گے، دل میں کچھ امنگیں اور آنکھوں میں کچھ خواب ہوں گے۔ کیا اُسے حق نہیں کہ آسودہ اور آسائش کی زندگی کا کچھ سامان فراہم کرپائے۔ بجا ارشاد، لیکن:
جس کو ہو جان و دل عزیز اُس کی گلی میں جائے کیوں
جو اِس گلی میں آجاتا ہے، اُس کا تو حال قال سب بدل جاتا ہے، اُس کی امنگوں اور خوابوں ہی کا نہیں، دل اور آنکھوں کا ماجرا بھی کچھ اور ہوجاتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو پھر کاہے کا ادیب اور کیا larger than life فن کی تمنا۔ گلی ادب کی ہو یا محبوب کی، سلوک تو ایک سا ہی ہوتا ہے، آدمی کے ساتھ۔ چناںچہ یہاں جو آتا ہے، اُس کے تخلیقی محرکات سے پہلے تو اس کی زندگی کے محرکات الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس طلسم کدے میں آکر کلام کرنے والوں کے حرف و صوت میں قوتِ عشق کا سحر ضرور کام کرتا دکھائی دیتا ہے، لیکن یہ قوت دوسروں سے پہلے تو خود یہاں آنے والے کے اپنے مزاج اور کردار پر اثرانداز ہوتی ہے۔
ہم ذاتی سطح پر عرض کریں تو اس سوال کا سیدھا سادا جواب تو یہ ہے کہ قدرت نے دیکھنے کی، سوچنے کی اور اظہار کرنے کی صلاحیت دی ہے، سو بس اسی لیے لکھتے ہیں۔ تاہم لکھنے کا یہ کام شوقیہ گلوکاری جیسا نہیں ہے کہ باتھ روم میں گنگنالیے یا کسی عزیز کی شادی میں تان لگانے کا شوق پورا کرلیا۔ اس کے برعکس یہ جینے کا ناگزیر تقاضا یا لازمۂ حیات ہے، یعنی لکھے بغیر نہیں رہ سکتے، بالکل ایسے ہی جیسے آدمی سانس لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر کسی وجہ سے لکھنا بند ہوجائے تو شاید گھٹن سے دم نکل جائے۔
تاہم کوئی بڑا نظریہ، کوئی بڑا فلسفہ، کوئی عہد آفریں تصور یا کوئی انقلاب آگیں خیال- ایسی کوئی چیز اوڑھنا بچھونا نہیں بنی، یعنی کسی پرائم اوبجیکٹ کے طور پر کبھی پیشِ نظر نہیں رہی۔ ممکن ہے، یہ سب بڑی چیزیں ہوں اور بہت کام آتی ہوں۔ اچھا تو پھر ہوں گی، جن کے لیے ہوں گی۔ ہمیں تو جینے، یعنی لکھنے سے غرض ہے، باقی اس راہ میں جو بھی کچھ ہے، ثانوی ہے۔
جتنا اور جیسا اکتساب ممکن ہے، فطری انداز میں ہو پائے تو ٹھیک ہے۔ الگ سے لادنا کبھی قابلِ قبول نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خیال کہیں ابتدائی دنوں ہی میں دل و دماغ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ ادب زندگی کو جتنا بھی بیان کرتا ہے، جمالیاتی تجربے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ سیاست کی طرح نعرے اور مذہب کی طرح پند و نصائح سے اسے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔ عسکری صاحب ادب کو اپنی چھٹی حس کہتے تھے۔ بڑے آدمی تھے۔ وہ یہ کہہ سکتے تھے۔ ہم جیسے کس منہ سے اور کس برتے پر یہ کہیں۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جینے کی وہ جو ایک جبلی خواہش آدمی کے اندر ہوتی ہے، اُسے ہم نے ادب ہی کے توسط سے دیکھا، جانا اور حتی المقدور برتنے کی خواہش اور کوشش کی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے لیے لکھنا اور جینا گویا ایک ہی حقیقت کا اظہار ہے۔
یہاں تک جو معاملہ تھا وہ بالکل سیدھا تھا۔ اس لیے کہ جو کچھ کہنا تھا وہ ایک عمومی حوالے کے ساتھ کہنا تھا۔ اس سے آگے کا مرحلہ ذرا کڑا ہے۔ اب جو کہنا ہے بہ راہِ راست اپنے بارے میں اور اختصاص کی بنیاد پر کہنا ہے، یعنی آپ کیا کیا لکھتے ہیں اور آخر کیوں لکھتے ہیں؟ اچھا اب یہ کہ ہم تو کچھ تُک بندی کرکے شعر بھی جوڑتے ہیں، افسانے بھی گھڑتے ہیں اور تنقید کے نام پر کچھ تنکے جمع کرنے کا بھی شوق ہے۔ گویا خوب کھٹ راگ ہے زندگی میں۔ دیکھیے جہاں تک شعر گوئی کی بات ہے تو یہ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جیسا آپ کو یونانی کرداروں کی soliloquy میں نظر آتا ہے۔ اصل میں تو یہ خود کلامی ہے، لیکن ذرا باآوازِ بلند ہے۔ یوں یہ آواز دوسروں تک بھی پہنچ رہی ہے۔
ہم چوںکہ مشاعرے نہیں پڑھتے، اس لیے ہمیں کسی پنڈال کی، یعنی مجمعے کی خوشی، توجہ یا داد وغیرہ تو قطعاً درکار نہیں ہوتی۔ سو موضوع کا کوئی التزام ہے اور نہ ہی کسی اظہاری سانچے کی پابندی۔ ایسا نہیں ہے کہ مشاعرے میں آنے والے سارے لوگ ایک خاص ڈھرے پر رہتے ہیں اور انھیں مجمعے کی توجہ یا داد ہر قیمت پر مطلوب ہوتی ہے۔ نہیں، سبھی ایسے تو نہیں ہوں گے۔ ان میں اپنے الگ رنگ کے لوگ بھی یقیناً ہوتے ہوں گے، لیکن مشاعرہ ہمارے یہاں اب پہلے کی طرح ایک تہذیبی ادارہ نہیں رہا ہے، بلکہ فن فیئر قسم کی چیز بن گیا ہے۔ سنجیدہ اور خیال افروز شاعری اب بڑی حد تک یہاں سے رخصت ہوگئی ہے۔ خیر، تو ہم عرض کررہے تھے کہ ہمارے لیے شاعری وہ ذاتی کیفیت ہے جو آواز بن کر لبِ اظہار تک چلی آئی ہے۔
اب رہا افسانہ نگاری کا معاملہ تو ہمیں ذاتی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دل اور دنیا کے بیچ ٹھہرا ہوا لمحہ ہے۔ اس میں کچھ اپنے رنگ ہیں اور کچھ دنیا کے روپ بہروپ۔ اچھا یہ تقسیم بھی کوئی حتمی چیز نہیں ہے، بس ذرا سمجھنے سمجھانے کے لیے ایسا کہا جارہا ہے۔ ورنہ یوں آپ دیکھیے تو یہ جو اپنے رنگ ہوتے ہیں، یہ بھی سب اپنے کب ہوتے ہیں۔ چھان بین کیجیے تو معلوم ہو کہ کہاں کہاں دنیا کی چھوٹ پڑتی ہے۔ بات یہ ہے کہ آپ کو جو رنگ ذرا بھلے معلوم ہوئے، ایسے بھلے کہ اپنے سے لگے، بس وہ آپ نے سینت کر رکھ لیے۔ اسی پر بس نہیں، وہ جو دنیا کے روپ بہروپ کا حال ہے، اُس میں بھی تو کہیں آپ کی اپنی یا آپ کے اندر کسی دور کی، کچھ دیکھے، سنے اور چاہے ہوئے لوگوں کی پرچھائیاں جھلکتی ہیں۔
تو بس یہ ہے کہ کہانی کار آپ بیتی کو جگ بیتی اور جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے کا ڈھب جانتا ہو تو ہی کچھ بات بنتی ہے ورنہ نہیں۔ انتظار حسین صاحب کہا کرتے تھے، کہانی کار کو کبھی سوانح عمری نہیں لکھنی چاہیے۔ پوچھا، مگر صاحب کیوں؟ بولے، خود خراب ہوگا، یا پھر اپنے کرداروں کو خراب کرے گا۔ بہت برسوں بعد سنا کہ وہ اپنی یادیں لکھ رہے ہیں تو پوچھا کہ آپ تو یوں کہتے تھے، اب یہ کیا؟ پہلے ہنس دیے پھر بولے، میرے عزیز پہلے لکھ تو لوں پھر پڑھ کر کچھ پوچھنا۔ ٹھیک کہتے تھے۔ آپ اُن کی یادوں کی دونوں کتابوں ''چراغوں کا دھواں'' اور ''جستجو کیا ہے'' پڑھ لیجیے، دونوں سوانح نہیں ہیں، بلکہ ان میں ایک عہد کا منظرنامہ ہے، تہذیبی، سماجی، اخلاقی، ادبی اور سیاسی دنیا کا نقشہ۔ سو معلوم ہوا کہ بس یہی شعور ایک کہانی کار کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
اب جو ہماری تنقید نگاری ہے تو اس کا معاملہ بالکل صاف اور سیدھا ہے کہ زندگی کو، دنیا کو، انسانوں کو، ان کے رشتوں اور اُن کی جہتوں کو، وقت اور اس کی چال کو، کائنات کو، اس کی آوازوں اور سناٹوں کو، شعر کے، افسانے اور ناول کے پیرائے میں جس طرح دیکھا اور دکھایا جارہا ہے، اُسے سمجھنے سمجھانے کی جستجو کی جائے۔ ادب کا کمال یہ ہے کہ ایبسٹریکٹ اور ایبسرڈ تک کو ریئلٹی کی سطح پر قابلِ فہم بنا دیتا ہے، کریہہ میں سے جمال دریافت کرلیتا ہے، سناٹے میں سے آواز اور آواز میں سے سکوت برآمد کرلیتا ہے۔ جو کچھ آپ سننے اور دیکھنے پر آمادہ نہیں ہوتے، وہ اس طرح سنا، دِکھا اور سمجھا دیتا ہے کہ آپ اُس کی نمائندگی اور طرف داری کرنے لگتے ہیں۔ یہ ادب ہی تو ہے جو آپ کا خدا، کائنات اور انسان سے ایسا رشتہ استوار کردیتا ہے کہ پھر تو آپ خود کو بھی تھری ڈی ایفیکٹ کے ساتھ دیکھنے اور پہچاننے لگتے ہیں۔
چلیے بہت باتیں ہوگئیں، بس اب ختم کرتے ہیں۔ دیکھیے، صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یہ عہدِجدید دراصل فراموش گاری کا زمانہ ہے۔ ایسی زناٹے دار ہوائیں اور ایسی اُتھل پتھل کرتے ہوئے جھکڑ چل رہے ہیں کہ زندگی کی حقیقت، وجود کے معنی، احساس کے رنگ، روح کی روشنی سب کچھ آن کی آن میں نظروں سے اوجھل ہوا جاتا ہے۔ چہروں پر، یادوں اور باتوں پر، افکار و خیالات پر دیکھتے ہی دیکھتے گرد سی جمتی چلی جاتی ہے۔ آدمی کی نظر ہی نہیں، حافظہ بھی دھندلاتا محسوس ہوتا ہے۔ پہلے معاشرہ اور تہذیب بہانے بہانے سے اجتماعی حافظے کو تازہ کرنے کا سامان کرتے رہتے تھے۔
یہ اجنبیت اور تنہائی کا دور ہے۔ اجتماعی حافظہ تو جیسے نابود ہوا جارہا ہے۔ ایسے میں سچ پوچھیے ہمیں تو ادب ہی وہ سایہ وہ چھپر کھٹ نظر آتا ہے، جہاں پناہ مل سکتی ہے آدمی کو، اُس کے احساس کو اور اُس کی روح کو بھی۔ یہاں اُس کے لیے جینے کا سامان بہم ہو جاتا ہے- انفرادی ہی نہیں، اجتماعی سطح پر بھی۔ یہاں نظر اور حافظہ دونوں کی سلامتی ممکن ہے، اس لیے کہ لفظوں کی آواز میں اور ان کے آہنگ میں احساس کی رو اور دل کی دھڑکن سنی جا سکتی ہے۔ سو بس، اے ہم نفساں یہ لکھنا لکھانا اور پڑھنا پڑھانا سب اسی کارن ہے۔