وہ چھے زاویے

صرف دواؤں سے مسئلہ حل نہیں ہوپاتا یا یوں کہہ لیں کہ دِل نہیں مانتا۔ لگتا ہے ہم ڈنڈی ماررہے ہیں۔

صرف دواؤں سے مسئلہ حل نہیں ہوپاتا یا یوں کہہ لیں کہ دِل نہیں مانتا۔ لگتا ہے ہم ڈنڈی ماررہے ہیں۔ فوٹو : فائل

QUETTA:
آزاد سے ملاقات ہوئے لگ بھگ 3 سال ہونے کو آرہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب وہ باقاعدگی سے ہر ہفتے میرے پاس آتا تھا۔ ہر ہفتے گھنٹے دو گھنٹے تک ہمارا سیشن ہوتا تھا اور ہم کُھل کر باتیں کرتے تھے۔

آزاد کی پورے ہفتے کی کارگردگی کا جائزہ لیتے۔ تجزیہ کرتے اور کُھل کر آزاد کی کمیوں اور کوتاہیوں پر گفتگو ہوتی۔ کبھی کبھی مضمون، کِسی کالم یا کِسی کتاب کے ابواب پر بات چیت ہوتی اور کبھی کِسی فلم یا واقعے کے اہم نکات کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا اور گزارے ہوئے ہفتے میں جو کمی بیشی رہ جاتی، اُسے اگلے ہفتے میں دور کرنے کے وعدے کے ساتھ ہماری میٹنگ (Adjourn) ختم ہوجاتی۔ یہ اور بات ہے کہ اگلے ہفتے کی ملاقات میں بھی کم و بیش اُنہی کمیوں کی بابت نشان دہی ہوتی جو گذشتہ کئی برسوں سے ہر ہفتے باقی رہتیں۔

شاید یہ آزاد کی مجبوری تھی، اُس کی فطرت تھی یا اُس کی شخصیت ہی کچھ ایسی تھی کہ تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود اُس سے کچھ نہ کچھ چھوٹ جاتا۔ ہر شخص کی کچھ نہ کچھ مجبوری ہوتی ہے۔ ہر شخص کی فطرت اور شخصیت میں کچھ نہ کچھ کمی ہوتی ہے۔ جیسے میری مجبوری ہے کہ مجھ سے بالکل خالص خشک عِلمی مضامین نہیں لِکھے جاتے۔

موضوع کتنا ہی خالص خشک وعلمی کیوں نہ ہو، جب تک اُس کے عرق سے کوئی کہانی نہیں بنے گی، اُسے لفظوں میں ڈھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اِسی طرح خالص جان دار فرضی کہانی بھی کبھی نہیں لِکھ پایا۔ کہانی ہو تو سچی ہو اور دِل کے تاروں کو چھولینے والی ہو۔ پھر یہی نہیں جب تک کہانی اور کرداروں کے بیچ فلسفے اور نفسیات اور تصوّف کے تڑکے نہ لگے ہوں تو بھی کہانی پوری نہیں ہوپاتی۔

اب اِسی بات کو لے لیجیے۔ آزاد کے مسئلے، مرض یابیماری کو سیدھے الفاظ میں یا پھر زیادہ سے زیادہ ایک کیس اسٹڈی یا ہسٹری کی شکل میں بیان کیا جاسکتا تھا کہ یہ اور یہ علامات اور یہ اور یہ بیماری اور یہ اور یہ اس کا علاج۔ لیکن کچھ جگہوں اور کچھ لوگوں کے ساتھ ہم لگے بندھے طریقوں کے مطابق نہیں چل پاتے۔ آزاد کی طرح کے کچھ لوگ اتنے Volatile ، Dynamic اور Energetic اور Active ہوتے ہیں کہ پھر ہمیں اُن کی بیماری کے ساتھ اُن کی طبیعیت، مزاج، شخصیت اور نفسیات کو بھی لے کر چلنا پڑتا ہے۔

صرف دواؤں سے مسئلہ حل نہیں ہوپاتا یا یوں کہہ لیں کہ دِل نہیں مانتا۔ لگتا ہے ہم ڈنڈی ماررہے ہیں۔ پوری دیانت نہیں برت رہے۔ لکھتے وقت بھی یہی لگتا ہے کہ کالم ہو یا مَضمون اُسے کوئی بھی نام دیا جائے، بات جب تک تمام پہلوؤں سے بیان نہ ہو تو نہ مزہ آسکتا ہے اور نہ ہی دِل سے دِل تک کا سفر طے ہوسکتا ہے۔ بات دل سے کی گئی ہو تو بات میں وزن ہوتا ہے۔ اور بات میں وزن ہوتو بات دیر تک اور دور تک ہمارے ساتھ ساتھ رہتی ہے اور کِسی نہ کِسی صورت ہمارے کام آتی رہتی ہے۔

آزاد بھی دِل والا نوجوان تھا۔ اُس سے میرا تعلق بھی لگ بھگ 10 سال تک رہا۔ آزاد کی عمر جب 20 سال تھی، ویب سائٹ پر درج معلومات پڑھ کر اُس نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ بہت کم نوجوانوں کو اتنی کم عمری میں اللہ تعالیٰ اتنا شعور یا ادراک عطا کرتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت و نفسیات کے منفی پہلوؤں کو جان سکیں اور جانچ سکیں اور پھر اُن کو دور کرنے کی جُستجو و تگ و دو میں بھی لگ سکیں، اور وہ بھی آزاد کی طرح بالکل تن وتنہا۔ اپنے ماں باپ، بہنوں بھائیوں اور دوستوں کے علم میں لائے بغیر۔

''تم اکیلے کیوں آئے ہو آزاد! تمہارے گھر والوں کو علم ہے کہ تم یہاں آئے ہو علاج کے لیے۔ اگلی بار والدہ یا بڑے بھائی کو کم از کم ضرور ساتھ لے کر آنا۔'' مجھے آج بھی پہلی ملاقات یاد ہے جب آزاد کی تفصیلی کہانی سن کر اور اُس کے مختلف نفسیاتی عوارض کی علامات جان کر میں نے اُس سے یہ سب کہا تھا۔

''سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سر! میں نے آپ کو اپنے بارے میں سب کچھ بتادیا ہے۔ میرے گھر میں کسی کو نہ کچھ پتا ہے اور نہ ہی میں اُن کو کچھ بتا سکتا ہوں اور نہ بتاؤں گا۔ میں نہ پڑھتا ہوں نہ کماتا ہوں۔ بھائی میرا خرچہ برداشت کرتے ہیں۔ دو سال پہلے اُن کو میں نے اپنے مسائل بتانے کی کوشش کی تھی۔ اُنہوں نے جھڑک دیا مجھے۔ کہا کہ فضول باتیں ہیں۔ فارغ پھرتے ہو اِس لیے دماغ فالتو سوچوں سے بھر گیا ہے۔ پڑھو اور کام کرو۔ لیکن میں کیسے کام کروں۔ کیسے پڑھوں سر! میرا دماغ مستقل چالو رہتا ہے۔

ایک کے بعد ایک سوچ آتی رہتی ہے۔ انتہائی واہیات۔ فضول۔ اوٹ پٹانگ۔ عجیب عجیب خیالات آنے لگتے ہیں۔ شدید گناہ کا احساس ہوتا ہے۔ دِل چا ہتا ہے خودکشی کرلوں۔ ہر وقت طبیعت میں گھبراہٹ رہتی ہے۔ شدید احساس کمتری میں مبتلا ہوں۔ دِل کہتا ہے میں بہت بڑا آدمی بنوں گا۔ میں بڑے بڑے کام کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں۔ لیکن پھر دماغ میں خیال آتا ہے نہ میرے پاس تعلیم ہے نہ دولت اور نہ مجھے بات کرنا آتی ہے۔ نہ کوئی ہنر ہے۔ میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ ناکامی میں ہی میری زندگی گزرے گی۔ اس سے بہتر ہے مرجاؤں۔ نہ گھر میں دل لگتا ہے نہ دوستوں کے درمیان۔ نیند بھی بہت دیر سے آتی ہے۔ روتا رہتا ہوں۔ رات میں بستر پر لیٹ کر۔ کبھی اپنے آپ کو ہیرو سمجھتا ہوں۔

سُپرمین بن کر خیالوں ہی خیالوں میں امریکا فتح کرلیتا ہوں۔ اور جو شڑپ کرکے اپنی حالت پر نگاہ پڑتی ہے تو کھانا کھانے کو بھی دل نہیں کرتا۔'' یہ تھی آزاد کی پہلی ملاقات کی بات چیت، جنہیں ہم دونوں بعد میں بھی اکثر اپنی باتوں میں دہراتے تھے۔ ''بس سر! میں اپنے گھر والوں کو آپ کے پاس نہیں لاسکتا۔ وہ آپ کے پاس آنا بند کردیں گے میرا اور میں کچھ کر بیٹھوں گا۔ مجھے یقین ہے سر! انشاء اللہ میرا کچھ اچھا ہوگا!

آپ دیکھ لیجیے گا۔ میں آپ کو کچھ بن کے دکھاؤں گا۔ آپ جو بھی کہیں گے۔ جیسا کرنے کو کہیں گے میں کروں گا۔ ہر بات مانوں گا۔ بس آپ مجھے میرے سوچ کے عذاب سے نکال دیں۔ اور مجھ میں خوداعتمادی ڈال دیں۔'' آزاد نے پہلی ملاقاتوں میں کہا تھا۔ بہت سی باتیں باقاعدگی سے نہ کرنے کے باوجود اُس نے بہت سی باتیں باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھیں۔ دس سال کے سا تھ میں ایک ڈیڑھ سال کے دو وقفے بھی آئے جب آزاد علاج کی رسّیاں توڑ کر بھاگ نکلا اور اسکرین سے غائب ہوگیا۔ لیکن پھر آخری سات برس تک سے وہ Most Regular رہا۔

''مجھے پتا چل چکا ہے سر! میں علاج اور دوا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے دو تین بار تجربہ کرکے دیکھ لیا۔ میرے دماغ میں کیمیکل کی کمی ہے۔ اور وہ دواؤں سے ہی پوری ہوسکتی ہے۔ آپ بھی مجھ پر گولیاں کم کرنے کے تجربے نہ کیا کریں۔ مجھے پتا چل جاتاہے۔ آپ دوائی کم کرتے ہیں اور میری طاقت کم ہونے لگتی ہے۔''

جب بھی کبھی میں آزاد کی ادویات کم کرنے کی کوشش کرتا وہ کوئی نہ کوئی علامت بیان کرکے کچھ اور دنوں تک میری کوشش ناکام بنادیتا اور آنے والے مریض جلدازجلد علاج ختم کروانے کی باتیں کرتے ہیں اور اکثریت از خود دوائیں بند کرکے غائب ہوجاتی ہے، اگلے کسی Episode تک۔ لیکن آزاد ان سب سے الگ تھا۔

''میں ذائقہ چکھ چکا ہوں سر! سچ مچ میں سُپرمین بننے کا۔ جب پہلی دفعہ آپ نے مجھے دوائیاں دی تھیں تو مجھے کچھ نہیں ہوا تھا۔ آپ کو یاد ہے ناں۔ میں شور مچاتا ہوا روتا ہوا ایک ہفتے کے بعد آیا تھا کہ مجھے کچھ فائدہ نہیں ہوا، تو آپ نے کہا تھا ناں کہ صبر کرو صبر، حوصلہ رکھو، سب ٹھیک ہوجائے گا انشاء اللہ مگر آہستہ آہستہ، اتنی جلدی کچھ نہیں ہوتا۔ تبدیلی جتنی جلدی آتی ہے وہ اُتنی جلدی واپس بھی چلی جاتی ہے۔ اگر مستقل ٹھیک رہنا ہے اور بالکل ٹھیک ہونا ہے اور حقیقی سپرمین بننا ہے تو کریز پر کھڑے رہو چُپ کرکے۔ یہ دماغ کے Cells کا معاملہ ہے۔ دوائیاں، آہستہ آہستہ ہی اُن کے Level کو بڑھائیں گی۔ اور مجھے یاد ہے سر! تین ماہ کے بعد میں واقعی سُپرمین بن چُکا تھا۔''

آزاد اپنے ماضی کو یاد کرکے مسرور ہورہا تھا۔

''اور پھر سُپرمین بن کر جب میں ہواؤں میں اُڑنے لگا تھا اور ہر کام آگے بڑھ بڑھ کر کرنے لگا تھا اور بھائی کے کاروبار میں بھی جانا شروع کردیا تھا تو پھر سوچ آئی تھی کہ اب میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں اب کیوں دوائیاں کھاؤں، تو میں نے دوائیاں چھوڑ دی تھیں۔ پھر حج پر بھی تو چلا گیا تھا۔ مگر چار چھے ماہ میں پھر پُرانی سوچوں نے حملہ کرڈالا۔ تب میں دوبارہ آپ کے پاس آیا تھا۔ یاد ہے آپ کو؟ پھر دوبارہ علاج سے سوچیں ٹھیک ہوگئیں، مگر میں آج تک دوبارہ سُپرمین نہیں بن سکا۔ آپ نے کچھ گڑ بڑ کی تھی، کی تھی ناں؟ آپ نے کہا تھا کہ اب ایسی دوائیاں نہیں ملیں گی کہ تم پھر ہواؤں میں اُڑنے لگو ۔ خود کو سُپرمین سمجھنے لگو۔ میرے منہ میں آج بھی وہ سُپرمین کا ذائقہ ہے۔

یار کیا مزے کے دن تھے۔ کسی چیز کسی بات سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ ساری دنیا کو میں بہت نیچے دیکھنے لگا تھا۔ اور دوسری مرتبہ تو علاج میں نے اِس لیے چھوڑا تھا کہ میں Afford نہیں کرپارہا تھا۔ دوائیوں کا خرچہ میرے جیب خرچ سے زیادہ تھا۔ میں علاج کے لیے بھائی کے اکاؤنٹ سے چوری بھی کرتا تھا پھر جب میں پکڑا گیا تھا تو بھائی کو بتا نہیں پایا تھا کہ میں نے اس کے پیسوں سے کوئی عیاشی نہیں کی بل کہ اپنے علاج پر خرچ کیے ہیں۔ پھر میں دعائیں مانگتا تھا کہ اللہ مجھے ویسے ہی ٹھیک کردے۔ پھر نوکری کی میں نے اور پیسے جمع کیے اور اب آپ دیکھ لیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب میں Regular ہوں اور حقیقت و دل سے تسلیم کرچکا ہوں کہ بھلے مجھے تمام عُمر دوا کھانی پڑے، میں کھاؤ گا۔''

آزاد کی جدوجہد کے دس سال کی داستان کو چند سو لفظوں میں سمیٹنا دشوار ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اُس پر بڑا کرم تھا۔ اُس کا صبر، برداشت، ثابت قدمی، مستقل مزاجی اور بغیر کسی گھریلو جذباتی سہارے کے یک وتنہا اپنی نفسیاتی بیماری سے لڑنا اور اُسے شکست دینا اور پھر اللہ کے کرم و فضل سے اپنے ذاتی کاروبار کا مالک ہونا 60 ہزار کا نیا کا لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ Device لے کر فیس بک پر اکاؤنٹ بنانا اور خلیل جبران کی 20 چھوٹی چھوٹی کتابیں لے کر جانا کہ ناول نہیں پڑھنا بل کہ اب کی بار فلسفہ پڑھنا ہے اور کہنا کہ ''سر! آپ مجھے انگلش پڑھنا سکھادیں۔ میں نے ایک چھوٹا انگریزی ناول لے کر رکھا ہوا ہے، میں اس کو پڑھوں گا اور جو لفظ یا پیراگراف سمجھ نہیں آئے گا، وہ آپ بتادیجیے گا۔'' یہ سب اللہ کا کرم نہیں تو اور کیا ہے۔


بے شک اللہ جس پر چاہے اپنا کرم کرے۔ لیکن کچھ اصول کچھ قوانین قدرت نے سب کے لیے یکساں رکھے ہیں بیماری ہو یا معاشی تنگ دستی، تعلیم ہو یا کاروبار، ازدواجی زندگی ہو یا معاشرتی ہر جگہ صبرواستقامت، برداشت و تحمل اور مستقل ان تھک محنت اور نیک نیتی ودیانت داری کی ہر لحظہ موجودگی ازبسکہ ضروری ہے۔ اپنی بیماری یا کمی پر اللہ سے شکایت یا شکوہ کرنے کے بجائے خلوص اور ایمان داری سے اپنی ذات کے منفی پہلوؤں کو قبول کرکے صدق دل سے اُن کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے تو غیب کے پردے سے ہمارے لیے لازمی طور پر جلد یا بدیر اچھا ہی ہوتا ہے۔

آزاد کی مثال سامنے ہے۔ اُس نے دس برسوں میں شکوہ بھی کیا، شکایتیں بھی کیں، اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی کوشش بھی کی۔ اپنے آپ سے، اپنی زندگی اور بیماری سے مایوس ہو کر چرس بھی پی، شراب بھی چکھی، دوستوں کے ساتھ سڑک پر سے کال گرل بھی اٹھائی۔ مگر اللہ نے اُسے گناہ کبیرہ سے بچائے رکھا۔ اُس نے ہمّت نہ ہاری۔ انٹر کی واجبی تعلیم کے باوجود میری بار بار تاکید اور ہدایت پر منتخب مضامین اور کتابیں پڑھتارہا۔ مخصوص Movies دیکھ کر گروپ ڈسکشن میں شامل ہوتا رہا۔ لیکن اُس کے اندر بنیادی تبدیلی اُس وقت آنا شروع ہوئی جب قصّوں، کہانیوں اور باتوں کے ساتھ اُس کے ذہن و دل کے نہاںخانوں میں دل سے بغیر کسی توقع و لالچ کے دوسرے کی مدد کے بیج، سبزے میں ڈھلنا شروع ہوئے۔

کسی بھی انسان کی زندگی میں، خواہ اس کا تعلق دنیا کے کسی خطے، کسی مذہب، کسی قوم سے ہو۔ عام طور پر چھے اہم اور بنیادی عوامل یا زاویے (Dimensions) تمام عمر محیط رہتے ہیں۔ کبھی کم یا زیادہ۔ کسی میں دو کسی میں چار اور شاذو نادر کسی کسی میں چھے کے چھے زاویے ایک جیسی توانائی، روشنی اور طاقت کے ساتھ نمایاںہوتے ہیں۔ آئیڈیل صورت حال اُس وقت ہوتی ہے جب ایک فرد کی زندگی میں یہ چھے کے چھے پہلو یا حوالے، انیس بیس کے فرق سے کچھ کم کچھ زیادہ موجود ہوں اور اسے اُن سب سے اُن کے مطابق کام لینا اور کام کرنا بھی آتا ہو اور ان کے بارے میں کلّی آگا ہی بھی ہو۔

اعلیٰ، کام یاب اور صحت مند زندگی کا ضامن اِن چھے ڈائی مینشنز یا زاویوں کو ہم یہ نام دے سکتے ہیں۔

(1) جسمانی(فزیکل۔(Physical

(2) جذباتی(ایموشنل۔(Emotional

(3) نفسیاتی (سائیکولوجیکل۔Psychological یا Logical ۔ منطقی)

(4) سماجی (سوشل۔(Social

(5) معاشی (ایکنو میکل ۔ (Economical

(6) روحانی یا مابعد النفسیاتی(آسپریچویل ۔ Siritual یا پیراسائیکولوجیکل (Para- Psychological

یہ چھے بنیادی دائرے ہماری شخصیت، نفسیات اور زندگی میں ایک دوسرے سے اس طرح پیوستہ اور مربوط ہیں کہ محض اِن کو سمجھنے کے لیے الگ الگ بیان کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر کسی ایک دائرے اور زاویے کے بھی ریشمی تاروں کو ادھیڑ ا جائے تو دیگر زاویوں کے تانے بانے بھی ادھڑ نے لگتے ہیں اور ہماری صحت، ہماری شخصیت، ہماری نفسیات اور ہماری زندگی متاثر ہونے لگتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ یا تو لوگوں کی اکثریت اس فطری، سائنسی اور نفسیاتی ترکیب و حقیقت سے واقف نہیں ہے اور یا پھر جو لوگ ان کے بارے میں علم رکھتے بھی ہیں وہ ان کے حقیقی معنوں اور فائدوں کو سمجھے بنا انہیں الگ الگ خانوں میں بانٹ کر زندگی گزارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں ذہن کا سکون، قلب کا اطمینان اور روح کا سرور انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں سے رخصت ہوچکا ہے۔

معاشی طور پر مستحکم افراد، جسمانی و ذہنی صحت کی تلاش میں جوتے گھِس رہے ہیں۔ جیبیں خالی کررہے ہیں۔ سماجی و سیاسی مرتبے کے حامل لوگ جذباتی اور روحانی بحران کا شکار ہیں۔ دِل والوں کا دامن عقل اور پیسے دونوں سے خالی ہے۔ نفسیاتی و عقلی سطح کی بلندیوں کو چھونے والے اپنی دانش وری میں اتنے گُم ہیں کہ ان کی نگاہ اوروں کے دُکھ درد تکالیف تک ہی نہیں جاپاتی۔ محض عبادات اور مذہبی رسوم اور رواجوں کے اسیر، ماتھوں کے نشانوں کو ہی روحانیت اور روحانی طاقت سمجھ بیٹھے ہیں اور جو واقعتاً مذہب سے بالاتر ہوکر روحانی اور مابعد نفسیاتی قوتوں کا ادراک رکھتے ہیں وہ عقلی، فکری، منطقی، اور سائنسی اصولوں سے عدم واقفیت کی بنا پر محض عامل یا جن اتارنے والے بنے ہوئے ہیں اور اِسی میں خوش ہیں۔

مکمل ذہنی، جسمانی، نفسیاتی، جذباتی اور روحانی صحت اور در خوف سے ہماری مکمل بھرپور معاشی اور سماجی زندگی اس وقت تک حاصل نہیں ہوپاتی جب تک ہم ان چھے زاویوں کو ایک ساتھ لے کر نہیں چلتے اور ان کے تناسب اور توازن کا باقاعدہ اور باضابطہ خیال نہیں رکھتے۔

کسی بھی لمحے کسی بھی زاویے کا رُخ مثبت سے منفی ہوجائے یا تناسب کم زیادہ ہونے لگے یا توازن ڈگمگانے لگے تو ہماری شخصیت، نفسیات اور صحت کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی بھی عدم توازن کا شکار ہونے لگتی ہے اور ہم غیرمحسوس طریقے سے اچانک یا آہستہ آہستہ کسی نہ کسی حوالے سے بیمار پڑنے لگتے ہیں۔

السر Ulcer, بلڈپریشرBlood Pressure ، شوگر Diabetic ، کینسر Cancer سے لے گر اَن گنت ذہنی، اعصابی اور نفسیاتی اور دماغی بیماریوں سے لے کر روحانی و اخلاقی عوارض اور معاشی، جذباتی، ذاتی اور سماجی مسائل کا جم غفیر ہمارے دل بدن، ذہن اور روح کو کھوکھلا کرنا شروع کریتا ہے۔

آزاد کی طرح لاکھوں نوجوان اپنی جوانی کی تابندگی و توانائی کو محض اِسی وجہ سے وقت سے پہلے کھودیتے ہیں کہ ان کی راہ نمائی اور مشاورت کے لیے نہ کسی کے پاس وقت ہوتا ہے اور نہ ہمارے نفسیاتی و روحانی حوالے سے کھوکھلے معاشرے میں اب اِس طرح کا علمی، فکری، کتابی، ماحول باقی ہے جہاں ذہنوں، دلوں اور روحوں کی آبیاری کے لیے قدیم وجدید علوم اور ان کے عمل کی افادیت کو اجاگر کرنے کے لیے اساتذہ کی شکل میں مثالیں موجود ہوں۔

اور ہر کوئی آزاد کی طرح Lucky یا خوش قسمت بھی نہیں ہوتا جو کم عمری میں کسی یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کیے بغیر، خود کو علامہ سمجھے بغیر، اپنے نصیب کی کمی اور بیماری کو برضاورغبت قبول کرکے ہیڈ ڈاؤن Head Down کرکے زندگی کو ہنسی خوشی طے کرنا شروع کردے۔ اور اپنے تئیں اپنے چھے زاویوں کی نوک پلک سنوارتے رہنے کی مستقل کوشش میں لگا رہے۔

مجھے نہیں پتا کہ اب آزاد کا کیا حال ہے، لیکن امید یہی ہے کہ اگر آزاد بتائی ہوئی باتوں کے مطابق چلتا رہا اور اُس سے کوئی بلنڈر Blunder نہیں ہوا اللہ کا کرم یونہی اس پر نازل ہوتا رہا تو ایک دن ضرور اللہ تعالیٰ اُسے کِسی نہ کسی حوالے سے سُپرمین بنادے گا۔ جب وہ اپنے تمام Conflicts سے نجات حاصل کرکے اپنے پیچھے آنے والوں کے مسائل حل کرنے اور اُن کی دعائیں سمیٹنے میں لگ جائے گا۔

میری آپ سب سے بھی یہی گزارش ہے کہ آپ جو ہیں اور جیسے ہیں، دِل سے خود کو قبول کریں اور اپنے مسائل کے جائز حل تلاش کرکے، خوشی خوشی جینا شروع کردیں۔ اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرتے رہیں۔ انشاء اللہ آپ پھر ہمیشہ کام یابی سے جُڑے رہیں گے۔
Load Next Story