کلبھوشن کیس عالمی عدالت کو قائل کرنے کی ضرورت
پاکستان کو عالمی عدالت انصاف میں ایڈہاک جج تعینات کرنے کا وقت نہیں دیا گیا
QUETTA:
عالمی عدالت انصاف نے بھارت کی درخواست منظور کرتے ہوئے حتمی فیصلے تک کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دے دیا اور کہا ہے کہ عدالت کیس کی سماعت کا اختیار رکھتی ہے، ویانا کنونشن کی تحت پاکستان کو کلبھوشن تک قونصلر رسائی ملنی چاہیے۔ جمعرات کو عالمی عدالت انصاف کے جج رونی ابراہام نے گزشتہ سماعت پر دونوں ملکوں کے وکلاء کے دلائل کے بعد کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کلبھوشن کی پھانسی پر حکم امتناعی جاری کر دیا۔
بادی النظر میں اس عبوری فیصلہ پر بھارت نے اطمینان کا اظہار کیا ہے جب کہ حکومت پاکستان ، اپوزیشن رہنماؤں اور قانونی حلقوں نے ویانا کنونشنز، عالمی عدالت کے دائرہ کار اور دیگر قانونی پہلوؤں کی روشنی میں کلبھوشن کیس کے حوالے سے بعض اہم اور بنیادی قانونی اور آئینی نکات اٹھائے ہیں، پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے حکومت نے عالمی عدالت میں کمزور دلائل پیش کیے، دیے گئے 90 منٹ میں ضروری دلائل دینے سے بوجوہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا، پاکستان نے ایڈ ہاک جج بنچ میں شامل نہیں کرایا، عبوری فیصلے سے دنیا میں پاکستان کی سبکی ہوئی، حکومت کو کلبھوشن کے معاملے پر فوری طور پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانا چاہیے، تاہم مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت انصاف میں نہ جانا مناسب فیصلہ نہ ہوتا، عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد وکلاء کی نئی ٹیم بنائیں گے اور ایڈہاک جج بھی تعینات کرائیںگے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کلبھوشن یادیو کی پھانسی کا فیصلہ اٹل ہے ، وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ کلبھوشن کیس میں ابھی کسی کی ہار جیت کا فیصلہ نہیں ہو ا، پاکستان کی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اسی طرح کلبھوشن کی سزائے موت رکوانے کے عالمی عدالت کے فیصلہ کے سیاق و سباق میں ماہرین قانون نے چشم کشا تبصرے کیے ہیں مگر ضرورت عدالتی فیصلہ کی پہلی سماعت کے بعد ہونے والی آیندہ سماعتوں کے لیے ٹھوس اور مربوط قانونی و آئینی دلائل و استدلال ، شواہد اور دستاویزات کی روشنی میں 11 رکنی ججزکے پینل کو قائل کرنے کی ہے، یہ ایک غیر معمولی قانونی جنگ ہے۔
بھارت نے 8 مئی کو درخواست دی اور اسی دن عدالت نے مختصر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ لہذا بھارت کو محض جذباتی نعروں یا اخباری بیانات سے شکست نہیں دی جا سکتی، پاکستان کو کلبھوشن کے خلاف پاکستان کی فوجی عدالت سے ملنے والی سزا کے جائز اور قانونی اختیار پر بین الاقوامی قوانین اور ویانا کنونشن کی متعلقہ شقوں کے تناظر میں اپنا کیس لڑنا ہوگا جب کہ وکلاء اور ماہرین قانون کی مضبوط ٹیم مکمل تیاری کے ساتھ عالمی عدالت کے روبرو کلبھوشن کی دہشتگردانہ اور بطور جاسوس ریاست مخالف اور انسانیت دشمن سرگرمیوں کا ناقابل تردید ثبوت سامنے رکھے، کیونکہ ایک بھارتی اخبار کے مطابق اگست 2017 ء تک سزائے موت نہ دینے کا حکم جاری ہوا ہے ۔
ادھر سابق نگران وزیر قانون احمر بلال صوفی نے کہا ہے کہ پاکستان کو عالمی عدالت انصاف میں ایڈہاک جج تعینات کرنے کا وقت نہیں دیا گیا مگر اگلے مرحلے میں پاکستان یہ تعیناتی کر سکتا ہے، انھوں نے کہا کہ آئی سی جے کلبھوشن یادیو کو رہا کرنے اور انڈیا کے حوالے کرنے کا حکم نہیں دے سکتی ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ہیگ)کے سابق جج جسٹس (ر) علی نواز چوہان نے کہا ہے کہ زیادہ مناسب ہوتا کہ آئی سی جے کو بتایا جاتا کہ سزائے موت کا فیصلہ حتمی نہیں، ابھی ملٹری اپیلٹ کورٹ اور سویلین سپریم کورٹ کے فورم باقی ہیں، کلبھوشن کو فوری طور پر سزائے موت دینے نہیں جارہے اور قونصلر تک رسائی دینے کو تیار ہیں۔
ایسی صورت میں آئی سی جے حکم امتناعی جاری نہ کرتی، کچھ حلقوں کی تجویز ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے روکنے کے باوجود امریکا کی ایسی تین مثالیں موجود ہیں جن میں عالمی عدالت کے فیصلوں کو نہیں مانا گیا اور مجرموں کو سزائے موت دی گئی، تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ذمے دار ریاست کی حیثیت میں پاکستان عالمی عدالت کے فیصلہ پر عملدرآمد کا پابند ہے ۔ بھارتی حکومت اور میڈیا نے کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو بھارت کی فتح قرار دیتے ہوئے اسے ایک بڑا ریلیف قرار دیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے امکان ظاہر کیا ہے کہ اگر پاکستان نے کلبھوشن یادیو کے معاملے میں فیصلہ تسلیم نہ کیا تو بھارت سلامتی کونسل سے رجوع کریگا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی قانونی ٹیم عالمی عدالت کے عبوری فیصلہ کی روشنی میں خود عدلیہ کے اس نکتہ کو مرکز نگاہ بنائے جس میں قراردیا گیا ہے کہ بھارت کیس کے میرٹ پر عدالت کو مطمئن نہیں کرسکا، اب پاکستان کی باری ہے کہ وہ عدالت کو قطعی مطمئن کرے ، کلبھوشن کے دہشتگردانہ اعترافات سننے پر عدالت کو قائل کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ ساتھ ہی قوم کے مورال کو بلند رکھنے کی ضرورت ہے، سیاسی قیادت سنجیدگی کے ساتھ اس آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلنے کی تدبیر کرے اورآیندہ سماعتوں میں بھارتی استدلال اور امکانی دلائل کے جواب میں دنیا کو بتادیا جائے کہ کلبھوشن کی سزائے موت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔
عالمی عدالت انصاف نے بھارت کی درخواست منظور کرتے ہوئے حتمی فیصلے تک کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دے دیا اور کہا ہے کہ عدالت کیس کی سماعت کا اختیار رکھتی ہے، ویانا کنونشن کی تحت پاکستان کو کلبھوشن تک قونصلر رسائی ملنی چاہیے۔ جمعرات کو عالمی عدالت انصاف کے جج رونی ابراہام نے گزشتہ سماعت پر دونوں ملکوں کے وکلاء کے دلائل کے بعد کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کلبھوشن کی پھانسی پر حکم امتناعی جاری کر دیا۔
بادی النظر میں اس عبوری فیصلہ پر بھارت نے اطمینان کا اظہار کیا ہے جب کہ حکومت پاکستان ، اپوزیشن رہنماؤں اور قانونی حلقوں نے ویانا کنونشنز، عالمی عدالت کے دائرہ کار اور دیگر قانونی پہلوؤں کی روشنی میں کلبھوشن کیس کے حوالے سے بعض اہم اور بنیادی قانونی اور آئینی نکات اٹھائے ہیں، پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے حکومت نے عالمی عدالت میں کمزور دلائل پیش کیے، دیے گئے 90 منٹ میں ضروری دلائل دینے سے بوجوہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا، پاکستان نے ایڈ ہاک جج بنچ میں شامل نہیں کرایا، عبوری فیصلے سے دنیا میں پاکستان کی سبکی ہوئی، حکومت کو کلبھوشن کے معاملے پر فوری طور پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانا چاہیے، تاہم مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت انصاف میں نہ جانا مناسب فیصلہ نہ ہوتا، عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد وکلاء کی نئی ٹیم بنائیں گے اور ایڈہاک جج بھی تعینات کرائیںگے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کلبھوشن یادیو کی پھانسی کا فیصلہ اٹل ہے ، وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ کلبھوشن کیس میں ابھی کسی کی ہار جیت کا فیصلہ نہیں ہو ا، پاکستان کی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اسی طرح کلبھوشن کی سزائے موت رکوانے کے عالمی عدالت کے فیصلہ کے سیاق و سباق میں ماہرین قانون نے چشم کشا تبصرے کیے ہیں مگر ضرورت عدالتی فیصلہ کی پہلی سماعت کے بعد ہونے والی آیندہ سماعتوں کے لیے ٹھوس اور مربوط قانونی و آئینی دلائل و استدلال ، شواہد اور دستاویزات کی روشنی میں 11 رکنی ججزکے پینل کو قائل کرنے کی ہے، یہ ایک غیر معمولی قانونی جنگ ہے۔
بھارت نے 8 مئی کو درخواست دی اور اسی دن عدالت نے مختصر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ لہذا بھارت کو محض جذباتی نعروں یا اخباری بیانات سے شکست نہیں دی جا سکتی، پاکستان کو کلبھوشن کے خلاف پاکستان کی فوجی عدالت سے ملنے والی سزا کے جائز اور قانونی اختیار پر بین الاقوامی قوانین اور ویانا کنونشن کی متعلقہ شقوں کے تناظر میں اپنا کیس لڑنا ہوگا جب کہ وکلاء اور ماہرین قانون کی مضبوط ٹیم مکمل تیاری کے ساتھ عالمی عدالت کے روبرو کلبھوشن کی دہشتگردانہ اور بطور جاسوس ریاست مخالف اور انسانیت دشمن سرگرمیوں کا ناقابل تردید ثبوت سامنے رکھے، کیونکہ ایک بھارتی اخبار کے مطابق اگست 2017 ء تک سزائے موت نہ دینے کا حکم جاری ہوا ہے ۔
ادھر سابق نگران وزیر قانون احمر بلال صوفی نے کہا ہے کہ پاکستان کو عالمی عدالت انصاف میں ایڈہاک جج تعینات کرنے کا وقت نہیں دیا گیا مگر اگلے مرحلے میں پاکستان یہ تعیناتی کر سکتا ہے، انھوں نے کہا کہ آئی سی جے کلبھوشن یادیو کو رہا کرنے اور انڈیا کے حوالے کرنے کا حکم نہیں دے سکتی ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ہیگ)کے سابق جج جسٹس (ر) علی نواز چوہان نے کہا ہے کہ زیادہ مناسب ہوتا کہ آئی سی جے کو بتایا جاتا کہ سزائے موت کا فیصلہ حتمی نہیں، ابھی ملٹری اپیلٹ کورٹ اور سویلین سپریم کورٹ کے فورم باقی ہیں، کلبھوشن کو فوری طور پر سزائے موت دینے نہیں جارہے اور قونصلر تک رسائی دینے کو تیار ہیں۔
ایسی صورت میں آئی سی جے حکم امتناعی جاری نہ کرتی، کچھ حلقوں کی تجویز ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے روکنے کے باوجود امریکا کی ایسی تین مثالیں موجود ہیں جن میں عالمی عدالت کے فیصلوں کو نہیں مانا گیا اور مجرموں کو سزائے موت دی گئی، تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ذمے دار ریاست کی حیثیت میں پاکستان عالمی عدالت کے فیصلہ پر عملدرآمد کا پابند ہے ۔ بھارتی حکومت اور میڈیا نے کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو بھارت کی فتح قرار دیتے ہوئے اسے ایک بڑا ریلیف قرار دیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے امکان ظاہر کیا ہے کہ اگر پاکستان نے کلبھوشن یادیو کے معاملے میں فیصلہ تسلیم نہ کیا تو بھارت سلامتی کونسل سے رجوع کریگا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی قانونی ٹیم عالمی عدالت کے عبوری فیصلہ کی روشنی میں خود عدلیہ کے اس نکتہ کو مرکز نگاہ بنائے جس میں قراردیا گیا ہے کہ بھارت کیس کے میرٹ پر عدالت کو مطمئن نہیں کرسکا، اب پاکستان کی باری ہے کہ وہ عدالت کو قطعی مطمئن کرے ، کلبھوشن کے دہشتگردانہ اعترافات سننے پر عدالت کو قائل کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ ساتھ ہی قوم کے مورال کو بلند رکھنے کی ضرورت ہے، سیاسی قیادت سنجیدگی کے ساتھ اس آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلنے کی تدبیر کرے اورآیندہ سماعتوں میں بھارتی استدلال اور امکانی دلائل کے جواب میں دنیا کو بتادیا جائے کہ کلبھوشن کی سزائے موت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔