آخر عوام
رجب، شعبان اور رمضان، ان تینوں مہینوں میں کاروبار کے لحاظ سے کافی تیزی رہتی ہے
BEIJING:
رجب، شعبان اور رمضان، ان تینوں مہینوں میں کاروبار کے لحاظ سے کافی تیزی رہتی ہے، حالانکہ یہ تینوں مہینے بے حد رحمتوں سے بھرے ہوتے ہیں اور ان کو عبادت میں گزارنے کی تلقین کی گئی ہے، مگر جب سے ہوس نے اپنے پنجے گاڑھے ہیں سب کچھ صرف بزنس بن کر رہ گیا ہے۔ بڑے بڑے خیراتی ادارے، رجب سے ہی عوام کو چندہ، زکوۃٰ و خیرات دینے کے لیے متوجہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کیونکہ ہم لوگ چندہ، خیرات بڑے کھلے دل سے کرتے ہیں۔ اس لیے تمام فلاحی ادارے ان تینوں مہینوں میں بے حد مصروف رہتے ہیں، پھر بھلا ہو رمضان ٹرانسمیشن کا، سحری نشریات، افطاری نشریات اور اب 9 بجے کے بعد کھیل تماشے کی اجازت مزے ہی مزے۔ 5 روزہ یا دس روزہ تراویح کے اجتماعات پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں کہ جیسے ماحول ہو ویسی ہی روٹین بن جاتی ہے، سو کافی سارے لوگ 5 روزہ اور دس روزہ تراویح میں اپنی عبادتوں کو سمو دیتے ہیں اور پھر مزے ہی مزے۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ زندگی کا لائحہ عمل تو چودہ سو سال پہلے ہی ہمیں بحیثیت مسلمان دے دیا گیا ہے، بس ہمیں تو اس کو Follow کرنا ہے اور اپنی اپنی زندگیوں کا آسان بنانا ہے اور ہم نہ جانے کیوں اس کو مشکل بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور اس طرح کہ نہ سرا ملتا ہے اور نہ منزل۔ کبھی ادھر بھٹکنے لگتے ہیں کبھی ادھر۔ جتنی محنت ہم بھٹکنے پر کرتے ہیں اگر اتنی سدھرنے پر کریں تو کہاں سے کہاں پہنچیں۔ بہرحال شعبان کا مہینہ اپنی تمام تر برکتوں کے ساتھ اختتام کی طرف جا رہا ہے، اور پھر انشا اللہ رمضان المبارک کی برکتیں شروع ہوجائیں گی ، مگر ہر سال کی طرح اگر ہم دیکھیں تو مشکل اتنی ہی نظر آتی ہے بلکہ کچھ بڑھی ہوئی لگتی ہے، لوڈ شیڈنگ سے لوگوں کا برا حال ہوگیا ہے، پورے ملک میں بدترین لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے اور وعدہ یہ ہے کہ 2018 تک لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی۔
یقینا سب لوگوں کے کان پک چکے ہیں ان جھوٹے وعدوں سے کہ اس سال لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی۔ شہر کیا، دیہات کیا، گاؤں کیا سب کے سب بے انتہا تکلیف اور پریشانی میں ہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ 2018 بجلی کے خاتمے کا سال ہوگا اور یہ الیکشن کا سال بھی ہے۔ پھر سے ہر دروازے پر دستکیں، وہی معصوم چہرے، وہی معصوم باتیں مزے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ حکومت کا حصہ ہیں وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کام کرنے نہیں دیا جا رہا، پتا نہیں آسمان سے فرشتے آئیں گے یا پھر اللہ رب العزت ہم پر ایسا رحم فرمائے گا کہ ہماری قسمت چمک جائے گی اور آخر کار پاکستان فلاحی ریاست بن جائے گا۔ کتنا سکون آتا ہے یہ سوچ کر ہی کہ ہمارا ملک ایسی فلاحی ریاست ہوگی جس میں ہر شخص چین کی بانسری بجائے گا۔ نہ کوئی غم ہوگا نہ کوئی تکلیف۔
14 مئی کو پی ایس پی چیئرمین مصطفی کمال نے ملین مارچ کا اہتمام کیا۔ بروز اتوار وہ اور ان کے ساتھی میدان میں کودے، مصطفی کمال کیونکہ خود میئر کراچی رہ چکے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں اور کراچی شہر کی رگ رگ جانتے ہیں اس لیے جب بولتے ہیں تو بہت خوب بولتے ہیں، نالج اور دلیل کے ساتھ، بہت اچھی کمپین کی، مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب حکومت کہتی ہے کہ مصطفی کمال عوام کو نہیں نکال پائیں گے عوام ان کے ساتھ ہیں تو پھر گھبراہٹ کا مظاہرہ کیوں ، احتجاج جمہوریت میں سب کا حق ہے، بنیادی ضرورتوں کے نام پر تو ہمارے ہاں بڑے بڑے الیکشن جیتے گئے، انھی بنیادی ضرورتوں کے حصول کے لیے مصطفی کمال نے بھی نعرہ لگایا ہے۔ شہر کراچی میں بجلی کی طرح پینے کا پانی بھی نایاب ہے بے انتہا دکھ اور پریشانی ہے اس شہر کے باسیوں کے لیے جو ملک کا 70 فیصد ریونیو کما کر دیتا ہے۔
زندگی پرسکون ہونے کی بجائے دن بہ دن کمزور عوام کے لیے پریشان کن ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اداروں پر اعتماد کی فضا کمزور اور خوف زیادہ ہونے لگا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے کاموں کے لیے عوام در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں، بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے مظاہرے ہورہے ہیں، اور اسی ایک مظاہرے میں حکومت سندھ نے مظاہرے میں شامل عوام پر ڈنڈے برسائے، خواتین اور بچوں پر شیلنگ کی گئی، راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں، اگر حکومت اپنے آپ کو مضبوط سمجھتی ہے تو پھر وہ خوف میں خلط ملط فیصلے کیوں کرتی ہے۔ اسی طرح ہیوی ٹریفک اور کنٹینرز کا مسئلہ لگاتار تکلیف دے رہا ہے کیونکہ سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہتی ہیں اور الیکشن کا میدان مارنا چاہتی ہیں اس لیے ایسے فیصلے جس میں عوام کو پیسا جائے ان سے پرہیز ہی اچھا ہوگا۔
اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے کہ ملک بڑے آزمائشی دور سے گزر رہا ہے چاروں طرف سے دشمن ہمیں کمزور کرنے کی مسلسل سازشیں کر رہا ہے۔ ہماری افواج بے انتہا ذمے داری کے ساتھ تمام مسائل سے نمٹنا جانتی ہے اور نمٹ رہی ہے۔ مگر بہرحال ہم میں سے ہی بہت سارے لوگوں کو آگے بڑھ کر دشمن کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانا ہوگا اور ہماری افواج کے ہاتھ مضبوط کرنے ہوں گے۔ آزادی سے بڑھ کرکوئی نعمت نہیں اور ہمارے بزرگوں نے جن سچے جذبوں کے ساتھ اس ملک کو حاصل کیا ہے وہ جذبے تاقیامت تک زندہ رہیں گے اور میں آپ اور ہم سب اس آزادی کو برقرار رکھیں گے۔ دہشت گردی کی وبا سے ہر عام و خاص پریشان اور بیزار نظر آتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں ایک دوسرے کو جگہ دیجیے اور مقابلے کی فضا بنائی جائے تاکہ بہتر سے بہتر ہوسکے۔
صرف میں ہی میں کی پالیسی کو یکسر ختم کیا جائے، میں تو صرف اللہ پاک کی ذات ہوتی ہے، ہم سب تو ایک دوسرے کے لیے وسیلے ہیں اور ہمیں اسی طرح ہی سوچنا اور عمل کرنا چاہیے۔
تمام سیاسی پارٹیاں الزامات، گالی گلوچ کی سیاست کو ختم کریں اور اپنے اندر احتساب قائم کریں، حرص و ہوس آخر کب تک، یہ تو وہ دوڑ ہے جو قارون کو عبرت بنا گئی اور جو فرعون کو تا قیامت تک کے لیے ایسا عبرت کا نشان بنا گئی کہ ان کو دیکھ کر توبہ کی جاتی ہے اللہ سے پناہ مانگی جاتی ہے۔ ظلم و ستم کی دوڑ اتنی بڑھ چکی ہے کہ اپنے ملازمین کو زرخرید غلام سمجھا جاتا ہے، ان کے ہاتھ پیر کاٹ دینا گویا کوئی بات ہی نہیں اور سب سے تکلیف دہ عمل ہے حکومت کا انصاف نہ فراہم کرنا۔
تمام سیاسی پارٹیاں اپنے کو اونچا کرنے کے لیے نہیں پاکستان کو اونچا کرنے کے لیے کام کریں، عوام کے دل جیتیں، عوام کو آسانیاں فراہم کریں، شوگر ملز آخر کتنے؟ باہر جائیدادیں آخر کتنی؟ بینک بیلنس آخر کتنا؟ یہ وہ شیطان کی آنتیں ہیں جو کبھی نہ بھری ہیں اور نہ بھریں گی۔ وقت کی آواز کو سنا جائے، روکا جائے اس آہٹ کو اس طوفان کو جو نفرت سے بھر رہا ہے جو حقوق نہ ملنے سے بھر رہا ہے، وقت نکل گیا تو پھر کچھ باقی نہ رہے گا، نہ سیاسی جماعتیں اور نہ حرص و ہوس۔ خدا کے واسطے عام آدمی کے مسائل سمجھے جائیں، بنیادی ضرورتوں کے مانگنے والوں پر ڈنڈے نہ چلائے جائیں، مجمع چاہے ہزاروں کا ہو یا لاکھوں کا، جذبات کو سمجھا جائے ضرورتوں کو سمجھا جائے، یہ عوام ہی کی طاقت ہے جو آپ موجود ہیں، اس طاقت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اس طاقت کی قدر اور عزت ہی تمام مسئلوں کا حل ہے۔
رجب، شعبان اور رمضان، ان تینوں مہینوں میں کاروبار کے لحاظ سے کافی تیزی رہتی ہے، حالانکہ یہ تینوں مہینے بے حد رحمتوں سے بھرے ہوتے ہیں اور ان کو عبادت میں گزارنے کی تلقین کی گئی ہے، مگر جب سے ہوس نے اپنے پنجے گاڑھے ہیں سب کچھ صرف بزنس بن کر رہ گیا ہے۔ بڑے بڑے خیراتی ادارے، رجب سے ہی عوام کو چندہ، زکوۃٰ و خیرات دینے کے لیے متوجہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کیونکہ ہم لوگ چندہ، خیرات بڑے کھلے دل سے کرتے ہیں۔ اس لیے تمام فلاحی ادارے ان تینوں مہینوں میں بے حد مصروف رہتے ہیں، پھر بھلا ہو رمضان ٹرانسمیشن کا، سحری نشریات، افطاری نشریات اور اب 9 بجے کے بعد کھیل تماشے کی اجازت مزے ہی مزے۔ 5 روزہ یا دس روزہ تراویح کے اجتماعات پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں کہ جیسے ماحول ہو ویسی ہی روٹین بن جاتی ہے، سو کافی سارے لوگ 5 روزہ اور دس روزہ تراویح میں اپنی عبادتوں کو سمو دیتے ہیں اور پھر مزے ہی مزے۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ زندگی کا لائحہ عمل تو چودہ سو سال پہلے ہی ہمیں بحیثیت مسلمان دے دیا گیا ہے، بس ہمیں تو اس کو Follow کرنا ہے اور اپنی اپنی زندگیوں کا آسان بنانا ہے اور ہم نہ جانے کیوں اس کو مشکل بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور اس طرح کہ نہ سرا ملتا ہے اور نہ منزل۔ کبھی ادھر بھٹکنے لگتے ہیں کبھی ادھر۔ جتنی محنت ہم بھٹکنے پر کرتے ہیں اگر اتنی سدھرنے پر کریں تو کہاں سے کہاں پہنچیں۔ بہرحال شعبان کا مہینہ اپنی تمام تر برکتوں کے ساتھ اختتام کی طرف جا رہا ہے، اور پھر انشا اللہ رمضان المبارک کی برکتیں شروع ہوجائیں گی ، مگر ہر سال کی طرح اگر ہم دیکھیں تو مشکل اتنی ہی نظر آتی ہے بلکہ کچھ بڑھی ہوئی لگتی ہے، لوڈ شیڈنگ سے لوگوں کا برا حال ہوگیا ہے، پورے ملک میں بدترین لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے اور وعدہ یہ ہے کہ 2018 تک لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی۔
یقینا سب لوگوں کے کان پک چکے ہیں ان جھوٹے وعدوں سے کہ اس سال لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی۔ شہر کیا، دیہات کیا، گاؤں کیا سب کے سب بے انتہا تکلیف اور پریشانی میں ہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ 2018 بجلی کے خاتمے کا سال ہوگا اور یہ الیکشن کا سال بھی ہے۔ پھر سے ہر دروازے پر دستکیں، وہی معصوم چہرے، وہی معصوم باتیں مزے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ حکومت کا حصہ ہیں وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کام کرنے نہیں دیا جا رہا، پتا نہیں آسمان سے فرشتے آئیں گے یا پھر اللہ رب العزت ہم پر ایسا رحم فرمائے گا کہ ہماری قسمت چمک جائے گی اور آخر کار پاکستان فلاحی ریاست بن جائے گا۔ کتنا سکون آتا ہے یہ سوچ کر ہی کہ ہمارا ملک ایسی فلاحی ریاست ہوگی جس میں ہر شخص چین کی بانسری بجائے گا۔ نہ کوئی غم ہوگا نہ کوئی تکلیف۔
14 مئی کو پی ایس پی چیئرمین مصطفی کمال نے ملین مارچ کا اہتمام کیا۔ بروز اتوار وہ اور ان کے ساتھی میدان میں کودے، مصطفی کمال کیونکہ خود میئر کراچی رہ چکے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں اور کراچی شہر کی رگ رگ جانتے ہیں اس لیے جب بولتے ہیں تو بہت خوب بولتے ہیں، نالج اور دلیل کے ساتھ، بہت اچھی کمپین کی، مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب حکومت کہتی ہے کہ مصطفی کمال عوام کو نہیں نکال پائیں گے عوام ان کے ساتھ ہیں تو پھر گھبراہٹ کا مظاہرہ کیوں ، احتجاج جمہوریت میں سب کا حق ہے، بنیادی ضرورتوں کے نام پر تو ہمارے ہاں بڑے بڑے الیکشن جیتے گئے، انھی بنیادی ضرورتوں کے حصول کے لیے مصطفی کمال نے بھی نعرہ لگایا ہے۔ شہر کراچی میں بجلی کی طرح پینے کا پانی بھی نایاب ہے بے انتہا دکھ اور پریشانی ہے اس شہر کے باسیوں کے لیے جو ملک کا 70 فیصد ریونیو کما کر دیتا ہے۔
زندگی پرسکون ہونے کی بجائے دن بہ دن کمزور عوام کے لیے پریشان کن ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اداروں پر اعتماد کی فضا کمزور اور خوف زیادہ ہونے لگا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے کاموں کے لیے عوام در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں، بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے مظاہرے ہورہے ہیں، اور اسی ایک مظاہرے میں حکومت سندھ نے مظاہرے میں شامل عوام پر ڈنڈے برسائے، خواتین اور بچوں پر شیلنگ کی گئی، راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں، اگر حکومت اپنے آپ کو مضبوط سمجھتی ہے تو پھر وہ خوف میں خلط ملط فیصلے کیوں کرتی ہے۔ اسی طرح ہیوی ٹریفک اور کنٹینرز کا مسئلہ لگاتار تکلیف دے رہا ہے کیونکہ سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہتی ہیں اور الیکشن کا میدان مارنا چاہتی ہیں اس لیے ایسے فیصلے جس میں عوام کو پیسا جائے ان سے پرہیز ہی اچھا ہوگا۔
اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے کہ ملک بڑے آزمائشی دور سے گزر رہا ہے چاروں طرف سے دشمن ہمیں کمزور کرنے کی مسلسل سازشیں کر رہا ہے۔ ہماری افواج بے انتہا ذمے داری کے ساتھ تمام مسائل سے نمٹنا جانتی ہے اور نمٹ رہی ہے۔ مگر بہرحال ہم میں سے ہی بہت سارے لوگوں کو آگے بڑھ کر دشمن کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانا ہوگا اور ہماری افواج کے ہاتھ مضبوط کرنے ہوں گے۔ آزادی سے بڑھ کرکوئی نعمت نہیں اور ہمارے بزرگوں نے جن سچے جذبوں کے ساتھ اس ملک کو حاصل کیا ہے وہ جذبے تاقیامت تک زندہ رہیں گے اور میں آپ اور ہم سب اس آزادی کو برقرار رکھیں گے۔ دہشت گردی کی وبا سے ہر عام و خاص پریشان اور بیزار نظر آتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں ایک دوسرے کو جگہ دیجیے اور مقابلے کی فضا بنائی جائے تاکہ بہتر سے بہتر ہوسکے۔
صرف میں ہی میں کی پالیسی کو یکسر ختم کیا جائے، میں تو صرف اللہ پاک کی ذات ہوتی ہے، ہم سب تو ایک دوسرے کے لیے وسیلے ہیں اور ہمیں اسی طرح ہی سوچنا اور عمل کرنا چاہیے۔
تمام سیاسی پارٹیاں الزامات، گالی گلوچ کی سیاست کو ختم کریں اور اپنے اندر احتساب قائم کریں، حرص و ہوس آخر کب تک، یہ تو وہ دوڑ ہے جو قارون کو عبرت بنا گئی اور جو فرعون کو تا قیامت تک کے لیے ایسا عبرت کا نشان بنا گئی کہ ان کو دیکھ کر توبہ کی جاتی ہے اللہ سے پناہ مانگی جاتی ہے۔ ظلم و ستم کی دوڑ اتنی بڑھ چکی ہے کہ اپنے ملازمین کو زرخرید غلام سمجھا جاتا ہے، ان کے ہاتھ پیر کاٹ دینا گویا کوئی بات ہی نہیں اور سب سے تکلیف دہ عمل ہے حکومت کا انصاف نہ فراہم کرنا۔
تمام سیاسی پارٹیاں اپنے کو اونچا کرنے کے لیے نہیں پاکستان کو اونچا کرنے کے لیے کام کریں، عوام کے دل جیتیں، عوام کو آسانیاں فراہم کریں، شوگر ملز آخر کتنے؟ باہر جائیدادیں آخر کتنی؟ بینک بیلنس آخر کتنا؟ یہ وہ شیطان کی آنتیں ہیں جو کبھی نہ بھری ہیں اور نہ بھریں گی۔ وقت کی آواز کو سنا جائے، روکا جائے اس آہٹ کو اس طوفان کو جو نفرت سے بھر رہا ہے جو حقوق نہ ملنے سے بھر رہا ہے، وقت نکل گیا تو پھر کچھ باقی نہ رہے گا، نہ سیاسی جماعتیں اور نہ حرص و ہوس۔ خدا کے واسطے عام آدمی کے مسائل سمجھے جائیں، بنیادی ضرورتوں کے مانگنے والوں پر ڈنڈے نہ چلائے جائیں، مجمع چاہے ہزاروں کا ہو یا لاکھوں کا، جذبات کو سمجھا جائے ضرورتوں کو سمجھا جائے، یہ عوام ہی کی طاقت ہے جو آپ موجود ہیں، اس طاقت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اس طاقت کی قدر اور عزت ہی تمام مسئلوں کا حل ہے۔