بولو خدارا بولو
’’ماضی کے لیے ہیٹ اور مستقبل کے لیے کوٹ اتارنا ضروری ہے ‘‘
برطانوی شاعر اور نثر نگار ڈیارڈ کپلنگ نے کہا تھا '' دنیا کے تمام جھوٹوں میں سے خوفناک جھوٹے آپ کے خوف ہیں'' اگر آپ سے یہ سوال کیا جائے کہ وہ کون سا سوال ہے جو ہر روز، صبح اٹھتے ہی ہر انسان کے ذہن میں آتا ہے تو ہوسکتا ہے آپ چند سیکنڈوں کے لیے سو چ و بچار میں مبتلا ہوجائیں۔ ''میں اپنے حالات کو کیسے بہتر بنا سکتا ہوں ''۔ زندگی میں یہ ہی وہ سوال ہے جو ہر روز آپ کے ذہن میں آتا ہے اور آپ کو بار بار ستاتا ہے۔
امریکی کہاوت ہے ''ماضی کے لیے ہیٹ اور مستقبل کے لیے کوٹ اتارنا ضروری ہے '' لیکن اگر آپ اپنے حالات کی وجہ سے ان دونوں ہی چیزوں سے محروم ہوں تو پھر آپ کے لیے آپ کے اندر جو کچھ موجود ہے اسے بول دینا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ صدیوں سے اصلی امریکی ''بولتی چھڑی '' کو اپنے مشاورتی اجتماع میں استعمال کرتے تھے کہ کس کو بولنے کا حق حاصل ہے جتنا طویل عرصہ مقرر چھڑ ی رکھتا کوئی بھی اس کی گفتگو میں مداخلت نہیں کرتا یہاں تک کہ مقرر خود محسوس کرتا اسے سن لیا گیا اور سمجھ لیا گیا ہے۔
عظیم نفسیات دان اسٹیفن آر کو وے لکھتا ہے '' جو کوئی بھی اپنے ہاتھ میں بولتی چھڑی رکھتا ہے وہ مقدس الفاظ کی طاقت رکھتاہے صرف وہ بول سکتا ہے جو چھڑی اپنے گرفت میں رکھتا ہے کونسل کے دوسرے اراکین لازماً خاموش رہتے ہیں عقابی پر جو بولتی چھڑی سے بندھا ہوتا ہے وہ اس کو سچائی اور عقل مندی سے بولنے کا حوصلہ اور ذہانت عطا فرماتا ہے۔ چھڑی کے آخر ی کنارے پر خرگوش کی لگی ہوئی کھال اس کو یاد دلاتی ہے کہ اس کے الفاظ اس کے دل کی گہرائیوں سے آر ہے ہیں اور وہ نرم و لطیف اور جوشیلے ہیں۔ نیلا پتھر اس کو یاد دلاتا ہے کہ عظیم جذبہ اس کے دل کے پیغام کے ساتھ وہ الفاظ بھی رکھتا ہے جو وہ بولتا ہے ۔
''بولتی چھڑی'' صرف دلائل سے جیتنے کے بارے میں نہیں بلکہ فرد کی کہانی سننے اور اسے دل میں سمجھنے سے متعلق ہے وہ حوصلے، ذہانت اور سچائی میں رحم دلی کے ساتھ لچک کا مطالبہ کرتی ہے ''بولتی چھڑی '' گفتگو کے دائرے کی مرکزی شے جانی جاتی ہے جسے بزرگوں نے طلب کیا ہوتا ہے اور وہ اہم مسائل اور فیصلوں سے نمٹتی ہے۔
ڈاکٹر کیرول لوکسٹ اسے اس انداز میں بیان کرتے ہیں''دائرہ ہر شخص کو اپنی سچائی، اعتماد اور تحفظ والے مقام پر بولنے کی اجازت دیتا ہے کوئی بھی فرد کسی دوسرے سے زیادہ نمایاں نہیں ہوتا سب مساوی ہوتے ہیں اور وہاں کوئی ابتداء اور نہ کوئی اختتام ہوتا ہے اس لیے تمام الفاظ کا برابر کی بنیاد پر قبول اور احترام کیا جاتا ہے'' جتنا زندہ رہنے کے لیے انسان کے لیے سانس لینا ضروری ہے اتناہی زندگی رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے سنا جائے کارل روجرس کو ان لوگوں کے رد عمل کو بیان کرتے ہوئے سنیے جو واقعی خود کو سنا گیا محسوس کرتے ہیں ''تقریباً ہمیشہ جب ایک شخص احساس کرتا ہے وہ بہت ہی زیادہ بغور سنا گیا ہے۔
اس کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ کچھ حقیقی لحاظ سے وہ خوشی سے رو رہا ہوتا ہے یہ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ کہہ رہا تھا '' خدا کا شکر ہے کسی فرد نے مجھے سناتو سہی ۔ کوئی یہ جانتا ہے وہ بھی میری طرح ہے '' ایسے لمحات میں ، میں زمین دوز تہہ خانے میں قیدی کا تخیل رکھتا ہوں جو دیوار پر مورس کے خفیہ کوڈ کے پیغام کی دستک دیتا رہتا ہے کیا یہاں کوئی مجھے سنتا ہے ؟ کیا کوئی فرد وہاں ہے ؟ اور حتمی طور پر ایک دن وہ کچھ کمزور دستک سنتا ہے جو کہتی ہے '' ہاں '' اس سادہ رد عمل کے ذریعے وہ اپنی تنہائی سے آزاد ہوجاتا ہے وہ ازسرنو انسان بن جاتا ہے'' اور جسے سنا نہیں جاتا اس کی حالت ایک بند مقبرے میں قید اس انسان کی طرح ہوجاتی ہے جہاں ہوا آنے کے تمام در و دروازے اور جھریاں بند ہوتی ہیں اور وہ گھٹ گھٹ کر مر جاتا ہے ۔
یاد رہے جب آپ سننے نہیں جاتے تو ہزاروں رد عمل ہجوم کی صورت میں آپ کے ذہن میں آتے ہیں اورآپ اس صورت میں بھی ہزاروں ردعمل ہجوم کے ہاتھوں کچلے جاتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے آپ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اچانک یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں ایک '' گونگی چھڑی '' استعمال کررہے ہیں جو عرصہ دراز پہلے زبردستی ہمارے حوالے کر دی گئی تھیں جس کے تحت ہم سب پابند ہیں کہ ہم کبھی کچھ نہیں بولیں گے ۔ ہم سب صرف اور صرف اپنے مشکل کشاؤں کی سنیں گے کیونکہ ہمیں صرف سننے کی اجازت حاصل ہے بولنے کی نہیں کیونکہ ہمارے ہاتھ میں '' گونگی چھڑی '' ہے نہ کہ '' بولتی چھڑی'' اور ساتھ ہی ساتھ ہم پر پہرے دار بھی بٹھا دیے گئے ہیں کہ اگر کوئی بولنے کی گستاخی کر بیٹھے تو اسی وقت اسے سزا دے دی جائے ۔
اس لیے ہم سب گھٹ گھٹ کر مر رہے ہیں ۔ آپ پورے ملک کے چپے چپے پر اپنی نظریں گاڑ لو اور اس سے بھی زیادہ جو ہورہی ہیں لوگوں کے ساتھ اور زیادتیاں ، ظلم و ستم ، ناانصافیاں کر کے دیکھ لو اس سے بھی زیادہ پانی ، بجلی ، گیس بند کرکے دیکھ لو اس سے بھی زیاد ہ مہنگائی ، غربت ، بیروزگاری کردو اس سے بھی زیادہ اسپتالوں ، ٹرانسپورٹ اور سرکاری آفسوں کا نظام خراب کردو۔
اس سے بھی زیادہ شہروں ، دیہاتوں میں گندگی جمع کردو اس سے بھی زیادہ ملک بھر میں کرپشن لوٹ مار کرلو اس سے بھی زیادہ ملکی اداروں کو تباہ و برباد کردو اس سے بھی زیادہ شہروں کو اکھاڑ پھینکو ،اس سے بھی زیادہ لوگوں کو ذلیل و خوار کرلو ۔ مجال ہے کہ کہیں سے بھی آپ کو کوئی آواز سنائی دیدے مجال ہے کہ کوئی انسان بولنے کی جرأت کر بیٹھے ۔ اس لیے کہ جب تک یہ ''گونگی چھڑی '' بیس کروڑ انسانوں کے ہاتھوں میں ہے آپ صرف ان کی خاموشیاں ہی سن سکتے ہیں ان کی آواز نہیں ۔ اس لیے تو کہتے ہیں کہ یہ ملک اب ایک بڑا مقبرہ بن کے رہ گیا ہے اب آپ ہی بتلا دیجیے کہ مقبرے میں قید انسانوں کے حالات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں کیسے حالات بدل سکتے ہیں روز صبح اٹھتے ہی ذہن پر برسنے والے سوالوں کے پتھروں سے کوئی کیسے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے ۔
آپ ہی بتلا دیجیے اگر آ پ بھی نہیں بتلا سکتے تو پھر آئیں ہم سب قدیم یونانیوں کی طرف دیکھتے ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ انسانوں کو سوچنا سکھایا بلکہ یہ بھی سکھایا کہ ہم اپنی سوچ پر سوچنا سیکھیں ۔ اس لیے آئیں ہم سب سوچتے ہیں کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہمارے ہاتھوں میں زبردستی تھاما دی گئی بے جان ''گونگی چھڑی ''کو ہم توڑ بھی نہیں سکتے ۔ کیا ہم اتنے بزدل ہیں کہ ہم اپنی آواز بھی نہیں نکال سکتے ۔ یاد رکھو اگر تم نہیں بولو گے تو گونگے ہی مر جاؤ گے لیکن اگر بولو گے تو تم زندہ ہوجاؤ گے دوبارہ انسان بن جاؤ گے۔ آؤ رڈ یارڈ کپلنگ کی کہی گئی بات باربار دہرائیں ''دنیا کے تمام جھوٹوں میں سے خوفناک جھوٹے آپ کے خوف ہیں۔''
امریکی کہاوت ہے ''ماضی کے لیے ہیٹ اور مستقبل کے لیے کوٹ اتارنا ضروری ہے '' لیکن اگر آپ اپنے حالات کی وجہ سے ان دونوں ہی چیزوں سے محروم ہوں تو پھر آپ کے لیے آپ کے اندر جو کچھ موجود ہے اسے بول دینا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ صدیوں سے اصلی امریکی ''بولتی چھڑی '' کو اپنے مشاورتی اجتماع میں استعمال کرتے تھے کہ کس کو بولنے کا حق حاصل ہے جتنا طویل عرصہ مقرر چھڑ ی رکھتا کوئی بھی اس کی گفتگو میں مداخلت نہیں کرتا یہاں تک کہ مقرر خود محسوس کرتا اسے سن لیا گیا اور سمجھ لیا گیا ہے۔
عظیم نفسیات دان اسٹیفن آر کو وے لکھتا ہے '' جو کوئی بھی اپنے ہاتھ میں بولتی چھڑی رکھتا ہے وہ مقدس الفاظ کی طاقت رکھتاہے صرف وہ بول سکتا ہے جو چھڑی اپنے گرفت میں رکھتا ہے کونسل کے دوسرے اراکین لازماً خاموش رہتے ہیں عقابی پر جو بولتی چھڑی سے بندھا ہوتا ہے وہ اس کو سچائی اور عقل مندی سے بولنے کا حوصلہ اور ذہانت عطا فرماتا ہے۔ چھڑی کے آخر ی کنارے پر خرگوش کی لگی ہوئی کھال اس کو یاد دلاتی ہے کہ اس کے الفاظ اس کے دل کی گہرائیوں سے آر ہے ہیں اور وہ نرم و لطیف اور جوشیلے ہیں۔ نیلا پتھر اس کو یاد دلاتا ہے کہ عظیم جذبہ اس کے دل کے پیغام کے ساتھ وہ الفاظ بھی رکھتا ہے جو وہ بولتا ہے ۔
''بولتی چھڑی'' صرف دلائل سے جیتنے کے بارے میں نہیں بلکہ فرد کی کہانی سننے اور اسے دل میں سمجھنے سے متعلق ہے وہ حوصلے، ذہانت اور سچائی میں رحم دلی کے ساتھ لچک کا مطالبہ کرتی ہے ''بولتی چھڑی '' گفتگو کے دائرے کی مرکزی شے جانی جاتی ہے جسے بزرگوں نے طلب کیا ہوتا ہے اور وہ اہم مسائل اور فیصلوں سے نمٹتی ہے۔
ڈاکٹر کیرول لوکسٹ اسے اس انداز میں بیان کرتے ہیں''دائرہ ہر شخص کو اپنی سچائی، اعتماد اور تحفظ والے مقام پر بولنے کی اجازت دیتا ہے کوئی بھی فرد کسی دوسرے سے زیادہ نمایاں نہیں ہوتا سب مساوی ہوتے ہیں اور وہاں کوئی ابتداء اور نہ کوئی اختتام ہوتا ہے اس لیے تمام الفاظ کا برابر کی بنیاد پر قبول اور احترام کیا جاتا ہے'' جتنا زندہ رہنے کے لیے انسان کے لیے سانس لینا ضروری ہے اتناہی زندگی رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے سنا جائے کارل روجرس کو ان لوگوں کے رد عمل کو بیان کرتے ہوئے سنیے جو واقعی خود کو سنا گیا محسوس کرتے ہیں ''تقریباً ہمیشہ جب ایک شخص احساس کرتا ہے وہ بہت ہی زیادہ بغور سنا گیا ہے۔
اس کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ کچھ حقیقی لحاظ سے وہ خوشی سے رو رہا ہوتا ہے یہ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ کہہ رہا تھا '' خدا کا شکر ہے کسی فرد نے مجھے سناتو سہی ۔ کوئی یہ جانتا ہے وہ بھی میری طرح ہے '' ایسے لمحات میں ، میں زمین دوز تہہ خانے میں قیدی کا تخیل رکھتا ہوں جو دیوار پر مورس کے خفیہ کوڈ کے پیغام کی دستک دیتا رہتا ہے کیا یہاں کوئی مجھے سنتا ہے ؟ کیا کوئی فرد وہاں ہے ؟ اور حتمی طور پر ایک دن وہ کچھ کمزور دستک سنتا ہے جو کہتی ہے '' ہاں '' اس سادہ رد عمل کے ذریعے وہ اپنی تنہائی سے آزاد ہوجاتا ہے وہ ازسرنو انسان بن جاتا ہے'' اور جسے سنا نہیں جاتا اس کی حالت ایک بند مقبرے میں قید اس انسان کی طرح ہوجاتی ہے جہاں ہوا آنے کے تمام در و دروازے اور جھریاں بند ہوتی ہیں اور وہ گھٹ گھٹ کر مر جاتا ہے ۔
یاد رہے جب آپ سننے نہیں جاتے تو ہزاروں رد عمل ہجوم کی صورت میں آپ کے ذہن میں آتے ہیں اورآپ اس صورت میں بھی ہزاروں ردعمل ہجوم کے ہاتھوں کچلے جاتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے آپ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اچانک یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں ایک '' گونگی چھڑی '' استعمال کررہے ہیں جو عرصہ دراز پہلے زبردستی ہمارے حوالے کر دی گئی تھیں جس کے تحت ہم سب پابند ہیں کہ ہم کبھی کچھ نہیں بولیں گے ۔ ہم سب صرف اور صرف اپنے مشکل کشاؤں کی سنیں گے کیونکہ ہمیں صرف سننے کی اجازت حاصل ہے بولنے کی نہیں کیونکہ ہمارے ہاتھ میں '' گونگی چھڑی '' ہے نہ کہ '' بولتی چھڑی'' اور ساتھ ہی ساتھ ہم پر پہرے دار بھی بٹھا دیے گئے ہیں کہ اگر کوئی بولنے کی گستاخی کر بیٹھے تو اسی وقت اسے سزا دے دی جائے ۔
اس لیے ہم سب گھٹ گھٹ کر مر رہے ہیں ۔ آپ پورے ملک کے چپے چپے پر اپنی نظریں گاڑ لو اور اس سے بھی زیادہ جو ہورہی ہیں لوگوں کے ساتھ اور زیادتیاں ، ظلم و ستم ، ناانصافیاں کر کے دیکھ لو اس سے بھی زیادہ پانی ، بجلی ، گیس بند کرکے دیکھ لو اس سے بھی زیاد ہ مہنگائی ، غربت ، بیروزگاری کردو اس سے بھی زیادہ اسپتالوں ، ٹرانسپورٹ اور سرکاری آفسوں کا نظام خراب کردو۔
اس سے بھی زیادہ شہروں ، دیہاتوں میں گندگی جمع کردو اس سے بھی زیادہ ملک بھر میں کرپشن لوٹ مار کرلو اس سے بھی زیادہ ملکی اداروں کو تباہ و برباد کردو اس سے بھی زیادہ شہروں کو اکھاڑ پھینکو ،اس سے بھی زیادہ لوگوں کو ذلیل و خوار کرلو ۔ مجال ہے کہ کہیں سے بھی آپ کو کوئی آواز سنائی دیدے مجال ہے کہ کوئی انسان بولنے کی جرأت کر بیٹھے ۔ اس لیے کہ جب تک یہ ''گونگی چھڑی '' بیس کروڑ انسانوں کے ہاتھوں میں ہے آپ صرف ان کی خاموشیاں ہی سن سکتے ہیں ان کی آواز نہیں ۔ اس لیے تو کہتے ہیں کہ یہ ملک اب ایک بڑا مقبرہ بن کے رہ گیا ہے اب آپ ہی بتلا دیجیے کہ مقبرے میں قید انسانوں کے حالات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں کیسے حالات بدل سکتے ہیں روز صبح اٹھتے ہی ذہن پر برسنے والے سوالوں کے پتھروں سے کوئی کیسے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے ۔
آپ ہی بتلا دیجیے اگر آ پ بھی نہیں بتلا سکتے تو پھر آئیں ہم سب قدیم یونانیوں کی طرف دیکھتے ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ انسانوں کو سوچنا سکھایا بلکہ یہ بھی سکھایا کہ ہم اپنی سوچ پر سوچنا سیکھیں ۔ اس لیے آئیں ہم سب سوچتے ہیں کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہمارے ہاتھوں میں زبردستی تھاما دی گئی بے جان ''گونگی چھڑی ''کو ہم توڑ بھی نہیں سکتے ۔ کیا ہم اتنے بزدل ہیں کہ ہم اپنی آواز بھی نہیں نکال سکتے ۔ یاد رکھو اگر تم نہیں بولو گے تو گونگے ہی مر جاؤ گے لیکن اگر بولو گے تو تم زندہ ہوجاؤ گے دوبارہ انسان بن جاؤ گے۔ آؤ رڈ یارڈ کپلنگ کی کہی گئی بات باربار دہرائیں ''دنیا کے تمام جھوٹوں میں سے خوفناک جھوٹے آپ کے خوف ہیں۔''