خسرہ سے بچوں کی ہلاکتیں
بلوچستان میں خسرے سے 32 ، سندھ میں 62 بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔
نئے سال کے آغاز سے 19 جنوری تک پاکستان میں خسرے کی وبا سے 103 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جب کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پچھلے سال پاکستان میں 310 مریض اس موذی بیماری کا شکار ہوکر جاں بحق ہوئے تھے۔ تشویشناک خبر یہ ہے کہ سندھ میں تباہی پھیلانے کے بعد خسرے کی وبا نے لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی پنجے گاڑ لیے ہیں۔ لاہور میں خسرے کے باعث ابتدائی طور پر دو بچوں کے جان سے گزر جانے کی اطلاع ہے۔ محکمہ صحت پنجاب نے تسلیم کیا ہے کہ صوبے کے مختلف علاقوں سے اب تک خسرے کے 1500کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
دو ماہ میں اس بیماری سے ہلاکتوں کی تعداد 9 ہو گئی ہے ۔ بلوچستان میں خسرے سے 32 ، سندھ میں 62 بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 290 بچوں میں خسرے کی تشخیص ہوئی مگر وہاں کسی ہلاکت کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے محکمہ صحت کو حکم دیا ہے کہ خسرے کی روک تھام کے لیے دو دن کے اندر اندر ہنگامی منصوبہ تیار کیا جائے اور اس وبا کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ خسرہ کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا علاج نہ ہو لیکن کیا کیا جائے کہ پاکستان میں ایسی بیماریوں سے انسان زندگی کی بازی ہار رہے ہیںجن کا علاج موجود ہے۔خسرہ سے ہلاکتوں کے معاملے میں حکومتی سطح پر جو سرد مہری دیکھنے میں آرہی ہے، اس سے گڈگورننس کا پردہ چاک ہوجاتا ہے۔ پاکستان شاید دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں صحت کے شعبے کے لیے سالانہ میزانیہ میں انتہائی کم بجٹ رکھا جاتا ہے۔
یہاں ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں روپے کے فنڈز دیے جاتے ہیں جو پہلے سے بنی سٹرکوں اور گلیوں کو اکھاڑ کر نئے سر ے سے بنانے پر خرچ کردیے جاتے ہیں لیکن اسپتالوں میں ادویات فراہم کی جاتی ہیں نہ نئے اسپتال تعمیر کیے جاتے ہیں۔ بیورو کریٹس ہوں یا عام سرکاری ملازم انھیں علاج کی سہولت حاصل ہوتی ہے لیکن عام آدمی جو تمام سرکاری ٹیکس ادا کررہا ہے، اسے کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔ اس حوالے سے کسی ایک صوبے کو قصور وار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پنجاب ، سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سب جگہ صحت کی سہولتیں مناسب نہیں ہیں۔ ملک میں معصوم بچوں کا یوں خسرہ سے جاں بحق ہونا، حکمرانوں کے لیے باعث شرمندگی اور ندامت ہونا چاہیے۔امید ہے کہ چاروں صوبوں کی حکومتیں خسرہ جیسی وبا کے خاتمے کے لیے ہنگامی نوعیت کی منصوبندی کریں گی۔
دو ماہ میں اس بیماری سے ہلاکتوں کی تعداد 9 ہو گئی ہے ۔ بلوچستان میں خسرے سے 32 ، سندھ میں 62 بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 290 بچوں میں خسرے کی تشخیص ہوئی مگر وہاں کسی ہلاکت کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے محکمہ صحت کو حکم دیا ہے کہ خسرے کی روک تھام کے لیے دو دن کے اندر اندر ہنگامی منصوبہ تیار کیا جائے اور اس وبا کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ خسرہ کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا علاج نہ ہو لیکن کیا کیا جائے کہ پاکستان میں ایسی بیماریوں سے انسان زندگی کی بازی ہار رہے ہیںجن کا علاج موجود ہے۔خسرہ سے ہلاکتوں کے معاملے میں حکومتی سطح پر جو سرد مہری دیکھنے میں آرہی ہے، اس سے گڈگورننس کا پردہ چاک ہوجاتا ہے۔ پاکستان شاید دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں صحت کے شعبے کے لیے سالانہ میزانیہ میں انتہائی کم بجٹ رکھا جاتا ہے۔
یہاں ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں روپے کے فنڈز دیے جاتے ہیں جو پہلے سے بنی سٹرکوں اور گلیوں کو اکھاڑ کر نئے سر ے سے بنانے پر خرچ کردیے جاتے ہیں لیکن اسپتالوں میں ادویات فراہم کی جاتی ہیں نہ نئے اسپتال تعمیر کیے جاتے ہیں۔ بیورو کریٹس ہوں یا عام سرکاری ملازم انھیں علاج کی سہولت حاصل ہوتی ہے لیکن عام آدمی جو تمام سرکاری ٹیکس ادا کررہا ہے، اسے کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔ اس حوالے سے کسی ایک صوبے کو قصور وار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پنجاب ، سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سب جگہ صحت کی سہولتیں مناسب نہیں ہیں۔ ملک میں معصوم بچوں کا یوں خسرہ سے جاں بحق ہونا، حکمرانوں کے لیے باعث شرمندگی اور ندامت ہونا چاہیے۔امید ہے کہ چاروں صوبوں کی حکومتیں خسرہ جیسی وبا کے خاتمے کے لیے ہنگامی نوعیت کی منصوبندی کریں گی۔