انتخابات اور موسمی پرندے
انتخابی جوڑ توڑ اور صف بندیاں شروع ہو رہی ہیں۔ حلیف اور حریف صفیں بدل رہے ہیں۔
موسمی پرندے اپنے آشیانے بدل رہے ہیں، موجودہ پارلیمان کی آئینی مدت ختم ہونے کو ہے، الٹی گنتی شروع ہو چکی، ہر گزرتا لمحہ 16 مارچ کو قریب سے قریب تر کرتا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی کھیل کے قواعد و ضوابط جاری کر دیے ہیں جس کا تعلق اخلاقی سے زیادہ مالی امور پر ہے لیکن کراچی شہر میں حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی جانچ پڑتال کے معاملے پر فخرالدین جی ابراہیم کو پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے جس کے بعد کراچی اور حیدرآباد میں آزادانہ اور غیر جانبدرانہ انتخابات کے حوالے سے بیشتر سیاسی جماعتوں نے احتجاج اور تحفظات ظاہر کرنا شروع کر دیے ہیں۔
بہار سے پہلے انتخابی بہار کا موسم آن پہنچا ہے۔ انتخابی جوڑ توڑ اور صف بندیاں شروع ہو رہی ہیں۔ حلیف اور حریف صفیں بدل رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ذاتی مفادات، پسند نا پسند کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ اخلاقیات اور بلند آدرش، سب کچھ وقتی سیاسی مفادات کی قربان گاہ پر بلیدان کیا جا رہا ہے۔ اب بغیر کسی آمرانہ تحفظ اور فوجی چھتری کے، سیاستدان اور سیاست کار از خود بروئے کار ہیں۔ گجرات کے چوہدریوں کی (ق ) لیگ اور پیپلزپارٹی کا غیر روایتی سیاسی اتحاد جاری رہے گا جو دیہی پنجاب میں موثر امیدواروں اور برادریوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے ذریعے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو گا۔
صدر زرداری، جناب نواز شریف سمیت تمام سیاسی زعماء بر وقت عام انتخابات کے لیے پر عزم ہیں۔ الیکشن کمیشن کی تیاریوں کے باوجود کے فضا میں نامعلوم اور نادیدہ خدشات کی بناء پر سازشوں کی بو اور التواء کی سرگوشیاں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔کہتے ہیں کہ اصل کھیل نگران حکومت کی تشکیل کے بعد شروع ہو گا جب صدر زرداری ایوان صدر کی حدود میں مقید ہو جائیں گے جب کہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ پوری طرح بروئے کار ہوں گے اور ساری انتظامی مشینری ان کے احکامات پر عملدرآمد کر رہی ہو گی۔متوقع عام انتخابات میں پہلا بڑا معرکہ دیہی سندھ میں ہو گا جہاں پیپلزپارٹی سے روایتی سندھ کارڈ چھیننے کے لیے قوم پرست، مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل لیگ کے ساتھ صوبائی سطح پرگرینڈ الائنس بنانے جا رہے ہیں جس کے لیے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ہر حلقے میں متفقہ اور موثر امیدوار لانے کے لیے حتمی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ غوث بخش مہر کی مسلم لیگ (ق) سے فنکشنل لیگ میں شمولیت اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
سندھ کے شہری علاقوں میں سیاسی منظر یکسر مختلف ہے۔کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا فطری اتحاد ہو سکتا ہے لیکن جس طرح تذبذب کے عالم میں جناب عمران خان نے لانگ مارچ کے دوران طاہر القادری اور ان کے مشکوک سیاسی ایجنڈے کی حمایت کی تھی، جماعت اسلامی کے ساتھ ان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قربت میں سرد مہری در آئی ہے لیکن سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی گزشتہ کئی دہائیوں سے اجارہ داری کو جماعت اسلامی، تحریکِ انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں، گروپوں کے سیاسی اتحاد کے ذریعے ہی موثر طریقے سے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
پنجاب کا سیاسی منظر نامہ کئی حصوں میں منقسم ہو چکا ہے۔ پہلی تقسیم وسطی اور جنوبی پنجاب کی ہے۔ اقتدار کے کھیل میں مرکزی کردار ادا کرنے والے جنوبی پنجاب میں شہری اور دیہی سیاست کی تقسیم بہت گہری نہیں ہے، وہاں پر نئے صوبوں کا قیام سب سے بڑا انتخابی نعرہ بنا ہوا ہے۔ مقامی سرائیکی وسیب کی طاقتور مگر انتخابی میدان میں غیر موثر تحریک کے ساتھ بہاولپور صوبہ بحالی تحریک نے انفرادی اور جماعتی سطح پر نئی صف بندیاں تشکیل دی ہیں۔ جس کے لیے قوت کار، اَنتھک محمد علی درانی فراہم کر رہے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں پس پردہ رہ کر راستے بنانے کے ماہر علی درانی نے گذشتہ دو دہائیوں میں پے در پے اہداف حاصل کر کے اپنی مہارت ثابت کر دی ہے۔جناب آصف زرداری نے اپنے سیاسی حریف مگر قریبی دوست میاں محمد نواز شریف کو زیریں سندھ میں سیاسی پیش قدمی کا جواب جنوبی پنجاب میں دیا ہے جہاں انھوں نے مخدوم احمد محمود کو گورنر پنجاب نامزد کر کے پہلی شاہ مات دی اور اب ذوالفقار کھوسہ کے فرزندِ ارجمند سیف الدین کھوسہ نے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اسی طرح گورنر صاحب کے تینوں صاحبزادے بھی پیپلزپارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔
سابق ریاست بہاولپور اور موجودہ بہاولپور ڈویژن کے سیاسی منظر نامے پر صوبہ بہاولپور کی بحالی کا ایک نکاتی نعرہ چھایا ہوا ہے جب کہ صوبہ بحالی تحریک کے دونوں رہنما، محمد علی درانی اور نواب صلاح الدین عباسی انتخابی معرکے اور سیاسی اتحادوں کے کھیل میں کودنے کے معاملے میں تذبذب کا شکار ہیں لیکن پنجاب کے مستقبل کی سیاست میں بہاولپور کے نمایندگان کاپریشر گروپ قومی سطح پر ایم کیو ایم جیسی اہمیت اختیار کر سکتا ہے۔
ساہیوال سے اٹک تک جی ٹی روڈ کے ارد گرد کا علاقہ دیہات کے بجائے شہری بود و باش کا حامل ہے۔ جس نے نوے کی دہائی سے جناب نواز شریف کے حق میں واضح اکثریتی رائے دی تھی۔ لاہور پاکستان کی سیاست کا دھڑکتا دل ہے۔ جو اپنی مسلمہ تاریخی اور سیاسی اہمیت کے باوجود دو برادریوں میں بٹا ہوا تھا۔ یہ نواز شریف تھے جنہوں نے 1935ء کے بعد شروع ہونے والے سیاسی عمل میں برادریوں کی تقسیم پر مشتمل انتخابی کھیل کو تہہ و بالا کر دیا اور تاریخ میں پہلی بار لاہور سے ارائیں اور کشمیری برادریوں کی سیاست کا خاتمہ ہوا اور وہ لاہور کے مسلمہ رہنما قرار پائے۔
لاہور میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف باہم مل کر جناب نواز شریف کو چیلنج کر سکتے ہیں لیکن جماعت اسلامی کے مقامی قائدین، اندر کھاتے جناب نواز شریف سے اتحاد کے لیے مرے جا رہے ہیں کہ ان کے مقدر کا ستارہ صرف نواز شریف کے زیر سایہ ہی چمک سکتا ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف کے مقامی رہنمائوں میں سے بیشتر جماعت اسلامی کے ان ''صالحین'' کے ستائے ہوئے ہیں۔ جناب نواز شریف کو وسط پنجاب میں پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب گوجرانوالہ سے شریف النفس ایس اے حمید تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔ اب جہلم میں راجہ افضل اپنے ارکان قومی اسمبلی صاحبزادوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایک تاجر کے ہاتھوں شکست نے راجہ صاحب کا دل توڑ دیا ہے ورنہ راجہ صاحب تو دور مشرف میں کمال استقامت سے ڈٹے رہے جب بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو گیا تھا اور خود میاں نواز شریف اپنے خاندان سمیت سرور پیلس جدہ کے عافیت کدے میں پناہ گزین تھے۔ یہ راجہ افضل جیسے وفا شعار ہی تو تھے جنہوں نے شریف برادران کی سیاست کا جھنڈا تھامے رکھا تھا۔ اسی طرح راولپنڈی شہر میں بھی اصل معرکہ آرائی پیپلزپارٹی، نواز لیگ کے درمیان ہو گی لیکن تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا متوقع اتحاد تباہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ رہے شیخ رشید ،توکٹی پتنگ کی طرح ادھر اُدھر منڈلانا ان کا مقدر ٹھہرا ہے۔ سانحہ لال مسجد نے ان کی سیاست کا سفینہ ڈبو دیا۔
خیبر پختون خوا کے سبزہ زاروں اور سنگلاخ کوہساروں کے دامن میں سیاسی مجبوریاں، علمائے دیوبند کے علمیت پسند جانشینوں اور جماعت اسلامی کے صالحین کو تیزی سے قریب کر رہی ہیں جس کی وجہ سے سرخ پوش خدائی خدمت گاروں کے کیمپ میں افراتفری کا سماں ہے۔ جنہوں نے انگریز سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے نیک نام غفار خان کے اُجلے دامن کو حقیقت پسندی کی کوکھ سے جنم لینے والی کاروباری ''سیاست''سے داغدار کردیا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں بائیکاٹ کی وجہ سے اے این پی کو کھلا میدان مل گیا تھا لیکن اس بار خیبر پختون خوا کا سیاسی منظر بدل جائے گا۔ ہو سکتا ہے اے این پی صرف چند نشستوں تک محدود ہوجائے اور علمائے دیوبند اور صالحین کے نمایندے ایک بار پھر خیبر پختون خوا میں ''عوامی خدمت'' کے نئے عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے لیے آن وارد ہوں۔
رہا بلوچستان تو وہاں کچھ نہیں بدلے گا۔ وہی بلوچ سردار، وہی قوم پرست اور ملائوں کی بندر بانٹ ایک بار پھر ساری بلوچستان اسمبلی حکمران ہو گی۔ اب نجانے کون قائد حزب اختلاف کی اداکاری کرے گا لیکن بلوچستان اسمبلی کا بلوچ عوام کے خلاف اجتماعی جرم تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی کہ انھوں نے دس سال کے طویل عرصے میں دس ارب روپے کی خطیر رقم سے پچانوے فیصد بلوچستان کے بی ایریا کو آئین اور قانون کی عملداری میں لانے کے بعد واپس پتھر کے دور کے قبائلی نظام میں دھکیل دیا تھا۔ خاص طور پر اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے نام پر منتخب ہونے والے جے یو آئی کے مختلف دھڑوں سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کو اس مادی دنیا کے ساتھ ساتھ روز محشر بھی جواب دہ ہونا ہو گا۔
بہار سے پہلے انتخابی بہار کا موسم آن پہنچا ہے۔ انتخابی جوڑ توڑ اور صف بندیاں شروع ہو رہی ہیں۔ حلیف اور حریف صفیں بدل رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ذاتی مفادات، پسند نا پسند کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ اخلاقیات اور بلند آدرش، سب کچھ وقتی سیاسی مفادات کی قربان گاہ پر بلیدان کیا جا رہا ہے۔ اب بغیر کسی آمرانہ تحفظ اور فوجی چھتری کے، سیاستدان اور سیاست کار از خود بروئے کار ہیں۔ گجرات کے چوہدریوں کی (ق ) لیگ اور پیپلزپارٹی کا غیر روایتی سیاسی اتحاد جاری رہے گا جو دیہی پنجاب میں موثر امیدواروں اور برادریوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے ذریعے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو گا۔
صدر زرداری، جناب نواز شریف سمیت تمام سیاسی زعماء بر وقت عام انتخابات کے لیے پر عزم ہیں۔ الیکشن کمیشن کی تیاریوں کے باوجود کے فضا میں نامعلوم اور نادیدہ خدشات کی بناء پر سازشوں کی بو اور التواء کی سرگوشیاں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔کہتے ہیں کہ اصل کھیل نگران حکومت کی تشکیل کے بعد شروع ہو گا جب صدر زرداری ایوان صدر کی حدود میں مقید ہو جائیں گے جب کہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ پوری طرح بروئے کار ہوں گے اور ساری انتظامی مشینری ان کے احکامات پر عملدرآمد کر رہی ہو گی۔متوقع عام انتخابات میں پہلا بڑا معرکہ دیہی سندھ میں ہو گا جہاں پیپلزپارٹی سے روایتی سندھ کارڈ چھیننے کے لیے قوم پرست، مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل لیگ کے ساتھ صوبائی سطح پرگرینڈ الائنس بنانے جا رہے ہیں جس کے لیے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ہر حلقے میں متفقہ اور موثر امیدوار لانے کے لیے حتمی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ غوث بخش مہر کی مسلم لیگ (ق) سے فنکشنل لیگ میں شمولیت اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
سندھ کے شہری علاقوں میں سیاسی منظر یکسر مختلف ہے۔کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا فطری اتحاد ہو سکتا ہے لیکن جس طرح تذبذب کے عالم میں جناب عمران خان نے لانگ مارچ کے دوران طاہر القادری اور ان کے مشکوک سیاسی ایجنڈے کی حمایت کی تھی، جماعت اسلامی کے ساتھ ان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قربت میں سرد مہری در آئی ہے لیکن سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی گزشتہ کئی دہائیوں سے اجارہ داری کو جماعت اسلامی، تحریکِ انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں، گروپوں کے سیاسی اتحاد کے ذریعے ہی موثر طریقے سے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
پنجاب کا سیاسی منظر نامہ کئی حصوں میں منقسم ہو چکا ہے۔ پہلی تقسیم وسطی اور جنوبی پنجاب کی ہے۔ اقتدار کے کھیل میں مرکزی کردار ادا کرنے والے جنوبی پنجاب میں شہری اور دیہی سیاست کی تقسیم بہت گہری نہیں ہے، وہاں پر نئے صوبوں کا قیام سب سے بڑا انتخابی نعرہ بنا ہوا ہے۔ مقامی سرائیکی وسیب کی طاقتور مگر انتخابی میدان میں غیر موثر تحریک کے ساتھ بہاولپور صوبہ بحالی تحریک نے انفرادی اور جماعتی سطح پر نئی صف بندیاں تشکیل دی ہیں۔ جس کے لیے قوت کار، اَنتھک محمد علی درانی فراہم کر رہے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں پس پردہ رہ کر راستے بنانے کے ماہر علی درانی نے گذشتہ دو دہائیوں میں پے در پے اہداف حاصل کر کے اپنی مہارت ثابت کر دی ہے۔جناب آصف زرداری نے اپنے سیاسی حریف مگر قریبی دوست میاں محمد نواز شریف کو زیریں سندھ میں سیاسی پیش قدمی کا جواب جنوبی پنجاب میں دیا ہے جہاں انھوں نے مخدوم احمد محمود کو گورنر پنجاب نامزد کر کے پہلی شاہ مات دی اور اب ذوالفقار کھوسہ کے فرزندِ ارجمند سیف الدین کھوسہ نے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اسی طرح گورنر صاحب کے تینوں صاحبزادے بھی پیپلزپارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔
سابق ریاست بہاولپور اور موجودہ بہاولپور ڈویژن کے سیاسی منظر نامے پر صوبہ بہاولپور کی بحالی کا ایک نکاتی نعرہ چھایا ہوا ہے جب کہ صوبہ بحالی تحریک کے دونوں رہنما، محمد علی درانی اور نواب صلاح الدین عباسی انتخابی معرکے اور سیاسی اتحادوں کے کھیل میں کودنے کے معاملے میں تذبذب کا شکار ہیں لیکن پنجاب کے مستقبل کی سیاست میں بہاولپور کے نمایندگان کاپریشر گروپ قومی سطح پر ایم کیو ایم جیسی اہمیت اختیار کر سکتا ہے۔
ساہیوال سے اٹک تک جی ٹی روڈ کے ارد گرد کا علاقہ دیہات کے بجائے شہری بود و باش کا حامل ہے۔ جس نے نوے کی دہائی سے جناب نواز شریف کے حق میں واضح اکثریتی رائے دی تھی۔ لاہور پاکستان کی سیاست کا دھڑکتا دل ہے۔ جو اپنی مسلمہ تاریخی اور سیاسی اہمیت کے باوجود دو برادریوں میں بٹا ہوا تھا۔ یہ نواز شریف تھے جنہوں نے 1935ء کے بعد شروع ہونے والے سیاسی عمل میں برادریوں کی تقسیم پر مشتمل انتخابی کھیل کو تہہ و بالا کر دیا اور تاریخ میں پہلی بار لاہور سے ارائیں اور کشمیری برادریوں کی سیاست کا خاتمہ ہوا اور وہ لاہور کے مسلمہ رہنما قرار پائے۔
لاہور میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف باہم مل کر جناب نواز شریف کو چیلنج کر سکتے ہیں لیکن جماعت اسلامی کے مقامی قائدین، اندر کھاتے جناب نواز شریف سے اتحاد کے لیے مرے جا رہے ہیں کہ ان کے مقدر کا ستارہ صرف نواز شریف کے زیر سایہ ہی چمک سکتا ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف کے مقامی رہنمائوں میں سے بیشتر جماعت اسلامی کے ان ''صالحین'' کے ستائے ہوئے ہیں۔ جناب نواز شریف کو وسط پنجاب میں پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب گوجرانوالہ سے شریف النفس ایس اے حمید تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔ اب جہلم میں راجہ افضل اپنے ارکان قومی اسمبلی صاحبزادوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایک تاجر کے ہاتھوں شکست نے راجہ صاحب کا دل توڑ دیا ہے ورنہ راجہ صاحب تو دور مشرف میں کمال استقامت سے ڈٹے رہے جب بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو گیا تھا اور خود میاں نواز شریف اپنے خاندان سمیت سرور پیلس جدہ کے عافیت کدے میں پناہ گزین تھے۔ یہ راجہ افضل جیسے وفا شعار ہی تو تھے جنہوں نے شریف برادران کی سیاست کا جھنڈا تھامے رکھا تھا۔ اسی طرح راولپنڈی شہر میں بھی اصل معرکہ آرائی پیپلزپارٹی، نواز لیگ کے درمیان ہو گی لیکن تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا متوقع اتحاد تباہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ رہے شیخ رشید ،توکٹی پتنگ کی طرح ادھر اُدھر منڈلانا ان کا مقدر ٹھہرا ہے۔ سانحہ لال مسجد نے ان کی سیاست کا سفینہ ڈبو دیا۔
خیبر پختون خوا کے سبزہ زاروں اور سنگلاخ کوہساروں کے دامن میں سیاسی مجبوریاں، علمائے دیوبند کے علمیت پسند جانشینوں اور جماعت اسلامی کے صالحین کو تیزی سے قریب کر رہی ہیں جس کی وجہ سے سرخ پوش خدائی خدمت گاروں کے کیمپ میں افراتفری کا سماں ہے۔ جنہوں نے انگریز سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے نیک نام غفار خان کے اُجلے دامن کو حقیقت پسندی کی کوکھ سے جنم لینے والی کاروباری ''سیاست''سے داغدار کردیا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں بائیکاٹ کی وجہ سے اے این پی کو کھلا میدان مل گیا تھا لیکن اس بار خیبر پختون خوا کا سیاسی منظر بدل جائے گا۔ ہو سکتا ہے اے این پی صرف چند نشستوں تک محدود ہوجائے اور علمائے دیوبند اور صالحین کے نمایندے ایک بار پھر خیبر پختون خوا میں ''عوامی خدمت'' کے نئے عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے لیے آن وارد ہوں۔
رہا بلوچستان تو وہاں کچھ نہیں بدلے گا۔ وہی بلوچ سردار، وہی قوم پرست اور ملائوں کی بندر بانٹ ایک بار پھر ساری بلوچستان اسمبلی حکمران ہو گی۔ اب نجانے کون قائد حزب اختلاف کی اداکاری کرے گا لیکن بلوچستان اسمبلی کا بلوچ عوام کے خلاف اجتماعی جرم تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی کہ انھوں نے دس سال کے طویل عرصے میں دس ارب روپے کی خطیر رقم سے پچانوے فیصد بلوچستان کے بی ایریا کو آئین اور قانون کی عملداری میں لانے کے بعد واپس پتھر کے دور کے قبائلی نظام میں دھکیل دیا تھا۔ خاص طور پر اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے نام پر منتخب ہونے والے جے یو آئی کے مختلف دھڑوں سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کو اس مادی دنیا کے ساتھ ساتھ روز محشر بھی جواب دہ ہونا ہو گا۔