تماشا
گویا عدالت عالیہ نے ان کے کہنے پر یہ حکمنامہ جاری کیا ہو۔ پھر جو شرکا نے خوشی کا اظہار کیا وہ مناظر دیدنی تھے۔
ہم سادہ لوح لوگ جب کسی شاطر کی باتوں میں آجاتے ہیں تو اپنا تن من دھن سب نچھاور کردیتے ہیں خاص طور پر ہمیں اسلام کے نام پر دھوکا دینے والے ممکن ہے کہ دنیاوی طور پر کامیاب ہوجائیں۔ سو ابھی حال ہی میں بقول ٹی وی کے ایک سنجیدہ اور پڑھے لکھے معروف اینکر کے: ''14 جنوری کا دھرنا پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی پکنک کے طور پر یاد رکھا جائے گا''۔ اور حقیقت بھی اس سے مختلف نہیں کہ خود ساختہ شیخ الاسلام نے سیاست میں کربلا جیسے عظیم اور مقدس سانحے کو شامل کرکے ناقابل تلافی غلطی کی ہے خواہ انھوں نے اسے علامت کے طور پر استعمال کیا ہو۔
اہل وطن حیران تھے کہ یہ اعلیٰ حضرت اچانک کہاں سے ایک دم ٹپک پڑے اور انھیں اتنے سال گزرنے کے بعد کیسے ملک کی مٹی سے پیار ہوگیا، یہ کون سا انقلاب لے کر آئے تھے اور اس کا نتیجہ کیا نکلا۔؎
یہ انقلاب ِزمانہ تھا یا فریب ِنظر
گزر گیا ہے مگر انتظار باقی ہے
اسلام آباد کی سرد اور یخ بستہ ہواؤں میں کھلے آسمان تلے خصوصاً خواتین اور بچے (وہ شیر خوار بچے جنہیں شاید خواب بھی نظر نہیں آتے ہوں گے) پاکستان کے شاندار مستقبل کی خاطر چار پانچ دن اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے وقت گزارتے رہے جب کہ ان کے ہمدرد اور غمخوار رہنما بلٹ پروف گرم بنکرنما ٹرالر میں جہاں سہولت کی ہر شے موجود تھی حفاظتی حصار کے درمیان آرام سے رہے اس دوران تقریباً پونے دو سو افراد بشمول خواتین و بچے بیمار ہوکر اسپتال میں داخل ہوگئے اور محترم شیخ الاسلام ان کی عیادت کے بجائے دبئی اور ٹورنٹو کے ٹکٹ کا انتظار فرماتے رہے۔
ہجوم سے انقلاب کے پرجوش نعروں کی آوازیں آتی رہیں پاکستانی پرچم لہراتے رہے، بقول ان کے یہ بدبخت، جھوٹے، بے ایمان، لٹیرے ابھی چند ساعتوں کے مہمان ہیں اور یہ کہ بس صبر کے انتظار کے لمحے قریب ہیں وہ ساعت مبارک آپہنچی ہے جب ان سے نجات مل جائے گی۔ ادھر سپریم کورٹ کا وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم آیا تو کسی مرید نے شیخ صاحب کے کان میں آکر یہ مژدہ نو بہار سنایا اور انھوں نے اسی لمحے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کرکے زور دار تالیاں بجائیں، فرمایا:
''مبارک ہو، مبارک ہو! سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم دے دیا''۔
گویا عدالت عالیہ نے ان کے کہنے پر یہ حکمنامہ جاری کیا ہو۔ پھر جو شرکا نے خوشی کا اظہار کیا وہ مناظر دیدنی تھے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس دھرنے نے عوام کو دیا کیا؟ کیا گرانی ختم ہوگئی، سی این جی دستیاب ہونے لگی، ڈالر سستا ہوگیا، روپے کی قدر بڑھ گئی، بجلی کے بل کم آنے لگے،غربت زدہ اور ستم رسیدہ لیاری سے گینگ وار ختم ہوگئی، روزگار ملنے لگا (یا عنقریب اس کا امکان ہے) جب کہ پردے کے دوسری طرف برسر اقتدار حکومت کے وزراء شیخ الاسلام پر شدید تنقید کرتے رہے، ممکن تھا کہ صورت حال بگڑ جاتی مگر ہمارے صدر محترم کی ذہانت کی داد دینی چاہیے جنہوں نے بروقت وزیر داخلہ صاحب کی دھمکیوں کا فوری نوٹس لیا اور ان کا مشہور زمانہ مفاہمتی فارمولا حرکت میں آگیا۔ اور عوام کو یہ پیغام دیا کہ شرکاء محفوظ رہیں گے، دھرنے میں کوئی آپریشن نہیں ہوگا۔ بالآخر اس ڈرامے کا ڈراپ سین اسلام آباد دھرنے کے ایک 4 نکاتی معاہدے پر ہوا۔ جس میں شیخ الاسلام بقول ان کے، ان بددیانت کرپٹ اور لٹیرے سیاستدانوں سے بغلگیر ہوئے اور ان کے آگے مائیک رکھ کر اپنی مہم جوئی کی تعریفی اسناد وصول کی۔ اب کوئی ان پردیسی رہنما سے یہ پوچھے کہ حضرت آپ کی ڈکشنری میں منافقت کی تعریف کیا ہے تو ان کا جواب کیا ہوگا؟
ہمیں دکھ تو اس بات کا ہے کہ اس دھرنے کے خاتمے کے بعد ایک ٹی وی چینل پر اس چشم گنہگار نے مولانا طاہر القادری کی وہ تقریر بھی دیکھی جس میں انھوں نے آقائے دو جہاں رسول مقبولؐ کے اپنے خواب میں آنے کا ذکر کیا۔ اس موقع پر ان کے مریدین زار و قطار رو رہے تھے اور وہ خود بھی آنسو پونچھتے جارہے تھے، سنا ہے کہ اس قسم کی تقاریر وہ اور کئی بار کرچکے ہیں۔ اس خواب کے بیان کرنے سے ان کا مقصد کیا تھا؟ کچھ عجب نہیں کہ اس کے بعد وہ کوئی بڑا دعویٰ بھی کر دیتے۔ دوسری طرف پنجاب حکومت کو للکارنے والے قادری صاحب ایک جگہ نواز شریف کے آگے پلیٹ لیے بیٹھے ہیں اور نواز شریف دیگ میں سے ان کو کھانا نکال کر دے رہے ہیں۔ تیسری جگہ وہ شہباز شریف کے ساتھ کھڑے مسکرا رہے ہیں۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اب سنا ہے کہ موصوف دبئی سے ٹورنٹو جارہے ہیں کیونکہ ان کی شہریت کینیڈا کی ہے جب کہ کینیڈین پولیس بھی انھیں اگلے ماہ طلب کرکے استفسار کرے گی کہ صاحب جب کسی ملک میں آپ کی جان کو خطرہ تھا تو آپ وہاں تشریف کیوں لے گئے؟ اس کا جواب وہ کیا دیں گے یہ تو ہمیں پتہ نہیں کہ وہ گفتار کے کتنے غازی ہیں عوام کو الجھانے اور سلجھانے کے فنون سے واقف ہیں۔ افسوس کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت کوئی بھی تو ایسا شخص نہیں جو صاحب کردار ہو، جو منافقت اور مصلحت کو سیاست کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہو۔
حکومت گھٹنے ٹیکے نہ ٹیکے، البتہ طاہر القادری صاحب کی قد آور شخصیت کو ضرور زک پہنچ گئی۔ کاش! وہ واقعی ایک مصلح قوم کا کردار ادا کرکے ثابت قدم رہتے، عوام کو پرجوش نعروں سے نہیں علم و حکمت سے سمجھاتے۔ اس دھرنے سے ملک کی معیشت کو جو نقصان ہوا وہ اپنی جگہ لیکن یہ دھرنا اگر ملک کی سیاست میں کوئی تاریخ ساز واقعہ رقم کرتا تو کیا بہتر نہ تھا؟
یہ دھرنا پاکستان کے خوبصورت اور صاف ستھرے ماحول کو پراگندہ ضرور کرگیا اور اس بہانے سی ڈی اے کے علمداروں کو سخت سردی میں کام کروا کر ان کو چستی و پھرتی کا موقع بھی دے گیا، اور ان کی کسلمندی جو برسوں سے ان پر طاری تھی کافی عرصے کے لیے دور ہوگئی، شیخ الاسلام کے دھرنے سے کوئی ڈرے یا نہ ڈرے یہ اہلکار ضرور لرزہ براندام ہوجایا کریں گے، البتہ اس دھرنے کا روشن پہلو یہ ہے کہ مولانا صاحب کے علاوہ کوئی اور اتنا بڑا مجمع جمع بھی نہیں کرسکتا تھا۔ یہ ان کی شعلہ بیانی کا کمال تھا جس کی ہم داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
اہل وطن حیران تھے کہ یہ اعلیٰ حضرت اچانک کہاں سے ایک دم ٹپک پڑے اور انھیں اتنے سال گزرنے کے بعد کیسے ملک کی مٹی سے پیار ہوگیا، یہ کون سا انقلاب لے کر آئے تھے اور اس کا نتیجہ کیا نکلا۔؎
یہ انقلاب ِزمانہ تھا یا فریب ِنظر
گزر گیا ہے مگر انتظار باقی ہے
اسلام آباد کی سرد اور یخ بستہ ہواؤں میں کھلے آسمان تلے خصوصاً خواتین اور بچے (وہ شیر خوار بچے جنہیں شاید خواب بھی نظر نہیں آتے ہوں گے) پاکستان کے شاندار مستقبل کی خاطر چار پانچ دن اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے وقت گزارتے رہے جب کہ ان کے ہمدرد اور غمخوار رہنما بلٹ پروف گرم بنکرنما ٹرالر میں جہاں سہولت کی ہر شے موجود تھی حفاظتی حصار کے درمیان آرام سے رہے اس دوران تقریباً پونے دو سو افراد بشمول خواتین و بچے بیمار ہوکر اسپتال میں داخل ہوگئے اور محترم شیخ الاسلام ان کی عیادت کے بجائے دبئی اور ٹورنٹو کے ٹکٹ کا انتظار فرماتے رہے۔
ہجوم سے انقلاب کے پرجوش نعروں کی آوازیں آتی رہیں پاکستانی پرچم لہراتے رہے، بقول ان کے یہ بدبخت، جھوٹے، بے ایمان، لٹیرے ابھی چند ساعتوں کے مہمان ہیں اور یہ کہ بس صبر کے انتظار کے لمحے قریب ہیں وہ ساعت مبارک آپہنچی ہے جب ان سے نجات مل جائے گی۔ ادھر سپریم کورٹ کا وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم آیا تو کسی مرید نے شیخ صاحب کے کان میں آکر یہ مژدہ نو بہار سنایا اور انھوں نے اسی لمحے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کرکے زور دار تالیاں بجائیں، فرمایا:
''مبارک ہو، مبارک ہو! سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم دے دیا''۔
گویا عدالت عالیہ نے ان کے کہنے پر یہ حکمنامہ جاری کیا ہو۔ پھر جو شرکا نے خوشی کا اظہار کیا وہ مناظر دیدنی تھے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس دھرنے نے عوام کو دیا کیا؟ کیا گرانی ختم ہوگئی، سی این جی دستیاب ہونے لگی، ڈالر سستا ہوگیا، روپے کی قدر بڑھ گئی، بجلی کے بل کم آنے لگے،غربت زدہ اور ستم رسیدہ لیاری سے گینگ وار ختم ہوگئی، روزگار ملنے لگا (یا عنقریب اس کا امکان ہے) جب کہ پردے کے دوسری طرف برسر اقتدار حکومت کے وزراء شیخ الاسلام پر شدید تنقید کرتے رہے، ممکن تھا کہ صورت حال بگڑ جاتی مگر ہمارے صدر محترم کی ذہانت کی داد دینی چاہیے جنہوں نے بروقت وزیر داخلہ صاحب کی دھمکیوں کا فوری نوٹس لیا اور ان کا مشہور زمانہ مفاہمتی فارمولا حرکت میں آگیا۔ اور عوام کو یہ پیغام دیا کہ شرکاء محفوظ رہیں گے، دھرنے میں کوئی آپریشن نہیں ہوگا۔ بالآخر اس ڈرامے کا ڈراپ سین اسلام آباد دھرنے کے ایک 4 نکاتی معاہدے پر ہوا۔ جس میں شیخ الاسلام بقول ان کے، ان بددیانت کرپٹ اور لٹیرے سیاستدانوں سے بغلگیر ہوئے اور ان کے آگے مائیک رکھ کر اپنی مہم جوئی کی تعریفی اسناد وصول کی۔ اب کوئی ان پردیسی رہنما سے یہ پوچھے کہ حضرت آپ کی ڈکشنری میں منافقت کی تعریف کیا ہے تو ان کا جواب کیا ہوگا؟
ہمیں دکھ تو اس بات کا ہے کہ اس دھرنے کے خاتمے کے بعد ایک ٹی وی چینل پر اس چشم گنہگار نے مولانا طاہر القادری کی وہ تقریر بھی دیکھی جس میں انھوں نے آقائے دو جہاں رسول مقبولؐ کے اپنے خواب میں آنے کا ذکر کیا۔ اس موقع پر ان کے مریدین زار و قطار رو رہے تھے اور وہ خود بھی آنسو پونچھتے جارہے تھے، سنا ہے کہ اس قسم کی تقاریر وہ اور کئی بار کرچکے ہیں۔ اس خواب کے بیان کرنے سے ان کا مقصد کیا تھا؟ کچھ عجب نہیں کہ اس کے بعد وہ کوئی بڑا دعویٰ بھی کر دیتے۔ دوسری طرف پنجاب حکومت کو للکارنے والے قادری صاحب ایک جگہ نواز شریف کے آگے پلیٹ لیے بیٹھے ہیں اور نواز شریف دیگ میں سے ان کو کھانا نکال کر دے رہے ہیں۔ تیسری جگہ وہ شہباز شریف کے ساتھ کھڑے مسکرا رہے ہیں۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اب سنا ہے کہ موصوف دبئی سے ٹورنٹو جارہے ہیں کیونکہ ان کی شہریت کینیڈا کی ہے جب کہ کینیڈین پولیس بھی انھیں اگلے ماہ طلب کرکے استفسار کرے گی کہ صاحب جب کسی ملک میں آپ کی جان کو خطرہ تھا تو آپ وہاں تشریف کیوں لے گئے؟ اس کا جواب وہ کیا دیں گے یہ تو ہمیں پتہ نہیں کہ وہ گفتار کے کتنے غازی ہیں عوام کو الجھانے اور سلجھانے کے فنون سے واقف ہیں۔ افسوس کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت کوئی بھی تو ایسا شخص نہیں جو صاحب کردار ہو، جو منافقت اور مصلحت کو سیاست کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہو۔
حکومت گھٹنے ٹیکے نہ ٹیکے، البتہ طاہر القادری صاحب کی قد آور شخصیت کو ضرور زک پہنچ گئی۔ کاش! وہ واقعی ایک مصلح قوم کا کردار ادا کرکے ثابت قدم رہتے، عوام کو پرجوش نعروں سے نہیں علم و حکمت سے سمجھاتے۔ اس دھرنے سے ملک کی معیشت کو جو نقصان ہوا وہ اپنی جگہ لیکن یہ دھرنا اگر ملک کی سیاست میں کوئی تاریخ ساز واقعہ رقم کرتا تو کیا بہتر نہ تھا؟
یہ دھرنا پاکستان کے خوبصورت اور صاف ستھرے ماحول کو پراگندہ ضرور کرگیا اور اس بہانے سی ڈی اے کے علمداروں کو سخت سردی میں کام کروا کر ان کو چستی و پھرتی کا موقع بھی دے گیا، اور ان کی کسلمندی جو برسوں سے ان پر طاری تھی کافی عرصے کے لیے دور ہوگئی، شیخ الاسلام کے دھرنے سے کوئی ڈرے یا نہ ڈرے یہ اہلکار ضرور لرزہ براندام ہوجایا کریں گے، البتہ اس دھرنے کا روشن پہلو یہ ہے کہ مولانا صاحب کے علاوہ کوئی اور اتنا بڑا مجمع جمع بھی نہیں کرسکتا تھا۔ یہ ان کی شعلہ بیانی کا کمال تھا جس کی ہم داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔