عصر حاضر اور ڈرامہ نگاری

70 سال سے ہمارا ملک قائم ہے اور اس کے مکین آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔

PESHAWAR/DARGAI:
اس موضوع پر چند روز پہلے ایک سیمینار منعقد ہوا، جس کے میزبان تھے روزنامہ ایکسپریس اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی۔ منظر اکبر ہال میں ہونے والے پروگرام میں صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے کلیدی خطبہ دژا اور بعد کو سیما غزل، اقبال لطیف، ظفر معراج، زین احمد، علی معین، ابن آس، حسن عباس، ثناء شاہنواز، الماس خالد، پرویز جعفری اور راقم نے بھی اظہار خیال کیا۔

سیمینار میں تو وقت محدود ہوتا ہے اور تفصیل سے بات نہیں ہوپاتی، اسی لیے میں نے آج کے کالم میں اسی موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ ''عصر حاضر اور ڈرامہ نگاری'' موضوع نہایت واضح ہے، اس کے دو حصے ہیں پہلا حصہ ''عصر حاضر'' ہے، لہٰذا پہلے اسی پر بات ہوجائے۔ ہمارا ''عصر حاضر'' بھی موضوع زیر بحث کی طرح بہت واضح ہے۔ 70 سال سے ہمارا ملک قائم ہے اور اس کے مکین آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ تعلیم نہیں ہے، اور جو ہے وہ بھی انگریزی زبان کی قتل گاہ کی نذر ہورہی ہے۔

آج بھی ہم اپنی قومی زبان اردو (جسے سب بولتے ہیں) کو ذریعہ تعلیم نہیں بناسکے۔ جس کی وجہ سے ہمارے بچے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ انگریزی ان کا رستہ روک لیتی ہے، یوں چند امیر کبیر گھرانوں کے بچے ترقی کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں، باقی غریب غربا کے بچے وہیں اپنی گلیوں میں رل جاتے ہیں۔ امرا کے کم ذہین بچے بھی انگریزی کے بل بوتے پر اوپر آجاتے ہیں اور غریب غربا کے ذہین بچے انگریزی زبان کی بھینٹ چڑھ کر کلرک، چپڑاسی بن کر رہ جاتے ہیں۔ ہاں ایسا بھی ہوجاتا ہے کبھی کوئی غریب کا بچہ معجزے کا سہارا لے کر اوپر آجاتا ہے۔ مگر ایسا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

غریبوں کے گھروں میں اپنی اپنی مادری زبانیں بولی جاتی ہیں۔ غریب کا بچہ اسکول میں انگریزی پڑھ کر ''غیر انگریزی ماحول'' میں آئے گا تو وہ کیا انگریزی سیکھے گا۔ یہ ہمارا عصر حاضر ہے۔ اس عصر حاضر پر ہمارے ڈرامہ نگار نہیں لکھ رہے۔ میں یہ عمومی بات کررہا ہوں۔

دوسرے نمبر پر ہمارا عصر حاضر یہ ہے کہ جاگیردار، غریب ہاریوں پر شکاری کتے چھور دیتے ہیں، ان کے ہاتھ کاٹ دیتے ہیں، ان کے منہ میں اپنے جوتے دے دیتے ہیں، پولیس اور قانون، جاگیرداروں کے گھر کی لونڈیاں اور غلام ہیں۔ یہ زمین تو اﷲ کی ہے، اسے کسی انسان نے پیدا نہیں کیا ہے، پھر اس اﷲ کی زمین پر چند گھرانوں کا قبضہ کیوں ہے؟ یہ چند گھرانے جب تک ختم نہیں ہوں گے، غریبوں پر ظلم ہوتے رہیں گے۔ اس ظلم کے خاتمے کے لیے ہمارے ڈرامہ نویس کتنا حصہ ڈال رہے ہیں؟

آخر اس ظلم کا خاتمہ تو کرنا ہے، اور یہ جبھی ہوگا جب اس کے لیے کوشش کی جائے گی۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے تو کچھ نہیں ہوگا۔ فیض کی شاعری گا بجا کر ناچ کر فارغ ہوجانے سے تو بات نہیں بنے گی۔ فیض نے جو کہا ہے ''ہم دیکھیں گے'' تو بھائی یہ کیسے ''ہم دیکھیں گے'' ، اس کے لیے ہمارے ڈرامہ نگاروں نے کتنا حصہ ڈالا؟

عصر حاضر اور حقیقت حال یہ ہے کہ ملک کو لوٹ کر ''ظالم'' کھا گئے ہیں اور ابھی تک کھائے چلے جارہے ہیں۔ آدھے سے زیادہ ملک غدار نہیں، محب وطنوں نے کاٹ ڈالا، اور باقی 44 یا 46 فیصد کے پیچھے بھی ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔

میں نے سیمینار میں یہ بات کی تھی کہ فلم کے مضبوط میڈیا کو بھی انسان سے محنت کرنے والوں نے استعمال کیا ہے۔ خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، بلراج ساہتی، ضیا سرحدی، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی و دیگر نے یہ کام کیا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ کام جاری رہا۔ خلیل قیصر، ریاض شاہد، حبیب جالب کی صورت یہ کام ہوتا رہا۔ فیض صاحب کے کلام کو فلم والوں نے استعمال کیا۔ ''نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں ... چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے'' ہدایتکار خلیل قیصر نے فلم ''شہید'' کے لیے اس کلام کو شامل کیا، کہانی کار تھے ریاض شاہد، موسیقار رشید عطرے اور گلوکار منیر حسین تھے۔ فلم ''قیدی'' میں فیض کی نظم ''مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ''۔ یاد رہے یہ مکمل نظم فلم میں شامل تھی۔ چند مصرعے سن لیجیے۔

جابجا بکتے ہیں کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے، خون میں نہلائے ہوئے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
کتنا دلکش ہے تیرا حسن، مگر کیا کیجیے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا


مگر افسوس کہ وہی ''کلاس'' وہی ظالم، اور ظالموں کے ''سہولت کار'' فیض کی شاعری سے لطف اندوز ہوتے رہے اور آج بھی ہورہے ہیں۔ آج ملک داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ملک بچانے کے لیے ظلم کے ہر نشان کو مٹانا پڑے گا۔

واقعہ یہ بھی ہے، حبیب جالب کہتے ہیں ''جب میں نے یہ دیکھا کہ وہ ''کلاس'' میری غزلوں سے لطف اندوز ہورہے کہ میں جن کی نیندیں اڑا دیتا، تو میں نے اپنی غزل ''دل کی بات لبوں پر لاکر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں... ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں'' اسے مہدی حسن اور فریدہ خانم گاتے تھے، اور ظالم لطف اندوز ہوتے تھے، تو میں نے اپنا شاعرانہ انداز ہی بدل ڈالا اور لکھا۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے پر ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

یہ لکھ کر میں نے کہا ''آؤ مہدی حسنو، فریدہ خانمو اسے گاؤ'' مگر اسے کون گاتا، کس نے گانا تھا؟ تاریخ گواہ ہے، شاعری اور گٹار سے بھی انقلابوں نے جنم لیا ہے۔ خوش رہے ''لال بینڈ'' جو نوجوان جالب کو گاتے ہیں، جواد احمد گلوکار ہے، نوید ہے کہ وہ اپنی جماعت بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ آج جتنی ضرورت ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں تھی کہ کھل کر اونچی آواز میں ظالموں کو للکارا جائے۔

حبیب جالب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ''میں نے فلم کے میڈیا کو اپنی سوچ کو عام کرنے کے لیے استعمال کیا''۔ اور جہاں کہیں انھیں موقع ملتا تھا، وہ چوکتے نہیں تھے۔ فلم ''ناگ منی'' کا یہ گیت اس کی بہترین مثال ہے۔ خوبرو وحید مراد اور حسن کا مرقع اداکارہ رانی ہیں، اور ہیرو چاند تارے نچھاور کرنے کی باتیں کررہا تھا، حسن کی تعریف کررہا تھا کہ اچانک گیت کے آخری انترے میں حبیب جالب اپنا پیغام دینے لگتا ہے۔

مسکرا، جانِ بہاراں کہ سویرا ہوگا
ختم صدیوں کے رواجوں کا اندھیرا ہوگا

شب کی تقدیر میں لکھا ہے، گزر ہی جانا

راہ سورج کی کہاں روک سکے اہل ستم
میرا ایمان محبت ہے، محبت کی قسم

ریاض شاہد جالب سے کہتا تھا ''جالب، سامراج کو جو چاہو کہو، میں اسے پکچرائز کروں گا''۔ اس جذبے کی بھینٹ چڑھ گیا ریاض شاہد۔ مرتے وقت وہ محض 48 سال کا تھا۔ خلیل قیصر کو بھی ''نامعلوم'' نے قتل کردیا۔ اور حبیب جالب کو بھی آہستہ آہستہ مار دیا گیا۔ مگر کوئی گھبراہٹ نہیں، جب بھی اس دھرتی سے ظلم کا خاتمہ ہوگا، عوام اپنے محسنوں کو یاد رکھیں گے۔ مجھے معلوم ہے، میں خوب جانتا ہوں کہ میڈیا مالکان ''مجبور'' ہیں، مگر مجبوری یہ آن پڑی ہے کہ ''ملک کو بچانا ہے'' تو پھر ہمارا عمل کیا ہونا چاہیے؟

ہمارا عصر حاضر تو یہی ہے، آگے جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
Load Next Story