نقل اہلیت کا قتل
چھاپوں کے دوران نقل کرنے والے ہزاروں طلبا کو پکڑ کر سزا دے دی جاتی ہے، نقل کرانے والا کوئی نہیں پکڑا جاتا۔
GILGIT:
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ہمیشہ سے اور ہر حکومت کی ترجیحات میں ثانوی رہا ہے۔ بجٹ میں تعلیم کے لیے انتہائی کم رقم مختص کی جاتی ہے۔ ریاست اپنے شہریوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ جو شہری اپنے تئیں کوششیں کرکے اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہے ہیں ان کے ساتھ بھی ظلم و ناانصافیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔
ملک میں دہرا نہیں تہرا تعلیمی نظام قائم ہے۔ تعلیم کا شعبہ خالصتاً کاروباری اور لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بن چکا ہے۔ جن طلبا کے والدین نامی گرامی اور مہنگے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو داخل کراتے ہیں اور نامی گرامی شہرت یافتہ مہنگے ٹیوشنز سینٹر اور نامور اساتذہ سے ٹیوشنز پڑھوا کر لاکھوں روپے ان کی ٹیوشن فیس و دیگر اخراجات کی مد میں خرچ کرتے ہیں اور سیلف فنانس کے متحمل ہوسکتے ہیں، وہی بچے اعلیٰ تعلیم و مرتبہ حاصل کرنے کے قابل ہوپاتے ہیں۔ چونکہ تعلیم کا حصول بڑی سرمایہ کاری سے مشروط ہوچکا ہے اس لیے تعلیم غریب و متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہوچکی ہے۔
طلبا کی غالب اکثریت اچھی قابلیت و صلاحیت رکھنے کے باوجود تعلیمی سرمایہ کاری کلچر کی وجہ سے امتیازی سلوک اور ناانصافی کا شکار ہوجاتی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کی حکومتی تحویل میں لیے جانے کے بعد سے اسکول کی سطح سے کالجز اور یونیورسٹیز سطح تک پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے قیام کے نتیجے میں ذہین و حقدار طلبا کا منظم اور اجتماعی استحصال ہونے لگا ہے۔
تعلیمی اداروں میں اساتذہ و دیگر عملے کی بھرتیوں میں رشوت کے نرخ، سفارش، اقربا پروری اور بدانتظامی و بدعنوانیوں کی داستانوں سے سوائے حکمرانوں کے سب واقف ہیں۔ اسی لیے ورلڈ بینک، یورپی یونین اور دیگر ادارے وقتاً فوقتاً احتجاج و تنبیہہ کرنے اور فنڈز روکنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ 2012 میں محکمہ تعلیم میں 30 ہزار سے زائد جعلی تقرریاں کی گئی تھیں، جس کی وجہ سے سندھ حکومت کو بدنامی و سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور محکمہ تعلیم کے ملوث افسران بھی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔
سندھ میں میٹرک و انٹر کے حالیہ امتحانات میں بدنظمی، بدانتظامی اور نقل نے تمام حدود کو پار کرلیا۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں تو اجتماعی بدنظمی، بدانتظامی و بدعنوانی اپنے عروج پر تھی۔ بعض کالجز میں طلبا کو تمام ذرایع سے نقل کرنے کی چھوٹ اور ہر قسم کا تعاون حاصل تھا، کسی کالج میں طلبا کو برہنہ تلاشی کے بعد کلاسوں میں جانے دیا گیا، سخت گرمی میں اکثر کالجز میں پنکھے، لائٹ اور پینے کا ٹھنڈا پانی بھی دستیاب نہیں تھا۔
امیدوار اندھیرے اور پسینے میں شرابور پرچے حل کرتے رہے، جس پر ان کے والدین نے احتجاج و شور شرابا کیا اور میڈیا کی ٹیموں نے اس طرف کا رخ کرکے ان مسائل کو اجاگر کیا۔ لیکن بعض کالجز کی انتظامیہ نے اپنے طور پر امتحانات کے انعقاد کے لیے کافی اچھے اقدامات کیے تھے، جہاں روشنی، ہوا، پانی وغیرہ کا انتظام تھا، طلبا کو سہولت کے ساتھ چیک کرکے ان کے امتحانی کمروں تک پہنچایا گیا۔
طلبا کے موبائل فونز کی بیٹریاں نکلوا کر انھیں بلیک شاپر میں پیک کروا کر ان کے نزدیک ہی رکھ دیا تاکہ ان کی چوری چکاری اور غلط استعمال نہ ہوسکے اور امتحانی مراکز آتے جاتے طلبا اور ان کے والدین رابطے میں رہیں اور کسی پریشانی کا شکار نہ ہوں۔ لیکن اکثر کالجوں میں اچانک طلبا کو کہا گیا کہ وہ موبائل فونز باہر رکھ کر آئیں جو انھوں نے مجبوراً باہر موجود افراد اور عملے کے پاس رکھوائے جس کی وجہ سے ہزاروں طلبا اپنے قیمتی موبائل فونز سے محروم ہوگئے۔
ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امتحانات کے سلسلے میں اوپر سے کوئی واضح سسٹم یا مربوط پالیسی نہیں بنائی گئی تھی، کالجز کی انتظامیہ اپنی اپنی بساط، عزم یا عزائم کے تحت کر رہی تھیں، جو بیرونی عناصر کے زیر اثر بھی تھیں، کیونکہ ان عناصر کی جانب کھلی مداخلت کے علاوہ انتظامیہ سے مارپیٹ کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ دوسری جانب جب میڈیا کے ذریعے بدانتظامی، بدنظمی اور بدعنوانیوں کی خبریں سامنے آئیں تو صوبائی حکومت حرکت میں آئی۔
وزیراعلیٰ نے نقل مافیا کے خلاف آپریشن شروع کرنے کی ہدایات جاری کیں اور عندیہ دیا کہ نقل و بوٹی مافیا جلد سلاخوں کے پیچھے ہوگی۔ وزیراعلیٰ اور وزیر تعلیم نے دیگر حکام کے ساتھ کالجز کے طوفانی دورے کیے، امتحانی پیپرز کی چھپائی و تقسیم کے کام کی نگرانی میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو بھی شامل کرلیا گیا اور پرچے بھی ان کی نگرانی میں کھلوائے گئے۔
امتحانی امور میں معاونت اور نقل کو روکنے کے لیے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، مختار کاروں اور پولیس کو بھی شریک کیا گیا تھا۔ پھر یہ شکایات بھی آئیں کہ سی ٹی ڈی نے نقل مافیا کی آڑ میں ملنے والے اختیارات کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے اور امتحانی مراکز کے آس پاس عام لوگوں کو حراست میں لے کر ان سے مال بٹورا گیا۔
بورڈ کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ کچھ عناصر نے امتحانات کے آغاز سے قبل ہی کارروائیاں شروع کردی تھیں، جس پر نقل مافیا نے مرحلہ وار عمل کیا تاکہ موجودہ انتظامیہ کو ناکام ثابت کرکے اپنی مرضی کی انتظامیہ لائی جاسکے۔ منصوبے کے مطابق سب سے پہلے ایڈمٹ کارڈ کی ترسیل کا مسئلہ پیدا کیا جائے، اس کے بعد سی سی اوز کے ذریعے پرچے شروع ہونے سے قبل آؤٹ کرائے جائیں، تیسرے مرحلے میں بورڈ کی کاپیاں باہر نکال کر پیپر حل کیے جائیں، چوتھے مرحلے میں کوڈ فارمولا آؤٹ کرایا جائے اور آخری مرحلے میں ایوارڈ لسٹوں میں رد و بدل کیا جائے اور ان تمام مراحل میں میڈیا کو بطور ہتھیار پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جائے۔
وزیر تعلیم نے تو بدنظمی، بدعنوانی اور بدانتظامی کا سارا ملبہ سابق گورنر کی باقیات پر ڈال دیا ہے۔ تمام ارباب اختیار اپنی اپنی توجیہات پیش کرکے بیانات اور احکامات جاری کرکے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوگئے۔ اس کے باوجود نہ تو امتحانی مراکز میں روشنی کا انتظام ہو سکا، نہ پنکھوں کا، البتہ امتحانی مراکز کے دوروں سے سراسیمگی ضرور پھیل گئی، جس کی وجہ سے نقل کے رجحان میں بے حد کمی آگئی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اس قسم کے وقتی اعلانات، بیانات اور دوروں سے بدانتظامی، بدنظمی، بدعنوانی اور نقل کا رجحان ختم ہوجائے گا؟ کیا ساری بدانتظامی و بدعنوانی کی وجہ صرف نقل مافیا ہے؟ کیا اس نقل مافیا کے سامنے بورڈ و دیگر متعلقہ ادارے اور حکومت بے دست و پا ہیں؟ کیا نقل مافیا کا اتنا بڑا مالی مفاد اور نیٹ ورک موجود ہے جو ساری حکومتی مشنری کو بے دست و پا اور لاغر بنادیتا ہے؟ کیا متعلقہ ارباب اختیار کے بیانات سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی ہے کہ اس تمام عمل میں محکمے کے اندر سے ایسے عناصر کو آشیرباد اور پشت پناہی حاصل ہے؟ جب کھلے معاملات میں اس مافیا کا اتنا اثر و رسوخ اور عمل دخل ہے تو امتحانی کاپیوں کی چیکنگ اور ایوارڈ لسٹوں کی تیاری میں ان کا عمل دخل کس قدر ہوگا؟ پھر امتحانی نتائج کی شفافیت پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے؟
ایک رپورٹ کے مطابق نقل مافیا ایک امتحانی سیزن میں تقریباً ایک ارب روپے کماتی ہے۔ نقل کلچر اہل طلبا کے تعلیمی مستقبل اور اہلیت کے قتل کے مترادف ہے۔ اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ارباب اقتدار و اختیار کو دوررس، مبنی برحقیقت اور مخلصانہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ تعلیم سے متعلق محکموں میں تقرریاں، ترقیاں، تبادلہ و تعیناتیاں اور داخلہ خالصتاً اہلیت کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، ہر سطح پر ایڈہاک ازم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ تعلیم سے متعلق محکموں میں رابطوں کے فقدان کو ختم کرکے موثر اشتراک عمل پیدا کیا جائے۔
نقل، کرپشن، بدانتظامی و بدنظمی و دیگر مسائل کے حل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول اساتذہ، والدین، طلبا اور میڈیا سے بھی مشاورت و معاونت لی جائے۔ سب سے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ تعلیم سے کالی بھیڑوں کو صاف کیا جائے، چھاپوں کے دوران نقل کرنے والے ہزاروں طلبا کو پکڑ کر سزا دے دی جاتی ہے، نقل کرانے والا کوئی نہیں پکڑا جاتا، غیر قانونی طور پر بھرتی کیے گئے ہزاروں اساتذہ اور عملے کو تو برطرف کردیا گیا جاتا ہے لیکن ان کو بھرتی کرنے کے جرم کے مرتکب کرپٹ افراد کو کبھی سزائیں نہیں ہوتیں، لہٰذا حکومت کو اگر تعلیم و ملک و قوم کے مستقبل کا ذرا بھی خیال ہے تو اسے اوپر سے نیچے تک بلاتخصیص احتساب کا بے رحمانہ عمل شروع کرنا ہوگا۔
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ہمیشہ سے اور ہر حکومت کی ترجیحات میں ثانوی رہا ہے۔ بجٹ میں تعلیم کے لیے انتہائی کم رقم مختص کی جاتی ہے۔ ریاست اپنے شہریوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ جو شہری اپنے تئیں کوششیں کرکے اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہے ہیں ان کے ساتھ بھی ظلم و ناانصافیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔
ملک میں دہرا نہیں تہرا تعلیمی نظام قائم ہے۔ تعلیم کا شعبہ خالصتاً کاروباری اور لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بن چکا ہے۔ جن طلبا کے والدین نامی گرامی اور مہنگے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو داخل کراتے ہیں اور نامی گرامی شہرت یافتہ مہنگے ٹیوشنز سینٹر اور نامور اساتذہ سے ٹیوشنز پڑھوا کر لاکھوں روپے ان کی ٹیوشن فیس و دیگر اخراجات کی مد میں خرچ کرتے ہیں اور سیلف فنانس کے متحمل ہوسکتے ہیں، وہی بچے اعلیٰ تعلیم و مرتبہ حاصل کرنے کے قابل ہوپاتے ہیں۔ چونکہ تعلیم کا حصول بڑی سرمایہ کاری سے مشروط ہوچکا ہے اس لیے تعلیم غریب و متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہوچکی ہے۔
طلبا کی غالب اکثریت اچھی قابلیت و صلاحیت رکھنے کے باوجود تعلیمی سرمایہ کاری کلچر کی وجہ سے امتیازی سلوک اور ناانصافی کا شکار ہوجاتی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کی حکومتی تحویل میں لیے جانے کے بعد سے اسکول کی سطح سے کالجز اور یونیورسٹیز سطح تک پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے قیام کے نتیجے میں ذہین و حقدار طلبا کا منظم اور اجتماعی استحصال ہونے لگا ہے۔
تعلیمی اداروں میں اساتذہ و دیگر عملے کی بھرتیوں میں رشوت کے نرخ، سفارش، اقربا پروری اور بدانتظامی و بدعنوانیوں کی داستانوں سے سوائے حکمرانوں کے سب واقف ہیں۔ اسی لیے ورلڈ بینک، یورپی یونین اور دیگر ادارے وقتاً فوقتاً احتجاج و تنبیہہ کرنے اور فنڈز روکنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ 2012 میں محکمہ تعلیم میں 30 ہزار سے زائد جعلی تقرریاں کی گئی تھیں، جس کی وجہ سے سندھ حکومت کو بدنامی و سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور محکمہ تعلیم کے ملوث افسران بھی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔
سندھ میں میٹرک و انٹر کے حالیہ امتحانات میں بدنظمی، بدانتظامی اور نقل نے تمام حدود کو پار کرلیا۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں تو اجتماعی بدنظمی، بدانتظامی و بدعنوانی اپنے عروج پر تھی۔ بعض کالجز میں طلبا کو تمام ذرایع سے نقل کرنے کی چھوٹ اور ہر قسم کا تعاون حاصل تھا، کسی کالج میں طلبا کو برہنہ تلاشی کے بعد کلاسوں میں جانے دیا گیا، سخت گرمی میں اکثر کالجز میں پنکھے، لائٹ اور پینے کا ٹھنڈا پانی بھی دستیاب نہیں تھا۔
امیدوار اندھیرے اور پسینے میں شرابور پرچے حل کرتے رہے، جس پر ان کے والدین نے احتجاج و شور شرابا کیا اور میڈیا کی ٹیموں نے اس طرف کا رخ کرکے ان مسائل کو اجاگر کیا۔ لیکن بعض کالجز کی انتظامیہ نے اپنے طور پر امتحانات کے انعقاد کے لیے کافی اچھے اقدامات کیے تھے، جہاں روشنی، ہوا، پانی وغیرہ کا انتظام تھا، طلبا کو سہولت کے ساتھ چیک کرکے ان کے امتحانی کمروں تک پہنچایا گیا۔
طلبا کے موبائل فونز کی بیٹریاں نکلوا کر انھیں بلیک شاپر میں پیک کروا کر ان کے نزدیک ہی رکھ دیا تاکہ ان کی چوری چکاری اور غلط استعمال نہ ہوسکے اور امتحانی مراکز آتے جاتے طلبا اور ان کے والدین رابطے میں رہیں اور کسی پریشانی کا شکار نہ ہوں۔ لیکن اکثر کالجوں میں اچانک طلبا کو کہا گیا کہ وہ موبائل فونز باہر رکھ کر آئیں جو انھوں نے مجبوراً باہر موجود افراد اور عملے کے پاس رکھوائے جس کی وجہ سے ہزاروں طلبا اپنے قیمتی موبائل فونز سے محروم ہوگئے۔
ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امتحانات کے سلسلے میں اوپر سے کوئی واضح سسٹم یا مربوط پالیسی نہیں بنائی گئی تھی، کالجز کی انتظامیہ اپنی اپنی بساط، عزم یا عزائم کے تحت کر رہی تھیں، جو بیرونی عناصر کے زیر اثر بھی تھیں، کیونکہ ان عناصر کی جانب کھلی مداخلت کے علاوہ انتظامیہ سے مارپیٹ کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ دوسری جانب جب میڈیا کے ذریعے بدانتظامی، بدنظمی اور بدعنوانیوں کی خبریں سامنے آئیں تو صوبائی حکومت حرکت میں آئی۔
وزیراعلیٰ نے نقل مافیا کے خلاف آپریشن شروع کرنے کی ہدایات جاری کیں اور عندیہ دیا کہ نقل و بوٹی مافیا جلد سلاخوں کے پیچھے ہوگی۔ وزیراعلیٰ اور وزیر تعلیم نے دیگر حکام کے ساتھ کالجز کے طوفانی دورے کیے، امتحانی پیپرز کی چھپائی و تقسیم کے کام کی نگرانی میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو بھی شامل کرلیا گیا اور پرچے بھی ان کی نگرانی میں کھلوائے گئے۔
امتحانی امور میں معاونت اور نقل کو روکنے کے لیے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، مختار کاروں اور پولیس کو بھی شریک کیا گیا تھا۔ پھر یہ شکایات بھی آئیں کہ سی ٹی ڈی نے نقل مافیا کی آڑ میں ملنے والے اختیارات کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے اور امتحانی مراکز کے آس پاس عام لوگوں کو حراست میں لے کر ان سے مال بٹورا گیا۔
بورڈ کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ کچھ عناصر نے امتحانات کے آغاز سے قبل ہی کارروائیاں شروع کردی تھیں، جس پر نقل مافیا نے مرحلہ وار عمل کیا تاکہ موجودہ انتظامیہ کو ناکام ثابت کرکے اپنی مرضی کی انتظامیہ لائی جاسکے۔ منصوبے کے مطابق سب سے پہلے ایڈمٹ کارڈ کی ترسیل کا مسئلہ پیدا کیا جائے، اس کے بعد سی سی اوز کے ذریعے پرچے شروع ہونے سے قبل آؤٹ کرائے جائیں، تیسرے مرحلے میں بورڈ کی کاپیاں باہر نکال کر پیپر حل کیے جائیں، چوتھے مرحلے میں کوڈ فارمولا آؤٹ کرایا جائے اور آخری مرحلے میں ایوارڈ لسٹوں میں رد و بدل کیا جائے اور ان تمام مراحل میں میڈیا کو بطور ہتھیار پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جائے۔
وزیر تعلیم نے تو بدنظمی، بدعنوانی اور بدانتظامی کا سارا ملبہ سابق گورنر کی باقیات پر ڈال دیا ہے۔ تمام ارباب اختیار اپنی اپنی توجیہات پیش کرکے بیانات اور احکامات جاری کرکے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوگئے۔ اس کے باوجود نہ تو امتحانی مراکز میں روشنی کا انتظام ہو سکا، نہ پنکھوں کا، البتہ امتحانی مراکز کے دوروں سے سراسیمگی ضرور پھیل گئی، جس کی وجہ سے نقل کے رجحان میں بے حد کمی آگئی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اس قسم کے وقتی اعلانات، بیانات اور دوروں سے بدانتظامی، بدنظمی، بدعنوانی اور نقل کا رجحان ختم ہوجائے گا؟ کیا ساری بدانتظامی و بدعنوانی کی وجہ صرف نقل مافیا ہے؟ کیا اس نقل مافیا کے سامنے بورڈ و دیگر متعلقہ ادارے اور حکومت بے دست و پا ہیں؟ کیا نقل مافیا کا اتنا بڑا مالی مفاد اور نیٹ ورک موجود ہے جو ساری حکومتی مشنری کو بے دست و پا اور لاغر بنادیتا ہے؟ کیا متعلقہ ارباب اختیار کے بیانات سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی ہے کہ اس تمام عمل میں محکمے کے اندر سے ایسے عناصر کو آشیرباد اور پشت پناہی حاصل ہے؟ جب کھلے معاملات میں اس مافیا کا اتنا اثر و رسوخ اور عمل دخل ہے تو امتحانی کاپیوں کی چیکنگ اور ایوارڈ لسٹوں کی تیاری میں ان کا عمل دخل کس قدر ہوگا؟ پھر امتحانی نتائج کی شفافیت پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے؟
ایک رپورٹ کے مطابق نقل مافیا ایک امتحانی سیزن میں تقریباً ایک ارب روپے کماتی ہے۔ نقل کلچر اہل طلبا کے تعلیمی مستقبل اور اہلیت کے قتل کے مترادف ہے۔ اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ارباب اقتدار و اختیار کو دوررس، مبنی برحقیقت اور مخلصانہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ تعلیم سے متعلق محکموں میں تقرریاں، ترقیاں، تبادلہ و تعیناتیاں اور داخلہ خالصتاً اہلیت کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، ہر سطح پر ایڈہاک ازم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ تعلیم سے متعلق محکموں میں رابطوں کے فقدان کو ختم کرکے موثر اشتراک عمل پیدا کیا جائے۔
نقل، کرپشن، بدانتظامی و بدنظمی و دیگر مسائل کے حل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول اساتذہ، والدین، طلبا اور میڈیا سے بھی مشاورت و معاونت لی جائے۔ سب سے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ تعلیم سے کالی بھیڑوں کو صاف کیا جائے، چھاپوں کے دوران نقل کرنے والے ہزاروں طلبا کو پکڑ کر سزا دے دی جاتی ہے، نقل کرانے والا کوئی نہیں پکڑا جاتا، غیر قانونی طور پر بھرتی کیے گئے ہزاروں اساتذہ اور عملے کو تو برطرف کردیا گیا جاتا ہے لیکن ان کو بھرتی کرنے کے جرم کے مرتکب کرپٹ افراد کو کبھی سزائیں نہیں ہوتیں، لہٰذا حکومت کو اگر تعلیم و ملک و قوم کے مستقبل کا ذرا بھی خیال ہے تو اسے اوپر سے نیچے تک بلاتخصیص احتساب کا بے رحمانہ عمل شروع کرنا ہوگا۔