تجربہ بولتا ہے

پاکستان کی فلم انڈسٹری اور میڈیا کا اونٹ کبھی کسی کروٹ نہیں بیٹھا اور بیٹھ بھی نہیں سکے گا

PESHAWAR:
پاکستان کی فلم انڈسٹری اور میڈیا کا اونٹ کبھی کسی کروٹ نہیں بیٹھا اور بیٹھ بھی نہیں سکے گا۔ اس کی وجہ اس کی Basics ہیں جو سرے سے ہیں ہی نہیں۔ ایک دو فلم ساز ہدایت کار اور ٹی وی کے سابق لوگ اس طرح تبصرہ کرتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ یہ فن انھوں نے ہی ایجاد کیا ہے، حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ یہ اس لائن کے ''چھوٹے'' ہوا کرتے تھے اور ''چھوٹا'' جب اپنے سائز سے بڑے کپڑے پہن لے تو پھر ایسا ہی ہوجاتا ہے۔

ہماری یہ گفتگو فلم، ٹی وی اور ریڈیو تینوں کے بارے میں ہے لہٰذا خوش فہم یہ نہ سمجھیں کہ وہ زیر تبصرہ نہیں ہیں۔ دو باتیں ہیں ایک تو یہ فنکار لوگ نرے فنکار ہوتے ہیں اور اچھے وقتوں میں ایک مکان تک نہیں بناتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ وقت جائے گا نہیں۔

مفت کی پیتے تھے مے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن ۔۔۔!

غالب کے اس شعرکی مانند یہ مفت کی مے یعنی یہ اچھا وقت پلک جھپکتے گزرجاتا ہے اور پھر ان کی مفلوک الحالی اور حکومت کی دریا دلی کی تصویریں میڈیا میں نمایاں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ امداد جو نہ جانے کیسے یہ لوگ قبول کرلیتے ہیں بھی ختم ہوجاتی ہے اورمفلوک الحالی ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک میں تو مہدی حسن کو معذوری کے دوران بھی کیش کیا جاتا رہا اور مہدی حسن کے آنسو صاف نظر آتے تھے جو غیروں کی بے حسی پے نہیں اپنوں کی کاریگری پر نکلتے تھے۔ فنکار کو فنکار پہچانتا ہے۔

دوسرے اس انڈسٹری کے بارے میں کبھی بھی حکومت نے نہ کوئی قانون بنایا نہ اس پر کبھی عملدرآمد ہوا۔ یہاں بھی Labour Law رائج رہے۔ یہ لیبر نہیں ہیں، لائٹ مین سے لے کر محمد علی تک سب فنکار ہیں۔ حکومت نے نہایت بے دردی سے عوام کے اس حصے کا بھرپور استحصال کیا ہے۔ کچھ اداکاروں کو سیاست میں آکر بھی بہتری نصیب نہیں ہوئی۔

سیاست میں ان سے بڑے فنکار موجود ہیں اور یہاں فلم کے اداکاروں کا چراغ نہیں جل سکا، کہیں بھی نہیں جلا بھارت میں بھی یہی حال ہے۔ دس گنا بڑی یا اب تو سو گنا بڑی انڈسٹری ہے، اداکار بہت ، سیاستدان ایک بھی پیدا نہ ہوسکا۔ سیاسی اداکاروں کا فلمی فنکار مقابلہ نہیں کرسکتے۔ خیر یہ ایک الگ مضمون ہے ہم واپس اپنی بات پر آتے ہیں کہ حکومتوں نے انڈے مرغی تک کا کاروبار کرکے عوام کا خون چوس لیا مگر اس انڈسٹری کو کبھی قابل توجہ نہیں سمجھا۔

انھوں نے اگرکوئی یونین بنائی تو مقابل ایک اور یونین بن گئی یا ایسوسی ایشن آگئی، یہاں ان فنکاروں میں جو مفاد پرست تھے انھوں نے خوب ہاتھ رنگے، دوسروں کو محض خواب! یعنی ان میں بھی فلمی سیاستدان تھے اور ہیں بس کیل صحیح جگہ ٹھک جائے تو وارے نیارے۔ اور رہے ریڈیو، ٹی وی، فلم کے پرانے فنکار نئے نہیں، ریڈیوکے نئے فنکار وہ ہیں جو دو دو اور بعض جگہ تین تین نوکریاں کرتے ہیں اور ریڈیو سے 26 دن کا کانٹریکٹ اسلام آباد سے آرڈرکروا کے لے آتے ہیں اگر 26 دن یہ ریڈیو میں کام کرتے ہیں تو پڑھانے کب جاتے ہیں۔ اس دفتر میں کب جاتے ہیں جہاں وہ سرکاری ملازم ہیں۔ نالائق، نااہل فنکار سیاست کی بنیاد پر طویل المدت ماہانہ کانٹریکٹ پر اور اہل آج بھی بے روزگار اورکام سے محروم ہیں جگہ نہیں ہے۔

بعض میڈیا ادارے دراصل اب سیاسی اکھاڑے ہیں جن میں سیاسی بنیادوں پر اور بہت سے تعصبات کی بنیادوں پر نااہل لوگ حقیقتاً بھرتی ہیں۔ بھرتی کو آپ اس طرح سمجھیں کہ ضرورت نہیں ہے اور ہیں۔


پرائیویٹ میڈیا کے لوگ بہت چالاک ہیں۔ اے گریڈ کے فنکار جس ڈرامے میں کام کر رہے ہوتے ہیں، اسی ڈرامے کے دوران ان کے تھرڈ ریٹ Add بھی چل رہے ہوتے ہیں۔ فن سے کسی کو غرض نہیں ہے، پیسہ اصل چیز ہے اورکیوں نہ ہو انھوں نے ''سابقین'' کا انجام دیکھا ہے۔ عمرشریف ریموٹ پر چل رہے ہیں بس چل رہے ہیں۔ یہ بھی ایک انتہائی مجبوری ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی باعزت طریقے سے فنکار ریٹائر نہیں ہوا یا غربت کی وجہ سے کام کرتے کرتے مرگئے ۔

مرنے والے کو برا نہ کہو، مگر حقیقت کو تبدیل تو نہیں کیا جاسکتا۔ پھر ہم مقابلہ کرتے ہیں اپنا دوسرے ملکوں کیچینل سے۔ ان کا آؤٹ پٹ کیا ہے؟ اس کا مقابلہ کریں۔ BBC، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کوکوئی پرائیویٹ چینل شکست نہیں دے سکا آج تک۔ وائس آف امریکا، جرمنی، جاپان یہاں تک کہ بھارت کے اسٹیشن بھی کامیاب ہیں اورہمارا میڈیا ان کی نقل کررہا ہے قابل شرم ہے یہ بات۔

ہمارے یہاں چل سو چل ہم نے بھی ایک ڈرامے کو یہاں مکھی ہاؤس میں فلم بند ہوتے دیکھا تھا۔ سارے بچوں کے سے کام، کوئی نہ اچھا اسکرپٹ نہ اداکار، ایک آدھ کو چھوڑکر بہت سستے اداکار جو یہاں اسٹیج پر دھکے کھاتے رہتے ہیں، ہدایت کار صاحب دوستیاں نبھا رہے تھے۔ یہ تو ایک واقعہ ہے۔ ہمارے سابق اچھے اچھے اداکار یہ کہتے ہیں کہ کام کرنے میں مزا نہیں ہے کوئی اسکرپٹ نہیں ہے، بس زبانی چار جملے بتا دیے کہ یہ آپ کو بولنے ہیں۔

ادھر حکومت نے فنکاروں پر 17 فیصد ٹیکس لگا دیا ہے جو Source پرکاٹ لیا جاتا ہے۔ پورے سال میں دس ہزار روپے کی چھوٹ ہے۔ دس ہزار روپے کی چھوٹ سے فنکار ایک سال میں کیا کیا کرلے گا۔ شاید کپڑے بھی نہ بنا سکے اپنے، گھر والوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ اورکھانے کو ہوا، سونے کو فٹ پاتھ، کیا قدرتی بندوبست ہے ۔ دانائے روزگار وزیرخزانہ سے لے کر ٹیکس کلرک تک سب ایک ہی گنگا کے کشتی والے ہیں، معیشت کے مردے بھی جلا رہے ہیں اور فنکاروں کے گھر میں بھوک ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔

یہ ہے اسٹارڈم پاکستان کا۔ یہ ہے فنکار پاکستان کا اور یہ ہے اس کا مستقبل، مگر شاید فنکار اب ہوکے نہ مریں، مگرکتنے؟ دو چار فیصد باقی تو ہاتھ پھیلے ہی رہیں گے حکومت کے سامنے امداد کے لیے۔ کسے کیا کرنا چاہیے یہ نصیحتیں بے کار ہیں۔ ہم اس میں وقت ضایع نہیں کرتے جیسے ایک وزیر صاحب نے پش اپس کا مقابلہ کرنے کی دعوت دے دی مگر پش اپس سے ملک یا صوبہ ترقی نہیں کرتا کام سے کرتا ہے پش اپس لگانے والی کرکٹ ٹیم کو میچ ہارتے ہوئے بھی دیکھا گیا آپ نے وزیر صاحب آپ کا بھی یہی انجام ہوگا کام نہ کیا تو؟ الیکٹرک چینل کو اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ نئے لوگوں کو موقع دیں اور یہ بھی نہ کریں کہ اچھے فنکاروں کو نکال دیں۔ فنکارکبھی ریٹائر نہیں ہوتا اگر اچھا فنکار ہے۔

مگر یہاں تو اندھا دھند آرڈر ہوتے ہیں 60 سال کا ہے نکال دو، ساٹھ سال کا فنکار چالیس سال کا تجربہ رکھتا ہے اگر فنکار ہے، رائٹر ہے وہ میڈیا کا اثاثہ ہے۔

BBC ان فنکاروں کی قدرکرتا ہے اوریہاں استحصال، وجہ نااہل، اعلیٰ افسران ہیں جو صرف افسر ہیں فنکار نہیں ہیں، نہ ہوں۔ قدردان تو ہوں، محض چند لوگوں کو اکاموڈیٹ کرنے کو سفارش پر عمدہ تجربہ رکھنے والوں کو کیوں باہر کا راستہ دکھایا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے۔ جوانوں کے بالوں میں سفیدی لگا کر ان کو بوڑھا بنانے سے بہتر یہ ہے کہ اصل شخص کو دکھایا جائے، سنایا جائے، سنا جائے۔

اقربا پروری اور تعصبات نے میڈیا کو بھی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سرکاری میڈیا کے مضبوط نیٹ ورک ہیں، مگر آمدنی صفر،کمرشل ختم، کمرشل لوگوں کو یہ کام سونپنا چاہیے تاکہ یہ ادارے اپنے پاؤں پرکھڑے ہوں اور ترقی کریں۔

تجربہ عمل سے آتا ہے اس پر عمر صرف ہوتی ہے اور تب کوئی ماہر بنتا ہے۔ آپ کسی سے مقابلہ کرلیں تجربہ بولتا ہے۔
Load Next Story