کوا بھی کیا پرندہ ہے

اللہ تعالیٰ نے زمین میں کئی خزانے پیدا کیے ہیں جو سب کے سب ہمارے لیے فائدہ مند ہیں

PESHAWAR:
اللہ تعالیٰ نے زمین میں کئی خزانے پیدا کیے ہیں جو سب کے سب ہمارے لیے فائدہ مند ہیں۔ ہماری تفریح کے لیے اتنا بڑا سامان موجود ہے کہ ہماری عمر کم ہوجاتی ہے مگر اس زمین میں موجود چیزوں کو دیکھ نہیں پاتے۔ بچپن سے کئی جانور اور پرندے ہمارے اردگرد رہتے تھے اور رہتے ہیں جنھیں ہم دیکھ کر بڑے خوش ہوتے ہیں۔ان جانوروں میں کچھ ہماری سواری کے لیے ہیں اور کچھ خوراک کے لیے اورکچھ پرندے ہم کھاتے ہیں اورکچھ خوبصورت ہونے کی وجہ سے انھیں اپنے ماحول میں زندہ رکھنے کے لیے ان کا خیال کرتے ہیں۔ جانور اور پرندوں کی ایک ثقافتی اہمیت ہے اور ان سے ہم نے کئی کہاوتیں اور نشانیاں باندھی ہوئی ہیں۔

کوا جو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے، وہ برفانی علاقوں میں سفید رنگ کا ہوتا ہے اور باقی جگہ پر کالے رنگ کا ہوتا ہے مگر سب کی عادتیں اور علامتیں ایک جیسی ہیں۔سندھ میں شاعروں نے کوے کی اہمیت اور ثقافتی ضرورت پر کئی شعر کہے ہیں جس میں ایک بات پورے پاکستان میں مشترکہ ہے کہ جب کوا کسی کے گھرکی دیوار یا پھر چھت پرآکر بیٹھتا ہے اورکائیں کائیں کرنے لگتا ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ آج کوئی مہمان آئے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب تو شہروں اورگاؤں میں بھی موبائل فون موجود ہے اس لیے اب کوے کی کائیں کائیں کی طرف لوگ کم ہی دھیان دیتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے شاعروں اور ادیبوں نے اس کا ذکر کرنا نہیں چھوڑا ہے۔

بچپن میں گاؤں میں اکثر بچوں کے ہاتھوں سے کوا روٹی کا ٹکڑا چھین لیتا تھا مگر پھر بھی اسے لوگ نہیں مارتے تھے صرف اسے دور رکھنے کے لیے ہاتھوں کی دو انگلیاں ملاکر دوسرے ہاتھ کی انگلی سے کوے کو بتانا ہوتا تھا کہ اسے ہم غلیل مار رہے ہیں اور وہ بھاگ جاتا تھا۔ کوے کو سیانا پرندہ مانا جاتا ہے لیکن اس کے لیے ایک یہ کہاوت ہے کہ سیانا کوا جب بھی کہیں پھنستا ہے دونوں ٹانگوں سے۔ یہ پرندہ گرمی میں گھبراتا ہے اورکڑی دھوپ میں درخت پر ہی رہتا ہے اس لیے سندھ میں کہاوت ہے کہ اتنی گرمی ہے کہ کوے کی آنکھ نکل رہی ہے۔گاؤں میں لوگ کوے کے لیے مکھن اور چینی سے گندم والی چوری (پنجیری) بنا رکھتے تھے۔

اب تو کوے کی نسل بے حد بڑھ گئی ہے اورکراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں ہر جگہ آپ کو یہ پرندہ ملے گا لیکن پالنے کے لیے اسے کوئی بھی پنجرے میں نہیں رکھتا اس لیے کہ یہ آپ کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا ہے۔ کراچی سے اس پرندے نے طوطے، بلبل کی نسل کو ختم کردیا ہے اب بھی اگر طوطا کہیں درخت پر نظر آجاتا ہے تو یہ اسے مار دیتے ہیں۔ جہاں بھی کوے نے کبوتر کو دیکھا کہ وہ بیمار ہے وہ اس کے سر پر ٹونگیں مار کرگرا دیتے ہیں اور پھر اپنا بھوجن بناکر چٹ کردیتے ہیں۔ وہ اپنی نسل کو بڑھانے کے لیے چونچ استعمال کرتے ہیں ، باقی پرندوں سے نسل بڑھانے کا انداز اس کا نرالا اور مختلف ہے۔

کوا اکثر چیل کے ساتھ لڑتا رہتا ہے اور اس کے گھونسلے میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ چیل کے بچے اٹھالے۔ میں نے کئی مرتبہ دیکھا ہے کہ وہ کبوتروں اور چڑیا کے انڈے کھانے کے لیے وہاں پر بیٹھی ہوئی مادہ کو بھگاتا رہتا ہے۔ چڑیا کے بچوں کو جن کے ابھی پر بھی نہیں نکلے ہوتے اور وہ گوشت کا لوتھڑا ہوتے ہیں منہ میں اٹھالیتا ہے۔اس پرندے کو میں نے صبح سے رات تک کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو وہ نہیں کھاتا۔ وہ خاص طور پر بلی کا بڑا دشمن ہے اسے جہاں بھی دیکھتا ہے اسے ڈرانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ وہ سمجھدار بہت ہے، ایک مرتبہ ہمارے سامنے والے پارک کے درخت سے کوے کا بچہ زمین پر گرگیا جسے بچانے کے لیے وہ ہر آنے جانے والے آدمی کو سر پر چونچ سے کاٹنے کی کوشش کرتا تھا لیکن عورتوں اور بالکل چھوٹے بچوں کو کچھ بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کے علاوہ بلی کے چھوٹے بچوں کو بھی تنگ نہیں کرتے جس کا مطلب ہے کہ عورت خود ماں ہے اس لیے اس سے انھیں کوئی ڈر نہیں، بچے خود اس قابل نہیں ہیں انھیں بھی کچھ نہیں بولتے۔ کوئل جو کوے سے ملتی جلتی ہے مگر اس سے وہ لڑتے رہتے ہیں، مگر کوئل اپنا گھونسلا نہیں بناتی اور اپنے انڈے کوے کے گھونسلے میں دے آتی ہے۔ کوا ان بچوں کو اپنا سمجھ کر پالتا ہے جب وہ بڑے ہوتے ہیں اور پھر وہ انھیں نکال باہر کرتے ہیں۔

کووں میں بڑا اتحاد ہوتا ہے ، سیاست دانوں سے بھی زیادہ، اگر بجلی کے کھمبے سے کرنٹ لگنے پر وہ مر کر نیچے گرتا ہے تو یہ بڑا شور مچاتے ہیں اور ایک دوسرے کی آواز سن کر دور دور سے اکٹھے ہوکر بین کرتے ہیں۔ یا پھر کسی اور سے لڑائی میں اپنے کوے کا ساتھ دیتے ہیں اس لیے سندھی میں ایک کہاوت ہے کہ ''ذات توکوے کو بھی پیاری ہوتی ہے'' کوا صبح بڑی سویرے اٹھ جاتا ہے اور ابھی سورج نکلنے میں اذان کے بعد کافی وقت ہوتا ہے مگر کوا اپنی کائیں کائیں کرنا شروع کردیتا ہے جس پر بھی ایک کہاوت ہے کہ ''بھائی کوے والی کائیں کائیں تو بند کرو'' ایک ویڈیو میں دکھاتے ہیں کہ ایک بچہ چوری (پنجیری) کھا رہا ہوتا ہے اور اس کے قریب کوا آکر بیٹھتا ہے کہ وہ اس سے یہ پنجیری چھین لے لیکن بچہ خود ہی کوے کو ایک ایک دانہ کھلاتا ہے اور وہ آرام سے کھا کر چلا جاتا ہے۔

یہ پرندہ انتقامی بھی ہے اگر آپ اسے تنگ کریں گے تو یہ پھر نقصان پہنچاتا ہے، نیشنل جیوگرافک چینل پر کوے کے بارے میں ایک ڈاکومنٹری میں دکھاتے ہیں کہ کوے جب کسی انسان سے ناراض ہوتے ہیں تو وہ ان کو کیسے نقصان پہنچاتے ہیں جس میں گھر کے اندر یا باہر کھڑی ہوئی کار کے شیشوں میں لگے ہوئے پلاسٹک کو چونچ سے اکھاڑ کر پھینکتے ہیں ، شیشے توڑتے ہیں۔ گھر کی کھڑکیوں کا بھی ایسا حشرکرتے ہیں اورکبھی کبھی تو اتنا شور مچاتے ہیں کہ آپ کا جینا حرام ہوجاتا ہے۔ کھیتوں سے اناج کو، درختوں سے پھلوں کو توڑ کرگراتے ہیں۔ پانی کی پائپ لائن کو چونچ سے پھاڑ دیتے ہیں اور آپ کا جمع کیا ہوا پانی بہہ جاتا ہے۔


گاؤں میں بھینس یا پھر گائے کے کانوں اور جسم کے کئی حصوں میں کچھ کیڑے ہوتے ہیں جن کو نکال کر کوے کھاتے ہیں اور اگر یہ پالتو جانور پانی میں بیٹھتے ہیں تو ان کے نیچے حصوں میں موجود یہ کیڑے مچھلیاں کھا کر صاف کردیتی ہیں۔ سندھی میں کوے کو کانگ کہتے ہیں جو اس کا ادبی نام ہے جو کئی علامتوں اورکہاوتوں میں اچھے لفظوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ وہ صرف اپنے دلبر کو پسند کرتا ہے اور کسی کو دیکھنا بھی نہیں چاہتا اور اگر اس کی آنکھیں کسی اور کو دیکھیں تو وہ انھیں نکال کر کانگ (کوے) کو ڈال دے گا۔ رنگ کے حساب سے بھی جو زیادہ کالا ہوتا ہے تو ہم اسے کہتے ہیں بھائی تو تو کالا کوا ہے۔ کوے کو شاطر کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں جیساکہ ''یار یہ تو کوے کی طرح شاطر ہے۔''

کوے پر ہندی میں یہ بند مشہور ہے۔

کاگا سب تن کھائیو

چن چن کھیؤ ماس

دو نینان مت کھائیو

انہیں پیا ملن کی آس

کوے کو پیاس بہت زیادہ لگتی ہے ، بڑی مشہور بچوں کی نظم ہے، ایک کوا پیاسا تھا۔اس لیے وہ ہمیشہ پانی کی تلاش میں رہتا ہے اور ہم نے اکثر دیکھا ہے اور تصویریں بھی چھپتی رہتی ہیں کہ وہ پانی کی ایک بوند حاصل کرنے کے لیے گھر میں لگے ہوئے نل یا پھر راستے میں لگے ہوئے پانی کے نلوں میں سے گرتی ہوئی بوند اپنی چونچ میں سما لیتا ہے۔ کوے کے بارے میں ایک اور کہاوت یاد آگئی ہے کہ ''کوے کے بچے بھی تو کوے جیسے ہی ہوں گے۔''

کوے کے بارے میں ویسے تو کئی اور بھی باتیں ہیں لیکن ایک بات جس کی اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ میرے والد کے سر کے بال ایک جگہ سے اڑ گئے جس کے لیے ہمیں کہا گیا کہ اس پر استرے سے ہلکی بلیڈ بنائیں اور اس کے اوپر کوے کو مار کر اس کا خون ڈالیں تو بال آجائیں گے اور ہم نے ایسا ہی کیا اور بال دوبارہ نکل پڑے۔ اس عمل کے لیے کوے کو پکڑنا اور اسے ذبح کرنا بڑا مشکل کام تھا جس پر باقی کوؤں نے حشر برپا کردیا تھا۔
Load Next Story