انتخابات کو غیر معتبر بنانے کی کوششیں
اندرونِ سندھ کے لوگ آج بھی انتہائی کسمپرسی کے زندگی گزار رہے ہیں
نئے انتخابات کو ابھی ایک سال سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے۔دستورِ پاکستان کے مطابق ہر جمہوری حکومت کو حکمرانی کے لیے پورے پانچ سال ملاکرتے ہیں اور اگرکوئی رخنہ اندازی نہ کی جائے تو ہمارے یہاں اگلے انتخابات اپنی مقررہ تاریخ یعنی پورے پانچ سال بعد ایک عبوری اور نیوٹرل سیٹ اپ کی سرپرستی میں کروائے جائیں گے، مگر حکومت کے مخالف جو 2014ء ہی سے اُس کے جانے کی سازشوں میں لگے ہوئے تھے، اُن کے لیے یہ باقی ایک برس بھی بمشکل گزر رہا ہے اور وہ کسی نہ کسی بہانے سے ہنگامہ آرائی کی فضا پیدا کرنے میں سرگرداں ہیں۔
وہ نہیں چاہتے کہ موجودہ حکمراں اپنی آئینی مدت پوری کریں۔ اِسی فکر اور پریشانی میں 2017ء کے خاتمے سے پہلے پہلے وہ ایسا کچھ کر دینا چاہتے ہیں کہ میاں نواز شریف مجبوراً از خود ہی ہتھیار ڈال کر نئے انتخابات کا اعلان کردیں۔ پہلے وہ یہ کام ہماری عدلیہ کے ذریعے کروانا چاہتے تھے مگر پاناما کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد وہ انتہائی مایوسی اوراضطراب کی حالت میں نیوز لیکس کو اپنی حسرتوں اور اُمیدوں کا محور بناکر افواج پاکستان سے یہ توقع کر بیٹھے تھے، مگر یہاں بھی مایوسی نے اُن کا پیچھا نہیں چھوڑا اور نیوز لیکس کا معاملہ خلافِ توقع سول اورملٹری اداروں کے درمیان نہایت خوش اسلوبی سے طے پاگیا۔اب اُن کے پاس اپنی اِن توقعات کا شیش محل تعمیرکرنے کے لیے صرف جے آئی ٹی ہی رہ گئی ہے لیکن معروضی حالات کی روشنی میں اُنہیں اب اِس سے بھی کچھ خوف اور خدشات لاحق ہونے لگے ہیں لہذا وہ الیکشن سے قبل ہی محاذ آرائی کا راستہ اپنا کر حکومت کے لیے کام کرتے رہنا دشوار بنادینا چاہتے ہیں۔
جو لوگ نئے انتخابات کے لیے آج اتنے مضطرب دکھائی دیتے ہیں خود ابھی تک اپنے آپ کو اِس کے لیے تیارہی نہیں کرپائے ہیں۔ بالفرض اگر آج نئے الیکشن کے انعقاد کااعلان ہوجائے تو وہ اُسے ٹالنے اور ملتوی کروانے کے لیے میدان میں اترآئیں گے۔انٹرا پارٹی الیکشن سے لے کرالیکشن میں اُمیدواروں کے ناموں کے لیے موزوں اشخاص کاچناؤ خود اُن کے اپنے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہ ہوگا۔اپنی اِسی خامی اور نااہلی کو چھپانے کے لیے وہ آیندہ ہونے والے انتخابات کو ابھی سے مشکوک اور غیر معتبر بنانے کے لیے سازشوں کے جال بننا شروع کرچکے ہیں ۔
اِس ضمن میں اُن کا سب سے پہلا حملہ اور وار انتخابی اصلاحاتی کمیٹی پر ہوگاجس کے ذمے اگلے عام انتخابات میں نئی نئی اصلاحات تجویزکرنا اور اُسے قابل عمل بنانا مختص تھا۔ اِس پارلیمانی کمیٹی میں حکمراں جماعت سمیت سبھی اہم سیاسی پارٹیوں کے لوگ شامل ہیں، مگر اِس کمیٹی کے اب تک کی کارکردگی کوئی خاص تسلی بخش نہیں رہی۔اُس نے اب تک الیکٹرانک ووٹنگ، بائیومیٹرک سسٹم اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کے حق سمیت کئی اہم ایشو اور امورطے ہی نہیں کیے۔
لہذا خان صاحب جو پہلے ہی موجودہ الیکشن کمیشن پر بھی اپنے عدم اعتماد کا اظہارکرچکے ہیںوہ اِس کمیٹی کے فیصلوں کو بھی اپنی مخصوص سیاسی حکمت عملی کے تحت تختہ مشق بنائیں گے اور اگلے عام انتخابات پر پہلے ہی سے شک و شبہات کی دھول اُڑا کر اُس سے فرار کی راہیں تلاش کریں گے۔ وہ اگر چارو ناچار انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور بھی دکھائی دیے تو نتیجہ اپنے حق میں نہ آنے کی صورت میں وہ ایک بار پھر اُسی طرح سڑکوں کی سیاست کو اپنا مشغلہ بنائیں گے جس طرح وہ پچھلے چار سال سے کرتے آئے ہیں، لیکن ہو سکتا ہے وہ اِس بار اِس معرکہ آرائی میں تنہا اور اکیلے ہرگز نہیں ہوں۔ اِس بار اُن کے ساتھ پیپلز پارٹی سمیت دیگر کچھ اور سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوں گی۔ پیپلز پارٹی کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ آیندہ انتخابات میں سوائے صوبہ سندھ کے کہیں اور سے اُسے عوام کی پذیرائی نہیں مل پائے گی۔
پنجاب اور کے پی کے میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک ِ انصاف اُس کی وہاں جیتنے کی کسی اُمید کو بر نہیں آنے دینگی اوربلوچستان میں تو ویسے ہی ہمیشہ ملا جلا مینڈیٹ ملا کرتا ہے۔ کسی ایک پارٹی کو وہاں کوئی فوقیت حاصل نہیں ہوا کرتی۔ ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی جب یہ دیکھے گی کہ آیندہ ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں اُسے سادہ اکثریت بھی نہیں مل پا رہی اور وہ دیگر ہم خیال سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملانے کی باوجود حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اُس کے پاس احتجاجی سیاست کے سوا کوئی دوسرا آپشن ہوگا ہی نہیں اور وہ بھی خان صاحب کے شانہ بشانہ اُس احتجاجی تحریک کا حصہ بن جائے گی جس کے اشارے یہ دونوں پارٹیاں ابھی سے دے رہی ہیں۔ یعنی الیکشن جیتنے کی صورت میں سبھی کچھ اچھا، درست اور قابلِ قبول قرار پائے گا اور ہارجانے کی صورت میں دھاندلی، دھاندلی کا شوراور ہنگامہ برپا ہوگا۔ آصف زرداری یہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب ہم آر اوز (ریٹرننگ آفیسرز)کا الیکشن تسلیم نہیں کریں گے اور ہمارے آدمی پولنگ اسٹیشن پر اُس وقت تک بیٹھے رہیں گے جبتک نتیجہ اُن کے حوالے نہیں کیا جاتا۔
گزشتہ الیکشن میں اپنی پارٹی کی شکست کو وہ یہ کہہ کر تسلیم کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے سابقہ الیکشن کے نتائج کو جمہوریت کی خاطر قبول کرلیاتھا مگر اب ایسا نہیں کرینگے۔ حالانکہ گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کوئی غیر متوقع بات نہیں تھی بلکہ نوشتہ دیوارکی مانندوہ تلخ حقیقت تھی جس کا احساس ا ور ادراک پارٹی کے کارکنوں کو پہلے سے ہوچکا تھا۔ہمارے کچھ تجزیہ نگاروں کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ پارٹی کو اِس نہج پر پہنچانے کا جو کام جنرل ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ دور اقتدا ر میں نہیں کرسکے وہ آصف زرداری نے چند سالوں خود اپنے ہاتھوں سے کردیا۔پارٹی کی شناخت اب صرف کرپشن اور لوٹ مارکے طور پر رہ گئی ہے۔ افسوس کہ اُس نے اپنا یہ طریقہ کار اب بھی نہیں بدلا۔ صوبہ سندھ جہاں کے لوگ ذوالفقار علی بھٹو کے ناتے اُس سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور اُسے انتخابات میںہمیشہ جیت سے ہمکنارکرتے ہیں اُس نے اپنے اِن چاہنے والوں کے لیے بھی کچھ نہ کیا۔
اندرونِ سندھ کے لوگ آج بھی انتہائی کسمپرسی کے زندگی گزار رہے ہیں۔وہاں نہ تعلیم ہے اور نہ اسپتال اور نہ انسانی ضروریات کی بنیادی سہولتیں۔ اپنے اِن غریب ووٹروں کے لیے مختص کیا جانے والاسارا ترقیاتی فنڈ یہاں کے لوگوں پر خرچ ہونے کی بجائے بڑوں بڑوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔اُس کے اِسی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل اور ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ اگلے الیکشن میں دوسرے صوبوں کے لوگ اُسے اپنے کسی مینڈیٹ سے نوازیں گے۔ایسی صورتحال میں آصف زرداری کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ آیندہ ہونے والے انتخابات کو ابھی سے مشکوک اور غیرمعتبر بنادیں۔وہ تمام سیاسی پارٹیاں جنھیں اگلے انتخابات میں اپنی شکست واضح اور یقینی دکھائی دے رہی ہے وہ بھی زرداری صاحب کی ہم زباں اور ہم خیال بنکر اِس کارِ خیر میں اپنا اپنا حصہ ضرور ڈالیں گی۔
حالانکہ اگلے انتخابات بھی سابقہ الیکشن کے طرح ایک عبوری اور غیر جانبدار سیٹ اپ کی نگرانی میں منعقد ہونگے جس کا انتخاب تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے مشوروں سے طے کیا جائے گا۔مگر جب ذاتی مفادات قومی مفادات پر فوقیت پانے لگیں تو کسی سمجھوتے اور معاہدے کا پاس نہیں رکھا جاتا۔گزشتہ الیکشن میں بھی نگراں حکومتی سیٹ اپ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی مرضی و منشاء سے بنایا گیا تھا۔ لیکن پھر کیا ہوا الیکشن ہارجانے کے بعد تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمیشن جسٹس فخرالدین جی ابراہیم سمیت ہر نگراں شخص پر عدم اعتماد کا اظہارکرکے منظم دھاندلی کا ایسا شور مچایا کہ سارا نظام ہی انتشارکا شکار ہوکر رہ گیا۔ بہت ممکن ہے اِس بار بھی یہی کھیل پھر دہرایاجائے لیکن اِس بار یہ کھیل تحریک انصاف اکیلی نہیں کھیلے گی پیپلز پارٹی بھی اِس کھیل میں اُس کی ہمنوا ہوگی۔
وہ نہیں چاہتے کہ موجودہ حکمراں اپنی آئینی مدت پوری کریں۔ اِسی فکر اور پریشانی میں 2017ء کے خاتمے سے پہلے پہلے وہ ایسا کچھ کر دینا چاہتے ہیں کہ میاں نواز شریف مجبوراً از خود ہی ہتھیار ڈال کر نئے انتخابات کا اعلان کردیں۔ پہلے وہ یہ کام ہماری عدلیہ کے ذریعے کروانا چاہتے تھے مگر پاناما کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد وہ انتہائی مایوسی اوراضطراب کی حالت میں نیوز لیکس کو اپنی حسرتوں اور اُمیدوں کا محور بناکر افواج پاکستان سے یہ توقع کر بیٹھے تھے، مگر یہاں بھی مایوسی نے اُن کا پیچھا نہیں چھوڑا اور نیوز لیکس کا معاملہ خلافِ توقع سول اورملٹری اداروں کے درمیان نہایت خوش اسلوبی سے طے پاگیا۔اب اُن کے پاس اپنی اِن توقعات کا شیش محل تعمیرکرنے کے لیے صرف جے آئی ٹی ہی رہ گئی ہے لیکن معروضی حالات کی روشنی میں اُنہیں اب اِس سے بھی کچھ خوف اور خدشات لاحق ہونے لگے ہیں لہذا وہ الیکشن سے قبل ہی محاذ آرائی کا راستہ اپنا کر حکومت کے لیے کام کرتے رہنا دشوار بنادینا چاہتے ہیں۔
جو لوگ نئے انتخابات کے لیے آج اتنے مضطرب دکھائی دیتے ہیں خود ابھی تک اپنے آپ کو اِس کے لیے تیارہی نہیں کرپائے ہیں۔ بالفرض اگر آج نئے الیکشن کے انعقاد کااعلان ہوجائے تو وہ اُسے ٹالنے اور ملتوی کروانے کے لیے میدان میں اترآئیں گے۔انٹرا پارٹی الیکشن سے لے کرالیکشن میں اُمیدواروں کے ناموں کے لیے موزوں اشخاص کاچناؤ خود اُن کے اپنے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہ ہوگا۔اپنی اِسی خامی اور نااہلی کو چھپانے کے لیے وہ آیندہ ہونے والے انتخابات کو ابھی سے مشکوک اور غیر معتبر بنانے کے لیے سازشوں کے جال بننا شروع کرچکے ہیں ۔
اِس ضمن میں اُن کا سب سے پہلا حملہ اور وار انتخابی اصلاحاتی کمیٹی پر ہوگاجس کے ذمے اگلے عام انتخابات میں نئی نئی اصلاحات تجویزکرنا اور اُسے قابل عمل بنانا مختص تھا۔ اِس پارلیمانی کمیٹی میں حکمراں جماعت سمیت سبھی اہم سیاسی پارٹیوں کے لوگ شامل ہیں، مگر اِس کمیٹی کے اب تک کی کارکردگی کوئی خاص تسلی بخش نہیں رہی۔اُس نے اب تک الیکٹرانک ووٹنگ، بائیومیٹرک سسٹم اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کے حق سمیت کئی اہم ایشو اور امورطے ہی نہیں کیے۔
لہذا خان صاحب جو پہلے ہی موجودہ الیکشن کمیشن پر بھی اپنے عدم اعتماد کا اظہارکرچکے ہیںوہ اِس کمیٹی کے فیصلوں کو بھی اپنی مخصوص سیاسی حکمت عملی کے تحت تختہ مشق بنائیں گے اور اگلے عام انتخابات پر پہلے ہی سے شک و شبہات کی دھول اُڑا کر اُس سے فرار کی راہیں تلاش کریں گے۔ وہ اگر چارو ناچار انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور بھی دکھائی دیے تو نتیجہ اپنے حق میں نہ آنے کی صورت میں وہ ایک بار پھر اُسی طرح سڑکوں کی سیاست کو اپنا مشغلہ بنائیں گے جس طرح وہ پچھلے چار سال سے کرتے آئے ہیں، لیکن ہو سکتا ہے وہ اِس بار اِس معرکہ آرائی میں تنہا اور اکیلے ہرگز نہیں ہوں۔ اِس بار اُن کے ساتھ پیپلز پارٹی سمیت دیگر کچھ اور سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوں گی۔ پیپلز پارٹی کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ آیندہ انتخابات میں سوائے صوبہ سندھ کے کہیں اور سے اُسے عوام کی پذیرائی نہیں مل پائے گی۔
پنجاب اور کے پی کے میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک ِ انصاف اُس کی وہاں جیتنے کی کسی اُمید کو بر نہیں آنے دینگی اوربلوچستان میں تو ویسے ہی ہمیشہ ملا جلا مینڈیٹ ملا کرتا ہے۔ کسی ایک پارٹی کو وہاں کوئی فوقیت حاصل نہیں ہوا کرتی۔ ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی جب یہ دیکھے گی کہ آیندہ ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں اُسے سادہ اکثریت بھی نہیں مل پا رہی اور وہ دیگر ہم خیال سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملانے کی باوجود حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اُس کے پاس احتجاجی سیاست کے سوا کوئی دوسرا آپشن ہوگا ہی نہیں اور وہ بھی خان صاحب کے شانہ بشانہ اُس احتجاجی تحریک کا حصہ بن جائے گی جس کے اشارے یہ دونوں پارٹیاں ابھی سے دے رہی ہیں۔ یعنی الیکشن جیتنے کی صورت میں سبھی کچھ اچھا، درست اور قابلِ قبول قرار پائے گا اور ہارجانے کی صورت میں دھاندلی، دھاندلی کا شوراور ہنگامہ برپا ہوگا۔ آصف زرداری یہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب ہم آر اوز (ریٹرننگ آفیسرز)کا الیکشن تسلیم نہیں کریں گے اور ہمارے آدمی پولنگ اسٹیشن پر اُس وقت تک بیٹھے رہیں گے جبتک نتیجہ اُن کے حوالے نہیں کیا جاتا۔
گزشتہ الیکشن میں اپنی پارٹی کی شکست کو وہ یہ کہہ کر تسلیم کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے سابقہ الیکشن کے نتائج کو جمہوریت کی خاطر قبول کرلیاتھا مگر اب ایسا نہیں کرینگے۔ حالانکہ گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کوئی غیر متوقع بات نہیں تھی بلکہ نوشتہ دیوارکی مانندوہ تلخ حقیقت تھی جس کا احساس ا ور ادراک پارٹی کے کارکنوں کو پہلے سے ہوچکا تھا۔ہمارے کچھ تجزیہ نگاروں کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ پارٹی کو اِس نہج پر پہنچانے کا جو کام جنرل ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ دور اقتدا ر میں نہیں کرسکے وہ آصف زرداری نے چند سالوں خود اپنے ہاتھوں سے کردیا۔پارٹی کی شناخت اب صرف کرپشن اور لوٹ مارکے طور پر رہ گئی ہے۔ افسوس کہ اُس نے اپنا یہ طریقہ کار اب بھی نہیں بدلا۔ صوبہ سندھ جہاں کے لوگ ذوالفقار علی بھٹو کے ناتے اُس سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور اُسے انتخابات میںہمیشہ جیت سے ہمکنارکرتے ہیں اُس نے اپنے اِن چاہنے والوں کے لیے بھی کچھ نہ کیا۔
اندرونِ سندھ کے لوگ آج بھی انتہائی کسمپرسی کے زندگی گزار رہے ہیں۔وہاں نہ تعلیم ہے اور نہ اسپتال اور نہ انسانی ضروریات کی بنیادی سہولتیں۔ اپنے اِن غریب ووٹروں کے لیے مختص کیا جانے والاسارا ترقیاتی فنڈ یہاں کے لوگوں پر خرچ ہونے کی بجائے بڑوں بڑوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔اُس کے اِسی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل اور ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ اگلے الیکشن میں دوسرے صوبوں کے لوگ اُسے اپنے کسی مینڈیٹ سے نوازیں گے۔ایسی صورتحال میں آصف زرداری کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ آیندہ ہونے والے انتخابات کو ابھی سے مشکوک اور غیرمعتبر بنادیں۔وہ تمام سیاسی پارٹیاں جنھیں اگلے انتخابات میں اپنی شکست واضح اور یقینی دکھائی دے رہی ہے وہ بھی زرداری صاحب کی ہم زباں اور ہم خیال بنکر اِس کارِ خیر میں اپنا اپنا حصہ ضرور ڈالیں گی۔
حالانکہ اگلے انتخابات بھی سابقہ الیکشن کے طرح ایک عبوری اور غیر جانبدار سیٹ اپ کی نگرانی میں منعقد ہونگے جس کا انتخاب تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے مشوروں سے طے کیا جائے گا۔مگر جب ذاتی مفادات قومی مفادات پر فوقیت پانے لگیں تو کسی سمجھوتے اور معاہدے کا پاس نہیں رکھا جاتا۔گزشتہ الیکشن میں بھی نگراں حکومتی سیٹ اپ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی مرضی و منشاء سے بنایا گیا تھا۔ لیکن پھر کیا ہوا الیکشن ہارجانے کے بعد تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمیشن جسٹس فخرالدین جی ابراہیم سمیت ہر نگراں شخص پر عدم اعتماد کا اظہارکرکے منظم دھاندلی کا ایسا شور مچایا کہ سارا نظام ہی انتشارکا شکار ہوکر رہ گیا۔ بہت ممکن ہے اِس بار بھی یہی کھیل پھر دہرایاجائے لیکن اِس بار یہ کھیل تحریک انصاف اکیلی نہیں کھیلے گی پیپلز پارٹی بھی اِس کھیل میں اُس کی ہمنوا ہوگی۔