ایف سی آر کے تحت 700افراد زیر حراست ہیں اٹارنی جنرل رہائی کا راستہ نکالیں چیف جسٹس کا حکم
عدالت نے حکم دیاتوافسروںکونتائج بھگتناپڑیں گے،چیف جسٹس، رہائی کا حکم دیں تو عمل کرینگے اور نتائج پوری قوم بھگتے گی
ISLAMABAD:
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران قبائلی علاقوں سے 700افراد کو زیر حراست لیا گیا ہے اور یہ سیکیورٹی ایجنسیوں کے پاس ہیں جنھیں دہشت گردی کی جنگ ختم ہونے تک رہا نہیں کیا جاسکتا تاہم سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ لاپتا افراد کے معاملے پر اٹارنی جنرل درمیانی راستہ نکالیں اگر عدالت نے حکم دیا تو نتائج پوری قوم کو بھگتنا پڑیں گے۔
عدالت نے اڈیالہ جیل سے لاپتہ کیے گئے قیدیوں کے معاملے کا جائزہ لینے کیلیے اٹارنی جنرل کو ایک ہفتے کی مہلت دیدی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے اڈیالہ جیل سے پارا چنار حراستی مرکز منتقل کیے گئے قیدیوں کے مقدمے کی سماعت کی۔اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ قیدیوںکیخلاف ثبوت مل گئے ہیں، مقدمہ چلانے کیلئے ایک ماہ کی مہلت چاہیے ۔عدالت کو سیکرٹری فاٹا ناصر جمال نے بتایا کہ ان افراد سے اسلحہ اور دستی بم برآمد ہوئے ہیں، ملزمان نے فاٹا میں فوجی قافلے پر حملہ کیا تھا ۔
قیدیوں کے وکیل طارق اسد نے کہا کہ ملزمان حراست میں ہیں، اسلحہ کہاں سے آ گیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس آئی نے لکھ کر دیا کہ ان کیخلاف کوئی ثبوت نہیںلیکن اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ ان قیدیوں پر اب ایف سی آرکے تحت مقدمہ چلے گا ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں جس قانون کا حوالہ دے رہے ہیں اس کی آئینی حیثیت چیلنج ہو چکی ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کوکہا کہ700سے زائد افراد اس قانون کے تحت حراست میں ہیں، عدالت سب کا ازخود نوٹس لے کر پہلے قانون کا فیصلہ کرے، اگر عدالت رہائی کا حکم جاری کر دے تو ہم عمل کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ ہم پر چھوڑنے کے بجائے خودکوئی راستہ نکالیں، رہائی کا حکم دیا تو دور رس اثرات ہوں گے، نتائج بھگتنا پڑیں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پھر تو پوری قوم بھگتے گی۔ چیف جسٹس نے کہا قیدیوںکو چھوڑنے کا کوئی راستہ نکالا جائے اگر غیر قانونی طور پرحراست میں لیے گئے افراد کو رہا نہ کیا گیا تو سخت آرڈر جاری کرنا پڑے گااور عدالت کا حکم کاغذکا ٹکڑا نہیں ہوگا، اس کے نتائج ان افسران کو بھی بھگتنا پڑیں گے جنہوں نے ان کو حراست میں رکھا۔سیکرٹر ی فاٹاکی رپورٹ میں موقف اختیارکیا گیا کہ ان قیدیوں میں سے ہر ملزم سے دو،دو دستی بم اور کلاشنکوفیں برآمد ہوئیں۔
عدالت نے یہ رپورٹ مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام افراد سے ایک جیسا اسلحہ برآمد ہو، تمام اداروں نے ایک ہی چیزکی برآمدگی ظاہرکی جو ناقابل یقین ہے۔ ملزمان کیخلاف ثبوت نہیں تو انہیں رہا کیا جائے ورنہ سخت حکم جاری کیا جائے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملزمان کو حراست میں رکھنے کیلئے دیئے جانے والے احکامات کی تفصیل عدالت میں پیش نہیں کی گئی۔واضح رہے کہ اڈیالہ جیل کے باہرسے 11افرادلاپتہ ہوگئے تھے جواب حراستی مرکزمیںہیںاوران میں سے 4کا انتقال ہوچکاہے۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران قبائلی علاقوں سے 700افراد کو زیر حراست لیا گیا ہے اور یہ سیکیورٹی ایجنسیوں کے پاس ہیں جنھیں دہشت گردی کی جنگ ختم ہونے تک رہا نہیں کیا جاسکتا تاہم سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ لاپتا افراد کے معاملے پر اٹارنی جنرل درمیانی راستہ نکالیں اگر عدالت نے حکم دیا تو نتائج پوری قوم کو بھگتنا پڑیں گے۔
عدالت نے اڈیالہ جیل سے لاپتہ کیے گئے قیدیوں کے معاملے کا جائزہ لینے کیلیے اٹارنی جنرل کو ایک ہفتے کی مہلت دیدی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے اڈیالہ جیل سے پارا چنار حراستی مرکز منتقل کیے گئے قیدیوں کے مقدمے کی سماعت کی۔اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ قیدیوںکیخلاف ثبوت مل گئے ہیں، مقدمہ چلانے کیلئے ایک ماہ کی مہلت چاہیے ۔عدالت کو سیکرٹری فاٹا ناصر جمال نے بتایا کہ ان افراد سے اسلحہ اور دستی بم برآمد ہوئے ہیں، ملزمان نے فاٹا میں فوجی قافلے پر حملہ کیا تھا ۔
قیدیوں کے وکیل طارق اسد نے کہا کہ ملزمان حراست میں ہیں، اسلحہ کہاں سے آ گیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس آئی نے لکھ کر دیا کہ ان کیخلاف کوئی ثبوت نہیںلیکن اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ ان قیدیوں پر اب ایف سی آرکے تحت مقدمہ چلے گا ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں جس قانون کا حوالہ دے رہے ہیں اس کی آئینی حیثیت چیلنج ہو چکی ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کوکہا کہ700سے زائد افراد اس قانون کے تحت حراست میں ہیں، عدالت سب کا ازخود نوٹس لے کر پہلے قانون کا فیصلہ کرے، اگر عدالت رہائی کا حکم جاری کر دے تو ہم عمل کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ ہم پر چھوڑنے کے بجائے خودکوئی راستہ نکالیں، رہائی کا حکم دیا تو دور رس اثرات ہوں گے، نتائج بھگتنا پڑیں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پھر تو پوری قوم بھگتے گی۔ چیف جسٹس نے کہا قیدیوںکو چھوڑنے کا کوئی راستہ نکالا جائے اگر غیر قانونی طور پرحراست میں لیے گئے افراد کو رہا نہ کیا گیا تو سخت آرڈر جاری کرنا پڑے گااور عدالت کا حکم کاغذکا ٹکڑا نہیں ہوگا، اس کے نتائج ان افسران کو بھی بھگتنا پڑیں گے جنہوں نے ان کو حراست میں رکھا۔سیکرٹر ی فاٹاکی رپورٹ میں موقف اختیارکیا گیا کہ ان قیدیوں میں سے ہر ملزم سے دو،دو دستی بم اور کلاشنکوفیں برآمد ہوئیں۔
عدالت نے یہ رپورٹ مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام افراد سے ایک جیسا اسلحہ برآمد ہو، تمام اداروں نے ایک ہی چیزکی برآمدگی ظاہرکی جو ناقابل یقین ہے۔ ملزمان کیخلاف ثبوت نہیں تو انہیں رہا کیا جائے ورنہ سخت حکم جاری کیا جائے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملزمان کو حراست میں رکھنے کیلئے دیئے جانے والے احکامات کی تفصیل عدالت میں پیش نہیں کی گئی۔واضح رہے کہ اڈیالہ جیل کے باہرسے 11افرادلاپتہ ہوگئے تھے جواب حراستی مرکزمیںہیںاوران میں سے 4کا انتقال ہوچکاہے۔