دہشت گردی سے خائف پیپلز پارٹی

وزیر اعلیٰ کوسندھ کے مختلف اضلاع میں مارے گئےچھاپوں اوراب تک کی جانےوالی گرفتاریوں کےبارےمیں بھی بتایاگیا

پچھلے دنوں سوشل میڈیا میں اس خبر کا خوب چرچا رہا جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ میں دہشتگردی کی حالیہ لہر نے حکمراں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو خوفزدہ کردیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوںگے جن کے نتائج 2013 ء سے مختلف نہیں ہوں گے۔

مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ ''انتہا پسند گروپوں کی حمایت کرنے والے ہی دہشتگردی کی اس لہر سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لبرل پارٹی ہونے کی وجہ سے ہم نے ہمیشہ ان کے غیظ وغضب کا سامنا کیا ہے'' انھیں بہرحال یقین تھا کہ پارٹی اس صورتحال پر قابو پا لے گی۔ مذہبی ہم آہنگی، بقائے باہمی اورصبروتحمل کے حوالے سے سندھ مثالی تاریخ کا حامل رہا ہے کیونکہ اس دھرتی کے اکثر صوفیوں نے ہمیشہ پیار اور امن کا پرچارکیا ہے، مگرگزشتہ دو تین سال کے دوران خصوصاً دیہی علاقوں میں ہونے والے دہشتگرد حملوں نے صوبائی حکمراں پارٹی کی صفوں میں بے چینی پیدا کردی ہے، جو 2008ء سے یہاں برسراقتدار ہے۔ 2015ء میں شکارپورکی امام بارگاہ میں رونما ہونے والا سانحہ ہو، جس میں 60 کے قریب لوگ مارے گئے تھے، جیکب آباد کا خود کش حملہ ہو یا حالیہ سیہون دھماکہ، سب سے یہی پیغام گیا کہ انتہا پسندگروپوں نے صوفیوں کی اس دھرتی پر جگہ بنا لی ہے۔

چانڈیو نے کہا ''یہ سندھ خصوصاً پی پی پی کے خلاف سازش ہے،کچھ عناصر اپنے ناپاک منصوبوں کے تحت دہشتگردی کے ذریعے کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں، مگر ہم انھیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے'' ایک دوسرے رہنما نے رائے ظاہرکی کہ حالیہ حملے کا نہ صرف آنے والے انتخابات پر اثر پڑے گا بلکہ اس کے نتیجے میں مردم شماری بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے، جو سندھ میں مارچ کے وسط سے شروع ہو چکی ہے۔آزاد مبصرین کے خیال میں پی پی پی اپنی قائد بے نظیر بھٹو کی جان کی صورت میں دہشتگردی کی بھاری قیمت ادا کرچکی ہے جنھیں ایک دہشتگرد حملے میں قتل کردیا گیا تھا۔ تاہم، سندھ میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو روکنے کے حوالے سے پارٹی میں مطلوبہ سیاسی دانش کا فقدان پایا جاتا ہے۔ نثارکھوکھر کا کہنا تھا کہ ''سندھ میں رہنے والوں کی اکثریت پارٹی کی کارکردگی سے خوش نہیں ہے، جو وفاقی حکومت میں بھی رہ چکی ہے اور مدارس کے نصاب میں اصلاحات نہیں لا سکی نہ ہی انتہا پسند عناصر کے خلاف کوئی کارروائی کرسکی جو صوبے میں کھلم کھلا نفرت اورانتہا پسندی پھیلا رہے ہیں۔''

ان کے بقول معاملات پر جاگیرداروں کی گرفت اب بھی مضبوط ہے اور وہ با آسانی پولیس پر اثر انداز ہوسکتے ہیں جب کہ عدالتی نظام کمزور ہے اور صوبے میں انٹیلی جنس کا کوئی مضبوط نیٹ ورک موجود نہیں۔انھوں نے مزیدکہا کہ اگر ان گروپوں کے خلاف پی پی پی کے گزشتہ دور حکومت میں آپریشن شروع کیا گیا ہوتا، تو ہمیں سندھ میں اس قسم کی صورتحال دیکھنے کو نہ ملتی۔ کھوکھر کے مطابق صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس ایک بات سے ہی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سیہون بم دھماکے کے جن دو سہولت کاروں کو پولیس نے چند روزبعدگرفتار کیا تھا ان دونوں کا تعلق پی پی پی سے ہے اور وہ پارٹی ٹکٹ پر بلدیاتی انتخابات جیت چکے ہیں، ظاہر ہے ان کے خلاف کارروائی کی صورت میں پی پی پی کو اپنی صفوں میں مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ دریں اثنا سرکاری طور پر جاری شدہ اعداد وشمارکے مطابق اب تک دھماکے زیادہ تر ان شہروں اور قصبوں میں ہوئے ہیں جو بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے ملحق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کریک ڈاؤن کے لیے سندھ بلوچستان سرحد کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا ہے۔


سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی تیزکریں اور بلوچستان سے ملنے والی صوبے کی سرحد پر خاص طور پر نظر رکھیں۔ صوبے میں سیکیورٹی کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کے دوران پولیس اور رینجرزکو سندھ بلوچستان سرحد پرکریک ڈاؤن شروع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے انھوں نے کہا ''ہمیں سندھ سے دہشتگردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔''انھوں نے سندھ کے سیکریٹری داخلہ کو بھی صوبے بھر میں قائم ہونے والے نئے مدارس کی رپورٹ تیارکرنے کی ہدایت کی کہ ان کے قیام میں قوانین وضوابط کا خیال رکھا گیا ہے یا نہیں۔ اجلاس میں درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر میں ہونے والے خود کش دھماکے کی اب تک ہونے والی تفتیش کا بھی جائزہ لیا گیا جس میں 88 افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ وزیراعلیٰ کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے مشتبہ خود کش بمبارکی حرکات وسکنات اورشہر میں اس کے سہولت کاروں کی موجودگی کے حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی۔ انھیں بتایا گیا کہ تفتیش کاروں نے دھماکے سے پہلے اور بعد درگاہ سے کی گئی فون کالزکا ریکارڈ حاصل کرلیا ہے جس سے کیس کے کچھ ٹھوس شواہد ملے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے کہا ''اگر ہم نے اس کیس کو کامیابی سے منطقی انجام تک پہنچایا تو ہم مستقبل میں اس قسم کے سانحات کو رونما ہونے سے روک سکیں گے'' وزیراعلیٰ نے آسان اہداف کی سیکیورٹی کے لیے بھی واضح ہدایات دیں۔ انھیں بتایا گیا کہ اہم مقامات پر پولیس اوردیگر ایجنسیوں کے اہلکارسادہ کپڑوں میں تعینات کیے گئے ہیں اور سی سی ٹی وی کوریج کو بہتر بنایا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ کو سندھ کے مختلف اضلاع میں مارے گئے چھاپوں اور اب تک کی جانے والی گرفتاریوں کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ اجلاس میں ڈی جی رینجرزکی سربراہی میں سیکیورٹی پلان بنانے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس میں پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے سینئر افسران بھی شامل ہوں گے اور جس کے اجلاس باقاعدگی سے ہوا کریں گے اور جن میں الرٹس شیئر کیے جائیں گے۔ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر وزیر اعلی کو رپورٹ بھی دے گی۔ اس سلسلے میں آخری اطلاع یہ موصول ہوئی تھی کہ پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں کی بحالی کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جنہوں نے اپنی دو سالہ مدت ختم ہونے پر جنوری میں کام کرنا بند کردیا تھا۔

یہ فیصلہ اس اقدام کے کچھ ہی گھنٹوں بعد کیا گیا جس کے تحت اسلام آباد میں فوجی عدالتوں پر پارلیمانی کمیٹی کی سب کمیٹی کے ایک اہم اجلاس سے پی پی پی واک آؤٹ کرگئی تھی۔ موقف میں تبدیلی بظاہر بلاول ہاؤس کراچی میں ہونے والے ایک اجلاس کے بعد سامنے آئی جس میں پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ دوبارہ فوجی عدالتیں قائم کرنے کی مخالفت نہیں کریں گے بشرطیکہ دوسری سیاسی پارٹیاں بھی اس کی حمایت کریں۔

پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی بلاول ہاؤس میں منعقدہ اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ زرداری نے اجلاس میں کہا کہ آپ پاناما گیٹ اسکینڈل اور دیگر معاملات پر حکومت کو بے شک ٹف ٹائم دیں، مگر یہ نہ بھولیں کہ ملک اہم موڑ پرکھڑا ہے اور ہم نے دہشتگردی کی لعنت سے چھٹکارا پانے کے لیے باہم اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ خورشید شاہ نے اجلاس کو فوجی عدالتوں کے سوال پر دوسری پارٹیوں کی سوچ سے آگاہ کیا اور سفارش کی کہ پی پی پی کو بھی ان کی ہمنوائی کرنی چاہیے۔ اجلاس کے شرکا نے اس سے اتفاق کیا تاہم ان کی رائے تھی کہ فوجی عدالتوں کی بحالی کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں وفاقی حکومت کے خلاف، خاص طور پر نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے سے آواز بھی اٹھاتے رہنا چاہیے۔
Load Next Story