ہوگو چاویز کی علالت
قیادت کا خلا وینزویلا کو بحران سے دوچار کرسکتا ہے، کیا عالمی طاقتیں اپنا کھیل کھیلنے کیلیے تیار بیٹھی ہیں؟
وینزویلا کا نام سننے ہی ہمارے ذہن میں جس عالمی شخصیت کا خاکہ بنتا ہے، وہ ہوگو چاویز کی ہے۔
وہی چاویز، جو پوری دنیا میں امریکا اور اس کی پالیسیوں پر سخت تنقید کے حوالے سے جانا جاتاہے۔ 9/11 کے بعد امریکا کی افغانستان میں جارحیت ہو یا پھر عراق پر چڑھائی، انھوں نے کبھی امریکا پر تنقید کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ امریکا دشمنی میں ایک مرتبہ وہ اس حد تک چلے گئے گیا کہ انھوں نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو سرعام '' گدھا '' کہہ دیا تھا۔ عموماً مغربی میڈیا میں چاویز کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے اور ان کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی جاتی ہے۔ امریکا چاویز کو فیڈل کاسترو اور احمدی نژاد کی صف میں شمار کر تا ہے اور اس کا صدر رہنا اُسے کسی صورت گوارا نہیں ہے۔
2002ء کا ذکر ہے جب وینزویلا کی قومی آئل کمپنی کی انتظامیہ کو برطرف کرنے پر چاویز کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور ان مظاہروں نے اس قدر شدت اختیار کرلی تھی کہ چاویز کو کچھ وقت کے لیے اقتدار چھوڑنا بھی پڑا، لیکن ملک کا غریب طبقہ، جو چاویز کی سب سے بڑی طاقت ہے، اُن کے حق میں سڑکوں پر اُمڈ آیا، جس نے 47 گھنٹوں بعد چاویز کو دوبارہ اقتدار کی کرسی پر بٹھا دیا۔ صدر چاویز نے اس سازش کا ذمے دار امریکا کو قرار دیا اور یہ واقعہ دونوں ممالک کے مابین تلخی کو کچھ اور بڑھا گیا۔
ہوگو چاویز گذشتہ 14برسوں سے ملک کے صدر منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ 1999ء میں جب وہ پہلی مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے اپنے سماجی اصلاحات کے ایجنڈے، ''بولیویرینزم'' پر عمل درآمد کرنا شروع کر دیا، جو درحقیقت سوشلزم کی ہی ایک قسم ہے۔ غریبوں کے لیے اسپتال قائم کیے گئے، تعلیم ، انفرااسٹرکچر پر خصوصی توجہ دی گئی۔ تعمیراتی منصوبے اور سماجی پروگرام شروع کیے گئے۔ انھوں نے وینزویلا کے تیل کے ذخائر کا زیادہ تر منافع غریب عوام پر خرچ کیا۔
چاویز کی قیادت میں وینزویلا، لاطینی امریکا میں اُن ریاستوں کے لیے راہ نما کے طور پر اُبھرے جو ابھی تک امریکا ہی کو ماڈل سمجھتے تھے۔ لیکن گذشتہ چند مہینوں سے ہوگو چاویز کا وینزویلا بدترین سیاسی بحران کا شکار ہے، کیوں کہ جس شخصیت پر ملک کی اکثریت اعتماد کرتی ہے، وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے اور اس وقت کوئی ایسا متبادل نہیں جو چاویز کی جگہ لے سکے۔
ویسے تو چاویز کا چار مرتبہ آپریشن بھی ہوچکا ہے، لیکن 11دسمبر 2012ء کو چوتھے آپریشن کے بعد پھیپھڑوں کے شدید انفیکشن کے باعث اُنھیں سانس کی تکلیف کا سامنا تھا۔ چاویز کو شاید اندازہ تھا کہ اب وہ اپنی ذمہ داریاں نہیں سنبھال پائیں گے، اسی لیے علاج کے لیے کیوبا روانگی سے قبل اُنھوں نے نائب صدر ''نکولس ماڈیورو'' کا نام اپنے نائب کے طور پر پیش کیا اور عوام سے اپیل کی کہ اگر انہیں کچھ ہو جائے تو وہ ماڈورو کو منتخب کریں۔
چاویز کی علالت اور اس کے بعد اس کی جانشینی کا مسئلہ تو اپنی جگہ لیکن کچھ دنوں کے لیے ملک کو آئینی بحران نے بھی گھیرے میں لیے رکھا۔ اگر چہ وقتی طور پر بحران ٹل گیا ہے، لیکن کسی بھی وقت دوبارہ سر اُٹھا سکتا ہے۔ ہوا یہ کہ 7 اکتوبر 2012 ء کو چاویز چوتھی مرتبہ، آئندہ 6برسوں کے لیے، ملک کے صدر منتخب ہوئے اور رواں سال 10جنوری کو اپنی حلف برداری کے موقع پر اُن کی موجودگی ضروری تھی۔ آئین کی رو سے اگر صدر اپنے اقتدار کے پہلے چار برسوں میں کسی بھی وجہ سے اقتدار سے علیحدہ ہوجائے تو 30 دن کے اندر دوبارہ انتخابات کروانا لازمی ہوجاتا ہے۔ اُدھر ایک غیرملکی میڈیا کی اس خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ ''چاویز اب اس دنیا میں نہیں رہے، اُنہیں مصنوعی طور پر سانسیں فراہم کی جارہی ہیں۔''
اپوزیشن کا مسلسل اصرار تھا کہ چاویز اگر زندہ ہیں تو اُنہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے۔ لیکن حزب اختلاف کو اُس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب 9جنوری 2013 کو، یعنی حلف برداری سے ایک روز قبل، وینزویلا کی قومی اسمبلی نے صدر ہوگو چاویز کی جانب سے صدارتی حلف برداری کا عمل ملتوی کرنے کی درخواست منظور کر لی۔ اسپیکر نے نائب صدر نکولس مدورو کا خط پڑھتے ہوئے بتایا کہ ان کی طبی ٹیم کی سفارشات کے تحت آپریشن کے بعد صحت یابی کا عمل10 جنوری کے بعد طویل ہوسکتا ہے، لہٰذا قومی اسمبلی میں حلف برداری کے موقع پر چاویز کی موجودگی ممکن نہیں۔ اپوزیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، لیکن سپریم کورٹ نے بھی اپوزیشن کا موقف مسترد کرتے ہوئے حلف برداری کے التواء کو قانونی قرار دے دیا۔
٭چاویز کی حلف برداری کی تقریب
10جنوری2013ء کو حلف برداری کے روز صدر چاویز کی جگہ اُن کے ہزاروں حامی صدارتی محل کے پاس جمع ہو ئے۔ وہاں بہت بڑا اسٹیج سجایا گیا تھا، جس پر وینزویلا کی اعلیٰ قیادت بشمول یوراگوئے، نیکاراگوئے اور بولیویا کے صدور بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ 67 سالہ فلورینکیورونڈن کی طرح بے شمار افراد ایک گانا گارہے تھے، جس کے بول ہیں ''میں چاویز ہوں۔ وہ یہاں نہیں ہے، لیکن ہم سب یہاں موجود ہیں، جیسے وہ ہمارے درمیان ہے۔'' رونڈن کا کہنا تھا کہ وہ ہمارے درمیان ایک عظیم شخصیت ہیں۔ اگرچہ فی الوقت وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن وہ ہمارے دلوں میں رہتے ہیں۔ چاویز کے حامیوں کی اس قدر کثیر تعداد اب بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ 14سال اور تین مرتبہ حکومت کرنے کے باوجود چاویز کی حکومت اب بھی مستحکم ہے۔ حلف برادری کا دن، وینزویلا میں ایک اہم دن شمار کیا جاتا ہے، کیوں کہ عموماً اس روز چاویز صدارتی محل کی بالکونی سے انقلابی تقاریر کیا کرتے ہیں۔
٭چاویز کے بعد کیا ہوگا؟
اگرچہ چاویز نے اپنے علاج کے لیے کیوبا روانگی سے قبل نائب صدر نکولس مڈورو کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا، لیکن پارٹی میں قومی اسمبلی کے اسپیکر ''ڈایوس ڈاڈو کابیلو'' بھی صدارتی دوڑ کے اہم امیدوار سمجھے جاتے ہیں اور اس بات کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ چاویز کے بعد دونوں راہ نمائوں کے مابین صدارت کی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اگر بالفرض ایسا ہوتا ہے تو کیا وفاق متحد رہ پائے گا؟ فی الحال تو حالات معمول پر ہیں اور رواں ہفتے نائب صدر نکولز ماڈورو اور کابینہ کے دیگر وزراء ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئے ہیں۔
ماڈورو نے گذشتہ روز کارکاز میں ایک ہائوسنگ منصوبے اور چاویز کے آبائی قصبے باریناس میں ایک اسکول کا افتتاح کیا۔ چاویز کے بڑے بھائی ایڈن بھی ان کے ساتھ تھے۔ ان تمام وزراء کا منظر عام پر آنا یہ بھی ظاہر کر رہا تھا کہ چاویز کی غیرموجودگی میں حکومت اب بھی فعال ہے، کیوں کہ اس طرح کے منصوبوں کا افتتاح عمومی طور پر چاویز ہی کیا کر تے تھے۔ آئل منسٹر رافیل رامیریز کا کہنا ہے کہ ''حکومت رکی نہیں ، ایک منٹ کے لیے بھی نہیں رکی۔''
یہ خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ چاویز کے بعد فوج اقتدار پر قابض ہوسکتی ہے، کیوں کہ فوج کو بھی سیاسی دھارے میں اہم حیثیت حاصل ہے۔ ماہرین اور سابق فوجی افسران اس بات پر متفق ہیں کہ نائب صدر نکولس ماڈیورو اور قومی اسمبلی کے اسپیکر ڈایوس ڈاڈوکا بیلو گذشتہ پانچ ہفتوں کے دوران چاویس کا خلا پُر کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ملک کے کمانڈر ان چیف کی غیرموجودگی میں اس وقت کوئی بھی ایسا شخص موجود نہیں جو اتحاد یا اپنی مستقل وفاداری کو یقینی بناسکے۔ فوج کے ریٹائرڈ جنرل اینٹونیو ریویرو، پہلے شخص تھے جنہوں نے قیادت کے خلاء کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ وینزویلا کی ایک نیوز ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ''اگر ہوگو چاویز 10جنوری کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہ کر سکے تو فوج کے پاس کوئی کمانڈر ان چیف نہیں ہوگا۔''
ایسا نہیں ہے کہ موجودہ قیادت فوج کی اہمیت سے واقف نہیں۔ نائب صدر نکولس ماڈورو بار ہا کوشش کر رہے ہیں کہ فوج کی وفاداری کے حوالے سے کوئی سوال نہ اُٹھے۔ اسی لیے وہ گذشتہ دنوں کارکاز کی ایک فوجی چھائونی میں سیکڑوں فوجیوں کے ساتھ نظر آئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہو گو چاویز کی شخصیت وینزویلا کے عوام کے لیے ایک مرکز کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اگر وہ نہیں رہے تو ملک پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا ملک کی سیاسی قیادت اُن کا خلا پُر کر پائے گی۔ کیا عالمی طاقتیں اپنا کھیل کھیلنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک میں رائج نظام ''بولیویرن ازم'' کا مستقبل کیا ہوگا؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ قیادت کے لیے چاویز کا خلا پُر کرنا انتہائی مشکل ہوگا لیکن اگر موجودہ نائب صدر نکولس ماڈیورو، جو خود بھی کبھی ایک ڈرائیور ہوا کر تے تھے اور اُن کا تعلق بھی غریب گھرانے سے تعلق ہے، چاویز کی ''غریب دوستی'' پر مشتمل پالیسیاں جاری رکھتے ہیں تو ممکن ہے کہ اس بحران پر آہستہ آہستہ قابو پانے میں کام یاب ہو جائیں، لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکے اور غریب طبقے کی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھے، تو پھر ملک کو ایک بہت سنگین بحران سے سامنا ہوگا، جس پر قابو پانا شاید پھر ان کے لیے ممکن نہ ہو۔
ہوگو چاویز کی ابتدائی زندگی اور سیاسی سفر
ہوگو چاویز28 جولائی 1954کو صوبہ باریناس کے قصبے سابانیٹا کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اسکول ٹیچر تھے ۔ 17برس کی عمر میں انھوں نے فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 4سال بعد انھوں نے اکیڈمی آف ملٹری سائنس سے گریجویشن کیا اور کمیشن آفیسر منتخب ہوئے۔ تعلیم کے بعد انھیں ''کائونٹر انسرجنسی یونٹ'' میں تعینات کیا گیا، جو اس کے طویل اور قابل ذکر فوجی کیریئر کی ابتدا تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے چھاتا دار یونٹ کی بھی سربراہی کی۔ چاویز ایک بہت اچھے آفیسر تھے اور انھوں نے بہت جلد ترقی کی منازل طے کیں، یہاں تک کہ وہ لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک جاپہنچے۔ انھوں نے کچھ عرصہ اپنے پرانے اسکول، وینزویلین اکیڈمی آف ملٹری سائنس میں بطور انسٹرکٹر بھی خدمات انجام دیں۔
چاویز وینزویلا کے اُن لوگوں اور فوجی افسران میں سے ایک تھے جو ملک کے کرپٹ سیاست دانوں بالخصوص صدر کارلوس پیریز سے متنفر تھے۔ انھوں نے فوج میں خفیہ گروہ بنانا شروع کیا، جس کا نام ''بولیویرین ریوولیوشنری موومنٹ 200 '' رکھا گیا۔ ہوگوچاویز ''سائمن بولیور'' کے مداح ہیں، جس نے ہسپانوی امریکیوں کی اسپین سے آزادی میں اہم کر دار ادا کیا تھا اور آج بھی امریکیوں کی تاریخ کا قابل ذکر راہ نما گردانا جاتا ہے۔ ہوگو چاویز نے اپنے ساتھی افسران کے ساتھ مل کر صدر پیریز کا تختہ اُلٹنے کا فیصلہ کیا۔ 4 فروری 1992ء کی صبح چاویز نے اپنے پانچ وفادار دستوں کو ساتھ لیا۔ منصوبے کے تحت انہیں دارلحکومت کاراکاز کے اہم اہداف صدارتی محل، ایئرپورٹ، وزارت دفاع اور فوجی میوزیم پر قبضہ کرنا تھا۔
چاویز سے ہم دردی رکھنے والے دیگر افسران نے ملک کے دیگر شہروں کا کنٹرول سنبھال لیا، لیکن چاویز اور اس کے ساتھی دارلحکومت پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو گئے۔ بغاوت کچل دی گئی۔ چاویز کو جیل بھیجا گیا، لیکن 1993ء میں صدر پیریز کے خلاف بڑے پیمانے پر کرپشن کے اسکینڈل نے رائے عامہ چاویز کے حق میں بدل دی۔ دو سال بعد 1994ء میں صدر رافیل کالڈیرا کی جانب سے اسے عام معافی دی گئی اور یہیں سے چاویز نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کردیا۔
انھوں نے اپنے فوجی گروہ کو سیاسی جماعت میں تبدیل کیا اور 1998ء میں صدارتی انتخابات میں حصہ لیا۔ انھوں نے 56 فی صد ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی اور فروری 1999ء میں اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا۔
وہی چاویز، جو پوری دنیا میں امریکا اور اس کی پالیسیوں پر سخت تنقید کے حوالے سے جانا جاتاہے۔ 9/11 کے بعد امریکا کی افغانستان میں جارحیت ہو یا پھر عراق پر چڑھائی، انھوں نے کبھی امریکا پر تنقید کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ امریکا دشمنی میں ایک مرتبہ وہ اس حد تک چلے گئے گیا کہ انھوں نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو سرعام '' گدھا '' کہہ دیا تھا۔ عموماً مغربی میڈیا میں چاویز کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے اور ان کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی جاتی ہے۔ امریکا چاویز کو فیڈل کاسترو اور احمدی نژاد کی صف میں شمار کر تا ہے اور اس کا صدر رہنا اُسے کسی صورت گوارا نہیں ہے۔
2002ء کا ذکر ہے جب وینزویلا کی قومی آئل کمپنی کی انتظامیہ کو برطرف کرنے پر چاویز کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور ان مظاہروں نے اس قدر شدت اختیار کرلی تھی کہ چاویز کو کچھ وقت کے لیے اقتدار چھوڑنا بھی پڑا، لیکن ملک کا غریب طبقہ، جو چاویز کی سب سے بڑی طاقت ہے، اُن کے حق میں سڑکوں پر اُمڈ آیا، جس نے 47 گھنٹوں بعد چاویز کو دوبارہ اقتدار کی کرسی پر بٹھا دیا۔ صدر چاویز نے اس سازش کا ذمے دار امریکا کو قرار دیا اور یہ واقعہ دونوں ممالک کے مابین تلخی کو کچھ اور بڑھا گیا۔
ہوگو چاویز گذشتہ 14برسوں سے ملک کے صدر منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ 1999ء میں جب وہ پہلی مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے اپنے سماجی اصلاحات کے ایجنڈے، ''بولیویرینزم'' پر عمل درآمد کرنا شروع کر دیا، جو درحقیقت سوشلزم کی ہی ایک قسم ہے۔ غریبوں کے لیے اسپتال قائم کیے گئے، تعلیم ، انفرااسٹرکچر پر خصوصی توجہ دی گئی۔ تعمیراتی منصوبے اور سماجی پروگرام شروع کیے گئے۔ انھوں نے وینزویلا کے تیل کے ذخائر کا زیادہ تر منافع غریب عوام پر خرچ کیا۔
چاویز کی قیادت میں وینزویلا، لاطینی امریکا میں اُن ریاستوں کے لیے راہ نما کے طور پر اُبھرے جو ابھی تک امریکا ہی کو ماڈل سمجھتے تھے۔ لیکن گذشتہ چند مہینوں سے ہوگو چاویز کا وینزویلا بدترین سیاسی بحران کا شکار ہے، کیوں کہ جس شخصیت پر ملک کی اکثریت اعتماد کرتی ہے، وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے اور اس وقت کوئی ایسا متبادل نہیں جو چاویز کی جگہ لے سکے۔
ویسے تو چاویز کا چار مرتبہ آپریشن بھی ہوچکا ہے، لیکن 11دسمبر 2012ء کو چوتھے آپریشن کے بعد پھیپھڑوں کے شدید انفیکشن کے باعث اُنھیں سانس کی تکلیف کا سامنا تھا۔ چاویز کو شاید اندازہ تھا کہ اب وہ اپنی ذمہ داریاں نہیں سنبھال پائیں گے، اسی لیے علاج کے لیے کیوبا روانگی سے قبل اُنھوں نے نائب صدر ''نکولس ماڈیورو'' کا نام اپنے نائب کے طور پر پیش کیا اور عوام سے اپیل کی کہ اگر انہیں کچھ ہو جائے تو وہ ماڈورو کو منتخب کریں۔
چاویز کی علالت اور اس کے بعد اس کی جانشینی کا مسئلہ تو اپنی جگہ لیکن کچھ دنوں کے لیے ملک کو آئینی بحران نے بھی گھیرے میں لیے رکھا۔ اگر چہ وقتی طور پر بحران ٹل گیا ہے، لیکن کسی بھی وقت دوبارہ سر اُٹھا سکتا ہے۔ ہوا یہ کہ 7 اکتوبر 2012 ء کو چاویز چوتھی مرتبہ، آئندہ 6برسوں کے لیے، ملک کے صدر منتخب ہوئے اور رواں سال 10جنوری کو اپنی حلف برداری کے موقع پر اُن کی موجودگی ضروری تھی۔ آئین کی رو سے اگر صدر اپنے اقتدار کے پہلے چار برسوں میں کسی بھی وجہ سے اقتدار سے علیحدہ ہوجائے تو 30 دن کے اندر دوبارہ انتخابات کروانا لازمی ہوجاتا ہے۔ اُدھر ایک غیرملکی میڈیا کی اس خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ ''چاویز اب اس دنیا میں نہیں رہے، اُنہیں مصنوعی طور پر سانسیں فراہم کی جارہی ہیں۔''
اپوزیشن کا مسلسل اصرار تھا کہ چاویز اگر زندہ ہیں تو اُنہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے۔ لیکن حزب اختلاف کو اُس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب 9جنوری 2013 کو، یعنی حلف برداری سے ایک روز قبل، وینزویلا کی قومی اسمبلی نے صدر ہوگو چاویز کی جانب سے صدارتی حلف برداری کا عمل ملتوی کرنے کی درخواست منظور کر لی۔ اسپیکر نے نائب صدر نکولس مدورو کا خط پڑھتے ہوئے بتایا کہ ان کی طبی ٹیم کی سفارشات کے تحت آپریشن کے بعد صحت یابی کا عمل10 جنوری کے بعد طویل ہوسکتا ہے، لہٰذا قومی اسمبلی میں حلف برداری کے موقع پر چاویز کی موجودگی ممکن نہیں۔ اپوزیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، لیکن سپریم کورٹ نے بھی اپوزیشن کا موقف مسترد کرتے ہوئے حلف برداری کے التواء کو قانونی قرار دے دیا۔
٭چاویز کی حلف برداری کی تقریب
10جنوری2013ء کو حلف برداری کے روز صدر چاویز کی جگہ اُن کے ہزاروں حامی صدارتی محل کے پاس جمع ہو ئے۔ وہاں بہت بڑا اسٹیج سجایا گیا تھا، جس پر وینزویلا کی اعلیٰ قیادت بشمول یوراگوئے، نیکاراگوئے اور بولیویا کے صدور بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ 67 سالہ فلورینکیورونڈن کی طرح بے شمار افراد ایک گانا گارہے تھے، جس کے بول ہیں ''میں چاویز ہوں۔ وہ یہاں نہیں ہے، لیکن ہم سب یہاں موجود ہیں، جیسے وہ ہمارے درمیان ہے۔'' رونڈن کا کہنا تھا کہ وہ ہمارے درمیان ایک عظیم شخصیت ہیں۔ اگرچہ فی الوقت وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن وہ ہمارے دلوں میں رہتے ہیں۔ چاویز کے حامیوں کی اس قدر کثیر تعداد اب بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ 14سال اور تین مرتبہ حکومت کرنے کے باوجود چاویز کی حکومت اب بھی مستحکم ہے۔ حلف برادری کا دن، وینزویلا میں ایک اہم دن شمار کیا جاتا ہے، کیوں کہ عموماً اس روز چاویز صدارتی محل کی بالکونی سے انقلابی تقاریر کیا کرتے ہیں۔
٭چاویز کے بعد کیا ہوگا؟
اگرچہ چاویز نے اپنے علاج کے لیے کیوبا روانگی سے قبل نائب صدر نکولس مڈورو کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا، لیکن پارٹی میں قومی اسمبلی کے اسپیکر ''ڈایوس ڈاڈو کابیلو'' بھی صدارتی دوڑ کے اہم امیدوار سمجھے جاتے ہیں اور اس بات کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ چاویز کے بعد دونوں راہ نمائوں کے مابین صدارت کی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اگر بالفرض ایسا ہوتا ہے تو کیا وفاق متحد رہ پائے گا؟ فی الحال تو حالات معمول پر ہیں اور رواں ہفتے نائب صدر نکولز ماڈورو اور کابینہ کے دیگر وزراء ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئے ہیں۔
ماڈورو نے گذشتہ روز کارکاز میں ایک ہائوسنگ منصوبے اور چاویز کے آبائی قصبے باریناس میں ایک اسکول کا افتتاح کیا۔ چاویز کے بڑے بھائی ایڈن بھی ان کے ساتھ تھے۔ ان تمام وزراء کا منظر عام پر آنا یہ بھی ظاہر کر رہا تھا کہ چاویز کی غیرموجودگی میں حکومت اب بھی فعال ہے، کیوں کہ اس طرح کے منصوبوں کا افتتاح عمومی طور پر چاویز ہی کیا کر تے تھے۔ آئل منسٹر رافیل رامیریز کا کہنا ہے کہ ''حکومت رکی نہیں ، ایک منٹ کے لیے بھی نہیں رکی۔''
یہ خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ چاویز کے بعد فوج اقتدار پر قابض ہوسکتی ہے، کیوں کہ فوج کو بھی سیاسی دھارے میں اہم حیثیت حاصل ہے۔ ماہرین اور سابق فوجی افسران اس بات پر متفق ہیں کہ نائب صدر نکولس ماڈیورو اور قومی اسمبلی کے اسپیکر ڈایوس ڈاڈوکا بیلو گذشتہ پانچ ہفتوں کے دوران چاویس کا خلا پُر کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ملک کے کمانڈر ان چیف کی غیرموجودگی میں اس وقت کوئی بھی ایسا شخص موجود نہیں جو اتحاد یا اپنی مستقل وفاداری کو یقینی بناسکے۔ فوج کے ریٹائرڈ جنرل اینٹونیو ریویرو، پہلے شخص تھے جنہوں نے قیادت کے خلاء کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ وینزویلا کی ایک نیوز ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ''اگر ہوگو چاویز 10جنوری کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہ کر سکے تو فوج کے پاس کوئی کمانڈر ان چیف نہیں ہوگا۔''
ایسا نہیں ہے کہ موجودہ قیادت فوج کی اہمیت سے واقف نہیں۔ نائب صدر نکولس ماڈورو بار ہا کوشش کر رہے ہیں کہ فوج کی وفاداری کے حوالے سے کوئی سوال نہ اُٹھے۔ اسی لیے وہ گذشتہ دنوں کارکاز کی ایک فوجی چھائونی میں سیکڑوں فوجیوں کے ساتھ نظر آئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہو گو چاویز کی شخصیت وینزویلا کے عوام کے لیے ایک مرکز کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اگر وہ نہیں رہے تو ملک پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا ملک کی سیاسی قیادت اُن کا خلا پُر کر پائے گی۔ کیا عالمی طاقتیں اپنا کھیل کھیلنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک میں رائج نظام ''بولیویرن ازم'' کا مستقبل کیا ہوگا؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ قیادت کے لیے چاویز کا خلا پُر کرنا انتہائی مشکل ہوگا لیکن اگر موجودہ نائب صدر نکولس ماڈیورو، جو خود بھی کبھی ایک ڈرائیور ہوا کر تے تھے اور اُن کا تعلق بھی غریب گھرانے سے تعلق ہے، چاویز کی ''غریب دوستی'' پر مشتمل پالیسیاں جاری رکھتے ہیں تو ممکن ہے کہ اس بحران پر آہستہ آہستہ قابو پانے میں کام یاب ہو جائیں، لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکے اور غریب طبقے کی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھے، تو پھر ملک کو ایک بہت سنگین بحران سے سامنا ہوگا، جس پر قابو پانا شاید پھر ان کے لیے ممکن نہ ہو۔
ہوگو چاویز کی ابتدائی زندگی اور سیاسی سفر
ہوگو چاویز28 جولائی 1954کو صوبہ باریناس کے قصبے سابانیٹا کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اسکول ٹیچر تھے ۔ 17برس کی عمر میں انھوں نے فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 4سال بعد انھوں نے اکیڈمی آف ملٹری سائنس سے گریجویشن کیا اور کمیشن آفیسر منتخب ہوئے۔ تعلیم کے بعد انھیں ''کائونٹر انسرجنسی یونٹ'' میں تعینات کیا گیا، جو اس کے طویل اور قابل ذکر فوجی کیریئر کی ابتدا تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے چھاتا دار یونٹ کی بھی سربراہی کی۔ چاویز ایک بہت اچھے آفیسر تھے اور انھوں نے بہت جلد ترقی کی منازل طے کیں، یہاں تک کہ وہ لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک جاپہنچے۔ انھوں نے کچھ عرصہ اپنے پرانے اسکول، وینزویلین اکیڈمی آف ملٹری سائنس میں بطور انسٹرکٹر بھی خدمات انجام دیں۔
چاویز وینزویلا کے اُن لوگوں اور فوجی افسران میں سے ایک تھے جو ملک کے کرپٹ سیاست دانوں بالخصوص صدر کارلوس پیریز سے متنفر تھے۔ انھوں نے فوج میں خفیہ گروہ بنانا شروع کیا، جس کا نام ''بولیویرین ریوولیوشنری موومنٹ 200 '' رکھا گیا۔ ہوگوچاویز ''سائمن بولیور'' کے مداح ہیں، جس نے ہسپانوی امریکیوں کی اسپین سے آزادی میں اہم کر دار ادا کیا تھا اور آج بھی امریکیوں کی تاریخ کا قابل ذکر راہ نما گردانا جاتا ہے۔ ہوگو چاویز نے اپنے ساتھی افسران کے ساتھ مل کر صدر پیریز کا تختہ اُلٹنے کا فیصلہ کیا۔ 4 فروری 1992ء کی صبح چاویز نے اپنے پانچ وفادار دستوں کو ساتھ لیا۔ منصوبے کے تحت انہیں دارلحکومت کاراکاز کے اہم اہداف صدارتی محل، ایئرپورٹ، وزارت دفاع اور فوجی میوزیم پر قبضہ کرنا تھا۔
چاویز سے ہم دردی رکھنے والے دیگر افسران نے ملک کے دیگر شہروں کا کنٹرول سنبھال لیا، لیکن چاویز اور اس کے ساتھی دارلحکومت پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو گئے۔ بغاوت کچل دی گئی۔ چاویز کو جیل بھیجا گیا، لیکن 1993ء میں صدر پیریز کے خلاف بڑے پیمانے پر کرپشن کے اسکینڈل نے رائے عامہ چاویز کے حق میں بدل دی۔ دو سال بعد 1994ء میں صدر رافیل کالڈیرا کی جانب سے اسے عام معافی دی گئی اور یہیں سے چاویز نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کردیا۔
انھوں نے اپنے فوجی گروہ کو سیاسی جماعت میں تبدیل کیا اور 1998ء میں صدارتی انتخابات میں حصہ لیا۔ انھوں نے 56 فی صد ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی اور فروری 1999ء میں اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا۔