2018 اور میڈیا کا کردار
الیکٹرانک میڈیا کی رسائی ملک کے چپے چپے تک ہے
موجودہ دور الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے۔ بلا شبہ پرنٹ میڈیا کی اپنی ایک اہمیت ہے لیکن اس کی عوام تک رسائی محدود ہے جب کہ الیکٹرانک میڈیا کی رسائی ملک کے چپے چپے تک ہے اور رائے عامہ کی تشکیل میں الیکٹرانک میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الیکٹرانک میڈیا رائے عامہ کی مثبت انداز میں تشکیل کی ذمے داری پوری کررہا ہے؟ بدقسمتی سے اس کا جواب نفی ہی میں آتا ہے۔
رائے عامہ کی مثبت سمت میں تشکیل کا کام ٹاک شو ادا کرسکتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ٹاک شوز رائے عامہ کی مثبت تشکیل کے بجائے عوام میں ذہنی انتشار پیدا کرنے اور جمہوری نظام سے مایوسی کا سبب بن رہے ہیں کیونکہ ٹاک شوز کے شرکا عموماً سیاسی پارٹیوں بلکہ متحارب سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ٹاک شوز کا سارا وقت ایک دوسرے پر الزام اور جوابی الزام میں لگادیتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک مثبت بات یہ سامنے آتی ہے کہ عوام سیاست دانوں کے کرتوتوں سے واقف ہوجاتے ہیں اور بالواسطہ طور پر انھیں ملک میں 70 سال سے رائج اشرافیائی جمہوریت کے کردارکا پتہ چل جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے اینکر حضرات مرغوں کو لڑانے کے شوق میں فریقین سے ایسے سوالات کرتے ہیں جو الزامات اور جوابی الزامات کے کلچر کے فروغ کا باعث بن جاتے ہیں۔ مثلاً پاناما لیکس اور نیوز لیکس پر سوالات کرنے سے فریقین کی بحث دفاع اور جارحیت کی طرف تو آجاتی ہے لیکن ملک کے اہم مسئلے بحث سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں مسئلے اپنی ایک اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ ایک کا تعلق کرپشن سے ہے اور دوسرے کا تعلق سول ملٹری تعلقات سے ہے اور یہ دونوں ہی مسئلوں کا تعلق اہم قومی مسائل سے ہے لیکن اس قسم کے اہم مسائل کا انجام کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ ایک عام شہری بھی کرسکتا ہے۔ اس پس منظر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کا اعتماد اہم قومی اداروں سے اٹھ جاتا ہے اور یہ ایک خطرناک صورت حال ہے۔
انقلاب فرانس جیسے تاریخی واقعات کا گہرائی سے جائزہ لیں تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس قسم کے تاریخی واقعات کے اسباب میں ایک اہم سبب عوام کا قومی اداروں پر سے اعتماد اٹھ جانا رہا ہے۔ قانون اور انصاف قومی اداروں میں سب سے اہم ادارے مانے جاتے ہیں۔ کسی معاشرے کی ساخت کو دیکھنا ہو تو اہل خرد اس معاشرے کے انصاف کے نظام کو دیکھا کرتے ہیں۔ انقلاب فرانس کے دور میں فرانس کے انصاف کے اداروں کا عالم یہ تھا کہ اس دورکی اشرافیہ انصاف کے عہدوں کو جن میں ججز بھی شامل ہوتے تھے، کھلے عام معقول معاوضے کے عوض بیچا کرتی تھی۔ اگرچہ یہ لگ بھگ دو سو سال پرانے قصے ہیں لیکن اس وقت بھی ابتدائی شکل ہی میں سہی سرمایہ دارانہ نظام موجود تھا اور آج سرمایہ دارانہ نظام پوری آب و تاب کے ساتھ ساری دنیا کوگھیرے ہوئے ہے اور اس کے سارے لوازمات آج کے ترقی یافتہ معاشروں میں موجود ہیں۔
بات چلی تھی ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے کردارکی اور پہنچی انقلاب فرانس تک، جیساکہ ہم نے نشان دہی کی کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی رسائی ملک کے چپے چپے تک ہے اور رائے عامہ کی تشکیل میں چینلزکے ٹاک شوز ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، لیکن یہ کوششیں قومی مفادات سے متصادم ہورہی ہیں ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ٹاک شوزعوام میں ذہنی انتشار اور مایوسی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور امکان یہ ہے کہ کسی معاشرے میں نا انصافیوں کی وجہ سے ذہنی انتشار ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد بغاوت کی شکل اختیارکرلیتا ہے اور اس قسم کی صورت حال میں اگر عوام کی مثبت سمت میں رہنمائی نہ ہو تو عوام کا اشتعال انارکی میں بدل جاتا ہے۔ جس کا انجام انقلاب فرانس کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے جس کے دوران بپھرے ہوئے عوام نے اشرافیہ کوگاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا۔
اگر ٹاک شوزکو موجودہ شکل ہی میں جاری رکھنا ہے تو اس کا منطقی انجام عوام میں سخت مایوسی اور فرسٹریشن کی شکل میں ظاہر ہوگا اور مایوسی اور فرسٹریشن آخر کار تشدد کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ ہماری اجتماعی بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاست روز اول ہی سے اشرافیہ کی داشتہ بنی ہوئی ہے اور اس کے اندر سے برآمد ہونے والی جمہوریت بھی اس پیٹرن پر چل رہی ہے۔
صدیوں پر مشتمل شخصیت اور خاندانی حکمرانیوں کے بعد دنیا کے اہل خرد نے دنیا کو جمہوریت کا تحفہ دیا اور بتایا کہ شخصی اورخاندانی حکمرانیوں کے بعد انسانی حقوق کی پاسداری اور معاشرے کی اجتماعی فلاح کے لیے جمہوریت سے بہتر کوئی نظام نہیں کہ اس نظام کا مقصد عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہوتا ہے۔ تھیوری کے حساب سے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت واقعی دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ نظام ہے لیکن جب ہم اس کے عملی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہماری جمہوریت اور صدیوں پرانی شخصی اور خاندانی حکمرانیوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
ہمارے محترم اینکر حضرات سیاسی شخصیات کو لڑاکر مزے لینے کے بجائے اگر ہماری اشرافیائی جمہوریت کا موازنہ ماضی کی شخصی اور خاندانی حکمرانیوں سے کریں تو بے چارے عوام کی سمجھ میں بھی یہ بات آجائے گی کہ آج ہماری جمہوریت جو شخصی اور خاندانی حکمرانیوں کے جس نظام پر کھڑی ہے کیا وہ ماضی کے بادشاہی نظام سے مختلف ہے؟ اگلے سال ملک میں اشرافیہ کے چناؤ کا مرحلہ درپیش ہے اور عوام کے سامنے کروڑوں اربوں کی پبلسٹی کے ساتھ وہی چہرے موجود ہوںگے جو 70 سال سے عوام کے سروں پر مسلط ہیں۔ اس تسلسل کے ٹوٹنے کے فی الوقت کوئی امکان نہیں اور باری باری کا کھیل جاری رہے گا لیکن الیکٹرانک میڈیا عوام کو یہ تو بتاسکتا ہے کہ جمہوریت کا مطلب ''عوام کی حکومت عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہوتا ہے اور یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا ہماری اشرافیہ جمہوریت کے اس معیار پر پوری اترتی ہے؟
رائے عامہ کی مثبت سمت میں تشکیل کا کام ٹاک شو ادا کرسکتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ٹاک شوز رائے عامہ کی مثبت تشکیل کے بجائے عوام میں ذہنی انتشار پیدا کرنے اور جمہوری نظام سے مایوسی کا سبب بن رہے ہیں کیونکہ ٹاک شوز کے شرکا عموماً سیاسی پارٹیوں بلکہ متحارب سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ٹاک شوز کا سارا وقت ایک دوسرے پر الزام اور جوابی الزام میں لگادیتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک مثبت بات یہ سامنے آتی ہے کہ عوام سیاست دانوں کے کرتوتوں سے واقف ہوجاتے ہیں اور بالواسطہ طور پر انھیں ملک میں 70 سال سے رائج اشرافیائی جمہوریت کے کردارکا پتہ چل جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے اینکر حضرات مرغوں کو لڑانے کے شوق میں فریقین سے ایسے سوالات کرتے ہیں جو الزامات اور جوابی الزامات کے کلچر کے فروغ کا باعث بن جاتے ہیں۔ مثلاً پاناما لیکس اور نیوز لیکس پر سوالات کرنے سے فریقین کی بحث دفاع اور جارحیت کی طرف تو آجاتی ہے لیکن ملک کے اہم مسئلے بحث سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں مسئلے اپنی ایک اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ ایک کا تعلق کرپشن سے ہے اور دوسرے کا تعلق سول ملٹری تعلقات سے ہے اور یہ دونوں ہی مسئلوں کا تعلق اہم قومی مسائل سے ہے لیکن اس قسم کے اہم مسائل کا انجام کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ ایک عام شہری بھی کرسکتا ہے۔ اس پس منظر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کا اعتماد اہم قومی اداروں سے اٹھ جاتا ہے اور یہ ایک خطرناک صورت حال ہے۔
انقلاب فرانس جیسے تاریخی واقعات کا گہرائی سے جائزہ لیں تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس قسم کے تاریخی واقعات کے اسباب میں ایک اہم سبب عوام کا قومی اداروں پر سے اعتماد اٹھ جانا رہا ہے۔ قانون اور انصاف قومی اداروں میں سب سے اہم ادارے مانے جاتے ہیں۔ کسی معاشرے کی ساخت کو دیکھنا ہو تو اہل خرد اس معاشرے کے انصاف کے نظام کو دیکھا کرتے ہیں۔ انقلاب فرانس کے دور میں فرانس کے انصاف کے اداروں کا عالم یہ تھا کہ اس دورکی اشرافیہ انصاف کے عہدوں کو جن میں ججز بھی شامل ہوتے تھے، کھلے عام معقول معاوضے کے عوض بیچا کرتی تھی۔ اگرچہ یہ لگ بھگ دو سو سال پرانے قصے ہیں لیکن اس وقت بھی ابتدائی شکل ہی میں سہی سرمایہ دارانہ نظام موجود تھا اور آج سرمایہ دارانہ نظام پوری آب و تاب کے ساتھ ساری دنیا کوگھیرے ہوئے ہے اور اس کے سارے لوازمات آج کے ترقی یافتہ معاشروں میں موجود ہیں۔
بات چلی تھی ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے کردارکی اور پہنچی انقلاب فرانس تک، جیساکہ ہم نے نشان دہی کی کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی رسائی ملک کے چپے چپے تک ہے اور رائے عامہ کی تشکیل میں چینلزکے ٹاک شوز ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، لیکن یہ کوششیں قومی مفادات سے متصادم ہورہی ہیں ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ٹاک شوزعوام میں ذہنی انتشار اور مایوسی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور امکان یہ ہے کہ کسی معاشرے میں نا انصافیوں کی وجہ سے ذہنی انتشار ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد بغاوت کی شکل اختیارکرلیتا ہے اور اس قسم کی صورت حال میں اگر عوام کی مثبت سمت میں رہنمائی نہ ہو تو عوام کا اشتعال انارکی میں بدل جاتا ہے۔ جس کا انجام انقلاب فرانس کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے جس کے دوران بپھرے ہوئے عوام نے اشرافیہ کوگاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا۔
اگر ٹاک شوزکو موجودہ شکل ہی میں جاری رکھنا ہے تو اس کا منطقی انجام عوام میں سخت مایوسی اور فرسٹریشن کی شکل میں ظاہر ہوگا اور مایوسی اور فرسٹریشن آخر کار تشدد کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ ہماری اجتماعی بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاست روز اول ہی سے اشرافیہ کی داشتہ بنی ہوئی ہے اور اس کے اندر سے برآمد ہونے والی جمہوریت بھی اس پیٹرن پر چل رہی ہے۔
صدیوں پر مشتمل شخصیت اور خاندانی حکمرانیوں کے بعد دنیا کے اہل خرد نے دنیا کو جمہوریت کا تحفہ دیا اور بتایا کہ شخصی اورخاندانی حکمرانیوں کے بعد انسانی حقوق کی پاسداری اور معاشرے کی اجتماعی فلاح کے لیے جمہوریت سے بہتر کوئی نظام نہیں کہ اس نظام کا مقصد عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہوتا ہے۔ تھیوری کے حساب سے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت واقعی دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ نظام ہے لیکن جب ہم اس کے عملی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہماری جمہوریت اور صدیوں پرانی شخصی اور خاندانی حکمرانیوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
ہمارے محترم اینکر حضرات سیاسی شخصیات کو لڑاکر مزے لینے کے بجائے اگر ہماری اشرافیائی جمہوریت کا موازنہ ماضی کی شخصی اور خاندانی حکمرانیوں سے کریں تو بے چارے عوام کی سمجھ میں بھی یہ بات آجائے گی کہ آج ہماری جمہوریت جو شخصی اور خاندانی حکمرانیوں کے جس نظام پر کھڑی ہے کیا وہ ماضی کے بادشاہی نظام سے مختلف ہے؟ اگلے سال ملک میں اشرافیہ کے چناؤ کا مرحلہ درپیش ہے اور عوام کے سامنے کروڑوں اربوں کی پبلسٹی کے ساتھ وہی چہرے موجود ہوںگے جو 70 سال سے عوام کے سروں پر مسلط ہیں۔ اس تسلسل کے ٹوٹنے کے فی الوقت کوئی امکان نہیں اور باری باری کا کھیل جاری رہے گا لیکن الیکٹرانک میڈیا عوام کو یہ تو بتاسکتا ہے کہ جمہوریت کا مطلب ''عوام کی حکومت عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہوتا ہے اور یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا ہماری اشرافیہ جمہوریت کے اس معیار پر پوری اترتی ہے؟