عفریتوں کی دنیا
عفریت سے لڑتے ہوئے کہیں تم خود بھی عفریت نہ بن جاؤ
فریڈرک نطشے نے خبردار کیا تھا کہ عفریت سے لڑتے ہوئے کہیں تم خود بھی عفریت نہ بن جاؤ۔ اس تنبیہ کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو دنیا میں عفریت ہی عفریت دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بھی وہ ہیں جو کسی عفریت سے لڑنے کا عزم لے کر اٹھتے ہیں لیکن پھر پتہ نہیں چلتا کہ کب وہ خود بھی دنیا کے لیے عفریت بن چکے ہوتے ہیں۔ یہ جتنے زیادہ عفریتوں سے لڑتا ہے اتنا زیادہ اپنے آپ میں عفریت بنتا ہے، امریکا کی مثال سامنے ہے۔
یہ دنیا کا سب سے بڑا عفریت ہے۔ عفریت سے لڑنے کی عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ اگر حقیقت میں کوئی مقابل موجود نہ ہو تو خود سے ایک گھڑ لیتا ہے اور پھر اس سے ٹکرا کر داد شجاعت وصول کرتا ہے۔ دیگر ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک بھی اس نقش قدم کی پیروی کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب اس کی طرح کے اور بھی کئی عفریت تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ اس لڑائی میں کمزور ہوتے گئے اور ان ساری کمزوریوں نے مل کر ایک بہت بڑے مغربی عفریت کو جنم دیا۔ آج دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف ممالک اپنے اپنے مفادات کے تناظر میںآپس میں مل کر اپنے آپ کو ایک طاقتور عفریت کی شکل دینے کی تگ ودو میں مصروف ہیں کیوں سبھی جانتے ہیں کہ عفریتوں کی دنیا میں طاقتور عفریت بنے بغیر بقا کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آج کی دنیا کی سیاست علاقائی عفریتوں کی سیاست کی دنیا ہے۔
اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے جو اس سے ذرا مختلف ہے۔ ہمارا معاشرہ کئی ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے اور ہر ٹکڑا مزید ٹکڑوں میں منقسم ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سارے ٹکڑے ایک دوسرے کو اپنے اپنے مقابل عفریت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر معاملہ نیک نیتی اور خلوص سے بھی شروع ہوتا ہے تو زیادہ دیر نہیں لگتی کہ اس نیک نیتی اور خلوص کے اندر سے اس کا اپنا عفریت اچھل کر باہر آ جاتا ہے۔ ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے پر عفریت سمجھ کر حملہ آور ہوتا ہے' حقیقتاً دونوں ہی عفریت بنے ہوتے ہیں۔ یہ وہ پہلو ہے جو اس ضمن میں نہایت افسوس ناک ہے۔ عام لوگ بھی خود کو عفریت میں تبدیل کرتے ہیں اور ان کے درمیان موجود اصل عفریت پھلتے پھولتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے اس میں بھی ایک اور پہلو شامل کیا ہے اور اسے مزید وسعت آشنا کر دیا ہے۔ شہرت اور طاقت کے حصول کا یہ ایک ارزاں ذریعہ بنا ہے کہ اپنے لیے ایک عفریت تخلیق کر دو اور اس پر پِل پڑو۔ آپ کے عفریت سے لڑنے کے لیے آپ کو جاں نثاروں کی تعداد کم نہیں پڑے گی۔ سب مل کر آپ کے عفریت سے آنکھیں بند کر کے لڑیں گے اور پورے ایمان کے ساتھ اور مکمل بے خبری کے عالم میں آپ کے عفریت کو عفریت ہی جانیں گے۔
امریکا کی مثال دی ہے تو پاکستان کی مثال بھی سامنے ہے۔ پہلی سطح پر یہ عسکری اور سویلین تقسیم کا شکار ہے۔ سیاست ہو یا آمریت، ہر دو ایک دوسرے کے لیے عفریت بنے نظر آئے ہیں۔ ان کے درمیان مقابلے کی دھمک سے اس ملک کی زمین کانپتی رہی ہے۔ پھر نچلی سطح پر جایا جائے تو سیاست کے اندر بہت سارے عفریت ایک دوسرے کے مقابل کھڑے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح عسکری قوت کے آگے طالبان کی طرح کوئی نہ کوئی عفریت موجود رہتا ہے جس سے لڑتے ہوئے جلد ہی تفریق کی لکیر مٹتی دکھائی دینے لگتی ہے۔
اپوزیشن، حکمران جماعت سے اس طرح نبرد آزما ہوتی ہے جیسے کسی عفریت کا سامنا ہو۔ یہ اس طرح اس سے لڑتی ہے کہ اسے شکست دینے کے بعد جب خود برسر اقتدار آتی ہے تو پہلے سے کہیں زیادہ بڑا عفریت بن چکی ہوتی ہے۔ یہ سارے بڑے بڑے عفریت اپنی لڑائیوں میں چھوٹے چھوٹے بے شمار عفریتوں کوکچل رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ عفریت ہوتے ہیں جوکسی بڑے عفریت کے آگے سر جھکاتے ہیں اور ان کی لڑائی کو حقیقی لڑائی میں تبدیل کرتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان چھوٹے بڑے عفریتوں کی لڑائی میں مظلوم لوگ نشانہ نہیں بنتے۔ ہراس مقام پر جہاں کوئی کسی عفریت سے لڑتا ہے، پہلے اس لڑائی میں عام اور لاتعلق اور مظلوم آدمی نشانہ بنتا ہے اور پھر بعد میں جب عفریت کو شکست دینے والا یا اسے کمزور کر دینے والا خود عفریت بنتا ہے تو ایک بار پھر اس کے خونیں پنجوں تلے عام اور لاتعلق اور مظلوم آدمی اپنا خون تھوکتا دکھائی دیتا ہے۔
عفریتوں سے لڑنے کا خیال صرف بڑی اور عسکری قوتوں تک محدود نہیں ہے۔ ہر انسان اپنی سوچ میں کسی نہ کسی عفریت سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ ناطاقتی اور بے بسی کا احساس شدید ہو کر انسان کے اندر اپنے عفریت کو کھینچ کر لے آتا ہے۔ پھر ایک جنگ چھڑ جاتی ہے اور احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ کب اپنے عفریت کو مارتے مارتے خود بھی ایک عفریت بن چکا ہے' ایک ایسا عفریت جس کی تشکیل ابھی سوچ کی سطح ہی پر ہوئی ہے اور اس کے انسانی رویے تبدیل ہونا شروع ہوئے ہیں۔
یہ دھیرے دھیرے تبدیل ہوتا انسان اپنے آس پاس موجود لوگوں کو نشانہ بناتا ہے جن میں سب سے پہلے اس کے اپنے گھر کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ گھر کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں تو میاں بیوی اپنے اپنے مقابل عفریت سے نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے یہ دونوں کسی وقت مظلوم اور لاتعلق رہے ہوں اور پھر ان میں سے کوئی ایک عفریت میں بدلا ہو اور پھر دوسرا اس عفریت سے لڑتے لڑتے خود بھی عفریت میں تبدیل ہوا ہو۔ نتیجہ بہرحال یہ نکلتا ہے کہ عفریت سے لڑتے ہوئے دوسرا بھی عفریت میں بدل جاتا ہے۔ عفریت سے لڑتے ہوئے اپنی انسانی خصوصیات کو محفوظ رکھنا آج کی اس دنیا کا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے!
یہ دنیا کا سب سے بڑا عفریت ہے۔ عفریت سے لڑنے کی عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ اگر حقیقت میں کوئی مقابل موجود نہ ہو تو خود سے ایک گھڑ لیتا ہے اور پھر اس سے ٹکرا کر داد شجاعت وصول کرتا ہے۔ دیگر ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک بھی اس نقش قدم کی پیروی کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب اس کی طرح کے اور بھی کئی عفریت تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ اس لڑائی میں کمزور ہوتے گئے اور ان ساری کمزوریوں نے مل کر ایک بہت بڑے مغربی عفریت کو جنم دیا۔ آج دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف ممالک اپنے اپنے مفادات کے تناظر میںآپس میں مل کر اپنے آپ کو ایک طاقتور عفریت کی شکل دینے کی تگ ودو میں مصروف ہیں کیوں سبھی جانتے ہیں کہ عفریتوں کی دنیا میں طاقتور عفریت بنے بغیر بقا کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آج کی دنیا کی سیاست علاقائی عفریتوں کی سیاست کی دنیا ہے۔
اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے جو اس سے ذرا مختلف ہے۔ ہمارا معاشرہ کئی ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے اور ہر ٹکڑا مزید ٹکڑوں میں منقسم ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سارے ٹکڑے ایک دوسرے کو اپنے اپنے مقابل عفریت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر معاملہ نیک نیتی اور خلوص سے بھی شروع ہوتا ہے تو زیادہ دیر نہیں لگتی کہ اس نیک نیتی اور خلوص کے اندر سے اس کا اپنا عفریت اچھل کر باہر آ جاتا ہے۔ ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے پر عفریت سمجھ کر حملہ آور ہوتا ہے' حقیقتاً دونوں ہی عفریت بنے ہوتے ہیں۔ یہ وہ پہلو ہے جو اس ضمن میں نہایت افسوس ناک ہے۔ عام لوگ بھی خود کو عفریت میں تبدیل کرتے ہیں اور ان کے درمیان موجود اصل عفریت پھلتے پھولتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے اس میں بھی ایک اور پہلو شامل کیا ہے اور اسے مزید وسعت آشنا کر دیا ہے۔ شہرت اور طاقت کے حصول کا یہ ایک ارزاں ذریعہ بنا ہے کہ اپنے لیے ایک عفریت تخلیق کر دو اور اس پر پِل پڑو۔ آپ کے عفریت سے لڑنے کے لیے آپ کو جاں نثاروں کی تعداد کم نہیں پڑے گی۔ سب مل کر آپ کے عفریت سے آنکھیں بند کر کے لڑیں گے اور پورے ایمان کے ساتھ اور مکمل بے خبری کے عالم میں آپ کے عفریت کو عفریت ہی جانیں گے۔
امریکا کی مثال دی ہے تو پاکستان کی مثال بھی سامنے ہے۔ پہلی سطح پر یہ عسکری اور سویلین تقسیم کا شکار ہے۔ سیاست ہو یا آمریت، ہر دو ایک دوسرے کے لیے عفریت بنے نظر آئے ہیں۔ ان کے درمیان مقابلے کی دھمک سے اس ملک کی زمین کانپتی رہی ہے۔ پھر نچلی سطح پر جایا جائے تو سیاست کے اندر بہت سارے عفریت ایک دوسرے کے مقابل کھڑے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح عسکری قوت کے آگے طالبان کی طرح کوئی نہ کوئی عفریت موجود رہتا ہے جس سے لڑتے ہوئے جلد ہی تفریق کی لکیر مٹتی دکھائی دینے لگتی ہے۔
اپوزیشن، حکمران جماعت سے اس طرح نبرد آزما ہوتی ہے جیسے کسی عفریت کا سامنا ہو۔ یہ اس طرح اس سے لڑتی ہے کہ اسے شکست دینے کے بعد جب خود برسر اقتدار آتی ہے تو پہلے سے کہیں زیادہ بڑا عفریت بن چکی ہوتی ہے۔ یہ سارے بڑے بڑے عفریت اپنی لڑائیوں میں چھوٹے چھوٹے بے شمار عفریتوں کوکچل رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ عفریت ہوتے ہیں جوکسی بڑے عفریت کے آگے سر جھکاتے ہیں اور ان کی لڑائی کو حقیقی لڑائی میں تبدیل کرتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان چھوٹے بڑے عفریتوں کی لڑائی میں مظلوم لوگ نشانہ نہیں بنتے۔ ہراس مقام پر جہاں کوئی کسی عفریت سے لڑتا ہے، پہلے اس لڑائی میں عام اور لاتعلق اور مظلوم آدمی نشانہ بنتا ہے اور پھر بعد میں جب عفریت کو شکست دینے والا یا اسے کمزور کر دینے والا خود عفریت بنتا ہے تو ایک بار پھر اس کے خونیں پنجوں تلے عام اور لاتعلق اور مظلوم آدمی اپنا خون تھوکتا دکھائی دیتا ہے۔
عفریتوں سے لڑنے کا خیال صرف بڑی اور عسکری قوتوں تک محدود نہیں ہے۔ ہر انسان اپنی سوچ میں کسی نہ کسی عفریت سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ ناطاقتی اور بے بسی کا احساس شدید ہو کر انسان کے اندر اپنے عفریت کو کھینچ کر لے آتا ہے۔ پھر ایک جنگ چھڑ جاتی ہے اور احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ کب اپنے عفریت کو مارتے مارتے خود بھی ایک عفریت بن چکا ہے' ایک ایسا عفریت جس کی تشکیل ابھی سوچ کی سطح ہی پر ہوئی ہے اور اس کے انسانی رویے تبدیل ہونا شروع ہوئے ہیں۔
یہ دھیرے دھیرے تبدیل ہوتا انسان اپنے آس پاس موجود لوگوں کو نشانہ بناتا ہے جن میں سب سے پہلے اس کے اپنے گھر کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ گھر کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں تو میاں بیوی اپنے اپنے مقابل عفریت سے نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے یہ دونوں کسی وقت مظلوم اور لاتعلق رہے ہوں اور پھر ان میں سے کوئی ایک عفریت میں بدلا ہو اور پھر دوسرا اس عفریت سے لڑتے لڑتے خود بھی عفریت میں تبدیل ہوا ہو۔ نتیجہ بہرحال یہ نکلتا ہے کہ عفریت سے لڑتے ہوئے دوسرا بھی عفریت میں بدل جاتا ہے۔ عفریت سے لڑتے ہوئے اپنی انسانی خصوصیات کو محفوظ رکھنا آج کی اس دنیا کا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے!