ایسے نقصان دہ فیصلے سے گریز کیا جائے
آخر ایسی کیا مشکل آپڑی ہے کہ ہم مسلسل سوشل میڈیا کے جن کو قابو کرنے کے لیے بے تکے اقدامات کا سہارا لے رہے ہیں؟
پوری دنیا میں سوشل میڈیا عام آدمی کی زندگی میں اِس قدر سرائیت کرچکا ہے کہ اب تو خوشی غمی کی اطلاع بھی سوشل میڈیا سے ہی دی جانے لگی ہے۔ غیر محسوس طریقے سے اِس کی عادت ہمیں تعمیر بھی دے رہی ہے اور تخریب بھی۔ مگر ہم صرف اِس کے تخریب کے پہلو کو مدِنظر رکھ کر نہ اِس کو مکمل طور پر بند کرسکتے ہیں اور نہ ہی اِس پر ایسی قدغن لگانا مناسب لگتا ہے جو اِس کی تعمیری سرگرمیوں کو بھی زک پہنچا دے۔ امریکہ جیسی عالمی قوت ہو یا ایتھوپیا جیسا پسماندہ ملک ہر جگہ سوشل میڈیا نہ صرف رابطے کا اہم ذریعہ بن چکا ہے بلکہ معلومات و اطلاعات کا اہم ذریعہ بھی ہے، بلکہ اب تو سوشل میڈیا کو الیکڑانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے بعد تیسرا بہترین میڈیم بھی گردانا جا رہا ہے۔
پاکستان میں نوے کی دہائی میں انٹرنیٹ تک رسائی ممکن ہوچکی تھی مگر اصل عروج 2012ء کے بعد دیکھنے میں آیا۔ عام آدمی میں تعلیم کا معیار بلند ہوا تو اِس میں سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کا فن بھی پنپتا گیا۔ آج ایک بحث جنم لے رہی ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا تعمیر کے بجائے تخریب کا زیادہ سبب بن رہا ہے۔ لیکن یہاں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سچ بھی ہے تو کیا اِس پر مکمل طور پر پابندی لگانا ہی واحد حل ہے؟
مسلح افواج پاکستان کی سالمیت کی ضامن ہیں۔ اعلیٰ عدالتیں ملک میں انصاف کا بول بالا کرنے کی ذمہ دار ہیں اور پاکستان میں اِس وقتاِن دونوں اداروں پر تنقید کی وجہ سے سوشل میڈیا بھی زیرِ عتاب ہے۔ کوئی شک نہیں کہ مسلح افواج پر شتر بے مہار تنقید سرحدوں پر موجود جوانوں کا مورال بھی متاثر کرسکتی ہے اور عدلیہ پر بے سروپا تنقید اِس ادارے کی حرمت پر ضرب لگانے کے مترادف ہے، لیکن اِس کے باجود کیا حل سوشل میڈیا پر آمرانہ دباو ہی ہے؟
پوری دنیا میں اہم ترین ادارے اب سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔ آزادیءِ رائے کی منطق دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں ایک طرف دنیا سوشل میڈیا کو اتنی اہمیت دے رہی ہے تو آخر بھلا ایسی کیا مشکل آ پڑی ہے کہ ہم مسلسل سوشل میڈیا کے جن کو قابو کرنے کے لیے بے تکے اقدامات کا سہارا لے رہے ہیں؟
ذاتی رائے کے مطابق سب سے پہلی ذمہ داری اداروں کی ہے۔ حساس اداروں سے لے کر خدمات عامہ کے اداروں تک ہر ادارے کی ذمہ داری اگر بنا دی جائے کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے پانچ افراد کا ایک شعبہ ترتیب دیں۔ جس کا کام ہی یہ ہو کہ وہ سوشل میڈیا پر اُس ادارے سے متعلق کسی بھی قسم کی تنقید کا جائزہ لے۔ اگر تو تنقید واقعی حقیقی وجود رکھتی ہو تو اُس کو ارباب اختیار تک پہنچا کر اُس تنقید کو ختم کیجیے، لیکن اگر یہ تنقید صرف ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے تو اِس کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو باقاعدہ ایک شکایت کی صورت میں ریفر کر دیجیے۔ پھر یہ ایف آئی اے پر لازم ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ سوشل میڈیا پر جعلی اکاونٹس کی بھرمار نہ ہو۔ اِس سلسلے میں تمام سوشل میڈیا ویب سائٹس سے گزارش کی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں اکاونٹس کی تصدیق کا لائحہ عمل بنایا جائے تاکہ تنقید کرنے والے کی شناخت مبہم نہ ہو۔ یہ عمل مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں، اور اگر ایک بار یہ مشکل کام سنجیدگی کے ساتھ کرلیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صرف تصدیق شدہ اکاونٹس ہی باقی رہیں گے۔
لیکن اگر یہ کام کرنے کے بجائے ہم نے غیر ضروری طور پر اِس میڈیم پر پابندی لگانے کا سوچا تو ایسی صورت میں رائے کو دبایا تو ضرور جاسکتا ہے لیکن اداروں کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائیں گے۔ مسلح افواج اور عدلیہ پر ایسی تنقید جس سے اُن اداروں کی عزت پر حرف لانا ہی مقصود ہو تو یقیناً سختی سے بیخ کرنی کی متقاضی ہے مگر اِن اداروں کو بھی اندرونی طور پر ایک نظام وضح کرنا چاہیے کہ وہ خود عوام سے کہیں کہ ہم تنقید سہنے کو تیار ہیں، ساتھ ہی یہ پیغام بھی عام ہو کہ تعمیری تنقید کے لیے ہم حاضر مگر فضول تنقید پر لاٹھی کا وار بھی کارآمد ہوگا۔
کسی بھی چیز کے منفی رجحانات کی وجہ سے ہم اُس کی افادیت کو ترک نہیں کرسکتے۔ جس دور میں پوری دنیا میں سوشل میڈیا سب سے اہم میڈیم کا درجہ پاتا جا رہا ہے ہم کیسے اُس پر پابندی یا سخت قدغن لگا سکتے ہیں؟ تنقید پر غصہ کرنے کے بجائے تنقید کو بہتری کا ذریعہ بنائیں، تھوڑا جائزہ لیجیے کے تنقید کرنے والے کی نیت کیا ہے، کہیں واقعی ایسا تو نہیں کہ اُس کی بجا تنقید پر بھی ہم نے نو گو ایریا جیسا رویہ روا رکھ چھوڑا ہے۔ اِس میڈیم کو ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہ ہونے دیں مگر اِس پر اِس طرح سے قدغن بھی نہ لگائیں کہ محسوس ہو کہ سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے محب وطن شہری نہیں بلکہ ملک دشمن ہیں۔ ادارے تنقید کو ہتک کے بجائے اصلاح کا ذریعہ بنا لیں تو یقین مانیے بہت جلد سوشل میڈیا کی منفی سرگرمیوں پر مثبت سرگرمیاں بازی لے جائیں گی۔ ملک میں ایک ہیجان کی فضاء پیدا کرنے کے بجائے اداروں کے اندر اِن اداروں سے متعلق سوشل میڈیا کی تنقید کے حوالے سے باقاعدہ نظام مرتب کیجیے۔ تنقید بذات خود بُری نہیں ہوتی، بلکہ تنقید کرنے والوں کی نیت اچھی یا بُری ہوا کرتی ہے، اور اداروں کا اصل کام ہی یہی ہے کہ وہ اُس نیت کو پہنچاننے کی کوشش کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پاکستان میں نوے کی دہائی میں انٹرنیٹ تک رسائی ممکن ہوچکی تھی مگر اصل عروج 2012ء کے بعد دیکھنے میں آیا۔ عام آدمی میں تعلیم کا معیار بلند ہوا تو اِس میں سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کا فن بھی پنپتا گیا۔ آج ایک بحث جنم لے رہی ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا تعمیر کے بجائے تخریب کا زیادہ سبب بن رہا ہے۔ لیکن یہاں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سچ بھی ہے تو کیا اِس پر مکمل طور پر پابندی لگانا ہی واحد حل ہے؟
مسلح افواج پاکستان کی سالمیت کی ضامن ہیں۔ اعلیٰ عدالتیں ملک میں انصاف کا بول بالا کرنے کی ذمہ دار ہیں اور پاکستان میں اِس وقتاِن دونوں اداروں پر تنقید کی وجہ سے سوشل میڈیا بھی زیرِ عتاب ہے۔ کوئی شک نہیں کہ مسلح افواج پر شتر بے مہار تنقید سرحدوں پر موجود جوانوں کا مورال بھی متاثر کرسکتی ہے اور عدلیہ پر بے سروپا تنقید اِس ادارے کی حرمت پر ضرب لگانے کے مترادف ہے، لیکن اِس کے باجود کیا حل سوشل میڈیا پر آمرانہ دباو ہی ہے؟
پوری دنیا میں اہم ترین ادارے اب سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔ آزادیءِ رائے کی منطق دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں ایک طرف دنیا سوشل میڈیا کو اتنی اہمیت دے رہی ہے تو آخر بھلا ایسی کیا مشکل آ پڑی ہے کہ ہم مسلسل سوشل میڈیا کے جن کو قابو کرنے کے لیے بے تکے اقدامات کا سہارا لے رہے ہیں؟
ذاتی رائے کے مطابق سب سے پہلی ذمہ داری اداروں کی ہے۔ حساس اداروں سے لے کر خدمات عامہ کے اداروں تک ہر ادارے کی ذمہ داری اگر بنا دی جائے کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے پانچ افراد کا ایک شعبہ ترتیب دیں۔ جس کا کام ہی یہ ہو کہ وہ سوشل میڈیا پر اُس ادارے سے متعلق کسی بھی قسم کی تنقید کا جائزہ لے۔ اگر تو تنقید واقعی حقیقی وجود رکھتی ہو تو اُس کو ارباب اختیار تک پہنچا کر اُس تنقید کو ختم کیجیے، لیکن اگر یہ تنقید صرف ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے تو اِس کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو باقاعدہ ایک شکایت کی صورت میں ریفر کر دیجیے۔ پھر یہ ایف آئی اے پر لازم ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ سوشل میڈیا پر جعلی اکاونٹس کی بھرمار نہ ہو۔ اِس سلسلے میں تمام سوشل میڈیا ویب سائٹس سے گزارش کی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں اکاونٹس کی تصدیق کا لائحہ عمل بنایا جائے تاکہ تنقید کرنے والے کی شناخت مبہم نہ ہو۔ یہ عمل مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں، اور اگر ایک بار یہ مشکل کام سنجیدگی کے ساتھ کرلیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صرف تصدیق شدہ اکاونٹس ہی باقی رہیں گے۔
لیکن اگر یہ کام کرنے کے بجائے ہم نے غیر ضروری طور پر اِس میڈیم پر پابندی لگانے کا سوچا تو ایسی صورت میں رائے کو دبایا تو ضرور جاسکتا ہے لیکن اداروں کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائیں گے۔ مسلح افواج اور عدلیہ پر ایسی تنقید جس سے اُن اداروں کی عزت پر حرف لانا ہی مقصود ہو تو یقیناً سختی سے بیخ کرنی کی متقاضی ہے مگر اِن اداروں کو بھی اندرونی طور پر ایک نظام وضح کرنا چاہیے کہ وہ خود عوام سے کہیں کہ ہم تنقید سہنے کو تیار ہیں، ساتھ ہی یہ پیغام بھی عام ہو کہ تعمیری تنقید کے لیے ہم حاضر مگر فضول تنقید پر لاٹھی کا وار بھی کارآمد ہوگا۔
کسی بھی چیز کے منفی رجحانات کی وجہ سے ہم اُس کی افادیت کو ترک نہیں کرسکتے۔ جس دور میں پوری دنیا میں سوشل میڈیا سب سے اہم میڈیم کا درجہ پاتا جا رہا ہے ہم کیسے اُس پر پابندی یا سخت قدغن لگا سکتے ہیں؟ تنقید پر غصہ کرنے کے بجائے تنقید کو بہتری کا ذریعہ بنائیں، تھوڑا جائزہ لیجیے کے تنقید کرنے والے کی نیت کیا ہے، کہیں واقعی ایسا تو نہیں کہ اُس کی بجا تنقید پر بھی ہم نے نو گو ایریا جیسا رویہ روا رکھ چھوڑا ہے۔ اِس میڈیم کو ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہ ہونے دیں مگر اِس پر اِس طرح سے قدغن بھی نہ لگائیں کہ محسوس ہو کہ سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے محب وطن شہری نہیں بلکہ ملک دشمن ہیں۔ ادارے تنقید کو ہتک کے بجائے اصلاح کا ذریعہ بنا لیں تو یقین مانیے بہت جلد سوشل میڈیا کی منفی سرگرمیوں پر مثبت سرگرمیاں بازی لے جائیں گی۔ ملک میں ایک ہیجان کی فضاء پیدا کرنے کے بجائے اداروں کے اندر اِن اداروں سے متعلق سوشل میڈیا کی تنقید کے حوالے سے باقاعدہ نظام مرتب کیجیے۔ تنقید بذات خود بُری نہیں ہوتی، بلکہ تنقید کرنے والوں کی نیت اچھی یا بُری ہوا کرتی ہے، اور اداروں کا اصل کام ہی یہی ہے کہ وہ اُس نیت کو پہنچاننے کی کوشش کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔