ٹی ایم اے کے رویے نے نوجوان کی جان لے لی
ٹی ایم اے کے عملے سے انصاف مانگنے والے محسن بیگ کو خون میں نہلا دیا گیا۔
ٹی ایم اے عملے کی غفلت اور تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن میں جانب داری برتنے کے دوران ہونے والی معمولی تکرار کے باعث دولت کے نشے میں چور نوجوان نے فائرنگ کرکے غریب خاندان کا چراغ اور ماں باپ سے ان کے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا۔
سنگ دل قاتل کو اپنے کیے پر افسوس ہے نہ ندامت اور نہ ہی جہنم کی آگ کا ڈر۔ پولیس نے بھی متاثرہ خاندان کے زخموں پر مرہم کے بجائے مقدمہ میں نام زد ملزموں کو بے گناہ قرار دے دیا۔
18 سالہ نوجوان مرزا محسن بیگ اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اپنے خاندان کے سب ہی افراد کا ممدوح تھا' اسپتال روڈ رحیم یار خان پر پھل بیچنے کا کام کرتا تھا۔ وہ وقوعے کے روز بھی اپنی دکان پر بیٹھا اپنے کام میں مصروف تھا حال آں کہ رحیم یار خان میں مرزا فیملی کے اکثر افراد گرمیوں کے موسم میں شہر بھر میں برف فروخت کرنے کا کاروبار کرتے ہیں اور شہر کے تقریباً ہر کونے پر ان کے تھڑے ہیں لیکن اب اس خاندان کے نوجوانوں نے دوسرے کاروباروں پر بھی توجہ دینا شروع کررکھی ہے' یہ ہی وجہ ہے کہ محسن بیگ نے بھی برف بیچتے بیچتے فروٹ بیچنے کا کام اپنا لیا تھا کیوں کہ اس وقت موسم تبدیل ہورہا تھا اور گرمیاں رخصت ہورہی تھیں اور سردیوں کی آمد آمد تھی۔ سہ پہر کے وقت ڈی سی او رحیم یار خان نبیل جاوید کے حکم پر تجاوزات کے خلاف آپریشن پر مامور ٹی ایم اے کا عملہ وہاں پہنچا۔
اب یہاں پر وہی بات سامنے آتی ہے کہ ٹی ایم اے کا عملہ اقربا پروری' ذاتی مفادات یا پسند نا پسند کی بنیاد پر غیرمنصفانہ آپریشن کرتا ہے جس سے متنازع صورت ِحال پیدا ہوجاتی ہے سو یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ٹی ایم اے کے عملے نے فروٹ فروش کی ناجائز تجاوزات ہٹائیں، جس کے خلاف مبینہ طور پر مقتول محسن بیگ نے احتجاج کیا اور کہا کہ وہ سرمایہ داروں یا بااثر افراد کی تجاوزات کو تو ہٹاتے نہیں لیکن غریبوں پر اپنے تمام تر اختیارات لے کر چڑھ دوڑتے ہیں۔ مقتول کا اشارہ غالباً شہر کی معروف کاروباری شاپ حسینی سویٹ مارٹ کی طرف تھا۔ بس پھر کیا تھا، محسن بیگ کے احتجاج پر ہم سایوں اور مقتول میں تو تو میں میں شروع ہوگئی اور راہ چلتے راہ گیر بل کہ ٹی ایم اے کا عملہ بھی اس معمولی توتکار سے ''لطف اندوز'' ہونے لگا۔
اطلاعات کے مطابق اس اثنا میں ملزم علی حسن عرف غوری شاہ کے ہم راہ دکان میں اس کا والد محمد اکبر شاہ' چچا محمد انور شاہ (سابق کونسلر) اور کزن شہزاد انور شاہ بھی موجود تھے۔ ملزم توتکار کے باعث آپے سے باہر ہوگیا اور اچانک اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس سے علاقہ میں خوف و ہراس پھیل گیا، اندھا دھند فائرنگ میں گولیاں قریبی ہم سایوں کی دکانوں میں بھی لگیں اور یوں چند لمحے کے لیے ٹی ایم اے کے عملے سے انصاف مانگنے والے محسن بیگ کو خون میں نہلا دیا گیا۔
اس کے والد امجد بیگ نے دیگر افراد کی مدد سے اسے فوراً چند قدم کے فاصلے پر موجود تینوں صوبوں کے سنگم پر واقع شیخ زاید اسپتال رحیم یارخان کی ایمرجنسی میں پہنچا دیا' امید تھی کہ سیکڑوں عوام کو صحت کی دولت بخشنے کا ذریعہ بننے والا یہ اسپتال محسن بیگ کی بھی زندگی کا ذریعہ بنے گا لیکن افسوس ایسا نہ ہوا اور نوخیز محسن اپنے والد' عزیز واقارب' دوست احباب سب سے منہ موڑ کر وہاں سے چلا گیا جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔
دولت مند گھرانے سے تعلق رکھنے والا ملزم علی حسن عرف غوری شاہ موقع سے فرار ہو چکا تھا تاہم پولیس نے غوری شاہ کے والد اکبر شاہ کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کردیا بعدازاں چند روز کی جدوجہد کے بعد پولیس تھانہ اے ڈویژن نے ملزم غوری شاہ کو آلۂِ قتل سمیت گرفتار کر لیا دوسری طرف اکبر شاہ کو تفتیش میں بے گناہ قرار دیتے ہوئے چھوڑ دیا گیا اور مقدمہ میں ماسوائے غوری شاہ کے دیگر ملزمان کو بھی بے گناہ قرار دے دیا گیا۔ تھانہ اے ڈویژن کے ایس ایچ او انسپکٹر جمشید شاہ کا کہنا ہے کہ پولیس کی تفتیش میں دیگر ملزمان بے گناہ پائے گئے ہیں جب کہ قتل کے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے جسے پولیس کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ ادھر محسن بیگ کے بہیمانہ قتل کی شہری حلقوں نے مذمت کی ہے اور اسے کھلم کھلا غنڈہ گردی قرار دیا ہے۔
محسن بیگ کا خاندان مزدوری پیشہ ہے اور محنت مزدوری کرکے اپنی زندگی کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے جب کہ ملزمان بااثر اور دولت مند ہیں۔ ڈی پی او رحیم یارخان سہیل ظفر چٹھہ نے شہری حلقوں کے احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج شہریوں کا حق ہے لیکن انہوں نے مقتول کے لواحقین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ملزم جتنے بھی بااثر ہوں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ادھر مقتول کے والد امجد بیگ نے تفتیش پر عدمِ اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے تھانے میں اپنی عدالت لگائی اور قتل کے مقدمہ میں ملوث دیگر تمام افراد کو بے گناہ قرار دے دیا، صرف ایک ملزم کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے جب کہ دیگر ملزموں کو بچانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔
امجد بیگ نے مزید کہا کہ ملزموں نے ہم صلاح ہو کر اس کے معصوم اور بے گناہ نوجوان بیٹے کا ناحق خون بہایا ہے کیوں کہ جس وقت ملزم غوری شاہ نے اندھا دھند فائرنگ کی تو دیگر ملزمان موقع پر موجود تھے اور نہ صرف انہوں نے ملزم کو روکنے کی ذرہ برابر بھی کوشش نہیں کی بل کہ اس کے ساتھ کارروائی میں شامل تھے۔ ایس پی انوسٹی گیشن شیراز نذیر کلہوڑو اور ایس پی ہیڈ کوارٹرز تنویر حسین تنیو نے بھی مقتول کے خاندان کو انصاف کی مکمل فراہمی کی یقین دہانی کروائی ہے تاہم اب جو بھی کارروائی ہو محسن بیگ تو اپنے پیاروں کی آنکھوں کو سدا کے لیے اشک بار کرکے منوں مٹی تلے چلا گیا۔
ٹی ایم اے عملے کے غیر منصفانہ طرز عمل کی بہ دولت شروع ہونے والے جھگڑے نے پلک جھپکنے میں ایک قیمتی زندگی ضائع کر دی لیکن افسوس تو یہ ہے کہ آج بھی ٹی ایم اے کا عملہ اسی طرح اپنی غیر منصفانہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔ کاش انہیں احساس ہوجائے کہ انہیں اللہ کریم نے اختیارات سے نواز کر ان کو امتحان میں ڈالا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔ اسی طرح بااختیار پولیس کو بھی ایک خونِ ناحق کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا امتحان درپیش ہے اور اگر دیکھا جائے تو اللہ پاک نے اکبر شاہ اور انور شاہ وغیرہ کے خاندان کو دولت سے نواز کر ان سے بھی امتحان لیا ہے کہ وہ اپنے طرز عمل سے یہ واضح کریں کہ وہ دولت' عزت اور شہرت سے نوازنے والے خدائے واحدہ لاشریک کی مخلوق سے کیا رویہ روا رکھتے ہیں، مخلوق خدا کے لیے زحمت تو نہیں بنتے۔
اس واقعہ کے بعد حسینی سویٹ اس طرح اجڑ کر بے رونق ہوگیا ہے جیسے کسی نے دلہن کے سر سے یک بہ یک اس کا سہاگ چھین لیا ہو۔ جس دکان پر کبھی دولت کی ریل پیل تھی اب اس کے سامنے سے گزرنے والے ہزاروں افراد حسینی سویٹ کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں سوالات حسرت بنے نظر آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ رہی ہوں کہ کاش ملزم غوری شاہ کو فائرنگ سے قبل ہی اس کا والد اور چچا پکڑ کر دبوچ لیتے تو آج نہ تو ایک 18 سالہ نوجوان کا ناحق خون بہتا اور نہ ہی حسینی سویٹ اجڑتا۔ صرف ایک لمحہ خوش حالی اور بدحالی کے درمیان صرف ایک لمحہ انسانی اور شیطانی عمل کے درمیان تحمل کا بس ایک لمحہ ہمیں پریشانیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
سنگ دل قاتل کو اپنے کیے پر افسوس ہے نہ ندامت اور نہ ہی جہنم کی آگ کا ڈر۔ پولیس نے بھی متاثرہ خاندان کے زخموں پر مرہم کے بجائے مقدمہ میں نام زد ملزموں کو بے گناہ قرار دے دیا۔
18 سالہ نوجوان مرزا محسن بیگ اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اپنے خاندان کے سب ہی افراد کا ممدوح تھا' اسپتال روڈ رحیم یار خان پر پھل بیچنے کا کام کرتا تھا۔ وہ وقوعے کے روز بھی اپنی دکان پر بیٹھا اپنے کام میں مصروف تھا حال آں کہ رحیم یار خان میں مرزا فیملی کے اکثر افراد گرمیوں کے موسم میں شہر بھر میں برف فروخت کرنے کا کاروبار کرتے ہیں اور شہر کے تقریباً ہر کونے پر ان کے تھڑے ہیں لیکن اب اس خاندان کے نوجوانوں نے دوسرے کاروباروں پر بھی توجہ دینا شروع کررکھی ہے' یہ ہی وجہ ہے کہ محسن بیگ نے بھی برف بیچتے بیچتے فروٹ بیچنے کا کام اپنا لیا تھا کیوں کہ اس وقت موسم تبدیل ہورہا تھا اور گرمیاں رخصت ہورہی تھیں اور سردیوں کی آمد آمد تھی۔ سہ پہر کے وقت ڈی سی او رحیم یار خان نبیل جاوید کے حکم پر تجاوزات کے خلاف آپریشن پر مامور ٹی ایم اے کا عملہ وہاں پہنچا۔
اب یہاں پر وہی بات سامنے آتی ہے کہ ٹی ایم اے کا عملہ اقربا پروری' ذاتی مفادات یا پسند نا پسند کی بنیاد پر غیرمنصفانہ آپریشن کرتا ہے جس سے متنازع صورت ِحال پیدا ہوجاتی ہے سو یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ٹی ایم اے کے عملے نے فروٹ فروش کی ناجائز تجاوزات ہٹائیں، جس کے خلاف مبینہ طور پر مقتول محسن بیگ نے احتجاج کیا اور کہا کہ وہ سرمایہ داروں یا بااثر افراد کی تجاوزات کو تو ہٹاتے نہیں لیکن غریبوں پر اپنے تمام تر اختیارات لے کر چڑھ دوڑتے ہیں۔ مقتول کا اشارہ غالباً شہر کی معروف کاروباری شاپ حسینی سویٹ مارٹ کی طرف تھا۔ بس پھر کیا تھا، محسن بیگ کے احتجاج پر ہم سایوں اور مقتول میں تو تو میں میں شروع ہوگئی اور راہ چلتے راہ گیر بل کہ ٹی ایم اے کا عملہ بھی اس معمولی توتکار سے ''لطف اندوز'' ہونے لگا۔
اطلاعات کے مطابق اس اثنا میں ملزم علی حسن عرف غوری شاہ کے ہم راہ دکان میں اس کا والد محمد اکبر شاہ' چچا محمد انور شاہ (سابق کونسلر) اور کزن شہزاد انور شاہ بھی موجود تھے۔ ملزم توتکار کے باعث آپے سے باہر ہوگیا اور اچانک اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس سے علاقہ میں خوف و ہراس پھیل گیا، اندھا دھند فائرنگ میں گولیاں قریبی ہم سایوں کی دکانوں میں بھی لگیں اور یوں چند لمحے کے لیے ٹی ایم اے کے عملے سے انصاف مانگنے والے محسن بیگ کو خون میں نہلا دیا گیا۔
اس کے والد امجد بیگ نے دیگر افراد کی مدد سے اسے فوراً چند قدم کے فاصلے پر موجود تینوں صوبوں کے سنگم پر واقع شیخ زاید اسپتال رحیم یارخان کی ایمرجنسی میں پہنچا دیا' امید تھی کہ سیکڑوں عوام کو صحت کی دولت بخشنے کا ذریعہ بننے والا یہ اسپتال محسن بیگ کی بھی زندگی کا ذریعہ بنے گا لیکن افسوس ایسا نہ ہوا اور نوخیز محسن اپنے والد' عزیز واقارب' دوست احباب سب سے منہ موڑ کر وہاں سے چلا گیا جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔
دولت مند گھرانے سے تعلق رکھنے والا ملزم علی حسن عرف غوری شاہ موقع سے فرار ہو چکا تھا تاہم پولیس نے غوری شاہ کے والد اکبر شاہ کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کردیا بعدازاں چند روز کی جدوجہد کے بعد پولیس تھانہ اے ڈویژن نے ملزم غوری شاہ کو آلۂِ قتل سمیت گرفتار کر لیا دوسری طرف اکبر شاہ کو تفتیش میں بے گناہ قرار دیتے ہوئے چھوڑ دیا گیا اور مقدمہ میں ماسوائے غوری شاہ کے دیگر ملزمان کو بھی بے گناہ قرار دے دیا گیا۔ تھانہ اے ڈویژن کے ایس ایچ او انسپکٹر جمشید شاہ کا کہنا ہے کہ پولیس کی تفتیش میں دیگر ملزمان بے گناہ پائے گئے ہیں جب کہ قتل کے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے جسے پولیس کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ ادھر محسن بیگ کے بہیمانہ قتل کی شہری حلقوں نے مذمت کی ہے اور اسے کھلم کھلا غنڈہ گردی قرار دیا ہے۔
محسن بیگ کا خاندان مزدوری پیشہ ہے اور محنت مزدوری کرکے اپنی زندگی کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے جب کہ ملزمان بااثر اور دولت مند ہیں۔ ڈی پی او رحیم یارخان سہیل ظفر چٹھہ نے شہری حلقوں کے احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج شہریوں کا حق ہے لیکن انہوں نے مقتول کے لواحقین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ملزم جتنے بھی بااثر ہوں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ادھر مقتول کے والد امجد بیگ نے تفتیش پر عدمِ اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے تھانے میں اپنی عدالت لگائی اور قتل کے مقدمہ میں ملوث دیگر تمام افراد کو بے گناہ قرار دے دیا، صرف ایک ملزم کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے جب کہ دیگر ملزموں کو بچانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔
امجد بیگ نے مزید کہا کہ ملزموں نے ہم صلاح ہو کر اس کے معصوم اور بے گناہ نوجوان بیٹے کا ناحق خون بہایا ہے کیوں کہ جس وقت ملزم غوری شاہ نے اندھا دھند فائرنگ کی تو دیگر ملزمان موقع پر موجود تھے اور نہ صرف انہوں نے ملزم کو روکنے کی ذرہ برابر بھی کوشش نہیں کی بل کہ اس کے ساتھ کارروائی میں شامل تھے۔ ایس پی انوسٹی گیشن شیراز نذیر کلہوڑو اور ایس پی ہیڈ کوارٹرز تنویر حسین تنیو نے بھی مقتول کے خاندان کو انصاف کی مکمل فراہمی کی یقین دہانی کروائی ہے تاہم اب جو بھی کارروائی ہو محسن بیگ تو اپنے پیاروں کی آنکھوں کو سدا کے لیے اشک بار کرکے منوں مٹی تلے چلا گیا۔
ٹی ایم اے عملے کے غیر منصفانہ طرز عمل کی بہ دولت شروع ہونے والے جھگڑے نے پلک جھپکنے میں ایک قیمتی زندگی ضائع کر دی لیکن افسوس تو یہ ہے کہ آج بھی ٹی ایم اے کا عملہ اسی طرح اپنی غیر منصفانہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔ کاش انہیں احساس ہوجائے کہ انہیں اللہ کریم نے اختیارات سے نواز کر ان کو امتحان میں ڈالا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔ اسی طرح بااختیار پولیس کو بھی ایک خونِ ناحق کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا امتحان درپیش ہے اور اگر دیکھا جائے تو اللہ پاک نے اکبر شاہ اور انور شاہ وغیرہ کے خاندان کو دولت سے نواز کر ان سے بھی امتحان لیا ہے کہ وہ اپنے طرز عمل سے یہ واضح کریں کہ وہ دولت' عزت اور شہرت سے نوازنے والے خدائے واحدہ لاشریک کی مخلوق سے کیا رویہ روا رکھتے ہیں، مخلوق خدا کے لیے زحمت تو نہیں بنتے۔
اس واقعہ کے بعد حسینی سویٹ اس طرح اجڑ کر بے رونق ہوگیا ہے جیسے کسی نے دلہن کے سر سے یک بہ یک اس کا سہاگ چھین لیا ہو۔ جس دکان پر کبھی دولت کی ریل پیل تھی اب اس کے سامنے سے گزرنے والے ہزاروں افراد حسینی سویٹ کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں سوالات حسرت بنے نظر آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ رہی ہوں کہ کاش ملزم غوری شاہ کو فائرنگ سے قبل ہی اس کا والد اور چچا پکڑ کر دبوچ لیتے تو آج نہ تو ایک 18 سالہ نوجوان کا ناحق خون بہتا اور نہ ہی حسینی سویٹ اجڑتا۔ صرف ایک لمحہ خوش حالی اور بدحالی کے درمیان صرف ایک لمحہ انسانی اور شیطانی عمل کے درمیان تحمل کا بس ایک لمحہ ہمیں پریشانیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔