عالمی سیاست دہشت گردی اور متبادل بیانیہ
افسوس حکومتی سطح پر اس قوت کو مفید طریقے سے استعمال میں لانے کے لیے قاعدے سے منصوبہ بندی تک نہیں کی گئی۔
افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئی ایس پی آر کے زیرِاہتمام منعقدہ سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ناقص حکمرانی اور انصاف نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے نوجوان استعمال ہورہے ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نوجوان نسل ہمارے مستقبل کا سرمایہ ہے، لیکن بے چہرہ اور بے نام قوتیں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو مسلسل گم راہ کررہی ہیں۔ انھیں بامقصد زندگی گزارنے میں مصروف کیا جائے۔ دہشت گردوں کو شکست دینے کے بعد ان کے بیانیے کو بھی شکست دینی ہوگی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نوجوان نسل کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو صحیح راہ پر گامزن کرنا ہوگا اور انھیں دہشت گردوں سے محفوظ رکھنا ہوگا۔
دہشت گردی کے خلاف ہماری یہ جنگ زمانۂ حال کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا ابتدائی مرحلہ اپنی جارحانہ قوت کے ساتھ اُس وقت ہمارے سامنے آنا شروع ہوا تھا جب جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اہلِ حدیث عالم علامہ احسان الٰہی ظہیر اور شیعہ عالم علامہ عارف حسین الحسینی ان حملوں کی نذر ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات کا آغاز تو بہ ظاہر فرقہ واریت کے زیرِاثر دکھائی دیتا تھا، لیکن یہ حقیقت جلد ہی واضح ہوگئی کہ جو کچھ شروع ہوا ہے، وہ محض فرقہ واریت نہیں ہے۔ فرقہ واریت دراصل دہشت گردی کو ہوا دینے اور بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ مسئلے کی اصل بنیاد کہیں اور ہے۔ حالاں کہ اس کے تسلسل میں کراچی کے بوہری بازار اور کوئٹہ کے کوچہ و بازار، ہزارہ قبیلے کے افراد، مولانا حق نواز جھنگوی اور دوسرے معروف لوگوں کے قتل کے واقعات کے ذریعے اس مسئلے کے فرقہ وارانہ تأثر کو گہرا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
کم و بیش تین دہائیوں سے جاری اس جنگ کی ہم نے من حیث القوم کیا قیمت ادا کی ہے، اس کا کسی قدر اندازہ آج ہمارے معاشرے کا ایک عام فرد بھی بہ آسانی لگا سکتا ہے۔ مذہبی راہ نماؤں سے لے کر عام آدمی تک اور افواجِ پاکستان سے لے کر سیاست دانوں تک، اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ سے لے کر کاروباری طبقے تک، اساتذہ اور وکلا سے لے کر ڈاکٹرز اور عدلیہ تک ہر شعبۂ زندگی سے وابستہ افراد اس کی بھینٹ چڑھتے آئے ہیں۔ بربریت کے اس کھیل میں انفرادی حیثیت کے افراد سے لے کر گروہی سطح تک درجنوں، بلکہ سیکڑوں لوگ تک بیک وقت اس آگ میں جھونکے گئے۔
سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، جنداللہ، تحریکِ طالبان، تحریکِ نفاذِ شریعت، لشکرِ طیبہ، حزب المجاہدین، حرکۃ الانصار، جیشِ محمد، جماعت المجاہدین اور تحریکِ جہاد کے نام سے مختلف مواقع پر مختلف جماعتیں سامنے آتی رہیں اور ان میں سے کوئی نہ کوئی جماعت ایسی ہر کارروائی کی ذمے داری قبول کرتی رہی۔ آخر ایک وقت پر افواج اور سیاسی قیادت کو ان کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کرنا پڑا۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز ہوا تو ان کارروائیوں میں کمی آنے لگی اور ان پر کسی حد تک قابو پالیا گیا۔
اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں آپریشن ردالفساد جاری ہے۔ یہ اس کارروائی کا دوسرا مرحلہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں قوم کے ساتھ ساتھ فوج کی قربانیاں بھی یقیناً ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، صرف قربانیاں نہیں، پیشہ وارانہ اور سپاہیانہ خدمات بھی۔
ضربِ عضب سے ردالفساد تک ہم نے جو سفر طے کیا ہے، اس سے آگے بھی کئی کڑے کوس ابھی راہ میں پڑتے ہیں۔ ہمیں جس منزل تک پہنچنا ہے، اس کے لیے ہم نے ابھی آدھا راستہ طے کیا ہے۔ اس لیے کہ ہم دہشت گردی کی جس ابتلا سے دوچار ہیں وہ نہایت پیچیدہ ہے۔ اس کے پس منظر میں مذہب کے ساتھ ساتھ سیاست، دولت اور اقتدار کے محرکات کارفرما ہیں اور اُن کا تناظر قومی یا علاقائی نہیں، بلکہ عالمی اور بین الاقوامی ہے۔ لہٰذا اس کے لیے کام کرنے والے افراد اور ادارے دونوں بیک وقت کئی قوتوں کے نمائندے یا آلۂ کار ہیں۔
تفصیلات اور حوالوں پر ذرا غور کیا جائے تو واقعات کی کڑیاں ملانا اور عالمی منظرنامے سے انھیں جوڑ کر دیکھنا اب کچھ ایسا مشکل کام نہیں ہے۔ یہاں ہم عالمی منظرنامے سے دو ایک مثالوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ افغانستان اور ایران سے پاکستان کے مذہبی، سیاسی اور سفارتی تعلقات کی جو سطح تاریخ کے مختلف ادوار میں رہی ہے، اُس سے تاریخ و سیاسیات کا ایک عام طالبِ علم بھی بخوبی واقف ہوگا۔ اس کے تسلسل میں آج افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ایک طرف اور دوسری طرف ایران اور پاکستان کے مابین حالیہ سیاسی اور سفارتی نقشے کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس خطے کی سیاسی، سماجی اور مذہبی صورتِ حال اور اضطراب کے بڑھتے ہوئے گراف کو صاف نظر سے دیکھا جاسکتا ہے۔
دوسری مثال دیکھیے۔ امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار سنبھالے ہوئے ابھی چار ماہ پورے نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے پہلے غیرملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا ہے۔ سعودی عرب پہنچنے پر اُن کا عظیم الشان اور پرتپاک استقبال کیا گیا۔ سعودی حکومت کی طرف سے انھیں سب سے بڑے سول اعزاز شاہ عبدالعزیز ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ امریکی صدر کی آمد پر امریکا اور سعودی عرب کے درمیان 380 ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔
ان میں سے 110 ارب ڈالر کے معاہدے اسلحے کی خریداری کے ہیں۔ دیگر تفصیلات میں جائے بغیر ان خبروں سے اتنی بات تو باآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ اسلحے کی معیشت کے فروغ کا یہ منظرنامہ دنیا کے امن کو کس سمت جاتے ہوئے دکھا رہا ہے۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ وہی امریکی صدر ہیں جنھوں نے منصب سنبھالتے ہی جو ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کیے ان میں عالمی سطح پر شہرت پانے والا ایک آرڈر وہ تھا جس میں متعدد مسلم ممالک کے باشندوں کی امریکا آمد پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مسلم دنیا کے مرکز میں انھی صدر کے استقبال اور پذیرائی کا یہ منظر ہم دیکھ رہے ہیں۔ سچ ہے کہ سیاسی حافظے سے زیادہ ناپائیدار شے آج کی دنیا میں کچھ اور نہیں ہے۔ یہ نئی دنیا کی سیاست ہے۔
کہا جاتا ہے اور درست ہی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں حرفِ آخر کوئی نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ حرفِ آخر کا تعین تو کسی اخلاقی، تہذیبی اور اصولی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اصولوں کی سیاست تو مدت ہوئی اس دنیا سے رخصت ہوچکی۔ اب تو ہر طرف مفادات کی سیاست ہے اور اس کا سب سے مؤثر آلہ ہے ڈپلومیسی۔ ڈپلومیسی وہ شے ہے جو امریکا، چین، شمالی اور جنوبی کوریا جیسے حریفوں ہی کو مذاکرات کی میز پر نہیں لابٹھاتی، بلکہ امریکا اور سعودی عرب ایسے باہمی اعتماد کھوتے ہوئے حلیفوں کو بھی ایک بار پھر شیر و شکر کردیتی ہے۔ امریکا اور سعودی عرب کے مابین اس تعلق اور تعاون کا ایک اور پہلو بھی دل چسپ اور غور طلب ہے۔ سعودی عرب میں امریکا عرب کانفرنس ہوئی۔
دنیا کی بڑی نیوز ایجنسیز کے نمائندوں کو اس کانفرنس کی کوریج کے لیے خصوصی ویزے جاری کیے گئے۔ تاہم اسرائیل کے صحافیوں کو ویزا دینے سے انکار کردیا گیا۔ دوسری طرف امریکی صدر کی بیٹی ایوانکا اور اُن کے شوہر جیرڈکشنر جو مذہبی اعتبار سے یہودی ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے وفد کا حصہ تھے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق ایوانکا اور اُن کے شوہر نے اس سفر سے قبل یہودی ربی سے باقاعدہ سفر کی اجازت لی۔ امریکی صدر کے اس وفد کے جن لوگوں کی نمایاں طور سے سعودی عرب میں پذیرائی ہوئی، ان میں ایوانکا بھی شامل ہیں۔ استقبالیہ ملاقات میں خود سعودی فرماں روا نے انھیں عرب روایت میں قہوہ پینے اور سیری کا اظہار کرنے کے طریقوں سے آگاہ کیا۔
عالمی سیاست کے اس منظرنامے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اب ایک بار پھر آپریشن ردالفساد کی طرف آتے ہیں۔ اس آپریشن میں کامیابی کے لیے اس کے طریقِ کار، اہداف اور نتائج کے بارے میں ہمیں صرف اور صرف اپنے داخلی احوال اور بدلتی ہوئی صورتوں میں اس کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔
علاوہ ازیں ہمیں اس حقیقت کو ہر شبہے سے بالاتر ہوکر سمجھنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ محض ہماری ذاتی جنگ ہے، اور فوج اس وقت تک اِسے مکمل طور پر نہیں جیت سکتی جب تک اُسے پوری قوم کا تعاون حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ جیسے پہلے کہا گیا، یہ ایک پیچیدہ جنگ ہے، تھرڈ جنریشن وار فیئر۔ اس میں خارجی قوتیں ہی کسی قوم اور تہذیب پر حملہ آور نہیں ہوتیں، بلکہ اُس کے اندر بھی باغی قوتیں پیدا ہوتی اور حملہ کرتی ہیں۔ اس جنگ میں مبتلا قوم کو صرف بہتر جنگی حکمتِ عملی سے ہی کام نہیں لینا ہوتا، بلکہ اپنی تہذیبی، سیاسی اور سماجی طرزِ حیات میں مثبت قوتوں اور اثباتی رویے کو بھی ابھارنا ضروری ہوتا ہے۔
تاریخ کے تجربات اس حقیقت پر اصرار کرتے ہیں کہ جب تک جنگ مکمل اور فیصلہ کن طور پر نہیں جیت لی جاتی، اس وقت تک ایک لمحے کے لیے بھی یہ سمجھنا کہ جنگ کا پانسہ اپنے حق میں پلٹ گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ جنگوں کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جنگ کے آخری مراحل زیادہ نازک اور احتیاط کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اُس وقت جیتنے اور ہارنے والے دونوں کے رویے تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں۔ یہی تبدیلی غیرمتوقع نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ اور یہ بھی کہ خاص طور پر جنگ کے اختتامی مراحل میں سب سے زیادہ آزمائش اعصابی قوتوں کی ہوا کرتی ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف اپنی اس جنگ میں ان تمام حقائق کو مدِنظر رکھنا ہے اور اپنی صورتِ حال، رویوں اور حکمتِ عملی کا بار بار جائزہ لینا اور اسے ہر ممکن نتیجہ خیز بنانا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ دہشت گردی کی اس آگ سے اپنے نوجوان کو بچانا ضروری ہے۔ اس سے پہلے ہمیں دیانت داری اور صاف گوئی سے اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم نے قومی سطح پر اس سلسلے میں کوئی ہوش مندانہ اور ذمے دارانہ حکمتِ عملی اب تک اختیار نہیں کی تھی۔ ہمیں اس کی ضرورت کا احساس اُس وقت آکر ہوا جب پانی سر سے گزر رہا ہے اور یہ حقائق سامنے آرہے ہیں کہ انجینئرنگ اور میڈیکل کالج کی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات اس آگ میں کود رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس قسم کے اکّا دُکّا واقعات اس سے پہلے بھی منظرِ عام پر آئے ہیں، لیکن اُن کے بارے میں زیادہ سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا۔ اس لیے اُن کی ضروری حد تک تحقیق و تفتیش کی گئی اور نہ ہی اُن کے مضمرات پر غور کیا گیا۔
دہشت گردی کے اس مسئلے پر ہی موقوف نہیں، ہمارے یہاں قومی اور حکومتی سطح پر نوجوانوں کی ذہن سازی اور کردار کی تشکیل ایسے اہم ترین کام پر اس طرح توجہ ہی نہیں ہے جس طرح ہونی چاہیے۔ اب سے اڑھائی تین عشرے پہلے تک اسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں خصوصاً ایسے اساتذہ ہوا کرتے تھے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی سرگرمیوں کا بالالتزام اہتمام کیا جاتا تھا جو نوجوانوں کی ذہن سازی میں مفید ثابت ہوتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی عموماً ایسے ادارے اور افراد نمایاں طور سے موجود تھے جو یہ کام پوری ذمے داری سے کرتے تھے۔ آج ہمارے تعلیمی اداروں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سرکاری اداروں میں اساتذہ کی سفارشی اور سیاسی بھرتیوں نے ان کی حیثیت اور کردار کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب وہاں کردار سازی تو کیا ہوگی خود تعلیم ہی ابتری کے حال کو پہنچی ہوئی ہے۔
دوسری طرف تعلیم کمرشیلائزڈ ہونے کے بعد وہ ادارے سامنے آئے ہیں جہاں اساتذہ اور طلبہ کا وہ رشتہ نہیں رہا جو ہونا چاہیے۔ پہلے اساتذہ راہ نما، مددگار اور نگراں ہونا پسند کرتے تھے۔ آج ان اداروں کے طلبہ اور اساتذہ میں آجر اور اجیر کا رشتہ اور دوستی کی فضا ہے۔ آج ایسے بیشتر اداروں میں درس و تدریس سے وابستہ اکثریت ایک ڈاکیے کا سا کردار ادا کرتے ہوئے کتابوں سے معلومات لے کر طلبہ تک پہنچانا کافی سمجھتی ہے۔ پہلے اساتذہ علم دیتے تھے جو شخصیت کی تعمیر کرتا تھا۔ آج اساتذہ ڈگری دلاتے ہیں جو ملازمت یا معاش کے حصول میں کام آتی ہے۔
مرحلہ جنگ کا ہو یا سماجی تبدیلی کا، تہذیب کی بقا کا ہو یا ثقافت کے فروغ کا، فلاح و تعمیر کا ہو یا تخریب و یورش کی مدافعت کا، آزادی کی جستجو ہو یا دفاع کی مہم، یہ طے ہے کہ قوموں کی زندگی میں نوجوان ہمیشہ ایک مؤثر قوت کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ افسوس حکومتی سطح پر اس قوت کو مفید طریقے سے استعمال میں لانے کے لیے اقدامات تو رہے ایک طرف، قاعدے سے منصوبہ بندی تک نہیں کی گئی۔ ایسا نہیں کہ اس قوت نے ہمارے یہاں اس عرصے میں اپنے وجود کا احساس نہیں دلایا۔ یقینا دلایا ہے، بابائے اردو کے جلوسوں سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کے جلسوں تک ہم اس قوت کے قابلِ لحاظ وجود کو دیکھتے آئے ہیں، لیکن ہمارے یہاں اس کا استعمال اُس طرح نہیں ہوا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین عشروں میں ہمارے نوجوان ہندوستان کی ثقافتی یلغار، مغرب کے تہذیب کش رجحانات اور طالبان کے انسان دشمن بیانیوں کا شکار ہوتے آئے ہیں۔ ویسے تو کسی نہ کسی صورت میں اسی نوع کا ایک عمل دنیا کے ان تمام ممالک میں ہوا ہے جہاں اپنا قومی یا متبادل بیانیہ موجود نہیں تھا۔ ہمارے یہاں صورتِ حال اس لیے بھی زیادہ سنگین ہوئی کہ ہم کوئی متبادل بیانیہ نہیں رکھتے تھے اور تیزی کے ساتھ بیک وقت مخالف سمت سے آتی ہوئی ہواؤں کی زد پر آگئے۔ ہمارے یہاں ایک طرف مادر پدر آزادی اور سماجی قدروں کی نفی کا عمل جس شدت سے شروع ہوا تو دوسری طرف اسی شدت سے مذہبی انتہا پسندی نے فروغ پایا۔
آج ہمیں صرف مذہب کے نام پر دہشت گردی کا سامنا نہیں ہے۔ ہمارے یہاں روشن خیال، لبرل اور سیکولر رجحانات بھی اِسی شدت پسندی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو طالبان سے مخصوص ہے۔ عدم برداشت کے رویے نے ان رجحانات کے فروغ اور شدت دونوں میں اضافہ کیا ہے۔ ہمیں نوجوان نسل کی بے راہ روی پر تشویش تو ہے، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اُن کے بھٹکنے میں ہماری قومی صورتِ حال نے کتنا غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے۔ نئی نسل کو آج اپنے قومی شعور اور تہذیبی قدروں کی طرف واپس لانا دشوار تو بے شک ہے، لیکن ناممکن بہرحال نہیں ہے۔ اس قوت کو مؤثر انداز میں واپس مرکزی دھارے میں لانے کے لیے بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہم اُسے قومی شعور کا حامل متبادل بیانیہ پیش کریں۔ اس بیانیے کی تشکیل و ترسیل میں قومی ادارے اور سماجی ذرائع سب اپنا حصہ ادا کریں۔
اس بیانیے میں یہ سکت ہونا بھی ضروری ہے کہ وہ موجود دیگر بیانیوں کو باطل اور مسترد کرسکے۔ اس لحاظ سے ہمارے قومی بیانیے کو دراصل ایسا مہابیانیہ ہونا چاہیے جو ہمارے تہذیبی جوہر کو پوری قوت سے پیش کرتا ہو اور اُسے عمل کی سطح پر قابلِ فہم اور قابلِ قدر بناتا ہو۔ قومی سالمیت اور تہذیبی بقا کے اس جنگ میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ:
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
جنرل قمر جاوید باجوہ نوجوان نسل ہمارے مستقبل کا سرمایہ ہے، لیکن بے چہرہ اور بے نام قوتیں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو مسلسل گم راہ کررہی ہیں۔ انھیں بامقصد زندگی گزارنے میں مصروف کیا جائے۔ دہشت گردوں کو شکست دینے کے بعد ان کے بیانیے کو بھی شکست دینی ہوگی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نوجوان نسل کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو صحیح راہ پر گامزن کرنا ہوگا اور انھیں دہشت گردوں سے محفوظ رکھنا ہوگا۔
دہشت گردی کے خلاف ہماری یہ جنگ زمانۂ حال کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا ابتدائی مرحلہ اپنی جارحانہ قوت کے ساتھ اُس وقت ہمارے سامنے آنا شروع ہوا تھا جب جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اہلِ حدیث عالم علامہ احسان الٰہی ظہیر اور شیعہ عالم علامہ عارف حسین الحسینی ان حملوں کی نذر ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات کا آغاز تو بہ ظاہر فرقہ واریت کے زیرِاثر دکھائی دیتا تھا، لیکن یہ حقیقت جلد ہی واضح ہوگئی کہ جو کچھ شروع ہوا ہے، وہ محض فرقہ واریت نہیں ہے۔ فرقہ واریت دراصل دہشت گردی کو ہوا دینے اور بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ مسئلے کی اصل بنیاد کہیں اور ہے۔ حالاں کہ اس کے تسلسل میں کراچی کے بوہری بازار اور کوئٹہ کے کوچہ و بازار، ہزارہ قبیلے کے افراد، مولانا حق نواز جھنگوی اور دوسرے معروف لوگوں کے قتل کے واقعات کے ذریعے اس مسئلے کے فرقہ وارانہ تأثر کو گہرا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
کم و بیش تین دہائیوں سے جاری اس جنگ کی ہم نے من حیث القوم کیا قیمت ادا کی ہے، اس کا کسی قدر اندازہ آج ہمارے معاشرے کا ایک عام فرد بھی بہ آسانی لگا سکتا ہے۔ مذہبی راہ نماؤں سے لے کر عام آدمی تک اور افواجِ پاکستان سے لے کر سیاست دانوں تک، اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ سے لے کر کاروباری طبقے تک، اساتذہ اور وکلا سے لے کر ڈاکٹرز اور عدلیہ تک ہر شعبۂ زندگی سے وابستہ افراد اس کی بھینٹ چڑھتے آئے ہیں۔ بربریت کے اس کھیل میں انفرادی حیثیت کے افراد سے لے کر گروہی سطح تک درجنوں، بلکہ سیکڑوں لوگ تک بیک وقت اس آگ میں جھونکے گئے۔
سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، جنداللہ، تحریکِ طالبان، تحریکِ نفاذِ شریعت، لشکرِ طیبہ، حزب المجاہدین، حرکۃ الانصار، جیشِ محمد، جماعت المجاہدین اور تحریکِ جہاد کے نام سے مختلف مواقع پر مختلف جماعتیں سامنے آتی رہیں اور ان میں سے کوئی نہ کوئی جماعت ایسی ہر کارروائی کی ذمے داری قبول کرتی رہی۔ آخر ایک وقت پر افواج اور سیاسی قیادت کو ان کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کرنا پڑا۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز ہوا تو ان کارروائیوں میں کمی آنے لگی اور ان پر کسی حد تک قابو پالیا گیا۔
اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں آپریشن ردالفساد جاری ہے۔ یہ اس کارروائی کا دوسرا مرحلہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں قوم کے ساتھ ساتھ فوج کی قربانیاں بھی یقیناً ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، صرف قربانیاں نہیں، پیشہ وارانہ اور سپاہیانہ خدمات بھی۔
ضربِ عضب سے ردالفساد تک ہم نے جو سفر طے کیا ہے، اس سے آگے بھی کئی کڑے کوس ابھی راہ میں پڑتے ہیں۔ ہمیں جس منزل تک پہنچنا ہے، اس کے لیے ہم نے ابھی آدھا راستہ طے کیا ہے۔ اس لیے کہ ہم دہشت گردی کی جس ابتلا سے دوچار ہیں وہ نہایت پیچیدہ ہے۔ اس کے پس منظر میں مذہب کے ساتھ ساتھ سیاست، دولت اور اقتدار کے محرکات کارفرما ہیں اور اُن کا تناظر قومی یا علاقائی نہیں، بلکہ عالمی اور بین الاقوامی ہے۔ لہٰذا اس کے لیے کام کرنے والے افراد اور ادارے دونوں بیک وقت کئی قوتوں کے نمائندے یا آلۂ کار ہیں۔
تفصیلات اور حوالوں پر ذرا غور کیا جائے تو واقعات کی کڑیاں ملانا اور عالمی منظرنامے سے انھیں جوڑ کر دیکھنا اب کچھ ایسا مشکل کام نہیں ہے۔ یہاں ہم عالمی منظرنامے سے دو ایک مثالوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ افغانستان اور ایران سے پاکستان کے مذہبی، سیاسی اور سفارتی تعلقات کی جو سطح تاریخ کے مختلف ادوار میں رہی ہے، اُس سے تاریخ و سیاسیات کا ایک عام طالبِ علم بھی بخوبی واقف ہوگا۔ اس کے تسلسل میں آج افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ایک طرف اور دوسری طرف ایران اور پاکستان کے مابین حالیہ سیاسی اور سفارتی نقشے کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس خطے کی سیاسی، سماجی اور مذہبی صورتِ حال اور اضطراب کے بڑھتے ہوئے گراف کو صاف نظر سے دیکھا جاسکتا ہے۔
دوسری مثال دیکھیے۔ امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار سنبھالے ہوئے ابھی چار ماہ پورے نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے پہلے غیرملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا ہے۔ سعودی عرب پہنچنے پر اُن کا عظیم الشان اور پرتپاک استقبال کیا گیا۔ سعودی حکومت کی طرف سے انھیں سب سے بڑے سول اعزاز شاہ عبدالعزیز ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ امریکی صدر کی آمد پر امریکا اور سعودی عرب کے درمیان 380 ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔
ان میں سے 110 ارب ڈالر کے معاہدے اسلحے کی خریداری کے ہیں۔ دیگر تفصیلات میں جائے بغیر ان خبروں سے اتنی بات تو باآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ اسلحے کی معیشت کے فروغ کا یہ منظرنامہ دنیا کے امن کو کس سمت جاتے ہوئے دکھا رہا ہے۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ وہی امریکی صدر ہیں جنھوں نے منصب سنبھالتے ہی جو ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کیے ان میں عالمی سطح پر شہرت پانے والا ایک آرڈر وہ تھا جس میں متعدد مسلم ممالک کے باشندوں کی امریکا آمد پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مسلم دنیا کے مرکز میں انھی صدر کے استقبال اور پذیرائی کا یہ منظر ہم دیکھ رہے ہیں۔ سچ ہے کہ سیاسی حافظے سے زیادہ ناپائیدار شے آج کی دنیا میں کچھ اور نہیں ہے۔ یہ نئی دنیا کی سیاست ہے۔
کہا جاتا ہے اور درست ہی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں حرفِ آخر کوئی نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ حرفِ آخر کا تعین تو کسی اخلاقی، تہذیبی اور اصولی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اصولوں کی سیاست تو مدت ہوئی اس دنیا سے رخصت ہوچکی۔ اب تو ہر طرف مفادات کی سیاست ہے اور اس کا سب سے مؤثر آلہ ہے ڈپلومیسی۔ ڈپلومیسی وہ شے ہے جو امریکا، چین، شمالی اور جنوبی کوریا جیسے حریفوں ہی کو مذاکرات کی میز پر نہیں لابٹھاتی، بلکہ امریکا اور سعودی عرب ایسے باہمی اعتماد کھوتے ہوئے حلیفوں کو بھی ایک بار پھر شیر و شکر کردیتی ہے۔ امریکا اور سعودی عرب کے مابین اس تعلق اور تعاون کا ایک اور پہلو بھی دل چسپ اور غور طلب ہے۔ سعودی عرب میں امریکا عرب کانفرنس ہوئی۔
دنیا کی بڑی نیوز ایجنسیز کے نمائندوں کو اس کانفرنس کی کوریج کے لیے خصوصی ویزے جاری کیے گئے۔ تاہم اسرائیل کے صحافیوں کو ویزا دینے سے انکار کردیا گیا۔ دوسری طرف امریکی صدر کی بیٹی ایوانکا اور اُن کے شوہر جیرڈکشنر جو مذہبی اعتبار سے یہودی ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے وفد کا حصہ تھے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق ایوانکا اور اُن کے شوہر نے اس سفر سے قبل یہودی ربی سے باقاعدہ سفر کی اجازت لی۔ امریکی صدر کے اس وفد کے جن لوگوں کی نمایاں طور سے سعودی عرب میں پذیرائی ہوئی، ان میں ایوانکا بھی شامل ہیں۔ استقبالیہ ملاقات میں خود سعودی فرماں روا نے انھیں عرب روایت میں قہوہ پینے اور سیری کا اظہار کرنے کے طریقوں سے آگاہ کیا۔
عالمی سیاست کے اس منظرنامے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اب ایک بار پھر آپریشن ردالفساد کی طرف آتے ہیں۔ اس آپریشن میں کامیابی کے لیے اس کے طریقِ کار، اہداف اور نتائج کے بارے میں ہمیں صرف اور صرف اپنے داخلی احوال اور بدلتی ہوئی صورتوں میں اس کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔
علاوہ ازیں ہمیں اس حقیقت کو ہر شبہے سے بالاتر ہوکر سمجھنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ محض ہماری ذاتی جنگ ہے، اور فوج اس وقت تک اِسے مکمل طور پر نہیں جیت سکتی جب تک اُسے پوری قوم کا تعاون حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ جیسے پہلے کہا گیا، یہ ایک پیچیدہ جنگ ہے، تھرڈ جنریشن وار فیئر۔ اس میں خارجی قوتیں ہی کسی قوم اور تہذیب پر حملہ آور نہیں ہوتیں، بلکہ اُس کے اندر بھی باغی قوتیں پیدا ہوتی اور حملہ کرتی ہیں۔ اس جنگ میں مبتلا قوم کو صرف بہتر جنگی حکمتِ عملی سے ہی کام نہیں لینا ہوتا، بلکہ اپنی تہذیبی، سیاسی اور سماجی طرزِ حیات میں مثبت قوتوں اور اثباتی رویے کو بھی ابھارنا ضروری ہوتا ہے۔
تاریخ کے تجربات اس حقیقت پر اصرار کرتے ہیں کہ جب تک جنگ مکمل اور فیصلہ کن طور پر نہیں جیت لی جاتی، اس وقت تک ایک لمحے کے لیے بھی یہ سمجھنا کہ جنگ کا پانسہ اپنے حق میں پلٹ گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ جنگوں کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جنگ کے آخری مراحل زیادہ نازک اور احتیاط کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اُس وقت جیتنے اور ہارنے والے دونوں کے رویے تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں۔ یہی تبدیلی غیرمتوقع نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ اور یہ بھی کہ خاص طور پر جنگ کے اختتامی مراحل میں سب سے زیادہ آزمائش اعصابی قوتوں کی ہوا کرتی ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف اپنی اس جنگ میں ان تمام حقائق کو مدِنظر رکھنا ہے اور اپنی صورتِ حال، رویوں اور حکمتِ عملی کا بار بار جائزہ لینا اور اسے ہر ممکن نتیجہ خیز بنانا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ دہشت گردی کی اس آگ سے اپنے نوجوان کو بچانا ضروری ہے۔ اس سے پہلے ہمیں دیانت داری اور صاف گوئی سے اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم نے قومی سطح پر اس سلسلے میں کوئی ہوش مندانہ اور ذمے دارانہ حکمتِ عملی اب تک اختیار نہیں کی تھی۔ ہمیں اس کی ضرورت کا احساس اُس وقت آکر ہوا جب پانی سر سے گزر رہا ہے اور یہ حقائق سامنے آرہے ہیں کہ انجینئرنگ اور میڈیکل کالج کی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات اس آگ میں کود رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس قسم کے اکّا دُکّا واقعات اس سے پہلے بھی منظرِ عام پر آئے ہیں، لیکن اُن کے بارے میں زیادہ سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا۔ اس لیے اُن کی ضروری حد تک تحقیق و تفتیش کی گئی اور نہ ہی اُن کے مضمرات پر غور کیا گیا۔
دہشت گردی کے اس مسئلے پر ہی موقوف نہیں، ہمارے یہاں قومی اور حکومتی سطح پر نوجوانوں کی ذہن سازی اور کردار کی تشکیل ایسے اہم ترین کام پر اس طرح توجہ ہی نہیں ہے جس طرح ہونی چاہیے۔ اب سے اڑھائی تین عشرے پہلے تک اسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں خصوصاً ایسے اساتذہ ہوا کرتے تھے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی سرگرمیوں کا بالالتزام اہتمام کیا جاتا تھا جو نوجوانوں کی ذہن سازی میں مفید ثابت ہوتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی عموماً ایسے ادارے اور افراد نمایاں طور سے موجود تھے جو یہ کام پوری ذمے داری سے کرتے تھے۔ آج ہمارے تعلیمی اداروں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سرکاری اداروں میں اساتذہ کی سفارشی اور سیاسی بھرتیوں نے ان کی حیثیت اور کردار کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب وہاں کردار سازی تو کیا ہوگی خود تعلیم ہی ابتری کے حال کو پہنچی ہوئی ہے۔
دوسری طرف تعلیم کمرشیلائزڈ ہونے کے بعد وہ ادارے سامنے آئے ہیں جہاں اساتذہ اور طلبہ کا وہ رشتہ نہیں رہا جو ہونا چاہیے۔ پہلے اساتذہ راہ نما، مددگار اور نگراں ہونا پسند کرتے تھے۔ آج ان اداروں کے طلبہ اور اساتذہ میں آجر اور اجیر کا رشتہ اور دوستی کی فضا ہے۔ آج ایسے بیشتر اداروں میں درس و تدریس سے وابستہ اکثریت ایک ڈاکیے کا سا کردار ادا کرتے ہوئے کتابوں سے معلومات لے کر طلبہ تک پہنچانا کافی سمجھتی ہے۔ پہلے اساتذہ علم دیتے تھے جو شخصیت کی تعمیر کرتا تھا۔ آج اساتذہ ڈگری دلاتے ہیں جو ملازمت یا معاش کے حصول میں کام آتی ہے۔
مرحلہ جنگ کا ہو یا سماجی تبدیلی کا، تہذیب کی بقا کا ہو یا ثقافت کے فروغ کا، فلاح و تعمیر کا ہو یا تخریب و یورش کی مدافعت کا، آزادی کی جستجو ہو یا دفاع کی مہم، یہ طے ہے کہ قوموں کی زندگی میں نوجوان ہمیشہ ایک مؤثر قوت کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ افسوس حکومتی سطح پر اس قوت کو مفید طریقے سے استعمال میں لانے کے لیے اقدامات تو رہے ایک طرف، قاعدے سے منصوبہ بندی تک نہیں کی گئی۔ ایسا نہیں کہ اس قوت نے ہمارے یہاں اس عرصے میں اپنے وجود کا احساس نہیں دلایا۔ یقینا دلایا ہے، بابائے اردو کے جلوسوں سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کے جلسوں تک ہم اس قوت کے قابلِ لحاظ وجود کو دیکھتے آئے ہیں، لیکن ہمارے یہاں اس کا استعمال اُس طرح نہیں ہوا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین عشروں میں ہمارے نوجوان ہندوستان کی ثقافتی یلغار، مغرب کے تہذیب کش رجحانات اور طالبان کے انسان دشمن بیانیوں کا شکار ہوتے آئے ہیں۔ ویسے تو کسی نہ کسی صورت میں اسی نوع کا ایک عمل دنیا کے ان تمام ممالک میں ہوا ہے جہاں اپنا قومی یا متبادل بیانیہ موجود نہیں تھا۔ ہمارے یہاں صورتِ حال اس لیے بھی زیادہ سنگین ہوئی کہ ہم کوئی متبادل بیانیہ نہیں رکھتے تھے اور تیزی کے ساتھ بیک وقت مخالف سمت سے آتی ہوئی ہواؤں کی زد پر آگئے۔ ہمارے یہاں ایک طرف مادر پدر آزادی اور سماجی قدروں کی نفی کا عمل جس شدت سے شروع ہوا تو دوسری طرف اسی شدت سے مذہبی انتہا پسندی نے فروغ پایا۔
آج ہمیں صرف مذہب کے نام پر دہشت گردی کا سامنا نہیں ہے۔ ہمارے یہاں روشن خیال، لبرل اور سیکولر رجحانات بھی اِسی شدت پسندی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو طالبان سے مخصوص ہے۔ عدم برداشت کے رویے نے ان رجحانات کے فروغ اور شدت دونوں میں اضافہ کیا ہے۔ ہمیں نوجوان نسل کی بے راہ روی پر تشویش تو ہے، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اُن کے بھٹکنے میں ہماری قومی صورتِ حال نے کتنا غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے۔ نئی نسل کو آج اپنے قومی شعور اور تہذیبی قدروں کی طرف واپس لانا دشوار تو بے شک ہے، لیکن ناممکن بہرحال نہیں ہے۔ اس قوت کو مؤثر انداز میں واپس مرکزی دھارے میں لانے کے لیے بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہم اُسے قومی شعور کا حامل متبادل بیانیہ پیش کریں۔ اس بیانیے کی تشکیل و ترسیل میں قومی ادارے اور سماجی ذرائع سب اپنا حصہ ادا کریں۔
اس بیانیے میں یہ سکت ہونا بھی ضروری ہے کہ وہ موجود دیگر بیانیوں کو باطل اور مسترد کرسکے۔ اس لحاظ سے ہمارے قومی بیانیے کو دراصل ایسا مہابیانیہ ہونا چاہیے جو ہمارے تہذیبی جوہر کو پوری قوت سے پیش کرتا ہو اور اُسے عمل کی سطح پر قابلِ فہم اور قابلِ قدر بناتا ہو۔ قومی سالمیت اور تہذیبی بقا کے اس جنگ میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ:
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ