دھرنا آئینی دفعات میں تبدیلی کی بنیاد

عوام جب میدان میں اتر آئیں تو مخالف اسلحے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ آگے بھی بہت سخت امتحانات ہیں۔

میں نے اپنے موٹر مکینک سے پوچھا ''تمہیں پتہ ہے کہ ہمارے آئین کی دفعہ 62 اور 63 کیا کہتی ہیں؟'' میرے سوال کے جواب میں وہ بولا ''سرجی! پہلے تو پتہ نہیں تھا، مگر اب طاہر القادری صاحب نے بتا دیا ہے کہ 63-62 کے ذریعے ہم نیک ایماندار لوگوں کو اسمبلیوں میں لا سکتے ہیں۔''

اور ساری کہانیاں چھوڑیں یہ ایک بات جو اسلام آباد دھرنے سے نکل کر گھر گھر پہنچی ہے، اس کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ 63-62 کیا ہے، اس کی طاقت کیا ہے، دھرنے سے پہلے عام آدمی کو چھوڑیں بھلے پڑھے لکھے اس سے واقف نہیں تھے، اب عوام ہر امیدوار پر نظر رکھیں گے اور اب کوئی بھی سیاسی جماعت برے کردار والوں کو ٹکٹ نہیں دے سکے گی بلکہ برے امیدوار قبول نہیں کریں گے اور اب انتخاب سے پہلے صاف ستھرے امیدواروں کا مرحلہ ہی اصل انتخاب ہو گا۔ اﷲ بھلا کرے ان دھرنے والوں کا جو شدید ترین سرد موسم میں شیر خوار بچوں کے ساتھ چار دن اور چار راتیں بیٹھے رہے اور خدا بھلا کرے میڈیا والوں کا جنہوں نے 63-62 کو کروڑوں عوام تک پہنچایا۔ باقی مولانا طاہر القادری کون ہیں؟ ان کے پیچھے کون ہیں؟ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔

میں تو پہلے ہی اپنے مرشدوں کے ہاتھوں بیعت ہوں۔ یہی باچا خان، عبدالصمد اچکزئی، میر غوث بخش بزنجو اور حبیب جالب۔ میں سلام بھیجتا ہوں کوئٹہ کے ہزارہ قبیلے والوں پر اور اسلام آباد کے دھرنے والوں پر جو ناقابل یقین استحکام کے ساتھ بیٹھے رہے۔ دھرنے سے کہیں ایک پتھر نہیں اچھلا، ایک گملا نہیں ٹوٹا، بھری پری دکانیں تھیں، ان بند دکانوں کی طرف کوئی ایک قدم نہیں بڑھا، جھونپڑی، ہوٹلوں کی چارپائیوں پر بیٹھ کر دھرنے والے سالن روٹی کھاتے رہے۔ اگر کسی نیک بندے نے کھانے کی گاڑیاں بھیجیں تو بھگدڑ نہیں مچی، کھانے کی گاڑیوں پر دھاوا نہیں بولا گیا بلکہ سب کو منظم انداز میں کھانا دیا گیا، ورنہ ہم کھانے کی ٹیبلیں الٹنے اور دیگیں پلٹنے کے مناظر کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ یہ کوئٹہ اور اسلام آباد کے دھرنوں والے لوگ بہت قیمتی ہیں۔ ہم سب کو ان سے پیار کرنا چاہیے اور ان کا خیال رکھنا چاہیے۔

65 سال بعد آخر تبدیلی کی گھڑی آ ہی گئی، اب انتخاب سے پہلے انتخاب کے مرحلے سے ہر سیاسی جماعت کو گزرنا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کا بہت بڑا امتحان ہے۔ ورنہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے مضبوط الیکشن کمیشن کسی برے کردار والے یا اس کے خاندان والوں کو بطور امیدوار الیکشن میں اجازت نہیں دے گا۔ یوں آنے والا الیکشن بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے اور اب آئین پاکستان کی دفعات 62 اور 63 کی چھلنی سے ہر امیدوار کو گزرنا ہو گا۔ 18 کروڑ عوام تک دھرنے والوں نے 63-62 کو پہنچا دیا ہے۔

میرے خیال کے مطابق دھرنے میں شامل 80 فیصد ادارہ منہاج القرآن کے لوگ تھے اور باقی 20 فیصد دوسرے تھے۔ ہم نے دیکھا اسلام آباد کے لوگ بھی بڑی تعداد میں پہلے دو دن دھرنے میں آتے رہے، پورے ملک سے بھی دوسری سیاسی جماعتوں کے بہت لوگ دھرنے میں شامل ہونے آئے تھے۔ لوگ اب تنگ آ چکے ہیں اور جنگ کرنے پر اتر آئے ہیں۔ جب دھرتی کے خداؤں نے جینے کا حق ہی چھین لیا ہو تو مرنے کا حق استعمال کرنا ہی رہ جاتا ہے۔ حکمرانوں اور عوام کا حق مارنے والوں نے اب تو کچھ بھی نہیں چھوڑا، سب لوٹ مار کر کے اپنے خزانے مزید بھر لیے ہیں۔

یہ دھرنا کیسے ہوا، اس کے پیچھے کون سی طاقتیں تھیں کہ دھرنے والوں کی فرمائشیں پوری کی جاتی رہیں اور انھی کی فرمائش پر دھرنا اٹھا کر عین پارلیمنٹ کے سامنے سجا دیا گیا، یہ سب کیا ہو رہا تھا؟ ''یہ اہل سیاست جانیں'' میرا پیغام تو عوام کے لیے یہ ہے کہ اس دھرنے سے عام آدمی کو پہلی بار اچھی طرح سے سمجھ میں آیا ہے کہ آئین کی دفعات 62 اور 63 کیا ہیں، اور ہمارے ووٹ ڈالنے سے پہلے ان دفعات پر مکمل عمل درآمد کس درجہ بنیادی کام ہے۔ اور یہ کام صرف اور صرف سیاسی جماعتوں کو کرنا ہے کہ وہ اپنے امیدواروں کے کردار کا پہلے خود احتساب کریں کہ امیدوار قرضے ہڑپ تو نہیں کیے بیٹھا، یہ ٹیکس چور تو نہیں ہے، یہ صائب الرائے ہے یا اسمبلی میں سوتا ہی رہے گا، اس کا اپنے ملازموں، ہاریوں کے ساتھ کیسا سلوک ہے، یہ کہیں ڈاکوؤں اور اغوا کنندگان کا سرغنہ تو نہیں ہے؟ یہ جائز و ناجائز اسلحے کا بے دریغ استعمال کا شوقین تو نہیں ہے، یہ انسانوں کا شکاری تو نہیں ہے؟ اس کی ذاتی جیلیں تو نہیں ہیں، یہ ٹارگٹ کلرز کا '' بے روپ ''سردار تو نہیں، یہ غریب کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عصمتوں کو تار تار کرنے والا تو نہیں ہے؟ یہ مفت کی پی کر بہکنے والا تو نہیں۔


یہ ذاتی جرگوں میں اپنے فیصلے سنانے والا تو نہیں ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو ملک کی تین چار بڑی جماعتوں کے ممبران اسمبلی کے چہرے میرے سامنے آتے رہے کہ جو مندرجہ بالا جرائم کے مرتکب رہے ہیں۔ میرا سوال ہے ان سیاسی جماعتوں سے کہ وہ گندے امیدوار کا چناؤ تو نہیں کریں گے؟ مشاہد اﷲ خان، رضا ربانی، افراسیاب خٹک، جاوید ہاشمی، کیا تم لوگ اپنی جماعتوں میں آئین کی دفعات 62 اور 63 پر مکمل عمل درآمد کرواؤ گے؟ خود احتسابی کرتے ہوئے یہ بھی دھیان رکھنا کہ بھانجے بھتیجے بھی نہیں چلیں گے۔

یہ ہیں آئین کی دفعات 62 اور 63 جن کا پرچار اسلام آباد دھرنے میں چار دن، چار راتیں ہوتا رہا اور معاہدہ لانگ مارچ میں بھی ان دفعات پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا گیا ہے اور اگر یہ صفائی ستھرائی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے گھروں میں کر لی تو الیکشن کمیشن کا کام بہت ہلکا ہو جائے گا۔ ورنہ یہ کام فخر الدین جی ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کو کرنا ہو گا اور مجھے یقین ہے کہ وہ کسی بھی گندے آدمی کو آگے نہیں آنے دیں گے۔اسلام آباد دھرنے کے بارے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ کیا تھا؟ اس پر مسلسل لکھا جا رہا ہے، بولا جا رہا ہے اور حقیقت جلد ہی کھل کر سامنے آ جائے گی، مگر ان دھرنے والوں کے سلگتے، دہکتے وجود ہی تھے کہ جن کے آگے یخ بستہ موسم دم توڑتا نظر آ رہا تھا اور آخر حکمران بول ہی پڑے کہ اسمبلیاں 16 مارچ سے پہلے تحلیل ہو جائیں گی۔ الیکشن 4، 5، 6 مئی 2013ء کو ہوں گے۔

جہاں تک الیکشن کمیشن کا معاملہ ہے تو اس کو مت چھیڑا جائے۔ یہ قوم کی خوش نصیبی ہے کہ فخر الدین جی ابراہیم جیسا 86 سالہ متحرک نوجوان الیکشن کمیشن کا متفقہ سربراہ ہے۔ اور 63-63 جیسی بنیادی دفعات پر مکمل عمل درآمد بھی یہی 86 سالہ نوجوان ہی کروائے گا۔ میں ذاتی طور پر بھی فخرالدین جی ابراہیم کو جانتا ہوں، جب انھیں الیکشن کمشنر بنانے کی باتیں ہو رہی تھیں انھی دنوں میری ان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے دوران گفتگو مجھ سے کہا کہ ''میں منصفانہ اور شفاف الیکشن کروانا چاہتا ہوں، خدا مجھ سے یہ کام لے لے''۔

ہم نے بار ہا دیکھا ہے کہ عوام کی طاقت کیا ہوتی ہے۔ کوئٹہ کے ہزارہ قبیلے کے لوگ ہوں یا اسلام آباد کے دھرنے والے ہوں۔ عوام جب میدان میں اتر آئیں تو مخالف اسلحے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ آگے بھی بہت سخت امتحانات ہیں۔ حبیب جالب نے بستر مرگ پر اپنے لوگوں سے کہا تھا ''تھکنا نہیں! جدوجہد جاری رکھنا۔'' جالب ہی کے چار مصرعے لکھتے ہوئے اجازت:

آخری رات ہے یہ سر نہ جھکانا لوگو
حسنِ ادراک کی شمعیں نہ بجھانا لوگو
انتہا ظلم کی ہو جائے وفا والوں پر
غیر ممکن ہے محبت کو مٹانا لوگو
Load Next Story