مین ہول
ہم نے اپنی جہالت کے باعث اس غلاظت کے مین ہول کو ڈھکنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
RAWALPINDI:
شکایت یہ ہے کہ نہ صرف بڑے بڑے شہروں یعنی کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ، ملتان، فیصل آباد کے علاوہ بھی چھوٹے شہروں اور ضلعی صدر مقاموں جیسے علاقوں میں مین ہول نہ صرف اب تک انسانی جانوں کے لیے خطرات کا باعث بنے ہوئے ہیں بلکہ ان کے ڈھکنے کا کوئی باقاعدہ بندوبست ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ آئے دن اخبارات میں کوئی نہ کوئی ایسی خبر دیکھنے کو ملتی ہے جسے پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کوئی بچہ دن دہاڑے یا کوئی بوڑھا یا کمزور بصارت کی عمر رسیدہ عورت شام کے اندھیرے میں مین ہول میں گر کر ہلاک ہوگئی۔ اس نوعیت کے واقعات کے ساتھ ایسے واقعات بھی منسلک ہوتے ہیں کہ اس طرح گرنے والے بعض لوگوں کو نکالنے کے لیے مین ہول میں اترنے والے کار کن گھٹن کے باعث ہلاک ہو گئے۔
یہ کھلے ہوئے مین ہول کن سڑکوں یا علاقوں میں ملتے ہیں۔ یہ مین ہول ظاہر ہے کہ ان علاقوں میں ہی کھلے ہوئے ملتے ہیں جن علاقوں کے مکین ملک کے عا م شہری ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو موٹر کاروں اور بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر سڑکوں پر نہیں گھومتے بلکہ دن بھر ان سڑکوں اور گلیوں میں مارے مارے رزق کی تلاش، بچوں کی ضروریات پوری کرنے یا اپنے مریضوں کو اسپتالوں اور شفاخانوں میں لے جانے کے لیے پھرتے رہتے ہیں۔ دن بھر کی دربدری کے بعد نا صرف ان کے جسم اور انگ انگ درد کا شکار ہوتے ہیں بلکہ ان کے دماغ بھی مائوف ہو چکے ہوتے ہیں اور بینائی جواب دے چکی ہوتی ہے۔
یہ لوگ نا صرف پاکستان کے شہری ہیں بلکہ پاکستان کے کروڑوں ٹیکس دہندگان میں شمار ہوتے ہیں جو بالواسطہ بیسیوں قسم کے ٹیکس دے دے کر اپنی کمر تک تڑوا چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ان کے ٹیکسوں نے کھانے کو صرف دھکے دیے ہیں اور کھلے مین ہول دیے ہیں تا کہ انجانے میں ان کے اندر گرکر مر جائیں۔ ان کا قصور کیا ہے؟ انھیں کس جرم کی سزا مل رہے؟ مین ہول پر ڈھکن لگانا وفاقی یا صوبائی حکومت کا کا م نہیں ہے۔ یہ کام تو مقامی حکومتوں کا ہے جو مقامی طور پر لاتعداد صورتوں میں مختلف قسم کے ٹیکس وصول کرتی رہتی ہیں۔ ان حکومتوں کو وفاق اور صوبوں کی طرف سے بھی خاطر خواہ رقوم مہیا کی جاتی ہیں۔ گزشتہ دور میں جو مقامی حکومتیں تشکیل دی گئیں اور ضلعی نظامت کا نظام متعارف کرایا گیا جس کے تحت 'اصلی اور بنیادی جمہوریت' متعارف کرائی گئی تھی وہ نظام اپنے علاقوں میں نہ تو بہتے ہوئے گٹررکوا سکا اور نہ کھلے مین ہول بند کرا سکا۔ یہ کام اسلام آباد سے ہونے والا نہیں تھا۔ یہ کام مقامی حکام نے کرنا تھا۔ چاہے وہ سرکاری حکام ہوں یا منتخب نمائندے۔ ان کا تعلق انھی علاقوں سے تھا جہاں کے یہ مسائل تھے ضلعی ناظم والے نظام کے تحت تو ایک ضلعی اسمبلی بھی تھی جو باقاعدہ بحث و تمحیص کے بعد ہر مخصوص ترقیاتی، تعلیمی اور صحت عامہ وغیرہ کے پراجیکٹس کے لیے رقوم منظور فرمایا کرتی تھی۔ ہر علاقے کے کونسلروں کی ایک مناسب تعداد تھی جو اپنے اپنے مخصوص محلوں اور علاقوں کی نمائندگی کے فرائض انجام دینے کے ناطے اس قسم کی بنیادی سہولتیں بہم پہنچانے کے ذمے دار تھی۔ پھر مین ہول ڈھکنے سے کیوں رہ گئے؟ گلیوں کا تعّفن کیوں دُور نہ ہوا؟ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور گلیا ں کیوں نہ بن سکیں؟
بہت عرصہ تک ہم نے یہ سُنا کہ جب تک ترقیاتی کاموں کے لیے مرکزیت کا نظام ختم نہیں ہو جاتا حالات میں بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ اس کے باوجود ہم نے دیکھا کہ اس قسم کے ترقیاتی کاموں کے لیے مرکزیت بالکل ختم کر دینے کے باوجود بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ جب مقامی ناظم بھی علاقے میں بیٹھے بیٹھے اپنے لوگوں سے اتنا دور چلا جائے جتنا دور کہ اسلام آباد واقع ہے تو پھر اسلام آباد والے اور مقامی ناظم میں کیا فرق رہ جاتا ہے سارا غور و خوض اسی مرحلے پر ہونا چاہیے کہ دونوں صورتوں میں اگر فرق کہیں نہیں پڑتا اور جیسا کہ عوام کا تجربہ بتاتا ہے کہ فرق ہر گز نہیں پڑا تو پھر مسئلہ کہاں ہے؟ کون مسئلہ کا ذمے دار ہے؟ غریب کس کا دروازہ کھٹکھٹائے؟ کہاں جائے؟
دراصل یہ مسئلہ مقامیت اور مرکزیت کا نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف سوچ کا ہے سوچ کا تعلق تعلیم سے ہے۔ تعلیم ہمار ے ہاں مفقود ہے۔ کیوں مفقود ہے؟ اس لیے مفقود ہے کہ تعلیم دینا، اسکول کھولنا اور استا د ہونا ایک کاروبار بن چُکا ہے۔ بعض چیزیں کاروبار ہر گز نہیں بن سکتیں۔ ان چند چیزوں میں تعلیم بھی ہے۔ جس ملک میں تعلیم کاروبار بن جائے اس ملک میں پڑھائی ختم ہو جاتی ہے ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ پھر امتحان میں پاس ہونا بھی ایک کاروبار بن جاتا ہے۔ نوکری کے لیے امتحانوں میں پاس ہونا بھی ایک کاروبار بن جاتا ہے۔ ڈاکٹری اور انجینئرنگ کی اسناد بھی بکنے لگ جاتی ہیں۔ کاروبار کی حفاظت کے لیے اثر و نفوذ کا استعمال ایک ضرورت بن جاتا ہے۔ پھر بڑے بڑے لوگ امتحانوں میں پاس کرانے کے لیے اپنے نالائق بچوں کو اثر و نفوذ اور دھونس دھاندلی سے پاس کراتے ہیں اور رشوت دینے کی تکلیف سے بچ جاتے ہیں کیوں کہ ؎
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب
کیا کسی کا گلہ کرے کوئی
جو شخص ڈاکٹری سند خرید کر کے ڈاکٹر سمجھا جا رہا ہو اس نے مریض کو مریض کیوں سمجھنا ہو گا۔ مریض تو اس کے لیے ایک ذریعہ آمدنی ہو گا اور ذریعہ آمدنی کو مزید بڑھانا ہی اس کی اولین ترجیح ہو گی۔ کیونکہ اگر مریض شفایاب ہو گیا تو اس کی آمدنی کا ذریعہ ختم ہو جائے گا۔ اخلاقیات کی اس گراوٹ کے نتیجے میں اب بڑے ڈاکٹر چھوٹے ڈاکٹروں کے ہاتھوں پٹنے لگے ہیں کیونکہ مسئلہ ڈاکٹری کا نہیں کاروبار کا ہے صحت کے کاروبار کا۔ شربت بیچنے کے کاروبار کا۔ تاکہ کارخانہ چلتا رہے چاہے لوگ مرتے رہیں کیونکہ کاروبار بہرحال لوگوں سے زیادہ اہم ہے۔
ہمارا غریب صرف غریب ہی نہیں بلکہ وہ تعلیم و صحت کا کاروبار کرنے والے حضرات کی خوراک بھی ہے۔ وہ صرف غریب ہی نہیں ہے بلکہ وہ معاشرے کا واحد مجرم بھی ہے کیونکہ وہ ہر قسم کے حقوق سے بالکل محروم ہے۔ ہم سب لوگ غریب کا نام لے لے کر امیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ صرف غریب ہے جو غریب کا نام نہیں لے سکتا اور اسی لیے غریب ہی رہتا ہے۔
ہم لوگ جس کا کلمہ پڑھتے ہیں وہ غارِ حرا سے ''پڑھو'' کا پیغام لے کر نکلا تھا۔ وہی ہمارا وارثؐ ہے کیونکہ اسی نے ہمیں جینے کے آداب سکھلائے تھے جنھیں ہم بھلا بیٹھے ہیں۔ ہمیں بتلایا گیا تھا کہ دولت خرچ کرنے سے گھٹتی ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔ جب ہم نے علم ہی کو دولت سے خرید نے کا طریقہ اپنا لیا ہے تو پھر ہمارا علم کیسے بڑھ سکتا ہے جب ہم علم کو دولت سمجھ کر خرچ کریں گے تو وہ ہر گز نہیں بڑ ھے گا بلکہ علم کو بیچ بیچ کر ہم زیادہ سے زیادہ دولت کما سکیں گے۔ وہ دولت ہم کما رہے ہیں اور علم ذلیل ہو رہا ہے۔ اس ملک کے اندر علم ذلیل ہو رہا ہے جو ملک پیداوار ہی ایک درسگاہ کی ہے۔ کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں ہے؟ ذرا سوچئے کیونکہ یہ مسئلہ تقاضا کر تا ہے سنجیدہ سوچ کا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت عطا کرے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ علم کی تذلیل کر کے ہم جہالت کے مین ہول میں گر رہے ہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنی جہالت کے باعث اس غلاظت کے مین ہول کو ڈھکنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
خُدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین
شکایت یہ ہے کہ نہ صرف بڑے بڑے شہروں یعنی کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ، ملتان، فیصل آباد کے علاوہ بھی چھوٹے شہروں اور ضلعی صدر مقاموں جیسے علاقوں میں مین ہول نہ صرف اب تک انسانی جانوں کے لیے خطرات کا باعث بنے ہوئے ہیں بلکہ ان کے ڈھکنے کا کوئی باقاعدہ بندوبست ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ آئے دن اخبارات میں کوئی نہ کوئی ایسی خبر دیکھنے کو ملتی ہے جسے پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کوئی بچہ دن دہاڑے یا کوئی بوڑھا یا کمزور بصارت کی عمر رسیدہ عورت شام کے اندھیرے میں مین ہول میں گر کر ہلاک ہوگئی۔ اس نوعیت کے واقعات کے ساتھ ایسے واقعات بھی منسلک ہوتے ہیں کہ اس طرح گرنے والے بعض لوگوں کو نکالنے کے لیے مین ہول میں اترنے والے کار کن گھٹن کے باعث ہلاک ہو گئے۔
یہ کھلے ہوئے مین ہول کن سڑکوں یا علاقوں میں ملتے ہیں۔ یہ مین ہول ظاہر ہے کہ ان علاقوں میں ہی کھلے ہوئے ملتے ہیں جن علاقوں کے مکین ملک کے عا م شہری ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو موٹر کاروں اور بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر سڑکوں پر نہیں گھومتے بلکہ دن بھر ان سڑکوں اور گلیوں میں مارے مارے رزق کی تلاش، بچوں کی ضروریات پوری کرنے یا اپنے مریضوں کو اسپتالوں اور شفاخانوں میں لے جانے کے لیے پھرتے رہتے ہیں۔ دن بھر کی دربدری کے بعد نا صرف ان کے جسم اور انگ انگ درد کا شکار ہوتے ہیں بلکہ ان کے دماغ بھی مائوف ہو چکے ہوتے ہیں اور بینائی جواب دے چکی ہوتی ہے۔
یہ لوگ نا صرف پاکستان کے شہری ہیں بلکہ پاکستان کے کروڑوں ٹیکس دہندگان میں شمار ہوتے ہیں جو بالواسطہ بیسیوں قسم کے ٹیکس دے دے کر اپنی کمر تک تڑوا چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ان کے ٹیکسوں نے کھانے کو صرف دھکے دیے ہیں اور کھلے مین ہول دیے ہیں تا کہ انجانے میں ان کے اندر گرکر مر جائیں۔ ان کا قصور کیا ہے؟ انھیں کس جرم کی سزا مل رہے؟ مین ہول پر ڈھکن لگانا وفاقی یا صوبائی حکومت کا کا م نہیں ہے۔ یہ کام تو مقامی حکومتوں کا ہے جو مقامی طور پر لاتعداد صورتوں میں مختلف قسم کے ٹیکس وصول کرتی رہتی ہیں۔ ان حکومتوں کو وفاق اور صوبوں کی طرف سے بھی خاطر خواہ رقوم مہیا کی جاتی ہیں۔ گزشتہ دور میں جو مقامی حکومتیں تشکیل دی گئیں اور ضلعی نظامت کا نظام متعارف کرایا گیا جس کے تحت 'اصلی اور بنیادی جمہوریت' متعارف کرائی گئی تھی وہ نظام اپنے علاقوں میں نہ تو بہتے ہوئے گٹررکوا سکا اور نہ کھلے مین ہول بند کرا سکا۔ یہ کام اسلام آباد سے ہونے والا نہیں تھا۔ یہ کام مقامی حکام نے کرنا تھا۔ چاہے وہ سرکاری حکام ہوں یا منتخب نمائندے۔ ان کا تعلق انھی علاقوں سے تھا جہاں کے یہ مسائل تھے ضلعی ناظم والے نظام کے تحت تو ایک ضلعی اسمبلی بھی تھی جو باقاعدہ بحث و تمحیص کے بعد ہر مخصوص ترقیاتی، تعلیمی اور صحت عامہ وغیرہ کے پراجیکٹس کے لیے رقوم منظور فرمایا کرتی تھی۔ ہر علاقے کے کونسلروں کی ایک مناسب تعداد تھی جو اپنے اپنے مخصوص محلوں اور علاقوں کی نمائندگی کے فرائض انجام دینے کے ناطے اس قسم کی بنیادی سہولتیں بہم پہنچانے کے ذمے دار تھی۔ پھر مین ہول ڈھکنے سے کیوں رہ گئے؟ گلیوں کا تعّفن کیوں دُور نہ ہوا؟ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور گلیا ں کیوں نہ بن سکیں؟
بہت عرصہ تک ہم نے یہ سُنا کہ جب تک ترقیاتی کاموں کے لیے مرکزیت کا نظام ختم نہیں ہو جاتا حالات میں بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ اس کے باوجود ہم نے دیکھا کہ اس قسم کے ترقیاتی کاموں کے لیے مرکزیت بالکل ختم کر دینے کے باوجود بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ جب مقامی ناظم بھی علاقے میں بیٹھے بیٹھے اپنے لوگوں سے اتنا دور چلا جائے جتنا دور کہ اسلام آباد واقع ہے تو پھر اسلام آباد والے اور مقامی ناظم میں کیا فرق رہ جاتا ہے سارا غور و خوض اسی مرحلے پر ہونا چاہیے کہ دونوں صورتوں میں اگر فرق کہیں نہیں پڑتا اور جیسا کہ عوام کا تجربہ بتاتا ہے کہ فرق ہر گز نہیں پڑا تو پھر مسئلہ کہاں ہے؟ کون مسئلہ کا ذمے دار ہے؟ غریب کس کا دروازہ کھٹکھٹائے؟ کہاں جائے؟
دراصل یہ مسئلہ مقامیت اور مرکزیت کا نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف سوچ کا ہے سوچ کا تعلق تعلیم سے ہے۔ تعلیم ہمار ے ہاں مفقود ہے۔ کیوں مفقود ہے؟ اس لیے مفقود ہے کہ تعلیم دینا، اسکول کھولنا اور استا د ہونا ایک کاروبار بن چُکا ہے۔ بعض چیزیں کاروبار ہر گز نہیں بن سکتیں۔ ان چند چیزوں میں تعلیم بھی ہے۔ جس ملک میں تعلیم کاروبار بن جائے اس ملک میں پڑھائی ختم ہو جاتی ہے ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ پھر امتحان میں پاس ہونا بھی ایک کاروبار بن جاتا ہے۔ نوکری کے لیے امتحانوں میں پاس ہونا بھی ایک کاروبار بن جاتا ہے۔ ڈاکٹری اور انجینئرنگ کی اسناد بھی بکنے لگ جاتی ہیں۔ کاروبار کی حفاظت کے لیے اثر و نفوذ کا استعمال ایک ضرورت بن جاتا ہے۔ پھر بڑے بڑے لوگ امتحانوں میں پاس کرانے کے لیے اپنے نالائق بچوں کو اثر و نفوذ اور دھونس دھاندلی سے پاس کراتے ہیں اور رشوت دینے کی تکلیف سے بچ جاتے ہیں کیوں کہ ؎
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب
کیا کسی کا گلہ کرے کوئی
جو شخص ڈاکٹری سند خرید کر کے ڈاکٹر سمجھا جا رہا ہو اس نے مریض کو مریض کیوں سمجھنا ہو گا۔ مریض تو اس کے لیے ایک ذریعہ آمدنی ہو گا اور ذریعہ آمدنی کو مزید بڑھانا ہی اس کی اولین ترجیح ہو گی۔ کیونکہ اگر مریض شفایاب ہو گیا تو اس کی آمدنی کا ذریعہ ختم ہو جائے گا۔ اخلاقیات کی اس گراوٹ کے نتیجے میں اب بڑے ڈاکٹر چھوٹے ڈاکٹروں کے ہاتھوں پٹنے لگے ہیں کیونکہ مسئلہ ڈاکٹری کا نہیں کاروبار کا ہے صحت کے کاروبار کا۔ شربت بیچنے کے کاروبار کا۔ تاکہ کارخانہ چلتا رہے چاہے لوگ مرتے رہیں کیونکہ کاروبار بہرحال لوگوں سے زیادہ اہم ہے۔
ہمارا غریب صرف غریب ہی نہیں بلکہ وہ تعلیم و صحت کا کاروبار کرنے والے حضرات کی خوراک بھی ہے۔ وہ صرف غریب ہی نہیں ہے بلکہ وہ معاشرے کا واحد مجرم بھی ہے کیونکہ وہ ہر قسم کے حقوق سے بالکل محروم ہے۔ ہم سب لوگ غریب کا نام لے لے کر امیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ صرف غریب ہے جو غریب کا نام نہیں لے سکتا اور اسی لیے غریب ہی رہتا ہے۔
ہم لوگ جس کا کلمہ پڑھتے ہیں وہ غارِ حرا سے ''پڑھو'' کا پیغام لے کر نکلا تھا۔ وہی ہمارا وارثؐ ہے کیونکہ اسی نے ہمیں جینے کے آداب سکھلائے تھے جنھیں ہم بھلا بیٹھے ہیں۔ ہمیں بتلایا گیا تھا کہ دولت خرچ کرنے سے گھٹتی ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔ جب ہم نے علم ہی کو دولت سے خرید نے کا طریقہ اپنا لیا ہے تو پھر ہمارا علم کیسے بڑھ سکتا ہے جب ہم علم کو دولت سمجھ کر خرچ کریں گے تو وہ ہر گز نہیں بڑ ھے گا بلکہ علم کو بیچ بیچ کر ہم زیادہ سے زیادہ دولت کما سکیں گے۔ وہ دولت ہم کما رہے ہیں اور علم ذلیل ہو رہا ہے۔ اس ملک کے اندر علم ذلیل ہو رہا ہے جو ملک پیداوار ہی ایک درسگاہ کی ہے۔ کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں ہے؟ ذرا سوچئے کیونکہ یہ مسئلہ تقاضا کر تا ہے سنجیدہ سوچ کا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت عطا کرے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ علم کی تذلیل کر کے ہم جہالت کے مین ہول میں گر رہے ہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنی جہالت کے باعث اس غلاظت کے مین ہول کو ڈھکنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
خُدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین