’’طالبانہ‘‘ ذہنیت

ماہرین کے درمیان سروے میں بھارت کو دنیا بھر میں عورت کے لیے خراب ترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔

shaikhjabir@gmail.com

LARKANA:
بھارت اپنی تاریخ کے عجیب موڑ سے گزر رہا ہے۔ شدید کشمکش ہے جو جاری ہے۔ ایک دوراہا ہے جہاں بھارتی جنتا خود کو موجود پاتی ہے۔ دو کشتیاں ہیں جس میں سوار رہنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ افراد اِسے دو ادوار کا سنگم قرار دینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن نتائج بتا رہے ہیں کہ یہ ملاپ نہیں دوری ہے۔ بھارت ایک قدیم روایتی، ثقافتی، تہذیبی خطہ ہے۔ دانشِ مشرق کا شاہکار، رہتے تھے جہاں ''منتخب ہی روزگار کے''۔ آج وہ تہذیب نئی کروٹ لے رہی ہے، جِس کے نتیجے میں وہاں روایت اور جدیدیت کی شدید کشمکش شروع ہو گئی ہے۔ اس کے مختلف مظاہر سامنے آتے چلے جا رہے ہیں۔ عورت بھارت میں مظلوم ترین اور نامطلوب ترین صنف ہے۔ ''ٹرسٹ لاء'' نے دنیا کے ماہرین کے درمیان سروے کیا۔ نتیجے میں بھارت کو دنیا بھر میں عورت کے لیے خراب ترین خطہ قرار دیا گیا۔

وہاں کا حال یہ ہے کہ رحمِ مادر ہی میں نامولود بچیوں کا قتل صنفی عدمِ توازن تک جا پہنچا ہے۔ یہ وہ خطہ ہے کہ کبھی یہاں کی عورت امبیکا، ساوتری، شکُنتلا، دَروپدی، پاروتی، سرسوتی اور سیتا کا روپ تھی۔ بھارتی ناری اُرمیلا، رضیہ سلطانہ، نورجہاں اور جودھا بائی تھی۔ آج اسی عورت کو اسی خطے میں جان بچانا اور سر چھپانا مشکل ہو گیا ہے۔ بھارت میں عورتوں کے خلاف گزشتہ دہائی سے جرائم میں تیزرفتار اضافہ ہوا ہے، خاص کر جنسی جرائم میں۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آج جتنی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے، آج جتنا عورتوں کے حقوق کا چرچا ہے، نیز آج عورتوں کے لیے جتنے قوانین موجود ہیں، نہ صرف یہ کہ بھارت میں بلکہ اقوام عالم میں، ماہرین تاریخ گواہی دیں گے کہ نہ تو کبھی عورتوں کے حقوق پر اتنی بات ہوئی نہ کبھی کسی معاشرے میں اتنے قوانین ہی رائج رہے، لیکن یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ عورتوں کے خلاف زیادتی کے جتنے واقعات آج رونما ہو رہے ہیں، آج سے قبل کبھی نہ ہوئے تھے۔

یہاں ''زیادہ قوانین زیادہ جرائم'' کی بحث کا موقع نہیں ہم صرف اتنا کہیں گے کہ بھارت میں گزشتہ دہائی سے عورتوں کے خلاف جرائم تیزی سے بڑھے ہیں۔ پولیس کا ریکارڈ بتا رہا ہے کہ یہ اضافہ بہت تیز رفتاری سے ہوا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کا کہنا ہے کہ 1998ء میں عورتوں کے خلاف جرائم کی نمو کا تناسب 2010ء میں عورتوں کی شرح نمو سے زیادہ تھا۔ 2008ء تک عورتوں کے خلاف سامنے آنے والے زیادتی کے کیسز 1990ء کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ رہے۔ بیورو کا کہنا ہے کہ 2010ء سے اب تک عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں 7.1 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

2011ء میں جنسی زیادتی کے 24,206 کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ اعداد و شمار 2010ء کے مقابلے میں نو فیصد زیادہ تھے۔ زیادتی کا شکار ہونے والیوں کی عمر اٹھارہ سے تیس برس کے درمیان ہے۔ کُل ملا کر 2011ء میں عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم 2,28,650 رپورٹ ہوئے۔2012ء میں صرف دہلی میں جنسی زیادتی کے 635 کیسز رپورٹ ہوئے (جنوری سے نومبر)۔ دہلی کو بھارت کا ''ریپ کیپیٹل'' بھی کہا جانے لگا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر برس بھارت کی کم از کم بیس لاکھ عورتیں اغوا ہو جاتی ہیں۔ یہ کہاں جاتی ہیں؟ کبھی کوئی سراغ نہیں لگا سکا۔


عورتوں کے خلاف یہ جرائم کیوں بڑھتے چلے جا رہے ہیں؟ اِس سوال کے جواب کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش اب تک سامنے نہیں آئی۔ مجرموں کو گرفتار کر کے انھیں قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے تو بہت شور و غوغا ہوتا ہے لیکن جرائم کی بیخ کنی کے لیے اسباب کی نشان دہی تشنہ کام ہی رہ جاتی ہے۔ کچھ افراد فلم کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ مثال کے طور پر ناگا لینڈ سے خواتین کے حقوق کی تنظیم کی صدر ''ہکیلی ٹی واستا'' نے کہا کہ تھائی لینڈ اور کوریا سے ان کی اسٹیٹ میں جو فلمیں آتی ہیں وہ تشدد اور جنسی مواد سے لبریز ہیں۔ یہ معاشرے میں جرائم اور بے راہ روی میں فروغ کا سبب بنتی ہیں۔

باد ی النظر میں بات اچھی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ایسی دلیلیں اس صنعت کی ماہیت سے ناواقفیت ہی کی بنا پر دی جا سکتی ہیں۔ فلم اور میڈیا اصلاً نفع کمانے کی صنعتیں ہیں، نا کہ اصلاح معاشرہ یا لوگوں کو مذہبی بنانے کے ادارے۔ پردۂ سیمیں پر کیا دکھانا ہے، اِس کا تعین مارکیٹ کرے گی۔ روایت، ثقافت یا مذہب ان معاملات سے دور رہیں گے۔ باکس آفس پر ہِٹ ہونے والی فلم ہی تیار کرنی ہو گی۔ ایک رائے یہ سامنے آتی ہے کہ مزید سخت قوانین بنائے جائیں۔ زیادتی کے مجرم کو سزائے موت دے دی جائے۔ شبانہ اعظمی کہتی ہیں کہ عورت کے ساتھ ایک زیادتی تو مجرم کرتا ہے پھر قانون، تفتیش اور انصاف کے نام پر عورت کا جو بلادکار شروع ہوتا ہے وہ کبھی کبھی اصل زیادتی سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ یو پی کی کھپ پنچایت نے فیصلہ سنایا کہ لڑکیوں کو جینز نہیں پہننی چاہیے۔

ناگا لینڈ کی عورت ''ہوبو'' نے بھی یہی فیصلہ سنایا کہ لڑکیوں کو چست اور بے باک لباس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ وہاں کی ''اسٹیٹ ویمن کمیشن'' کی چیئر پرسن ''سانو واموزو'' نے کہا کہ ''یہ لڑکیوں کا نامناسب لباس ہے جو جنسی جرائم میں اضافے کا سبب بن رہا ہے''۔ ''پوڈوچری'' میں بھی حال ہی میں جنسی جرم کی ایک دہلا دینے والی واردات ہوئی۔ اس کے فوراً بعد وہاں کے وزیرِ تعلیم ''ٹی تھیا گرانجن'' نے لڑکیوں کے لیے اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر اوور کوٹ کو لازمی پہننے کا مشورہ دے دیا۔ یہ 5 جنوری کی بات ہے۔ بھارتی نیشنل کمیشن فار ویمن کی چیئر پرسن ممتا شرما بھی گزشتہ برس ایسی ہی رائے دے چکی ہیں۔ ادھر آر ایس ایس کے رہنما موہن بھگوت نے آسام کے شہر سلچر میں حالیہ دنوں میں ایک بیان دیا۔

انھوں نے کہا کہ عورتوں کے خلاف جنسی جرائم دیہی علاقوں میں خال خال ہی نظر آتے ہیں، اِس طرح کے جرائم شہروں ہی کا خاصا ہیں، شہروں میں رہنے والے مغربی ثقافت کے زیر اثر زندگیاں بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ویسا ہی رہن سہن اور لباس اپناتے ہیں، یہی جنسی جرائم کا سبب بنتا ہے۔ موہن صاحب کا فرمانا ہے کہ بھارت کے دیہی علاقوں میں قدیم ثقافت کا آج بھی رواج نظر آتا ہے اور وہاں اجتماعی آبرو ریزی اور زیادتی ایسے کوئی جرائم نہیں ہوتے۔ اگر ان مسائل سے نکلنا ہے تو مغربی ثقافت کو تج کر دیسی بن جائو۔ یہ ایک نقطہ نظر ہے، یعنی دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو۔ کیا یہ طالبان ازم نہیں؟ طالبان بھی تو پندرہ سو برس پیچھے کی باتوں کو اصل قرار دیتے ہیں۔ وہ بھی زمانے کو پتھر کے دور میں لے جانا چاہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال پوڈوچری کے وزیر تعلیم اور آر ایس ایس کے موہن سنگھ وغیرہ کا نظر آتا ہے۔
Load Next Story