چین کا صائب انداز نظر
سی پیک ایک اقتصادی منصوبہ ہے اوراس سے مسئلہ کشمیر پر بیجنگ کے موقف پرکوئی اثر نہیں پڑے گا
چین نے اقوام متحدہ کی گزشتہ روز جاری ہونے والی رپورٹ ، جس میں کہا گیا تھا کہ سی پیک منصوبے کی وجہ سے پاک ، بھارت کشیدگی بڑھے گی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا، کے مندرجات کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ ترجمان چینی وزارت خارجہ نے اپنی پریس بریفنگ میں کہا کہ یہ ایک اقتصادی منصوبہ ہے اوراس سے مسئلہ کشمیر پر بیجنگ کے موقف پرکوئی اثر نہیں پڑے گا۔
ترجمان نے مزیدکہاکہ چینی حکومت چینی باشندوں کی بحفاظت بازیابی کے لیے پاکستان کی ہر ممکنہ مدد کرے گی۔ عالمی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، بھارت نے خطے میں بالادستی کے ادھورے خواب کو پورا کرنے کے لیے امریکا سے دوستی کرلی ہے ۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات اتارچڑھاؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں ۔ ایک جانب بھارتی جنگی جنون ہے اور دوسری جانب پاکستان کے اقتصادی ومعاشی ترقی کے خواب ۔پاکستان کے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے چین نے سی پیک منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے ثمرات یقیناً مثبت اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بہتر مستقبل کی نوید لے کر آئیں گے۔
چین کی ایک خوب صورت روایت ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے ساتھ اقتصادی ومعاشی ترقی کے منصوبے بناتا ہے تو خود کو ان تک ہی محدود رکھتا ہے اور اس کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، لیکن امریکا دخل درمعقولات کی علت اور بھارت خطے کا تھانیدار بننا چاہتا ہے ۔سوچ کا فرق واضح ہے ۔ حکومت چین کے ترجمان نے جو کہا وہ انتہائی واضح اور دوٹوک ہے،جنگ سے نفرت اور امن سے محبت کی سوچ سے ہی خطے میں معاشی ترقی کا پہیہ گھومے گا۔ لہذا بھارتی اور امریکی لابی کی سازشیں ناکامی سے دوچار ہونگی، چین نے تو ون بیلٹ ون روڈ میں بھارت کو بھی شمولیت کی دعوت دی ہے جو اس کے خلوص نیت کی نشاندہی کرتا ہے ۔
دوسری جانب بلوچستان کے صدرمقام وادی کوئٹہ میں چینی جوڑے کے اغوا سے بظاہر سراسیمگی پھیلی ہے ، لیکن اس کے پیچھے بھی ایک ایسی سازش کے تانے بانے نظر آتے ہیں جو ان ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں ، چینی باشندوں کے اغوا میں سی پیک مخالف قوتوں کے ملوث ہونے کے امکانات ہیں جو ایسی مذموم کارروائی کرکے منصوبے کو ناکام بنانا چاہتی ہیں، بلاشبہ مغویوں کی باحفاظت بازیابی کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں اور امید ہے کہ وہ بازیاب ہوجائیں گے۔ حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کو چاہیے کہ چینی باشندوں کی حفاظت کے لیے ایسے فول پروف سیکیورٹی انتظامات کیے جائیں تاکہ اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہوسکے ۔ مہمانوں اور سچے دوستوں کی حفاظت کی ذمے داری پاکستانیوں کا فرض ہے اور انھیں اس فرض میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔
ترجمان نے مزیدکہاکہ چینی حکومت چینی باشندوں کی بحفاظت بازیابی کے لیے پاکستان کی ہر ممکنہ مدد کرے گی۔ عالمی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، بھارت نے خطے میں بالادستی کے ادھورے خواب کو پورا کرنے کے لیے امریکا سے دوستی کرلی ہے ۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات اتارچڑھاؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں ۔ ایک جانب بھارتی جنگی جنون ہے اور دوسری جانب پاکستان کے اقتصادی ومعاشی ترقی کے خواب ۔پاکستان کے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے چین نے سی پیک منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے ثمرات یقیناً مثبت اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بہتر مستقبل کی نوید لے کر آئیں گے۔
چین کی ایک خوب صورت روایت ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے ساتھ اقتصادی ومعاشی ترقی کے منصوبے بناتا ہے تو خود کو ان تک ہی محدود رکھتا ہے اور اس کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، لیکن امریکا دخل درمعقولات کی علت اور بھارت خطے کا تھانیدار بننا چاہتا ہے ۔سوچ کا فرق واضح ہے ۔ حکومت چین کے ترجمان نے جو کہا وہ انتہائی واضح اور دوٹوک ہے،جنگ سے نفرت اور امن سے محبت کی سوچ سے ہی خطے میں معاشی ترقی کا پہیہ گھومے گا۔ لہذا بھارتی اور امریکی لابی کی سازشیں ناکامی سے دوچار ہونگی، چین نے تو ون بیلٹ ون روڈ میں بھارت کو بھی شمولیت کی دعوت دی ہے جو اس کے خلوص نیت کی نشاندہی کرتا ہے ۔
دوسری جانب بلوچستان کے صدرمقام وادی کوئٹہ میں چینی جوڑے کے اغوا سے بظاہر سراسیمگی پھیلی ہے ، لیکن اس کے پیچھے بھی ایک ایسی سازش کے تانے بانے نظر آتے ہیں جو ان ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں ، چینی باشندوں کے اغوا میں سی پیک مخالف قوتوں کے ملوث ہونے کے امکانات ہیں جو ایسی مذموم کارروائی کرکے منصوبے کو ناکام بنانا چاہتی ہیں، بلاشبہ مغویوں کی باحفاظت بازیابی کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں اور امید ہے کہ وہ بازیاب ہوجائیں گے۔ حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کو چاہیے کہ چینی باشندوں کی حفاظت کے لیے ایسے فول پروف سیکیورٹی انتظامات کیے جائیں تاکہ اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہوسکے ۔ مہمانوں اور سچے دوستوں کی حفاظت کی ذمے داری پاکستانیوں کا فرض ہے اور انھیں اس فرض میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔