بھارت کا ڈیفنس ڈاکٹرائنپاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی
بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ دورِ امن میں پڑوسی ممالک کے اندر اپنی ہمہ جہت مہمات جاری رکھتی ہے
بھارت نے حال ہی میں ''جوائنٹ آرمڈ فورسز ڈاکٹرائن'' کا اعلان کیا ہے۔ اس میں پیش کیے گئے تصور کے مطابق بری، بحری اور فضائی افواج ایک قوت کی شکل اختیار کرلیں گی۔ اس ڈاکٹرائن میں اہداف، تکنیک، رسل و رسائل، سروسز اور کمانڈ کے ڈھانچے کو باہم مربوط کردیا گیا ہے۔ اب یہ تینوں افواج الگ الگ آپریشنز کے بجائے یکجا ہو کر بیرونی و اندرونی خطرات(اس میں بھارت کے مختلف خطوں میں پائی جانے والی بائیں بازوں کی شدت پسند تنظیمیں بھی شامل ہیں) کا مقابلہ کریں گی۔ ہر فوج کی انفرادی صلاحیت کی بہتری کے بجائے کوآرڈینیشن کو بہتر بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' دورِ امن میں پڑوسی ممالک کے اندر اپنی ہمہ جہت مہمات جاری رکھتی ہے۔ اس مہم جوئی میں ''را''سوشل میڈیا، سیاسی و عسکری ذرایع، دفاعی و انسدادی اداروں ، ٹیکنالوجی وغیرہ کا بھرپور استعمال کرتی ہے۔ انھی خفیہ جنگوں کی باقاعدہ حکمت عملی اب مرتب کرلی گئی ہے۔ ''را''نے ہمسایہ ممالک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں رسوخ پانے کے لیے کمزور کردار رکھنے والوں کا جس طرح استعمال کیا ، وہ حیرت انگیز ہے۔
اس ڈاکٹرائن میں مقبوضہ کشمیر کے لیے ''اسلامی شدت'' کو ''داخلی خطرات'' میں سر فہرست رکھا گیا ہے لیکن بھارتی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں کا تذکرہ تک نہیں۔ نکسل شدت پسند (بھارت کے 707میں سے) 75 اضلاع میں معاشی ترقی اور سیکیورٹی کے لیے وسطی بھارت میں سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ عالمی قوت بننے کا آرزو مند بھارت، خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے، پاکستان کو دہشت گردی کا ''مرکز''بنانا چاہتا ہے۔ بھارت کلبھوشن یادیو جیسے نیٹ ورکس کے ذریعے پڑوسی ممالک میں ''ریاستی دہشت گردی'' برآمد کر رہا ہے جب کہ کوئی مربوط حکمت عملی نہ ہونے کے سبب اپنے ہی ملک میں نکسل دہشت گردی کو قابو پانے میں ناکام ہے۔ میزورام، مانی پور، ناگالینڈ، بوڈو لینڈ اور آسام میں سر اٹھاتے خلفشار کا ذکر ہی کیا؟
بھارت کے وضع کردہ اس تازہ ڈاکٹرائن کے لہجے سے بہت کچھ عیاں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ''بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے والوں'' کے خلاف جوابی کارروائی خارج از امکان نہیں۔ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ کسی بھی ''اشتعال انگیزی دہشت گردانہ کارروائی''کے خلاف''سرجیکل اسٹرائیک'' کو جوابی کارروائی کا حربہ قرار دیا گیا ہے لیکن یہ کس نوعیت کی کارروائی ہوگی، اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ گذشتہ برس ستمبر میں جب بھارت نے لائن آف کنٹرول کے نزدیک ''دہشت گردی کے ٹھکانوں''کے خلاف ''سرجیکل اسٹرائیک''کرنے کا دعویٰ کیا تو بھارت کے فتنہ جُو الیکٹرانک میڈیا نے اس معاملے کو فلمی انداز میں پیش کیا۔
بھارت کو شمال مغربی کمانڈ (ایس ڈبلیو سی) قائم کیے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اس علاقے میں بھاری تعداد میں فوج کی منتقلی سے صحرا میں بھارت کو نقل و حرکت کے لیے کھلا میدان دستیاب ہے۔ڈاکٹرائن میں سرحد پار قوت کو برابر کرنے کے لیے ہیلی کاپٹروں کی بڑی کھیپ اس علاقے میں بھیجنے کا اشارہ دیا گیا ہے، پاکستان کو اس حوالے سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ روایتی فوج کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اس علاقے میں بروقت ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار نصب کرکے پیش بندی کردینی چاہیے۔
بھارتی میڈیا کے جارحانہ لہجے کے برخلاف بھارتی عسکری تجزیہ کار، سابق افسران اور دفاعی امور کے ماہرین ''جوائنٹ ڈاکٹرائن'' کے شدید ناقد ہیں اور اسے غیر پیشہ ورانہ اور لا یعنی قرار دے رہے ہیں۔ 7مئی کے ''انڈیا ٹوڈے'' میں معروف تجزیہ کار بھرت کرناڈ اس ڈاکٹرائن کو '' بے ڈھب، کسی دوسرے درجے کے مبتدی کا لکھا ہوا مقالہ'' اور انتہائی ناقص قرار دیا۔ بھرت کرناڈ نے ایک اور مضمون میں لکھا'' میں 30برس سے بھارتی فوج کی جانب سے خطرات کے ادراک میں غلط سمت کی نشاندہی کر رہا ہوں۔
اگر بنیاد کو درست نہیں کیا جائے گا تو بھلا ہماری افواج درست سمت کا تعین کیسے کریں گی؟ بہرحال یہ(ڈاکٹرائن) بالواسطہ سہی، میرے خدشات کا ایک اور ثبوت ہے کہ ہم اپنے فوج کے دماغ پر ایک ہی خطرہ سوار کیے ہوئے ہیں یعنی پاکستان۔ ڈاکٹرائن میں ''اسٹریٹجک انوائرمنٹ اسکین'' کے عنوان سے ایک باب شامل ہے جس میں''سرحدی استحکام کے لیے حفاظتی اقدامات کی ضرورت'' پر زور دیتے ہوئے ''متنازعہ سرحدوں''میںمغربی سرحد پر لائن آف کنڑول (ایل او سی) کا تذکرہ تو سرفہرست ہے لیکن بھارت اور چین کے زیر انتظام علاقے کی سرحد ''لائن آف ایکچول کنڑول'' کا تذکرہ نہیں جب کہ یہاں درپیش خدشات زیادہ ہولناک ہیں۔''
بھارتی نیوی کے سابق چیف اور سابق چیف آف اسٹاف کمیٹی ایڈمرل ارون پرکاش نے اس دستاویز کو ''فریب، مضحکہ خیز اور غیر سنجیدہ'' قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں'' اس میں (افواج کی طلب و رسد اور دیگر ضروریات کی فراہمی سے متعلق) ربط کا تذکرہ نہیں، ایسے ڈاکٹرائن لایعنی ہوتے ہیں۔''
بروکنگ انسٹی ٹیوشن کے انیت مکھر جی کہتے ہیں '' ایسی دستاویز کا ایک مقصد اپنے اتحادی اور مخالفین کو اپنے عزائم سے آگاہ کرنے کے لیے پیغام دینا بھی ہوتا ہے۔ یہ ڈاکٹرائن اس مقصد پر بھی اس لیے پورا نہیں اترتا کہ اسے مرتب کرنے والے اس میں '' قومی تحفظ کی حکمت عملی'' واضح کرنے میں ناکام رہے ہیں۔''
جوائنٹ ڈاکٹرائن میں جغرافیائی محل وقوع کی مدد سے خطے میں بھارت کے اثر و رسوخ اور قوت کو مبالغہ آمیز انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ بحرہند میں چین کی موجودگی نے عالمی جغرافیائی سیاست کی توجہ ایشیا پیسفک کی طرف مرکوز کردی ہے۔ بھارتی عزائم سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اس صورت حال میں، دشمن کا دشمن دوست کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے، امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔ چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت نے خطے میں واشنگٹن کے مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ڈاکٹرائن میں ''جغرافیائی سیاست میں دوبارہ توازن کے قیام'' کے لیے ''ابھرتی ہوئی طاقتوں کے رویے میں بڑھتی ہوئی جارحیت'' کا تذکرہ کرکے چین کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
بھارت کو خدشہ ہے کہ اس کے کچھ پڑوسی اپنی خود مختاری کو درپیش خطرات کے باعث چین کے مزید قریب ہو جائیں گے۔ بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی جانب پاکستان کی مثال دے کر اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس ڈاکٹرائن میں نیپال اور مالدیپ کے اندرونی عدم استحکام کی بھی بالواسطہ نشان دہی کی گئی ہے۔
دنیا کی یادداشت کمزور ہو تو یاد دلایا جاسکتاہے کہ بھارت اپنے پڑوس میں سکم، سری لنکا، نیپال اور مالدیپ کے اندر مہم جوئی کرچکا ہے۔ 1970میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پسند تحریک کی حمایت بھی ایسی ہی مہم تھی۔
راقم جنگ شروع ہونے سے قبل مارچ تا دسمبر 1971 میں بھارتی فوج کی قید کا تجربہ رکھتا ہے۔ اس لیے پورا اندازہ ہے کہ بھارت اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتا ہے۔ اس کے باوجود یہ رومان آمیز واہمہ قائم رہا کہ جنوبی ایشیا میں صدیوں ساتھ رہنے والوں کے مابین رنگ، نسل اور مذہب کے نام پر بوئی گئی نفرتیں ایک دن دم توڑ جائیں گی۔ بھارت میں کئی قابلِ احترام دوست ہی کیوں نہ ہوں لیکن ہندوتوا کا متعصبانہ نظریہ اور پاکستان کے ساتھ ناقابل فہم عناد رکھنے والوں کا علاج کیا ہو؟ دہائیوں سے جاری یہ خفیہ جنگ ہمارے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کو بھی لپیٹ میں لے گی۔ امن کی آرزو دم توڑ رہی ہے، اس سے مایوسی کا احساس تو ہوتا ہے مگر ہمارے پاس مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد شدت اختیار کرنے والی اس ہمہ جہت جنگ میں بھرپور مقابلہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اجیت دوال کا اعلان واضح ہے''ہمیں پاکستان کو زخم لگانے کی کھلی چھوٹ ہے۔''
بھارتی کا یہ نیا جنگی ڈاکٹرائن 2500برس قبل لکھی گئی ''ارتھ شاستر'' کا متبادل نہیں، ''را'' جس پر60ء کی دہائی میں اپنے قیام کے وقت سے عمل پیرا ہے۔ نو تشکیل اتحادوں پر انحصار کرتے ہوئے بھارت خطے میں بالادستی کا خواب پورا کرنے کے لیے سرحد پار قوت کے اظہار کی جو حکمت عملی تیار کرچکا، اس کے عزائم اس سے واضح ہیں۔ بھارت 70ء کی دہائی میں شاہِ ایران جیسا کردار اپنے لیے منتخب کرچکا ہے، جب ایران کو خطے میں امریکا کا ''پولیس مین''کہا جاتا تھا۔ امریکا کو مطمئن کرنے کے لیے چین کے خطرے کا واویلا ضرور کیا گیا ہے لیکن اس جنگی ڈاکٹرائن کا بین السطور پیغام واضح ہے کہ خطے میں بھارتی بالادستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے اوراس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے بھارت اپنے عزائم واضح کرچکا ہے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' دورِ امن میں پڑوسی ممالک کے اندر اپنی ہمہ جہت مہمات جاری رکھتی ہے۔ اس مہم جوئی میں ''را''سوشل میڈیا، سیاسی و عسکری ذرایع، دفاعی و انسدادی اداروں ، ٹیکنالوجی وغیرہ کا بھرپور استعمال کرتی ہے۔ انھی خفیہ جنگوں کی باقاعدہ حکمت عملی اب مرتب کرلی گئی ہے۔ ''را''نے ہمسایہ ممالک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں رسوخ پانے کے لیے کمزور کردار رکھنے والوں کا جس طرح استعمال کیا ، وہ حیرت انگیز ہے۔
اس ڈاکٹرائن میں مقبوضہ کشمیر کے لیے ''اسلامی شدت'' کو ''داخلی خطرات'' میں سر فہرست رکھا گیا ہے لیکن بھارتی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں کا تذکرہ تک نہیں۔ نکسل شدت پسند (بھارت کے 707میں سے) 75 اضلاع میں معاشی ترقی اور سیکیورٹی کے لیے وسطی بھارت میں سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ عالمی قوت بننے کا آرزو مند بھارت، خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے، پاکستان کو دہشت گردی کا ''مرکز''بنانا چاہتا ہے۔ بھارت کلبھوشن یادیو جیسے نیٹ ورکس کے ذریعے پڑوسی ممالک میں ''ریاستی دہشت گردی'' برآمد کر رہا ہے جب کہ کوئی مربوط حکمت عملی نہ ہونے کے سبب اپنے ہی ملک میں نکسل دہشت گردی کو قابو پانے میں ناکام ہے۔ میزورام، مانی پور، ناگالینڈ، بوڈو لینڈ اور آسام میں سر اٹھاتے خلفشار کا ذکر ہی کیا؟
بھارت کے وضع کردہ اس تازہ ڈاکٹرائن کے لہجے سے بہت کچھ عیاں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ''بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے والوں'' کے خلاف جوابی کارروائی خارج از امکان نہیں۔ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ کسی بھی ''اشتعال انگیزی دہشت گردانہ کارروائی''کے خلاف''سرجیکل اسٹرائیک'' کو جوابی کارروائی کا حربہ قرار دیا گیا ہے لیکن یہ کس نوعیت کی کارروائی ہوگی، اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ گذشتہ برس ستمبر میں جب بھارت نے لائن آف کنٹرول کے نزدیک ''دہشت گردی کے ٹھکانوں''کے خلاف ''سرجیکل اسٹرائیک''کرنے کا دعویٰ کیا تو بھارت کے فتنہ جُو الیکٹرانک میڈیا نے اس معاملے کو فلمی انداز میں پیش کیا۔
بھارت کو شمال مغربی کمانڈ (ایس ڈبلیو سی) قائم کیے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اس علاقے میں بھاری تعداد میں فوج کی منتقلی سے صحرا میں بھارت کو نقل و حرکت کے لیے کھلا میدان دستیاب ہے۔ڈاکٹرائن میں سرحد پار قوت کو برابر کرنے کے لیے ہیلی کاپٹروں کی بڑی کھیپ اس علاقے میں بھیجنے کا اشارہ دیا گیا ہے، پاکستان کو اس حوالے سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ روایتی فوج کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اس علاقے میں بروقت ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار نصب کرکے پیش بندی کردینی چاہیے۔
بھارتی میڈیا کے جارحانہ لہجے کے برخلاف بھارتی عسکری تجزیہ کار، سابق افسران اور دفاعی امور کے ماہرین ''جوائنٹ ڈاکٹرائن'' کے شدید ناقد ہیں اور اسے غیر پیشہ ورانہ اور لا یعنی قرار دے رہے ہیں۔ 7مئی کے ''انڈیا ٹوڈے'' میں معروف تجزیہ کار بھرت کرناڈ اس ڈاکٹرائن کو '' بے ڈھب، کسی دوسرے درجے کے مبتدی کا لکھا ہوا مقالہ'' اور انتہائی ناقص قرار دیا۔ بھرت کرناڈ نے ایک اور مضمون میں لکھا'' میں 30برس سے بھارتی فوج کی جانب سے خطرات کے ادراک میں غلط سمت کی نشاندہی کر رہا ہوں۔
اگر بنیاد کو درست نہیں کیا جائے گا تو بھلا ہماری افواج درست سمت کا تعین کیسے کریں گی؟ بہرحال یہ(ڈاکٹرائن) بالواسطہ سہی، میرے خدشات کا ایک اور ثبوت ہے کہ ہم اپنے فوج کے دماغ پر ایک ہی خطرہ سوار کیے ہوئے ہیں یعنی پاکستان۔ ڈاکٹرائن میں ''اسٹریٹجک انوائرمنٹ اسکین'' کے عنوان سے ایک باب شامل ہے جس میں''سرحدی استحکام کے لیے حفاظتی اقدامات کی ضرورت'' پر زور دیتے ہوئے ''متنازعہ سرحدوں''میںمغربی سرحد پر لائن آف کنڑول (ایل او سی) کا تذکرہ تو سرفہرست ہے لیکن بھارت اور چین کے زیر انتظام علاقے کی سرحد ''لائن آف ایکچول کنڑول'' کا تذکرہ نہیں جب کہ یہاں درپیش خدشات زیادہ ہولناک ہیں۔''
بھارتی نیوی کے سابق چیف اور سابق چیف آف اسٹاف کمیٹی ایڈمرل ارون پرکاش نے اس دستاویز کو ''فریب، مضحکہ خیز اور غیر سنجیدہ'' قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں'' اس میں (افواج کی طلب و رسد اور دیگر ضروریات کی فراہمی سے متعلق) ربط کا تذکرہ نہیں، ایسے ڈاکٹرائن لایعنی ہوتے ہیں۔''
بروکنگ انسٹی ٹیوشن کے انیت مکھر جی کہتے ہیں '' ایسی دستاویز کا ایک مقصد اپنے اتحادی اور مخالفین کو اپنے عزائم سے آگاہ کرنے کے لیے پیغام دینا بھی ہوتا ہے۔ یہ ڈاکٹرائن اس مقصد پر بھی اس لیے پورا نہیں اترتا کہ اسے مرتب کرنے والے اس میں '' قومی تحفظ کی حکمت عملی'' واضح کرنے میں ناکام رہے ہیں۔''
جوائنٹ ڈاکٹرائن میں جغرافیائی محل وقوع کی مدد سے خطے میں بھارت کے اثر و رسوخ اور قوت کو مبالغہ آمیز انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ بحرہند میں چین کی موجودگی نے عالمی جغرافیائی سیاست کی توجہ ایشیا پیسفک کی طرف مرکوز کردی ہے۔ بھارتی عزائم سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اس صورت حال میں، دشمن کا دشمن دوست کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے، امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔ چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت نے خطے میں واشنگٹن کے مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ڈاکٹرائن میں ''جغرافیائی سیاست میں دوبارہ توازن کے قیام'' کے لیے ''ابھرتی ہوئی طاقتوں کے رویے میں بڑھتی ہوئی جارحیت'' کا تذکرہ کرکے چین کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
بھارت کو خدشہ ہے کہ اس کے کچھ پڑوسی اپنی خود مختاری کو درپیش خطرات کے باعث چین کے مزید قریب ہو جائیں گے۔ بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی جانب پاکستان کی مثال دے کر اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس ڈاکٹرائن میں نیپال اور مالدیپ کے اندرونی عدم استحکام کی بھی بالواسطہ نشان دہی کی گئی ہے۔
دنیا کی یادداشت کمزور ہو تو یاد دلایا جاسکتاہے کہ بھارت اپنے پڑوس میں سکم، سری لنکا، نیپال اور مالدیپ کے اندر مہم جوئی کرچکا ہے۔ 1970میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پسند تحریک کی حمایت بھی ایسی ہی مہم تھی۔
راقم جنگ شروع ہونے سے قبل مارچ تا دسمبر 1971 میں بھارتی فوج کی قید کا تجربہ رکھتا ہے۔ اس لیے پورا اندازہ ہے کہ بھارت اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتا ہے۔ اس کے باوجود یہ رومان آمیز واہمہ قائم رہا کہ جنوبی ایشیا میں صدیوں ساتھ رہنے والوں کے مابین رنگ، نسل اور مذہب کے نام پر بوئی گئی نفرتیں ایک دن دم توڑ جائیں گی۔ بھارت میں کئی قابلِ احترام دوست ہی کیوں نہ ہوں لیکن ہندوتوا کا متعصبانہ نظریہ اور پاکستان کے ساتھ ناقابل فہم عناد رکھنے والوں کا علاج کیا ہو؟ دہائیوں سے جاری یہ خفیہ جنگ ہمارے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کو بھی لپیٹ میں لے گی۔ امن کی آرزو دم توڑ رہی ہے، اس سے مایوسی کا احساس تو ہوتا ہے مگر ہمارے پاس مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد شدت اختیار کرنے والی اس ہمہ جہت جنگ میں بھرپور مقابلہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اجیت دوال کا اعلان واضح ہے''ہمیں پاکستان کو زخم لگانے کی کھلی چھوٹ ہے۔''
بھارتی کا یہ نیا جنگی ڈاکٹرائن 2500برس قبل لکھی گئی ''ارتھ شاستر'' کا متبادل نہیں، ''را'' جس پر60ء کی دہائی میں اپنے قیام کے وقت سے عمل پیرا ہے۔ نو تشکیل اتحادوں پر انحصار کرتے ہوئے بھارت خطے میں بالادستی کا خواب پورا کرنے کے لیے سرحد پار قوت کے اظہار کی جو حکمت عملی تیار کرچکا، اس کے عزائم اس سے واضح ہیں۔ بھارت 70ء کی دہائی میں شاہِ ایران جیسا کردار اپنے لیے منتخب کرچکا ہے، جب ایران کو خطے میں امریکا کا ''پولیس مین''کہا جاتا تھا۔ امریکا کو مطمئن کرنے کے لیے چین کے خطرے کا واویلا ضرور کیا گیا ہے لیکن اس جنگی ڈاکٹرائن کا بین السطور پیغام واضح ہے کہ خطے میں بھارتی بالادستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے اوراس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے بھارت اپنے عزائم واضح کرچکا ہے۔