دہشت گردی اور بھتہ خوری کا ناسور
دہشت گردوں کی سفاکی کو دیکھتے ہوئے اداروں کو نئی حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گی.
کراچی میں جمعرات کو دو بم دھماکے اور اس کے بعد دہشت گردی کے مزید واقعات اس امر کا در حقیقت اعلان تھے کہ دہشت گردوں کو اس عظیم ہستی کے یوم ولادت کا بھی کوئی پاس نہیں جنھیں باری تعالیٰ نے پوری کائنات کے لیے رحمت اللعالمینؐ کہہ کر پکارا ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وفاقی وزارت داخلہ کی ہدایات اور کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بارہ ربیع الاول کے موقع پر دہشت گردی کی وارداتوں کے خطرہ کے پیش نظر ہائی الرٹ کی ہدایت کی تھی ، انتظامیہ نے اگرچہ سکیورٹی کے مکمل اقدامات کر رکھے تھے، جلوسوں کی نگرانی کے لیے پولیس اور رینجرز کے دستے گشت پر مامور تھے ،موبائل فون اور ڈبل سواری پر بھی پابندی تھی مگر دہشت گروں نے لانڈھی کے شیر پائو کالونی، سہراب گوٹھ،اور منگھوپیر میں دھماکے کیے جس میں ڈی ایس پی سمیت سب انسپکٹر، اور سکیورٹی گارڈ شہید ہوگئے جب کہ ایس ایچ او سمیت 17 افراد زخمی ہوگئے۔
حسب دستور کوئی قاتل اور بم دھماکوں میں ملوث ملزمان گرفتار نہیں ہوسکے،41 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا جن کے قبضہ سے اسلحہ اور منشیات برآمد کی گئیں۔ ہفتہ کی شام تک مزید ہلاکتوں کی اطلاعات ملیں جن کے مطابق دو افراد ناگن چورنگی، دو جہانگیر روڈ،ایک کورنگی ،اور ایک لانڈھی شیرپائو کالونی میں فائرنگ سے ہلاک ہوا ۔اندیشہ ہے ان ہلاکتوں کی وجہ سے جس میں ایک کالعدم تنظیم کے بھی کچھ لوگ جاں بحق ہوئے ہیں، صورتحال مزید سنگین ہوسکتی ہے۔تاحال پولیس کی طرف سے طالبان کی اتنی بڑی تعداد کے شہر میں داخلہ پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ادھر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ برائون کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خطرات ابھی بھی موجود ہیں ۔ جمعرات کو افغان فوج کی ایک بار پھر پاکستانی حدود میں گولہ باری جاری تھی۔
کچھ روز قبل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ کراچی میں 5 ہزار طالبان داخل ہوچکے ہیں جس پر عدالت عظمیٰ نے یہ چشم کشا ریمارکس دیئے تھے کہ طالبان کو کنٹرول کرنا کچھ ایسا مشکل کام نہیں ہے لیکن دیکھا جائے تو دہشت گردوں کو شہر میں داخل ہونے یا ملک کے کسی بھی حساس حصے میں خود کش حملہ کرنے یا بم دھماکوں سے بیگناہ شہریوں کو ہلاک کرنے سے روکنے کی راہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی تک سکیورٹی کی کوئی سیسہ پلائی ہوئی دیوار تعمیر نہ کرسکے ۔ اسی سے دہشت گردوں کو شہ ملتی ہے ، اس لیے دہشت گردوں کے ایجنڈے کی سفاکی کو دیکھتے ہوئے سلامتی پر مامور اداروں کو اپنا سکیورٹی پلان تبدیل کرنا اور نئی حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گی ۔اب اس عذر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ دہشت گردوں یا خود کش حملہ آوروں کو ہدف تک جانے سے روکنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
یہ ضمانت ہر شہری کو دہشت گردی کی واردات سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے کیونکہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والی بے رحم قوتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لیے تمام فورسز کو مربوط جارحانہ پالیسی وضع کرنی چاہیے تاکہ جس وحشیانہ طریقے سے دہشت گرد شہریوں کو ہلاک کررہے ہیں اس کا جواب انہی قوتوں کے طریقے کے مطابق پولیس، رینجرز اوردیگر فورسز کودینا چاہیے۔ پوری قوم کو یہ یقین ہے کہ دہشت گرد ہماری فوج ، پولیس، رینجرز اور ایف سی سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتے ،ان کا سر کچلا جاسکتا ہے ۔ادھر سکیورٹی کے اسی کمزور میکنزم کے باعث کراچی کا ایک حساس ساحلی علاقہ فش ہاربر بھی بھتہ خوروں کا نشانہ بن گیا ہے اور گزشتہ چند روز سے اس بات کا خطرہ بڑھتا جارہا تھا کہ صنعت ماہی گیری بھتہ خوری کے خلاف ہڑتال پر مجبور ہوجائیگی۔
اس نے پولیس کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دے دیا ہے کہ وہ فش ہاربر کی حدود میں امن کے قیام اور بھتہ خوری کی وارداتوں کے مکمل سدباب کے لیے ایکشن لے ۔ بتایا جاتا ہے کہ تجارتی اور کاروباری علاقوں اولڈ ایریا،گارڈن، ٹاور، ڈیفنس،کلفٹن ،طارق روڈ کے بعد اب فش ہاربر کے تمام راستوں پربھتہ لیا جا رہا ہے۔ان گروپوں کے ہاتھوں متعدد کاروباری افراد اغوا اور قتل بھی ہوچکے ہیں جب کہ بھتے کی رقم پر جھگڑے بھی معمول بن چکے ہیں۔ فش ہاربر پر روزانہ کروڑوں روپے کے جھینگوں اور مچھلی کی نیلامی ہوتی ہے اور سی فوڈ،فریزنگ پلانٹس اور کشتیاں بنانے والے گروپس نے صورتحال سے تنگ آکر ہڑتال کا الٹی میٹم دے دیا ہے جس سے صنعت ماہی گیری کو اربوں روپے کے خسارے اور محنت کشوں کو بیروزگاری کا سامنا کرنا پڑیگا۔
سوال یہ ہے کہ پولیس اور رینجرز ویسٹ وہارف،ایسٹ وہارف ،شپ یارڈ روڈ، اور آئی سی آئی برج پر فورسز کے ڈپلائمنٹ سے کترا کیوں رہی ہیں ۔ رینجرزکئی سالوں سے پیپلز اسپورٹس کمپلیکس میں سکونت پزیر ہے جب کہ آئی سی آئی پل سمیت پورے ماڑی پور روڈپر اس کا گشت جاری رہنا چاہیے ۔تاہم مشاہدے میں آیا ہے کہ گینگ وار والوں کے لیے فش ہاربر نے اب لیاری اور دیگر شہری علاقوں کے بعد سونے کی کانکا درجہ حاصل کرلیا ہے جہاں بھتہ خوروں کو وارداتوں کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر دم نہ لیا جائے۔دہشت گرد اور بھتہ خور جمہوری نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں ،یہ ناسور ہیں۔ملکی صورتحال اور بلوچستان سمیت دیگر شہروںٕ میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات آئندہ انتخابات کے شفاف انعقاد کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں چنانچہ حکمرانوں کو دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے پلان کو جنگی بنیادوں پر مربوط کرنا چاہیے اور سکیورٹی اور داخلی امن ومان کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جانی چاہیے۔
حسب دستور کوئی قاتل اور بم دھماکوں میں ملوث ملزمان گرفتار نہیں ہوسکے،41 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا جن کے قبضہ سے اسلحہ اور منشیات برآمد کی گئیں۔ ہفتہ کی شام تک مزید ہلاکتوں کی اطلاعات ملیں جن کے مطابق دو افراد ناگن چورنگی، دو جہانگیر روڈ،ایک کورنگی ،اور ایک لانڈھی شیرپائو کالونی میں فائرنگ سے ہلاک ہوا ۔اندیشہ ہے ان ہلاکتوں کی وجہ سے جس میں ایک کالعدم تنظیم کے بھی کچھ لوگ جاں بحق ہوئے ہیں، صورتحال مزید سنگین ہوسکتی ہے۔تاحال پولیس کی طرف سے طالبان کی اتنی بڑی تعداد کے شہر میں داخلہ پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ادھر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ برائون کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خطرات ابھی بھی موجود ہیں ۔ جمعرات کو افغان فوج کی ایک بار پھر پاکستانی حدود میں گولہ باری جاری تھی۔
کچھ روز قبل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ کراچی میں 5 ہزار طالبان داخل ہوچکے ہیں جس پر عدالت عظمیٰ نے یہ چشم کشا ریمارکس دیئے تھے کہ طالبان کو کنٹرول کرنا کچھ ایسا مشکل کام نہیں ہے لیکن دیکھا جائے تو دہشت گردوں کو شہر میں داخل ہونے یا ملک کے کسی بھی حساس حصے میں خود کش حملہ کرنے یا بم دھماکوں سے بیگناہ شہریوں کو ہلاک کرنے سے روکنے کی راہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی تک سکیورٹی کی کوئی سیسہ پلائی ہوئی دیوار تعمیر نہ کرسکے ۔ اسی سے دہشت گردوں کو شہ ملتی ہے ، اس لیے دہشت گردوں کے ایجنڈے کی سفاکی کو دیکھتے ہوئے سلامتی پر مامور اداروں کو اپنا سکیورٹی پلان تبدیل کرنا اور نئی حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گی ۔اب اس عذر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ دہشت گردوں یا خود کش حملہ آوروں کو ہدف تک جانے سے روکنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
یہ ضمانت ہر شہری کو دہشت گردی کی واردات سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے کیونکہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والی بے رحم قوتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لیے تمام فورسز کو مربوط جارحانہ پالیسی وضع کرنی چاہیے تاکہ جس وحشیانہ طریقے سے دہشت گرد شہریوں کو ہلاک کررہے ہیں اس کا جواب انہی قوتوں کے طریقے کے مطابق پولیس، رینجرز اوردیگر فورسز کودینا چاہیے۔ پوری قوم کو یہ یقین ہے کہ دہشت گرد ہماری فوج ، پولیس، رینجرز اور ایف سی سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتے ،ان کا سر کچلا جاسکتا ہے ۔ادھر سکیورٹی کے اسی کمزور میکنزم کے باعث کراچی کا ایک حساس ساحلی علاقہ فش ہاربر بھی بھتہ خوروں کا نشانہ بن گیا ہے اور گزشتہ چند روز سے اس بات کا خطرہ بڑھتا جارہا تھا کہ صنعت ماہی گیری بھتہ خوری کے خلاف ہڑتال پر مجبور ہوجائیگی۔
اس نے پولیس کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دے دیا ہے کہ وہ فش ہاربر کی حدود میں امن کے قیام اور بھتہ خوری کی وارداتوں کے مکمل سدباب کے لیے ایکشن لے ۔ بتایا جاتا ہے کہ تجارتی اور کاروباری علاقوں اولڈ ایریا،گارڈن، ٹاور، ڈیفنس،کلفٹن ،طارق روڈ کے بعد اب فش ہاربر کے تمام راستوں پربھتہ لیا جا رہا ہے۔ان گروپوں کے ہاتھوں متعدد کاروباری افراد اغوا اور قتل بھی ہوچکے ہیں جب کہ بھتے کی رقم پر جھگڑے بھی معمول بن چکے ہیں۔ فش ہاربر پر روزانہ کروڑوں روپے کے جھینگوں اور مچھلی کی نیلامی ہوتی ہے اور سی فوڈ،فریزنگ پلانٹس اور کشتیاں بنانے والے گروپس نے صورتحال سے تنگ آکر ہڑتال کا الٹی میٹم دے دیا ہے جس سے صنعت ماہی گیری کو اربوں روپے کے خسارے اور محنت کشوں کو بیروزگاری کا سامنا کرنا پڑیگا۔
سوال یہ ہے کہ پولیس اور رینجرز ویسٹ وہارف،ایسٹ وہارف ،شپ یارڈ روڈ، اور آئی سی آئی برج پر فورسز کے ڈپلائمنٹ سے کترا کیوں رہی ہیں ۔ رینجرزکئی سالوں سے پیپلز اسپورٹس کمپلیکس میں سکونت پزیر ہے جب کہ آئی سی آئی پل سمیت پورے ماڑی پور روڈپر اس کا گشت جاری رہنا چاہیے ۔تاہم مشاہدے میں آیا ہے کہ گینگ وار والوں کے لیے فش ہاربر نے اب لیاری اور دیگر شہری علاقوں کے بعد سونے کی کانکا درجہ حاصل کرلیا ہے جہاں بھتہ خوروں کو وارداتوں کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر دم نہ لیا جائے۔دہشت گرد اور بھتہ خور جمہوری نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں ،یہ ناسور ہیں۔ملکی صورتحال اور بلوچستان سمیت دیگر شہروںٕ میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات آئندہ انتخابات کے شفاف انعقاد کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں چنانچہ حکمرانوں کو دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے پلان کو جنگی بنیادوں پر مربوط کرنا چاہیے اور سکیورٹی اور داخلی امن ومان کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جانی چاہیے۔