ایک ہزار ٹن
ریٹائرڈ باباجی دفتر میں داخل ہوئے تو ایک آہ بھر کے بیٹھ گئے اور طویل وقفے کے بعد بولے… ’’الحمدﷲ… دوسری بار بچا ہوں
آج کا قاری بہت ہوشیار ہے۔ حالات اور ان کے پس منظر سے آگاہی کے لیے اسے اب اگلے دن اور اگلے ہفتے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ خبر اس کے سامنے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ وہ اس کے لمحہ بہ لمحہ اتار چڑھائو سے پوری طرح واقف ہوتا ہے اور بات آگے بڑھانے کے لیے صرف ایک اشارہ ہی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں براہ راست بات کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ پس منظر بتانے پر جگہ برباد نہیں کرتا۔ مثلاً اگر میں فقط ڈی چوک اور اسلام آباد لکھوں تو پھر کچھ اور بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن ٹھہریے۔ آپ سوچ رہے ہیں کہ میں بہلا پھسلا کے آپ کو اسی طرف لے جانے کی کوشش میں ہوں جہاں آپ پہلے ہی گردن تک دھنسے ہوئے ہیں۔ یقین کیجیے میرا آج کا موضوع کینیڈا سے آیا ہوا کوئی شخص نہیں ہے۔ یہ جو آپ تنگ آئے ہوئے ہیں اور ٹی وی کے ہر پروگرام، اخبار کے ہر کالم میں اس کا نام دیکھ کر اپنے بال نوچ لیتے ہیں، اخبار پھینک دیتے ہیں تو بس اب حوصلہ رکھیں، وہ ذکر تمام ہوا۔ میرا موضوع تو فقط بے چارہ اسلام آباد کا ڈی چوک اور بلیو ایریا ہے۔ وہ ستم زدہ کوچہ جس کی آہ و بکا صاحبان دل کے سینوں میں شگاف کیے دے رہی ہے۔
بلیو ایریا میں، ان چار دنوں میں جو تباہی اور بربادی ہوئی اس کی وجہ سے پورا اسلام آباد اداس ہے۔ ساتھ ہی میرا دل بھی خون کے آنسو رو رہا ہے۔ دکانیں اور راستے بند ہونے کی وجہ سے جو تکلیف اٹھانی پڑی اس کے باعث دکاندار بھی چیخ رہے ہیں اور گاہک بھی چلا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہاکروں، ٹیکسیوں، مونگ پھلی بیچنے والوں، کوئلوں پر بھٹے تلنے والوں، گول گپے کی ریڑھیوں، راکھ میں شکرقندی بھوننے والوں اور پان سگریٹ، بوتل کی سروس دینے والوں، سبھی کا بزنس ٹھپ ہوگیا۔ مسافروں کو میل ڈیڑھ میل تک کا ایکسٹرا فاصلہ طے کرنا پڑا اور پٹرول برباد ہوا۔ کاہل نوجوانوں کی شیو بڑھ گئی اور فون کارڈ نہ ملنے کی وجہ سے نازک رابطوں میں دراڑ آگئی۔ چار دنوں کا یہ دکھ چار صدیوں پر محیط تھا۔ اوپر سے سوٹن غلاظت والے معاملے نے صورت حال کو چار چاند لگادیے تھے۔
ہمیں چاہیے کہ ان تکالیف پر ذرا تفصیلی نظر ڈالیں اور کھلے دل کے ساتھ دارالحکومت کے باسیوں کے سیاپے میں شامل ہوجائیں۔ یہ اتنی اہم بات ہے کہ اس پر برسوں بات ہونی چاہیے۔ جلسے، تقریریں، سیمینار ہوں، پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جائیں اور اس المیے کی ایک یادگار تعمیر کی جائے جس پر ہر سال پھول چڑھائے جائیں، چراغ اور موم بتیاںروشن کی جائیں،اس دن پورے ملک میں چھٹی ہو اورسوگ میں ڈبل سواری، ٹرانسپورٹ اور موبائل فون بند ہوں۔ یہ بڑے لوگوں کا سوہنا شہر ہے، نازک مزاج اور نازک کمر حکمرانوں کا شہر، یہاں کے چھوٹے چھوٹے دکھ بھی بہت بڑے ہوتے ہیں، اتنے بڑے کہ آسمان سے بھی دکھائی دیں۔ لیکن میں کیاکروں؟ میں جس شہر ناپرساں کا باسی ہوں اس کے دکھ اتنے پرانے ہیں کہ شاید اسے اس کی قسمت قرار دیدیا گیا ہے۔
یوں جیسے کوئی پرانا، سدا کا مریض معمول کی ہمدردی کا بھی سزاوار نہیں رہتا، مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کراچی کا دکھڑا سنانے کی اجازت بھی ہے کہ نہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ حکمرانوں کا یہ سوتیلا شہر آج اس کرہ ارض کا سب سے مظلوم اور معصوم حصہ ہے، عوام بھی اور عوام کے نمائندے بھی حیران و پریشان ہیں کہ کیا چیز ہے جو اس شاندار شہر کو گھن کی طرح کھارہی ہے، قتل ہوتا ہے، جبر ہوتا ہے، ستم ہوتا ہے، ظلم ہوتا ہے اور ناانصافی ہوتی ہے مگر قاتل اور ستمگر بے چہرہ ہے، وہ قتل کرتا ہے تو کرامات کرتا ہے، اس کے چار گھنٹے کے دکھ بلیو ایریا کے چار دنوں سے سوا ہیں پھر بھی یہ سخت جان ہنستا ہے، کھیلتا ہے اور ملک کے ماتھے کا جھومر ہے، میں اس شہر کی خوبیاں گنوانے لگوں تو کالم نہیں کتاب درکار ہے۔ دو کروڑ نفوس نے بسرام کو اس کاانتخاب یونہی تو نہیں کیا ہے، پھر یہ کیا ہے کہ برسوں کے بعد وطن لوٹنے والا ایک نوجوان فون کرکے مجھ سے پوچھتا ہے کہ میں آرہا ہوں، بتایے میں کراچی میں اتروں یا کسی دوسرے شہر کی پرواز لے لوں؟
ریٹائرڈ باباجی دفتر میں داخل ہوئے تو ایک لمبی آہ بھر کے بیٹھ گئے اور طویل وقفے کے بعد بولے... ''الحمدﷲ... دوسری بار بچا ہوں'' سب ہمہ تن گوش ہوگئے، تفصیل پوچھی تو بولے، پہلی بار تو اپنے محلے میں بچا تھا، شام کو مغرب کی نماز کے لیے نکلا تو ایک گلی میں موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں نے آن لیا، ایک نے پستول میرے کولہے پر رکھا اور بولا ''بابا جی، نکال دو جو ہے'' میں نے کرتے کے دنوں کھیسے الٹ کے دکھادیے، کچھ بھی نہیں تھا، انھوں نے خوب تلاشی لی، پھر ایک نے کھسیانا ہوکے اپنے آپ کو گالی دی اور دوسرے نے میری اولاد کو، بولا ''بابا جی، آپ کی ... اولاد بھی بہت ہی نالائق ہے۔ اتنے بوڑھے باپ کو بے یار و مددگار گھر سے باہر چھوڑ دیتی ہے۔ نہ پیسہ نہ موبائل۔ کیا زمانہ آگیا ہے۔'' دوسرا واقعہ ابھی آج کا ہے، انھوں نے بتایا کہ وہ جونہی امراض قلب کے اسپتال سے باہر نکلے تو دو موٹر سائیکلوں نے ان کی ٹانگوں میں گھسنے کی کوشش کی۔ وہ سمجھے کہ راستہ مانگ رہے ہیں اس لیے فٹ پاتھ پر چڑھ گئے لیکن وہ بھی اوپر آگئے اور بولے چچا تلاشی دو اور مال نکال دو۔ چچا نے واسکٹ کی اندرونی جیب سے رومال نکالا، اس میں لپٹا ہوا بٹوا نکالا۔ تین ہزار تین سو روپے ان کے حوالے کیے، گیارہ سو روپے والا موبائل فون سم نکال کے انھیں دیا اور اب الحمدﷲ ہمارے سامنے بیٹھے تھے۔ قصہ یہاں تک سنانے کے بعد انھوں نے اپنا پائنچہ اوپر اٹھایا اور جرابوں سے نوٹوں کا ایک بنڈل نکالتے ہوئے بولے ''اﷲ کا شکر ہے کہ یہ 35 ہزار روپے بچ گئے۔''
صورتحال یہ ہے کہ ہر ذی نفس ایک سے زیادہ دکھ بھری داستانیں لیے پھرتا ہے۔ کراچی کی دلکش اور منفرد فوڈ اسٹریٹ پورٹ گرینڈ میں ایک ٹیبل کے گرد جا بیٹھے تو کچھ ہی دیر میں کئی شناسا اکٹھے ہوگئے۔ خوبصورت باتوں اور جشن کے ماحول میں بھی دل شکن گفتگو ہونے لگی۔ ایک نے کہا ابھی ابھی باہر کار پارک کرتے وقت لٹ کر آیا ہوں۔ یہ اس کا چوتھا کیس تھا۔ پھر اس میز کے گردا گرد بیٹھے آٹھ کے آٹھ اصحاب نے اپنی اپنی گنتی سنادی۔ حالات نے شہر کی ثقافت بدل کے رکھ دی ہے۔ سب ایک سے زیادہ بار اسٹریٹ کرائم کا شکار ہوچکے ہیں۔
حاکموں کی بے عملی سے جب بے بسی جنم لیتی ہے تو میں فقط ایک چیخ مارسکتا ہوں۔ اس کی آواز شہر حکم سے ٹکرا کے لوٹ آتی ہے۔ شاید اس کے کان نہیں ہیں۔ میری کینیڈا سے درخواست ہے کہ اپنے ہاں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کے کم از کم آٹھ دس ایسے ہی اور مولوی بھی ہمارے ہاں بھیج دے تاکہ وہ بھی پچاس پچاس لاکھ لوگ لے کر اسلام آباد پر دھاوا بول دیں۔ جب سوٹن فضلہ ایک ہزار ٹن میں بدلے گا تو لگ پتہ جائے گا۔
بلیو ایریا میں، ان چار دنوں میں جو تباہی اور بربادی ہوئی اس کی وجہ سے پورا اسلام آباد اداس ہے۔ ساتھ ہی میرا دل بھی خون کے آنسو رو رہا ہے۔ دکانیں اور راستے بند ہونے کی وجہ سے جو تکلیف اٹھانی پڑی اس کے باعث دکاندار بھی چیخ رہے ہیں اور گاہک بھی چلا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہاکروں، ٹیکسیوں، مونگ پھلی بیچنے والوں، کوئلوں پر بھٹے تلنے والوں، گول گپے کی ریڑھیوں، راکھ میں شکرقندی بھوننے والوں اور پان سگریٹ، بوتل کی سروس دینے والوں، سبھی کا بزنس ٹھپ ہوگیا۔ مسافروں کو میل ڈیڑھ میل تک کا ایکسٹرا فاصلہ طے کرنا پڑا اور پٹرول برباد ہوا۔ کاہل نوجوانوں کی شیو بڑھ گئی اور فون کارڈ نہ ملنے کی وجہ سے نازک رابطوں میں دراڑ آگئی۔ چار دنوں کا یہ دکھ چار صدیوں پر محیط تھا۔ اوپر سے سوٹن غلاظت والے معاملے نے صورت حال کو چار چاند لگادیے تھے۔
ہمیں چاہیے کہ ان تکالیف پر ذرا تفصیلی نظر ڈالیں اور کھلے دل کے ساتھ دارالحکومت کے باسیوں کے سیاپے میں شامل ہوجائیں۔ یہ اتنی اہم بات ہے کہ اس پر برسوں بات ہونی چاہیے۔ جلسے، تقریریں، سیمینار ہوں، پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جائیں اور اس المیے کی ایک یادگار تعمیر کی جائے جس پر ہر سال پھول چڑھائے جائیں، چراغ اور موم بتیاںروشن کی جائیں،اس دن پورے ملک میں چھٹی ہو اورسوگ میں ڈبل سواری، ٹرانسپورٹ اور موبائل فون بند ہوں۔ یہ بڑے لوگوں کا سوہنا شہر ہے، نازک مزاج اور نازک کمر حکمرانوں کا شہر، یہاں کے چھوٹے چھوٹے دکھ بھی بہت بڑے ہوتے ہیں، اتنے بڑے کہ آسمان سے بھی دکھائی دیں۔ لیکن میں کیاکروں؟ میں جس شہر ناپرساں کا باسی ہوں اس کے دکھ اتنے پرانے ہیں کہ شاید اسے اس کی قسمت قرار دیدیا گیا ہے۔
یوں جیسے کوئی پرانا، سدا کا مریض معمول کی ہمدردی کا بھی سزاوار نہیں رہتا، مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کراچی کا دکھڑا سنانے کی اجازت بھی ہے کہ نہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ حکمرانوں کا یہ سوتیلا شہر آج اس کرہ ارض کا سب سے مظلوم اور معصوم حصہ ہے، عوام بھی اور عوام کے نمائندے بھی حیران و پریشان ہیں کہ کیا چیز ہے جو اس شاندار شہر کو گھن کی طرح کھارہی ہے، قتل ہوتا ہے، جبر ہوتا ہے، ستم ہوتا ہے، ظلم ہوتا ہے اور ناانصافی ہوتی ہے مگر قاتل اور ستمگر بے چہرہ ہے، وہ قتل کرتا ہے تو کرامات کرتا ہے، اس کے چار گھنٹے کے دکھ بلیو ایریا کے چار دنوں سے سوا ہیں پھر بھی یہ سخت جان ہنستا ہے، کھیلتا ہے اور ملک کے ماتھے کا جھومر ہے، میں اس شہر کی خوبیاں گنوانے لگوں تو کالم نہیں کتاب درکار ہے۔ دو کروڑ نفوس نے بسرام کو اس کاانتخاب یونہی تو نہیں کیا ہے، پھر یہ کیا ہے کہ برسوں کے بعد وطن لوٹنے والا ایک نوجوان فون کرکے مجھ سے پوچھتا ہے کہ میں آرہا ہوں، بتایے میں کراچی میں اتروں یا کسی دوسرے شہر کی پرواز لے لوں؟
ریٹائرڈ باباجی دفتر میں داخل ہوئے تو ایک لمبی آہ بھر کے بیٹھ گئے اور طویل وقفے کے بعد بولے... ''الحمدﷲ... دوسری بار بچا ہوں'' سب ہمہ تن گوش ہوگئے، تفصیل پوچھی تو بولے، پہلی بار تو اپنے محلے میں بچا تھا، شام کو مغرب کی نماز کے لیے نکلا تو ایک گلی میں موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں نے آن لیا، ایک نے پستول میرے کولہے پر رکھا اور بولا ''بابا جی، نکال دو جو ہے'' میں نے کرتے کے دنوں کھیسے الٹ کے دکھادیے، کچھ بھی نہیں تھا، انھوں نے خوب تلاشی لی، پھر ایک نے کھسیانا ہوکے اپنے آپ کو گالی دی اور دوسرے نے میری اولاد کو، بولا ''بابا جی، آپ کی ... اولاد بھی بہت ہی نالائق ہے۔ اتنے بوڑھے باپ کو بے یار و مددگار گھر سے باہر چھوڑ دیتی ہے۔ نہ پیسہ نہ موبائل۔ کیا زمانہ آگیا ہے۔'' دوسرا واقعہ ابھی آج کا ہے، انھوں نے بتایا کہ وہ جونہی امراض قلب کے اسپتال سے باہر نکلے تو دو موٹر سائیکلوں نے ان کی ٹانگوں میں گھسنے کی کوشش کی۔ وہ سمجھے کہ راستہ مانگ رہے ہیں اس لیے فٹ پاتھ پر چڑھ گئے لیکن وہ بھی اوپر آگئے اور بولے چچا تلاشی دو اور مال نکال دو۔ چچا نے واسکٹ کی اندرونی جیب سے رومال نکالا، اس میں لپٹا ہوا بٹوا نکالا۔ تین ہزار تین سو روپے ان کے حوالے کیے، گیارہ سو روپے والا موبائل فون سم نکال کے انھیں دیا اور اب الحمدﷲ ہمارے سامنے بیٹھے تھے۔ قصہ یہاں تک سنانے کے بعد انھوں نے اپنا پائنچہ اوپر اٹھایا اور جرابوں سے نوٹوں کا ایک بنڈل نکالتے ہوئے بولے ''اﷲ کا شکر ہے کہ یہ 35 ہزار روپے بچ گئے۔''
صورتحال یہ ہے کہ ہر ذی نفس ایک سے زیادہ دکھ بھری داستانیں لیے پھرتا ہے۔ کراچی کی دلکش اور منفرد فوڈ اسٹریٹ پورٹ گرینڈ میں ایک ٹیبل کے گرد جا بیٹھے تو کچھ ہی دیر میں کئی شناسا اکٹھے ہوگئے۔ خوبصورت باتوں اور جشن کے ماحول میں بھی دل شکن گفتگو ہونے لگی۔ ایک نے کہا ابھی ابھی باہر کار پارک کرتے وقت لٹ کر آیا ہوں۔ یہ اس کا چوتھا کیس تھا۔ پھر اس میز کے گردا گرد بیٹھے آٹھ کے آٹھ اصحاب نے اپنی اپنی گنتی سنادی۔ حالات نے شہر کی ثقافت بدل کے رکھ دی ہے۔ سب ایک سے زیادہ بار اسٹریٹ کرائم کا شکار ہوچکے ہیں۔
حاکموں کی بے عملی سے جب بے بسی جنم لیتی ہے تو میں فقط ایک چیخ مارسکتا ہوں۔ اس کی آواز شہر حکم سے ٹکرا کے لوٹ آتی ہے۔ شاید اس کے کان نہیں ہیں۔ میری کینیڈا سے درخواست ہے کہ اپنے ہاں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کے کم از کم آٹھ دس ایسے ہی اور مولوی بھی ہمارے ہاں بھیج دے تاکہ وہ بھی پچاس پچاس لاکھ لوگ لے کر اسلام آباد پر دھاوا بول دیں۔ جب سوٹن فضلہ ایک ہزار ٹن میں بدلے گا تو لگ پتہ جائے گا۔