نعت کا دل میں خیال آئے تو…
ہم سب ملک کے حالات کے بارے میں سوچتے ہیں کہ یہ زوال کیوں ہے۔ ہر کسی کے پاس اس کی کوئی نہ کوئی وجہ موجود ہے۔
وہ جس کی برکت سے کوئی مسلمان زندگی بسر کرتا ہے اور جس رحمت اللعالمینؐ کے سہارے کوئی مسلمان اپنی عاقبت میں نجات کی توقع کرتا ہے' ہم نے صرف ایک دن کے لیے قومی سطح پر اس ہستی کی یاد منائی جس کے نا م پر ہم نے ملک بنایا تھا اور درود کا ورد کرتے ہوئے ہم نے گویا اپنی عقیدت کا حق ادا کیا اور فارغ ہو گئے۔
آپ سب مسلمانوں کی طرح میں بھی سارا دن سرکار دوجہاںؐ کو یاد کرتا رہا لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچتا رہا کہ کیا ہم نے سالگرہ کی مغربی ثقافت کی پیروی میں اس ہستی کی یاد منا ڈالی جس کے برابر انسانی تاریخ میں کوئی دوسرا انسان پیدا نہیں ہوا اور جس کے نام کے ساتھ ہماری عزت ہے' پہچان ہے اور کوئی وقعت ہے۔ اپنی بداعمالیوں کے باوجود مغرب کی طاقتور قومیں ہمیں مٹانے پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ وہ ڈرتی ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ کہیں پھر سے مہ کامل نہ بن جائے۔ ماضی میں دنیا کی کوئی سپر پاور چند سو برسوں سے زیادہ قائم نہ رہی لیکن مسلمانوں کی سپر پاور کوئی چودہ سو برس بعد ختم ہوئی۔ انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں استنبول میں اس کا آفتاب غروب ہوا اور وہ بھی کیسے ہوا اس پر بحث کی جاتی ہے۔ یہ سب بظاہر اپنوں کے ہاتھوں ہوا۔
اس دن اخباروں نے حضور پاکؐ کے لیے نعتیہ کلام کے کئی نمونے شائع کیے۔ ہمارے ہاں اکثر نعتیں آمد سے زیادہ آورد ہوتی ہیں اور میں چند پرانی نعتوں پر وجد میں آتا رہتا ہوں لیکن اس بار میں نے ایک جدید شاعر کی نعت کا ایک شعر پڑھا اور یوں لگا ہم میں اب کون' کوئی اس سے بڑھ کر اظہار عقیدت و شیفتگی کر سکے گا۔ شاعر حضرت خورشید رضوی اور شعر:
شان اس کی سوچئے اور سوچ میں کھو جایئے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جائیے
وہی مرزا غالب والی بے بسی کی بات کہ اللہ کی ذات ہی اس کا مرتبہ جانتی ہے؎
غالب ثنائے خواجہؐ بہ یزداں گذاشتم
آں ذات پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
یعنی غالب ہم نے خواجہ کی مدح و ثناء اللہ کے سپرد کر دی ہے کہ وہی ذات پاک ہے جو محمدؐ کا مرتبہ جانتی ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہے تو وہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا سال بھر میں ولادت کا دن نہیں مناتا، وہ سال بھر میں ہر لمحے ان کی یاد میں گم رہتا ہے اور اسی کے سہارے اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔کوئی بھی مسلمان سرکار دو جہاںؐ کے بارے میں اپنے ذاتی تاثرات کماحقہ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں رکھتا۔ میں ان کروڑوں خوش نصیبوں میں سے ہوں جنہوں نے روضۂ مبارکؐ کی جالیوں کے سامنے لرزتے بدن اور ٹوٹے پھوٹے بیان کے ساتھ اپنی معروضات پیش کیں۔ خدا جانے مجھ پر کوئی ایسی ساعت طاری تھی یا میری بے کسی پر حضور پاکؐ کو رحم آ گیا تھا کہ اس گناہ گار اعظم اور مطلبی آدمی کی حاضری بھی قبول ہوئی۔ وہ جو فرمان ہے کہ جو کوئی میرے پاس آتا ہے، میں اسے دیکھتا ہوں' تو خدا جانے مجھے حضور پاکؐ نے کس حال میں دیکھا کہ مجھے اپنی رحمت سے سرشار کیا۔ میں تحدیث نعت کے طور پر پہلے ہی لکھ چکا ہوں اور اب پھر عرض کرتا ہوں کہ سید سرفراز شاہ صاحب نے مجھے اپنے ہاں طلب کیا۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی اور وہ بھی بظاہر ایک سیکولر دوست احمد بشیر کے ذریعے۔
شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے تمہیں ایک پیغام دینے کے لیے بلایا ہے کہ تم نے کچھ پہلے روضہ اقدسؐ پر جالیوں کے سامنے کھڑے ہو کر اور یہ سمجھتے ہوئے کہ آقا تمہیں دیکھ رہے ہیں تم نے جو معروضات پیش کی تھیں وہ قبول کر لی گئی ہیں۔ یہ سن کر میں ششدر رہ گیا' ہکا بکا ہو گیا' اپنی خوش نصیبی پر خود ہی رشک کرنے لگا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کتنے امتی ہوں گے جن کو یہ اعزاز نصیب ہوا ہو گا۔ محترم شاہ صاحب کے اس روح پرور اور زندگی کی سب سے بڑی خوش خبری کے بعد میں اندر سے کیا ہو گیا، یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ اب جب میں شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں تو وہ میری درخواست اور کسی قسم کی کوئی عرض معروض نہیں سنتے' بس فرماتے ہیں کہ اب کیا کسر باقی رہ گئی ہے۔ اپنی خوش نصیبی پر درود پڑھا کرو۔ میرے ایک ساتھی صحافی ہیں ' ان سے میری دو چار ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ انھوں نے میرے ساتھ دوسری ملاقات میں مجھ سے آہستہ سے کہا کہ زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھا کرو۔ نہ میں نے پوچھا نہ انھوں نے بتایا کہ صرف دوسری ہی ملاقات میں انھوں نے مجھے کیوں یہ نصیحت کی۔ یہ ان کی مہربانی تھی۔
ہم سب پاکستانی ملک کے حالات کے بارے میں سوچتے ہیں کہ ہم پر یہ زوال اور ادبار کیوں ہے۔ ہر کسی کے پاس اس کی کوئی نہ کوئی وجہ موجود ہے۔ صحیح یا غلط۔ میرے پاس اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہم نے خدا اور رسول پاکؐ کے ساتھ ایک وعدہ کیا تھا کہ ہم نے یہ ملک آپ کے لیے حاصل کیا ہے اور حتی الوسع کوشش کریں گے کہ آپ کے راستے پر چلیں اور اس ملک کو وہ ملک بنائیں جس کی طرف سے آقائے دو جہاںؐ کو ٹھنڈی ہوا آئی تھی مگر افسوس کہ ہم نے دن دہاڑے پورے دھڑلے کے ساتھ اعلان کیا کہ ہم سیکولر ہیں۔ ملاحظہ کیجیے ایوب خان کے ارشادات کو' پھر پرویز مشرف کو اور آج بھی جو حکومت ہے وہ کہتی ہے کہ وہ ایک سیکولر حکومت ہے۔
دنیا میں ایسے ملکوں کی تعداد کم نہیں جو غیر مسلم ہیں لیکن ان میں اور ہمارے درمیان فرق یہ ہے کہ یہ وعدہ صرف ہم نے کیا تھا کہ ہم سیکولر نہیں مسلمان ہیں لیکن اس وعدے کی خلاف ورزی کی' اس وعدے کے ساتھ بے وفائی کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔کسی امریکا یا روس نے خدا و رسولؐؐ سے کوئی ایسا وعدہ ہی نہیں کیا تھا، وہ ان پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ ہر فعل اور عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے جیسے بری حکومت کا ردعمل ہمارے نئے لیڈروں کی صورت میں ہمیں مل رہا ہے کہ یہ بری حکومت کا ردعمل ہے نہ کہ ان نئے لیڈروں کا کوئی کمال جن کی حکومت کو ہم مانتے ہی نہیں۔ بہر کیف ہم اگر اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں ہمارے ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔ حضرت خورشید رضوی کا نعتیہ شعر دوبارہ:
شان اس کی سوچئے اور سوچ میں کھو جایئے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جایئے
آپ سب مسلمانوں کی طرح میں بھی سارا دن سرکار دوجہاںؐ کو یاد کرتا رہا لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچتا رہا کہ کیا ہم نے سالگرہ کی مغربی ثقافت کی پیروی میں اس ہستی کی یاد منا ڈالی جس کے برابر انسانی تاریخ میں کوئی دوسرا انسان پیدا نہیں ہوا اور جس کے نام کے ساتھ ہماری عزت ہے' پہچان ہے اور کوئی وقعت ہے۔ اپنی بداعمالیوں کے باوجود مغرب کی طاقتور قومیں ہمیں مٹانے پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ وہ ڈرتی ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ کہیں پھر سے مہ کامل نہ بن جائے۔ ماضی میں دنیا کی کوئی سپر پاور چند سو برسوں سے زیادہ قائم نہ رہی لیکن مسلمانوں کی سپر پاور کوئی چودہ سو برس بعد ختم ہوئی۔ انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں استنبول میں اس کا آفتاب غروب ہوا اور وہ بھی کیسے ہوا اس پر بحث کی جاتی ہے۔ یہ سب بظاہر اپنوں کے ہاتھوں ہوا۔
اس دن اخباروں نے حضور پاکؐ کے لیے نعتیہ کلام کے کئی نمونے شائع کیے۔ ہمارے ہاں اکثر نعتیں آمد سے زیادہ آورد ہوتی ہیں اور میں چند پرانی نعتوں پر وجد میں آتا رہتا ہوں لیکن اس بار میں نے ایک جدید شاعر کی نعت کا ایک شعر پڑھا اور یوں لگا ہم میں اب کون' کوئی اس سے بڑھ کر اظہار عقیدت و شیفتگی کر سکے گا۔ شاعر حضرت خورشید رضوی اور شعر:
شان اس کی سوچئے اور سوچ میں کھو جایئے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جائیے
وہی مرزا غالب والی بے بسی کی بات کہ اللہ کی ذات ہی اس کا مرتبہ جانتی ہے؎
غالب ثنائے خواجہؐ بہ یزداں گذاشتم
آں ذات پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
یعنی غالب ہم نے خواجہ کی مدح و ثناء اللہ کے سپرد کر دی ہے کہ وہی ذات پاک ہے جو محمدؐ کا مرتبہ جانتی ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہے تو وہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا سال بھر میں ولادت کا دن نہیں مناتا، وہ سال بھر میں ہر لمحے ان کی یاد میں گم رہتا ہے اور اسی کے سہارے اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔کوئی بھی مسلمان سرکار دو جہاںؐ کے بارے میں اپنے ذاتی تاثرات کماحقہ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں رکھتا۔ میں ان کروڑوں خوش نصیبوں میں سے ہوں جنہوں نے روضۂ مبارکؐ کی جالیوں کے سامنے لرزتے بدن اور ٹوٹے پھوٹے بیان کے ساتھ اپنی معروضات پیش کیں۔ خدا جانے مجھ پر کوئی ایسی ساعت طاری تھی یا میری بے کسی پر حضور پاکؐ کو رحم آ گیا تھا کہ اس گناہ گار اعظم اور مطلبی آدمی کی حاضری بھی قبول ہوئی۔ وہ جو فرمان ہے کہ جو کوئی میرے پاس آتا ہے، میں اسے دیکھتا ہوں' تو خدا جانے مجھے حضور پاکؐ نے کس حال میں دیکھا کہ مجھے اپنی رحمت سے سرشار کیا۔ میں تحدیث نعت کے طور پر پہلے ہی لکھ چکا ہوں اور اب پھر عرض کرتا ہوں کہ سید سرفراز شاہ صاحب نے مجھے اپنے ہاں طلب کیا۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی اور وہ بھی بظاہر ایک سیکولر دوست احمد بشیر کے ذریعے۔
شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے تمہیں ایک پیغام دینے کے لیے بلایا ہے کہ تم نے کچھ پہلے روضہ اقدسؐ پر جالیوں کے سامنے کھڑے ہو کر اور یہ سمجھتے ہوئے کہ آقا تمہیں دیکھ رہے ہیں تم نے جو معروضات پیش کی تھیں وہ قبول کر لی گئی ہیں۔ یہ سن کر میں ششدر رہ گیا' ہکا بکا ہو گیا' اپنی خوش نصیبی پر خود ہی رشک کرنے لگا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کتنے امتی ہوں گے جن کو یہ اعزاز نصیب ہوا ہو گا۔ محترم شاہ صاحب کے اس روح پرور اور زندگی کی سب سے بڑی خوش خبری کے بعد میں اندر سے کیا ہو گیا، یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ اب جب میں شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں تو وہ میری درخواست اور کسی قسم کی کوئی عرض معروض نہیں سنتے' بس فرماتے ہیں کہ اب کیا کسر باقی رہ گئی ہے۔ اپنی خوش نصیبی پر درود پڑھا کرو۔ میرے ایک ساتھی صحافی ہیں ' ان سے میری دو چار ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ انھوں نے میرے ساتھ دوسری ملاقات میں مجھ سے آہستہ سے کہا کہ زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھا کرو۔ نہ میں نے پوچھا نہ انھوں نے بتایا کہ صرف دوسری ہی ملاقات میں انھوں نے مجھے کیوں یہ نصیحت کی۔ یہ ان کی مہربانی تھی۔
ہم سب پاکستانی ملک کے حالات کے بارے میں سوچتے ہیں کہ ہم پر یہ زوال اور ادبار کیوں ہے۔ ہر کسی کے پاس اس کی کوئی نہ کوئی وجہ موجود ہے۔ صحیح یا غلط۔ میرے پاس اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہم نے خدا اور رسول پاکؐ کے ساتھ ایک وعدہ کیا تھا کہ ہم نے یہ ملک آپ کے لیے حاصل کیا ہے اور حتی الوسع کوشش کریں گے کہ آپ کے راستے پر چلیں اور اس ملک کو وہ ملک بنائیں جس کی طرف سے آقائے دو جہاںؐ کو ٹھنڈی ہوا آئی تھی مگر افسوس کہ ہم نے دن دہاڑے پورے دھڑلے کے ساتھ اعلان کیا کہ ہم سیکولر ہیں۔ ملاحظہ کیجیے ایوب خان کے ارشادات کو' پھر پرویز مشرف کو اور آج بھی جو حکومت ہے وہ کہتی ہے کہ وہ ایک سیکولر حکومت ہے۔
دنیا میں ایسے ملکوں کی تعداد کم نہیں جو غیر مسلم ہیں لیکن ان میں اور ہمارے درمیان فرق یہ ہے کہ یہ وعدہ صرف ہم نے کیا تھا کہ ہم سیکولر نہیں مسلمان ہیں لیکن اس وعدے کی خلاف ورزی کی' اس وعدے کے ساتھ بے وفائی کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔کسی امریکا یا روس نے خدا و رسولؐؐ سے کوئی ایسا وعدہ ہی نہیں کیا تھا، وہ ان پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ ہر فعل اور عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے جیسے بری حکومت کا ردعمل ہمارے نئے لیڈروں کی صورت میں ہمیں مل رہا ہے کہ یہ بری حکومت کا ردعمل ہے نہ کہ ان نئے لیڈروں کا کوئی کمال جن کی حکومت کو ہم مانتے ہی نہیں۔ بہر کیف ہم اگر اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں ہمارے ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔ حضرت خورشید رضوی کا نعتیہ شعر دوبارہ:
شان اس کی سوچئے اور سوچ میں کھو جایئے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جایئے