مات میں جیت
ہمارے مخالف نے اپنی مرضی کے پولنگ اسٹیشن بنوائے اور خود فہرستیں دے کر پولنگ اسٹاف تعینات کرایا۔
KARACHI:
پروفیسر صاحب نہ صرف پولیٹیکل سائنس کے مضمون میں ایم اے تھے بلکہ انھوں نے اسکالر شپ لے کر ڈاکٹریٹ بھی کررکھی تھی۔ اپنے ساتھی اساتذہ اور شاگردوں میں برابر کے مقبول تھے۔ کلاس کا پیریڈ خالی ہوتا تو ساتھی انھیں گھیرلیتے اور وقت کے سلگتے ہوئے موضوعات پر ان کی رائے لیتے۔
پروفیسر صاحب ان پر ایسا سیر حاصل اور بے لاگ تبصرہ فرماتے کہ دائیں اور بائیں دونوں اطراف کے ساتھی اگلے پیریڈ کی گھنٹی بجنے تک کولیگ ہونے کے باوجود گردن ہلاتے اور یس سر کہتے سنے جاتے۔ کالج کا کوئی فنکشن ہوتا تو پرنسپل صاحب چند منٹ بات کرکے مائیک پروفیسر صاحب کے سپرد کردیتے اور سامعین ہی نہیں فنکشن کے مہمان Participants بھی تالیوں کی گونج میں انھیں ویلکم کرتے۔
ملک کے معاشی اور معاشرتی حالات اور معاملات پر ان کی سوچ اور تجزیے اتنے مدلل اور واضح ہوتے کہ ان کے ساتھی پروفیسر شاگرد اور دوست احباب اکثر آپس میں باتیں کرتے کہ پروفیسر صاحب کے لیے تدریس تک محدود رہنا ملک و قوم سے زیادتی ہے۔ انھیں تو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے، دوستوں کی یہ گفتگو ان تک پہنچتی رہتی جس پر ان کا ردعمل نوکمنٹ اور خاموشی ہوتا۔ پھر ایک روز لوگوں کو پتہ چلا کہ پچیس سال عرصۂ ملازمت پورا ہونے پر انھوں نے سروس سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے اور مکمل صحت ہونے کے باوجود اب وہ پنشنر ہوگئے ہیں۔
لوگوں کو حیرت ہوئی کہ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے چاک و چوبند ہونے کے باوجود پروفیسر صاحب نے اپنی بقیہ زندگی ریٹائرڈ پروفیسر کے طور پر گزارنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ ابھی ان کے ساتھی دوستوں میں یہ چہ میگوئیاں چل ہی رہی تھیں کہ وہ ایک روز بریک ٹائم میں کامن روم پہنچ گئے جہاں ان کو گرمجوشی سے ویلکم کیا گیا۔
چائے کا دور چلنے کے بعد دوستوں نے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ آپ سب دوستوں کی طرح بہت سے دوسروں کی طرف سے بھی اشارے ملتے رہتے تھے کہ ہماری پارلیمنٹ صرف حاضری لگوانے تنخواہ اور مراعات لینے، سستی ترین کینٹین میں بہترین کھانا کھانے، ذاتی اور سفارشیوں کے کام کروانے، غیر حاضر رہنے اور آپس میں گپ شپ کرنے اور کبھی کبھار ہنگامہ آرائی کرنے کی شہرت پارہی ہے۔
جہاں سنجیدہ اور مفید بحث کے علاوہ اہم ترین کام یعنی قانون سازی کو اولیت نہیں دی جارہی اور پھر قریباً ہر روز اگر آپ نہیں تو دوسرے کئی احباب اشارۃً اور بعض اوقات کھلے الفاظ میں مجھے پارلیمنٹ کا رخ کرنے کی ترغیب دیتے رہتے، شروع میں تو میں سنی ان سنی کرتا رہا پھر سن لیتا اور کچھ عرصہ سے میں اس پر غور کرنے لگا اور پھر اپنی پارلیمنٹ کی کارکردگی کا مشاہدہ و مطالعہ کرنے لگا۔
میری ملازمت کے پچیس سال پورے ہونے کو آئے تو سوچاکہ اگر میں پنشن کی رقم پر گزارہ کرتے ہوئے ملکی خدمت کو پیش نظر رکھ کر پارلیمنٹ تک رسائی کی جدوجہد کروں تو شاید آپ دوستوں کی مسلسل ترغیب کا مفید اور خاطر خواہ نتیجہ نکل سکتا ہو لہٰذا میں نے آئندہ قومی اسمبلی کے الیکشن میں امیدوار بننے کا ارادہ کرلیا ہے۔پروفیسر صاحب اپنے ساتھی اساتذہ ہی میں نہیں پورے کالج کے طالبعلموں میں بیحد مقبول تھے ان کے آئندہ پروگرام کی خبر ایک ہی دن میں پورے کالج میں پھیل گئی۔ اگلا دن اتوار تھا صبح سویرے ہی کالج کے سیکڑوں طالبعلم ان کے مکان پر جاپہنچے۔
پروفیسر صاحب ان سے ملے اور بتایا کہ انھوں نے تو ابھی صرف ارادہ کیا ہے کہ وہ تدریس کے علاوہ ملکی خدمت میں کوئی اور ذریعہ اختیار کریں جب کہ یہ راستہ بے حد دشوار بھی ہے بلکہ کامیابی کے امکانات ان کی حد تک محدود ہیں کیونکہ نہ سیاسی پس منظر، نہ پیسہ، نہ تجربہ، نہ ذات برادری بلکہ صرف ایک جذبہ اور سوچ۔ ادھر کالج کے طلباء جذباتی ہورہے تھے کہ پروفیسر صاحب آئندہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں وہ سب ان کے لیے Electioneering کریں گے۔
پروفیسر صاحب ملک اور اداروں کے حالات دیکھ کر آتش نمرود میں کودنے کا ارادہ تو کرہی چکے تھے نوجوان طلباء کے جذبے کو دیکھ کر ان کو حوصلہ ہوا۔ اگلی اتوار کو ان کے کالج کے طلباء شہر کے دوسرے کالجوں کے نمائندہ اسٹوڈنٹس کو لے کر پھر ان کے پاس آگئے۔ انھوں نے طلباء کو سمجھایا کہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ طلباء کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوں جس پرا سٹوڈنٹس نے انھیں یقین دلایا کہ وہ اپنی تعلیم پر بھی پوری توجہ دیں گے اور پروفیسر صاحب کے لیکچر یا تقریریں شہر کے ہر چوک، میدان اور موڑ پر ترتیب دیں گے۔
شہر کے سیاسی اور تعلیمی حلقوں کے علاوہ کاروباری لوگوں میں بھی ایک دانشور کے ارادوں پر چہ میگوئیاں ہونے سے محفلوں میں منفی اور مثبت تبصروں کی اطلاعات آتی رہیں۔الیکشن کے دن قریب آئے تو نوجوان طلباء نے پروفیسر صاحب کے لیے ان کے حلقۂ انتخاب میں روزانہ ایک گھنٹے کی کارنر میٹنگ کا بندوبست کردیا۔ یہ پروگرام نہایت کامیاب رہا۔ ان کی تقریریں مختصر ہوتیں۔ لوگوں کو سوال کرنے کا موقع دے کر جواب دیتے۔
یہ سلسلہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ چلا اس کے بعد الیکشن کا دن آگیا۔ ان کا مدمقابل امیدوار ایک بڑی سیاسی پارٹی کا ممبر، دولت مند، سابق ممبر اسمبلی، ایک اکثریتی ذات برادری کا فرد، کرپشن کے کئی مقدمات میں سے صاف بچ نکلا ہوا کھلاڑی، جرائم پیشہ لوگوں کا سرپرست اور ایک جاہل گریجویٹ تھا۔ الیکشن کے دن زبردست مقابلہ ہوا لیکن پروفیسر صاحب کا مخالف امیدوار بہت کم مارجن سے کامیاب ڈیکلیئر ہوگیا۔
پروفیسر صاحب کے سپورٹر نوجوان اور دوست جو بیحد پر امید تھے سخت پریشان، حیران اورحالت کرب میں پائے گئے جب کہ پروفیسر صاحب کے ماتھے پر کوئی شکن نہ تھی۔ رات گئے ان کے سپورٹر ان کے مکان پر اکٹھے ہوئے۔ رزلٹ کا تجزیہ ہوا تو پروفیسر صاحب نے کہا کہ ''عام حالات میں تو میری ضمانت ضبط ہوجانی چاہیے تھی لیکن ایک سرکاری پارٹی کا سابق ممبر بمشکل کامیاب ہوا ہے اس کے بے شمار سپورٹروں نے مجھے یعنی آپ دوستوں کے امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں وہ لوگ جنھوں نے کامیاب ہونے والے شخص کو ووٹ دیے ہمیں سپورٹ کریں گے۔
پروفیسر صاحب نے مزید کہا کہ ہمارے مخالف نے اپنی مرضی کے پولنگ اسٹیشن بنوائے اور خود فہرستیں دے کر پولنگ اسٹاف تعینات کرایا۔ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنز تک لانے اور واپس چھوڑنے کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت دی، ان کو لنچ کرایا، چائے پلائی اور رقوم دیں، ان کے بڑوں کو آئندہ ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکے دینے کے وعدے کیے، بہت سوں کو سرکاری ملازمتیں دلوائیں، ان کے شاندار اور بڑے اخراجات والے جلسے ہوئے، ان کے جلسوں میں وزیر مشیر آئے، ان کے پاس ٹرینڈ اور چالاک پولنگ ایجنٹ تھے'' پروفیسر چیزیں گنواتے ہوئے تھک گئے تو ایک سپورٹر کی لائی ہوئی چائے کا گھونٹ لے کر ہنسے اور سپورٹروں سے مخاطب ہوکر کہنے لگے ''دوستو تبدیلی ایک دن میں نہیں آتی لیکن آپ سب کا بے حد شکریہ کہ آپ سب نے مل کر تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ آپ یقین کریں دراصل آج ہماری مات نہیں جیت ہوئی ہے۔''
پروفیسر صاحب نہ صرف پولیٹیکل سائنس کے مضمون میں ایم اے تھے بلکہ انھوں نے اسکالر شپ لے کر ڈاکٹریٹ بھی کررکھی تھی۔ اپنے ساتھی اساتذہ اور شاگردوں میں برابر کے مقبول تھے۔ کلاس کا پیریڈ خالی ہوتا تو ساتھی انھیں گھیرلیتے اور وقت کے سلگتے ہوئے موضوعات پر ان کی رائے لیتے۔
پروفیسر صاحب ان پر ایسا سیر حاصل اور بے لاگ تبصرہ فرماتے کہ دائیں اور بائیں دونوں اطراف کے ساتھی اگلے پیریڈ کی گھنٹی بجنے تک کولیگ ہونے کے باوجود گردن ہلاتے اور یس سر کہتے سنے جاتے۔ کالج کا کوئی فنکشن ہوتا تو پرنسپل صاحب چند منٹ بات کرکے مائیک پروفیسر صاحب کے سپرد کردیتے اور سامعین ہی نہیں فنکشن کے مہمان Participants بھی تالیوں کی گونج میں انھیں ویلکم کرتے۔
ملک کے معاشی اور معاشرتی حالات اور معاملات پر ان کی سوچ اور تجزیے اتنے مدلل اور واضح ہوتے کہ ان کے ساتھی پروفیسر شاگرد اور دوست احباب اکثر آپس میں باتیں کرتے کہ پروفیسر صاحب کے لیے تدریس تک محدود رہنا ملک و قوم سے زیادتی ہے۔ انھیں تو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے، دوستوں کی یہ گفتگو ان تک پہنچتی رہتی جس پر ان کا ردعمل نوکمنٹ اور خاموشی ہوتا۔ پھر ایک روز لوگوں کو پتہ چلا کہ پچیس سال عرصۂ ملازمت پورا ہونے پر انھوں نے سروس سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے اور مکمل صحت ہونے کے باوجود اب وہ پنشنر ہوگئے ہیں۔
لوگوں کو حیرت ہوئی کہ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے چاک و چوبند ہونے کے باوجود پروفیسر صاحب نے اپنی بقیہ زندگی ریٹائرڈ پروفیسر کے طور پر گزارنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ ابھی ان کے ساتھی دوستوں میں یہ چہ میگوئیاں چل ہی رہی تھیں کہ وہ ایک روز بریک ٹائم میں کامن روم پہنچ گئے جہاں ان کو گرمجوشی سے ویلکم کیا گیا۔
چائے کا دور چلنے کے بعد دوستوں نے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ آپ سب دوستوں کی طرح بہت سے دوسروں کی طرف سے بھی اشارے ملتے رہتے تھے کہ ہماری پارلیمنٹ صرف حاضری لگوانے تنخواہ اور مراعات لینے، سستی ترین کینٹین میں بہترین کھانا کھانے، ذاتی اور سفارشیوں کے کام کروانے، غیر حاضر رہنے اور آپس میں گپ شپ کرنے اور کبھی کبھار ہنگامہ آرائی کرنے کی شہرت پارہی ہے۔
جہاں سنجیدہ اور مفید بحث کے علاوہ اہم ترین کام یعنی قانون سازی کو اولیت نہیں دی جارہی اور پھر قریباً ہر روز اگر آپ نہیں تو دوسرے کئی احباب اشارۃً اور بعض اوقات کھلے الفاظ میں مجھے پارلیمنٹ کا رخ کرنے کی ترغیب دیتے رہتے، شروع میں تو میں سنی ان سنی کرتا رہا پھر سن لیتا اور کچھ عرصہ سے میں اس پر غور کرنے لگا اور پھر اپنی پارلیمنٹ کی کارکردگی کا مشاہدہ و مطالعہ کرنے لگا۔
میری ملازمت کے پچیس سال پورے ہونے کو آئے تو سوچاکہ اگر میں پنشن کی رقم پر گزارہ کرتے ہوئے ملکی خدمت کو پیش نظر رکھ کر پارلیمنٹ تک رسائی کی جدوجہد کروں تو شاید آپ دوستوں کی مسلسل ترغیب کا مفید اور خاطر خواہ نتیجہ نکل سکتا ہو لہٰذا میں نے آئندہ قومی اسمبلی کے الیکشن میں امیدوار بننے کا ارادہ کرلیا ہے۔پروفیسر صاحب اپنے ساتھی اساتذہ ہی میں نہیں پورے کالج کے طالبعلموں میں بیحد مقبول تھے ان کے آئندہ پروگرام کی خبر ایک ہی دن میں پورے کالج میں پھیل گئی۔ اگلا دن اتوار تھا صبح سویرے ہی کالج کے سیکڑوں طالبعلم ان کے مکان پر جاپہنچے۔
پروفیسر صاحب ان سے ملے اور بتایا کہ انھوں نے تو ابھی صرف ارادہ کیا ہے کہ وہ تدریس کے علاوہ ملکی خدمت میں کوئی اور ذریعہ اختیار کریں جب کہ یہ راستہ بے حد دشوار بھی ہے بلکہ کامیابی کے امکانات ان کی حد تک محدود ہیں کیونکہ نہ سیاسی پس منظر، نہ پیسہ، نہ تجربہ، نہ ذات برادری بلکہ صرف ایک جذبہ اور سوچ۔ ادھر کالج کے طلباء جذباتی ہورہے تھے کہ پروفیسر صاحب آئندہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں وہ سب ان کے لیے Electioneering کریں گے۔
پروفیسر صاحب ملک اور اداروں کے حالات دیکھ کر آتش نمرود میں کودنے کا ارادہ تو کرہی چکے تھے نوجوان طلباء کے جذبے کو دیکھ کر ان کو حوصلہ ہوا۔ اگلی اتوار کو ان کے کالج کے طلباء شہر کے دوسرے کالجوں کے نمائندہ اسٹوڈنٹس کو لے کر پھر ان کے پاس آگئے۔ انھوں نے طلباء کو سمجھایا کہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ طلباء کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوں جس پرا سٹوڈنٹس نے انھیں یقین دلایا کہ وہ اپنی تعلیم پر بھی پوری توجہ دیں گے اور پروفیسر صاحب کے لیکچر یا تقریریں شہر کے ہر چوک، میدان اور موڑ پر ترتیب دیں گے۔
شہر کے سیاسی اور تعلیمی حلقوں کے علاوہ کاروباری لوگوں میں بھی ایک دانشور کے ارادوں پر چہ میگوئیاں ہونے سے محفلوں میں منفی اور مثبت تبصروں کی اطلاعات آتی رہیں۔الیکشن کے دن قریب آئے تو نوجوان طلباء نے پروفیسر صاحب کے لیے ان کے حلقۂ انتخاب میں روزانہ ایک گھنٹے کی کارنر میٹنگ کا بندوبست کردیا۔ یہ پروگرام نہایت کامیاب رہا۔ ان کی تقریریں مختصر ہوتیں۔ لوگوں کو سوال کرنے کا موقع دے کر جواب دیتے۔
یہ سلسلہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ چلا اس کے بعد الیکشن کا دن آگیا۔ ان کا مدمقابل امیدوار ایک بڑی سیاسی پارٹی کا ممبر، دولت مند، سابق ممبر اسمبلی، ایک اکثریتی ذات برادری کا فرد، کرپشن کے کئی مقدمات میں سے صاف بچ نکلا ہوا کھلاڑی، جرائم پیشہ لوگوں کا سرپرست اور ایک جاہل گریجویٹ تھا۔ الیکشن کے دن زبردست مقابلہ ہوا لیکن پروفیسر صاحب کا مخالف امیدوار بہت کم مارجن سے کامیاب ڈیکلیئر ہوگیا۔
پروفیسر صاحب کے سپورٹر نوجوان اور دوست جو بیحد پر امید تھے سخت پریشان، حیران اورحالت کرب میں پائے گئے جب کہ پروفیسر صاحب کے ماتھے پر کوئی شکن نہ تھی۔ رات گئے ان کے سپورٹر ان کے مکان پر اکٹھے ہوئے۔ رزلٹ کا تجزیہ ہوا تو پروفیسر صاحب نے کہا کہ ''عام حالات میں تو میری ضمانت ضبط ہوجانی چاہیے تھی لیکن ایک سرکاری پارٹی کا سابق ممبر بمشکل کامیاب ہوا ہے اس کے بے شمار سپورٹروں نے مجھے یعنی آپ دوستوں کے امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں وہ لوگ جنھوں نے کامیاب ہونے والے شخص کو ووٹ دیے ہمیں سپورٹ کریں گے۔
پروفیسر صاحب نے مزید کہا کہ ہمارے مخالف نے اپنی مرضی کے پولنگ اسٹیشن بنوائے اور خود فہرستیں دے کر پولنگ اسٹاف تعینات کرایا۔ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنز تک لانے اور واپس چھوڑنے کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت دی، ان کو لنچ کرایا، چائے پلائی اور رقوم دیں، ان کے بڑوں کو آئندہ ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکے دینے کے وعدے کیے، بہت سوں کو سرکاری ملازمتیں دلوائیں، ان کے شاندار اور بڑے اخراجات والے جلسے ہوئے، ان کے جلسوں میں وزیر مشیر آئے، ان کے پاس ٹرینڈ اور چالاک پولنگ ایجنٹ تھے'' پروفیسر چیزیں گنواتے ہوئے تھک گئے تو ایک سپورٹر کی لائی ہوئی چائے کا گھونٹ لے کر ہنسے اور سپورٹروں سے مخاطب ہوکر کہنے لگے ''دوستو تبدیلی ایک دن میں نہیں آتی لیکن آپ سب کا بے حد شکریہ کہ آپ سب نے مل کر تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ آپ یقین کریں دراصل آج ہماری مات نہیں جیت ہوئی ہے۔''