ساہیوال پلانٹ چین اور سعودی عرب پر خدشات
دوسری طرف ملک کی خارجہ پالیسی پر بھی ایک طوفان موجود ہے
بجٹ پیش کیا جا چکا ہے۔ لیکن میرے لیے بجٹ کو فوری سمجھنا مشکل ہے۔ یہ الفاظ کا گورگھ دھندہ ہے۔ نہ حکومت کی بات مانی جا سکتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی پیش کردہ تصویر پر یقین کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت سامنے آنے میں چند دن لگیں گے۔ جب حقیقی سٹیک ہولڈرز کو بجٹ سمجھ آنا شروع ہو جائے گا۔ کیونکہ افسوس کی بات تو یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس بجٹ کے حقیقی سٹیک ہولڈرز نہیں ہیں۔ تاہم ڈگڈگی ان کے ہاتھ میں ہے۔
دوسری طرف ملک کی خارجہ پالیسی پر بھی ایک طوفان موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان چین اور سعودی عرب کی جانب سے بنائے جانے والے اتحادوں میں شمولیت اختیار کر چکا ہے لیکن اس ضمن میں بھی شور سمجھ سے بالاتر ہے۔ سعودی عرب کی مخالفت کرنے والوں کو جب کچھ نہیں ملا تو انھوں نے سعودی عرب میں وزیر اعظم پاکستان کو تقریر کا موقع نہ ملنے کو ہی ایشو بنا دیا۔ اور ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بس تقریر نہ کرنے کو ہی وجہ بنا کر اتحاد سے الگ ہونے کا مشورہ دے دیتے۔ جہاں تک وزیر اعظم کی تقریر کا معاملہ ہے تو اس ضمن میں وزارت خارجہ کی وضاحت کے بعد تو بات سمجھ میں آجانی چاہیے۔
چین کے حوالہ سے بھی بہت شور ہے۔ دوست چین کے حوالہ سے بھی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم نے پاکستان کوچین کے حوالہ کر دیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ چین نے اتنا قرضہ دے دیا ہے کہ ہم واپس ہی نہیں کر سکتے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم چین کی کالونی بننے جا رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ چین کے لیے امریکا کو ناراض کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔ غرض ، جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ آجکل چین کے خلاف بات کرنا لوگوں میں ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔کوئی سی پیک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کہہ رہا ہے۔ ایسے میں ساہیوال میں چین کے تیار کردہ کوئلہ سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ نے کام شروع کر دیا ہے۔
یہ سی پیک کے تحت تیار کردہ پہلا منصوبہ ہے۔ منصوبہ ریکارڈ مدت بائیس ماہ میں مکمل ہوا ہے۔ لیکن حکومت مخالفین کے لیے اس منصوبہ کی تکمیل کوئی خوش آئند بات نہیں ہے۔ وہ اسے ماحول دشمن کہہ رہے ہیں۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں کوئلے کے بجلی کے پلانٹ بند ہو رہے ہیں اور پاکستان نے لگا لیا ہے۔ تنقید نگار پتہ نہیں چین کی جانب سے بھارت میں لگائے گئے کوئلے کے پلانٹ کیوں بھول جاتے ہیں۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب چین نے بھارت میں کوئلہ سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ لگائے تو دوستوں نے اسے پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی اور چین کی جانب سے پاکستان دشمنی قرار دیا تھا ۔ تاہم اب پاکستان میں یہ پلانٹ لگائے گئے ہیں تو نئی منطق بیان کی جا رہی ہے۔ جو پلانٹ بھارت میں جائز تھے اب ناجائز قرار دیے جا رہے ہیں۔ اس منصوبہ کی ریکارڈ مدت میں تکمیل پر تنازعہ بھی دلچسپ ہے۔ چینی اس کو شہباز اسپیڈ کہہ رہے ہیں۔
شہباز شریف اس کو پنجاب اسپیڈ کہہ رہے ہیں اور وزیر اعظم میاں نواز شریف اس کو مسلم لیگ کی پی ایم ایل این اسپیڈ کہہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کامیابی کے بہت سے باپ ہوتے ہیں اور نا کامی لاوارث ہوتی ہے کے مصداق اس کامیابی کا بھی سب کریڈٹ لے رہے ہیں۔ پاکستان ریلوے جسے خواجہ سعد رفیق سے پہلے بند کرنے کی پیشن گوئیاں تھیں اب اس منصوبہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے لیے ریلوے نے اپنا کام چھ ماہ قبل ہی پورا کر لیا تھا۔ ٹریک بچھا دیا تھا۔ یہ سعد اسپیڈ ہے جس نے ریلوے میں جان ڈال دی ہے۔
جس وقت وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب ساہیوال میں کوئلہ سے چلنے والے پلانٹ کا افتتاح کر رہے تھے تو تھر میں سابق صدر آصف زرداری وزیر اعلیٰ سندھ کے ہمراہ تھر میں لگنے والے بجلی کے منصوبوں پر کام کی رفتار کا جائزہ لے رہے تھے۔
تھرکا کوئلہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو ساہیوال لا کر استعمال کیا جا سکے لیکن اس سے تھر میں ہی بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جس میں وہاں ڈیم سمیت کافی معاملات شامل ہیں۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ سندھ حکومت بھی اس پر توجہ دے رہی ہے۔ دیر آئد درست آئد کی مانند ۔ اللہ کرے کہ تھر کے منصوبے بھی جلد مکمل ہو جائیں۔
جہاں تک یہ سوال ہے کہ جب دنیا میں کوئلہ سے بجلی بنانے کے پلانٹ بند ہو رہے ہیں اور ہم کیوں لگا رہے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی پاکستان کی لوڈ شیڈنگ میں مدد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ یہاں کوئی پلانٹ لگانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اسی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پاکستان کو ایک فیل اسٹیٹ کہا جا رہا تھا۔
عالمی ادارے پاکستان کے معاشی طور پر فیل ہونے کی پیشن گوئیاں کر رہے تھے۔ اور دنیا ہمارے اندھیروں کا تماشہ دیکھ رہی تھی۔ ایسے میں پاکستان کے پاس کیا آپشن تھے۔ ڈیم بنانے میں تو دس سال لگ جاتے ہیں۔ مغرب سول نیوکلیئر دینے کو تیار نہیں تھا۔ ہم کیا کرتے۔ چین نے جو منصوبے لگائے ہیں اس کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا۔ حتیٰ کے بھارت نے بھی اپنے ملک میں لوڈ شیڈنگ سے نبٹنے کے لیے ایسے ہی منصوبے لگائے ہیں۔
پاکستان میں چین کے حوالے سے جو منفی خدشات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ کس حد تک جائز ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمیں چین سے اپنے معاملات طے کرتے وقت ملکی مفاد کو سامنے رکھنا ہو گا۔ کوئی فری لنچ نہیں ہو گا۔ چین نے اپنا مفاد دیکھنا ہے ہم نے اپنا مفاد دیکھنا ہے۔ لیکن اگر امریکا اور مغرب کو چین کے حوالہ سے خدشات ہیں تو وہ ان کے خدشات ہیں۔وہ ہمارے خدشات نہیں ہیں۔ ہم امریکا کا بیانیہ قبول نہیں کر سکتے۔ اسی طرح سعودی عرب کے ساتھ بھی ہمیں اپنا مفاد دیکھنا ہے۔ سب قومی مفاد کا کھیل ہے۔ضرورت اس امر کی ہے ملکی مفاد سامنے رکھا جائے کسی کا ذاتی مفاد آگے نہ آجائے۔
دوسری طرف ملک کی خارجہ پالیسی پر بھی ایک طوفان موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان چین اور سعودی عرب کی جانب سے بنائے جانے والے اتحادوں میں شمولیت اختیار کر چکا ہے لیکن اس ضمن میں بھی شور سمجھ سے بالاتر ہے۔ سعودی عرب کی مخالفت کرنے والوں کو جب کچھ نہیں ملا تو انھوں نے سعودی عرب میں وزیر اعظم پاکستان کو تقریر کا موقع نہ ملنے کو ہی ایشو بنا دیا۔ اور ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بس تقریر نہ کرنے کو ہی وجہ بنا کر اتحاد سے الگ ہونے کا مشورہ دے دیتے۔ جہاں تک وزیر اعظم کی تقریر کا معاملہ ہے تو اس ضمن میں وزارت خارجہ کی وضاحت کے بعد تو بات سمجھ میں آجانی چاہیے۔
چین کے حوالہ سے بھی بہت شور ہے۔ دوست چین کے حوالہ سے بھی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم نے پاکستان کوچین کے حوالہ کر دیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ چین نے اتنا قرضہ دے دیا ہے کہ ہم واپس ہی نہیں کر سکتے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم چین کی کالونی بننے جا رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ چین کے لیے امریکا کو ناراض کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔ غرض ، جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ آجکل چین کے خلاف بات کرنا لوگوں میں ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔کوئی سی پیک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کہہ رہا ہے۔ ایسے میں ساہیوال میں چین کے تیار کردہ کوئلہ سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ نے کام شروع کر دیا ہے۔
یہ سی پیک کے تحت تیار کردہ پہلا منصوبہ ہے۔ منصوبہ ریکارڈ مدت بائیس ماہ میں مکمل ہوا ہے۔ لیکن حکومت مخالفین کے لیے اس منصوبہ کی تکمیل کوئی خوش آئند بات نہیں ہے۔ وہ اسے ماحول دشمن کہہ رہے ہیں۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں کوئلے کے بجلی کے پلانٹ بند ہو رہے ہیں اور پاکستان نے لگا لیا ہے۔ تنقید نگار پتہ نہیں چین کی جانب سے بھارت میں لگائے گئے کوئلے کے پلانٹ کیوں بھول جاتے ہیں۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب چین نے بھارت میں کوئلہ سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ لگائے تو دوستوں نے اسے پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی اور چین کی جانب سے پاکستان دشمنی قرار دیا تھا ۔ تاہم اب پاکستان میں یہ پلانٹ لگائے گئے ہیں تو نئی منطق بیان کی جا رہی ہے۔ جو پلانٹ بھارت میں جائز تھے اب ناجائز قرار دیے جا رہے ہیں۔ اس منصوبہ کی ریکارڈ مدت میں تکمیل پر تنازعہ بھی دلچسپ ہے۔ چینی اس کو شہباز اسپیڈ کہہ رہے ہیں۔
شہباز شریف اس کو پنجاب اسپیڈ کہہ رہے ہیں اور وزیر اعظم میاں نواز شریف اس کو مسلم لیگ کی پی ایم ایل این اسپیڈ کہہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کامیابی کے بہت سے باپ ہوتے ہیں اور نا کامی لاوارث ہوتی ہے کے مصداق اس کامیابی کا بھی سب کریڈٹ لے رہے ہیں۔ پاکستان ریلوے جسے خواجہ سعد رفیق سے پہلے بند کرنے کی پیشن گوئیاں تھیں اب اس منصوبہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے لیے ریلوے نے اپنا کام چھ ماہ قبل ہی پورا کر لیا تھا۔ ٹریک بچھا دیا تھا۔ یہ سعد اسپیڈ ہے جس نے ریلوے میں جان ڈال دی ہے۔
جس وقت وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب ساہیوال میں کوئلہ سے چلنے والے پلانٹ کا افتتاح کر رہے تھے تو تھر میں سابق صدر آصف زرداری وزیر اعلیٰ سندھ کے ہمراہ تھر میں لگنے والے بجلی کے منصوبوں پر کام کی رفتار کا جائزہ لے رہے تھے۔
تھرکا کوئلہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو ساہیوال لا کر استعمال کیا جا سکے لیکن اس سے تھر میں ہی بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جس میں وہاں ڈیم سمیت کافی معاملات شامل ہیں۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ سندھ حکومت بھی اس پر توجہ دے رہی ہے۔ دیر آئد درست آئد کی مانند ۔ اللہ کرے کہ تھر کے منصوبے بھی جلد مکمل ہو جائیں۔
جہاں تک یہ سوال ہے کہ جب دنیا میں کوئلہ سے بجلی بنانے کے پلانٹ بند ہو رہے ہیں اور ہم کیوں لگا رہے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی پاکستان کی لوڈ شیڈنگ میں مدد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ یہاں کوئی پلانٹ لگانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اسی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پاکستان کو ایک فیل اسٹیٹ کہا جا رہا تھا۔
عالمی ادارے پاکستان کے معاشی طور پر فیل ہونے کی پیشن گوئیاں کر رہے تھے۔ اور دنیا ہمارے اندھیروں کا تماشہ دیکھ رہی تھی۔ ایسے میں پاکستان کے پاس کیا آپشن تھے۔ ڈیم بنانے میں تو دس سال لگ جاتے ہیں۔ مغرب سول نیوکلیئر دینے کو تیار نہیں تھا۔ ہم کیا کرتے۔ چین نے جو منصوبے لگائے ہیں اس کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا۔ حتیٰ کے بھارت نے بھی اپنے ملک میں لوڈ شیڈنگ سے نبٹنے کے لیے ایسے ہی منصوبے لگائے ہیں۔
پاکستان میں چین کے حوالے سے جو منفی خدشات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ کس حد تک جائز ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمیں چین سے اپنے معاملات طے کرتے وقت ملکی مفاد کو سامنے رکھنا ہو گا۔ کوئی فری لنچ نہیں ہو گا۔ چین نے اپنا مفاد دیکھنا ہے ہم نے اپنا مفاد دیکھنا ہے۔ لیکن اگر امریکا اور مغرب کو چین کے حوالہ سے خدشات ہیں تو وہ ان کے خدشات ہیں۔وہ ہمارے خدشات نہیں ہیں۔ ہم امریکا کا بیانیہ قبول نہیں کر سکتے۔ اسی طرح سعودی عرب کے ساتھ بھی ہمیں اپنا مفاد دیکھنا ہے۔ سب قومی مفاد کا کھیل ہے۔ضرورت اس امر کی ہے ملکی مفاد سامنے رکھا جائے کسی کا ذاتی مفاد آگے نہ آجائے۔