رشتوں کی حقیقت اور اہمیت
آج کے مادہ پرستی یا مشینی دور میں ہمارا معاشرتی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہے
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ بزرگوں کا لحاظ، اپنوں سے محبت، ان کی عزت، ان کا کہنا ماننا، خیال رکھنا کبھی ہمارا وصف اور امتیاز تھا لیکن اب یہ کام بھی اغیار نے سنبھال لیا ہے۔ سبھی کچھ اب ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل کی اسکرینوں نے ہڑپ کرکے انھیں حد درجہ کمزور اورکمتر کردیا ہے کہ قدرت نے انسان کو بدترین حالات کے مطابق خود کو ڈھال لینے کی حیرت انگیز صلاحیتوں سے نوازا ہے؟ اور پھر آفاقی سچائی بھی یہی ہے کہ تعلق اور رشتہ خواہ کتنا ہی مضبوط، کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو اسے بالآخر ٹوٹ جانا ہی ہوتا ہے۔
آج کے مادہ پرستی یا مشینی دور میں ہمارا معاشرتی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہے، روز قیامت کی طرح ہر انسان کو اپنی پڑی ہوئی ہے،کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں ہے۔ عزیز رشتے داروں کے ساتھ، مل بیٹھنا، ان کے ساتھ سیروتفریح سب کا سب ہمارے معاشرتی کلچر کا ماضی بن کر رہ گیا ہے، اب کوئی کسی سے ملنے کا روادار بھی نہیں رہا، آج کے انسان نے خودکو انتہائی محدود کرلیا ہے اب ''سوشل میڈیا'' پر ہی وہ اپنے رشتے داروں، دوست احباب سے اِن ٹچ رہتا ہے، بات نہیں کرتا ان سے صرف ''ایس ایم ایس'' سے کام چلا رہا ہے اس کا موبائل بیلنس اسے اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے زیادہ عزیز ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مخلص رشتوں کی بنیاد اس پہلی اینٹ کی مانند ہوتی ہے جو اگر ٹیڑھی رکھ دی جائے تو آسمان تک دیوار ٹیڑھی بنتی ہے۔ ہماری دانست میں رشتوں کو نبھانا جتنا ضروری ہے اس سے زیادہ اس میں توازن رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ رشتے مضبوط ہوں یا کمزور بہرطور وہ انسان کی تکمیل ہوتے ہیں، لیکن دنیا کی سب سے زیادہ نازک عارضی، ناقابل اعتبار چیز انسانی رشتے ہوتے ہیں۔ بلاشبہ وقت، دوست اور رشتے ہمیں مفت ملتے ہیں لیکن ان کی قدروقیمت کا تب پتہ چلتا ہے جب یہ کہیں گم ہوجاتے ہیں۔
ہمارے سماج میں یوں تو سارے رشتوں کی اہمیت ہے لیکن ان میں والدین کے رشتوں کی بڑی اہمیت اور حساسیت دیکھنے اور برتنے میں ملتی ہے۔ حال ہی میں ''مدر ڈے'' منایا گیا اس دن بڑا غلغلہ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے اور فادر ڈے پر اتنا جوش وخروش نظر نہیں آتا، حالانکہ مقدس رشتے مقدس ہی رہتے ہیں ان کی کیٹیگری مقرر نہیں ہونی چاہیے لیکن ایسا شاید اس لیے بھی ہوتا ہے کہ تمام تر خواہشات کی تکمیل، آسائشوں کی فراہمی کے باوجود آج کا باپ برسہا برس سے ''رول ماڈل'' نہیں صرف ''اے ٹی ایم مشین'' ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مدر اور فادر ڈے جب ہم نہیں مناتے تھے تو کیا ہم اپنے والدین سے محبت نہیں کرتے تھے؟
اقوام متحدہ کے کہنے پر ہمیں اپنے والدین کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے؟ کیا اب بھی ہمارے اکثر گھرانوں میں ناخلف اور ناہنجار بیٹے اور بیٹیاں نہیں جو اس دن کے آنے پر بھی اپنی خو بدلنے پر تیار نہیں۔ ہمارے ہاں آج تک کسی حکومت کسی کونسل نے بزرگوں کے لیے کچھ نہیں کیا ہے؟ اس کا مطلب صاف ہے کہ ہمارے معاشرے میں بزرگوں اور ناداروں کے لیے اچھے دن نہ تھے اور نہ کبھی ہوں گے۔ اکثر گھروں میں نگاہ کی جائے تو بوڑھے اور ضعیف والدین کوکوئی سنبھالنے کے لیے تیار نہیں حد تو یہ کہ بیٹیاں بھی ان سے پہلو تہی کرتی ہیں۔ بیشتر گھرانوں میں والدین کو بیمار ہوجانے پر ''ایدھی ہوم'' پہنچادیا جاتا ہے اور وہاں ان کو پلٹ کر کوئی دیکھنے نہیں جاتا۔
بہت سے گھروں میں بہت بھائیوں یا والدین کے مابین اختلافات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ ان میں علیحدگی ہوجاتی ہے موت، عید جیسے تہوار تک پر وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں رہتے۔ پاکستان میں معاشرتی رشتوں کے حوالے سے ہزاروں این جی اوز قائم ہیں لیکن وہ سب مل کر بھی رشتوں کے سبھاؤ، بناؤ یا اس میں یگانگت واخوت پیدا کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔
دراصل رشتے احساسات سے جڑے ہوتے ہیں اگر احساس مرجائے تو ان ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کی باریک باریک کرچیاں ایسے زخم دے جاتی ہیں جو رہتی سانسوں تک رِستے رہتے ہیں اور ان زخموں کا مداوا نہیں ہوتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے بڑے رشتوں کا یا تو سرے سے ختم ہی کردیتی ہیں یا پھر معمولی معمولی باتیں بڑے بڑے رشتوں میں بدگمانی کے ایسے سوراخ کردیتی ہیں کہ انسان ساری عمر ان سوراخوں میں وضاحتوں کی اینٹیں لگا کر بھی خوبصورت رشتوں کو نہیں بچایا جا سکتا۔
ایسا محض اس لیے بھی ہوتا ہے کہ تعلق اور رشتے فرصت کے نہیں بلکہ عزت توجہ اور اہمیت کے محتاج ہوتے ہیں انھیں جتنی قدرومنزلت دی جائے اتنے ہی وہ گہرے اور مضبوط ہوتے جاتے ہیں، لیکن کیا ہے کہ ہم سب زندگی کے مسائل، مصائب اور بکھیڑوں میں پھنس کر اپنے والدین، بہن بھائیوں اور دیگر اہم خونی رشتوں کی خدمت سے محروم رہتے ہیں اور اس خدمت کا قرض کندھوں پر اٹھائے اپنی اپنی قبروں میں چلے جاتے ہیں۔
سماجی رشتوں میں میاں بیوی کا رشتہ بیشتر جگہوں پر خونی رشتوں سے زیادہ مضبوط اورگہرا چلا آرہا ہے اور یہ بھی دیکھنے میں ملتا ہے کہ سارے خونی رشتے اس کاغذی رشتے کے سامنے مانند پڑ جاتے ہیں۔ بیوی کے آگے ماں باپ، بہن بھائی سبھی ہیچ نظر آتے ہیں بالخصوص ماں باپ کے ساتھ بہو بیٹے کا سلوک بڑا ظالمانہ ہوتا ہے کاش اولادیں یہ جان پاتیں کہ ماں باپ سے سلوک ایک ایسی کہانی ہے جسے لکھتے تو وہ ہیں مگر ان کی اولاد اسے پڑھ کر سناتی ہے۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ سب سے زیادہ مشکل جنگیں گھروں میں لڑی جاتی ہیں اور یہ جنگیں بہت ہی کٹھن ہوتی ہیں لیکن یہ ہمیشہ بے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں اس لیے بھی کہ اپنوں سے لڑنے میں ہمیشہ ہار ہی ہوتی ہے۔ کاش ہر گھر کے مکیں اس صداقت پر یقین کر پاتے کہ زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنانا پڑتا ہے کبھی برداشت کرکے اور کبھی کچھ نظرانداز کرکے۔ کیونکہ رشتوں میں جب دراڑ آجائے تو زندگیاں لگ جاتی ہیں انھیں پُرکرنے میں۔ ویسے بھی انسانی محرومیاں، بچپن کی زیادتیاں، بچپن کی مار اور بچپن کے سمجھوتے ہماری ذات کے خلا بن جاتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے جاتے ہیں، ہم کبھی اس خلا کوکتابوں سے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں،کبھی عورتوں سے،کبھی شعروں سے کبھی دولت اور شہرت سے لیکن یہ خلا کبھی پُر نہیں ہوتے۔
ازدواجی رشتوں کی حقیقت بھی اب عیاں ہو گئی ہے کہ نئی ارینج اور لَو میرج بھی ایک سال یا چھ مہینے مشکل سے چل پاتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح حد درجہ بڑھتی جا رہی ہے اور یوں ہمارا پورے کا پورا سماج انسانی رشتوں کے حوالے سے نحیف وتنہا نظر آتا ہے۔ بیشتر لوگ اپنے سماجی یا گھریلو حالات سے دل برداشتہ ہوکرخودکشی تک کر لیتے ہیں وگرنہ مر مر کر تو ہر کوئی جی رہا ہے یا جی لیتا ہے۔
زندگی اور خربوزے میں اسی وجہ سے ایک قدر مشترک رکھی گئی ہے کہ پھیکی اور پھیکے ہونے پر بھی دل اسے پھینکنے یا چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ انسان کھانے اور پانی کے بغیر چند دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن امید اور تمنا کے بغیر ایک پل جینا بھی محال ہوتا ہے، افسوس ہمارے ہاں لاکھوں دولخت انسان امید کے بغیر ہی جی رہے ہیں۔
رشتوں کی حقیقت کے حوالے سے یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ رشتہ کتنا ہی پرانا خونی یا پھر دیرپا کیوں نہ ہو رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے میں ہوتی ہے افسوس ہم سبھی سے برداشت کی برکت رخصت ہوچکی ہے۔ ہمیں زندگی صرف اپنے لیے یا کسی اور کے لیے وقف نہیں کرنی چاہیے جن کے ساتھ ہم زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ زندگی ان کے نام ہونی چاہیے جن کے بنا ہم زندگی نہیں گزار سکتے۔
آج کے مادہ پرستی یا مشینی دور میں ہمارا معاشرتی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہے، روز قیامت کی طرح ہر انسان کو اپنی پڑی ہوئی ہے،کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں ہے۔ عزیز رشتے داروں کے ساتھ، مل بیٹھنا، ان کے ساتھ سیروتفریح سب کا سب ہمارے معاشرتی کلچر کا ماضی بن کر رہ گیا ہے، اب کوئی کسی سے ملنے کا روادار بھی نہیں رہا، آج کے انسان نے خودکو انتہائی محدود کرلیا ہے اب ''سوشل میڈیا'' پر ہی وہ اپنے رشتے داروں، دوست احباب سے اِن ٹچ رہتا ہے، بات نہیں کرتا ان سے صرف ''ایس ایم ایس'' سے کام چلا رہا ہے اس کا موبائل بیلنس اسے اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے زیادہ عزیز ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مخلص رشتوں کی بنیاد اس پہلی اینٹ کی مانند ہوتی ہے جو اگر ٹیڑھی رکھ دی جائے تو آسمان تک دیوار ٹیڑھی بنتی ہے۔ ہماری دانست میں رشتوں کو نبھانا جتنا ضروری ہے اس سے زیادہ اس میں توازن رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ رشتے مضبوط ہوں یا کمزور بہرطور وہ انسان کی تکمیل ہوتے ہیں، لیکن دنیا کی سب سے زیادہ نازک عارضی، ناقابل اعتبار چیز انسانی رشتے ہوتے ہیں۔ بلاشبہ وقت، دوست اور رشتے ہمیں مفت ملتے ہیں لیکن ان کی قدروقیمت کا تب پتہ چلتا ہے جب یہ کہیں گم ہوجاتے ہیں۔
ہمارے سماج میں یوں تو سارے رشتوں کی اہمیت ہے لیکن ان میں والدین کے رشتوں کی بڑی اہمیت اور حساسیت دیکھنے اور برتنے میں ملتی ہے۔ حال ہی میں ''مدر ڈے'' منایا گیا اس دن بڑا غلغلہ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے اور فادر ڈے پر اتنا جوش وخروش نظر نہیں آتا، حالانکہ مقدس رشتے مقدس ہی رہتے ہیں ان کی کیٹیگری مقرر نہیں ہونی چاہیے لیکن ایسا شاید اس لیے بھی ہوتا ہے کہ تمام تر خواہشات کی تکمیل، آسائشوں کی فراہمی کے باوجود آج کا باپ برسہا برس سے ''رول ماڈل'' نہیں صرف ''اے ٹی ایم مشین'' ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مدر اور فادر ڈے جب ہم نہیں مناتے تھے تو کیا ہم اپنے والدین سے محبت نہیں کرتے تھے؟
اقوام متحدہ کے کہنے پر ہمیں اپنے والدین کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے؟ کیا اب بھی ہمارے اکثر گھرانوں میں ناخلف اور ناہنجار بیٹے اور بیٹیاں نہیں جو اس دن کے آنے پر بھی اپنی خو بدلنے پر تیار نہیں۔ ہمارے ہاں آج تک کسی حکومت کسی کونسل نے بزرگوں کے لیے کچھ نہیں کیا ہے؟ اس کا مطلب صاف ہے کہ ہمارے معاشرے میں بزرگوں اور ناداروں کے لیے اچھے دن نہ تھے اور نہ کبھی ہوں گے۔ اکثر گھروں میں نگاہ کی جائے تو بوڑھے اور ضعیف والدین کوکوئی سنبھالنے کے لیے تیار نہیں حد تو یہ کہ بیٹیاں بھی ان سے پہلو تہی کرتی ہیں۔ بیشتر گھرانوں میں والدین کو بیمار ہوجانے پر ''ایدھی ہوم'' پہنچادیا جاتا ہے اور وہاں ان کو پلٹ کر کوئی دیکھنے نہیں جاتا۔
بہت سے گھروں میں بہت بھائیوں یا والدین کے مابین اختلافات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ ان میں علیحدگی ہوجاتی ہے موت، عید جیسے تہوار تک پر وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں رہتے۔ پاکستان میں معاشرتی رشتوں کے حوالے سے ہزاروں این جی اوز قائم ہیں لیکن وہ سب مل کر بھی رشتوں کے سبھاؤ، بناؤ یا اس میں یگانگت واخوت پیدا کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔
دراصل رشتے احساسات سے جڑے ہوتے ہیں اگر احساس مرجائے تو ان ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کی باریک باریک کرچیاں ایسے زخم دے جاتی ہیں جو رہتی سانسوں تک رِستے رہتے ہیں اور ان زخموں کا مداوا نہیں ہوتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے بڑے رشتوں کا یا تو سرے سے ختم ہی کردیتی ہیں یا پھر معمولی معمولی باتیں بڑے بڑے رشتوں میں بدگمانی کے ایسے سوراخ کردیتی ہیں کہ انسان ساری عمر ان سوراخوں میں وضاحتوں کی اینٹیں لگا کر بھی خوبصورت رشتوں کو نہیں بچایا جا سکتا۔
ایسا محض اس لیے بھی ہوتا ہے کہ تعلق اور رشتے فرصت کے نہیں بلکہ عزت توجہ اور اہمیت کے محتاج ہوتے ہیں انھیں جتنی قدرومنزلت دی جائے اتنے ہی وہ گہرے اور مضبوط ہوتے جاتے ہیں، لیکن کیا ہے کہ ہم سب زندگی کے مسائل، مصائب اور بکھیڑوں میں پھنس کر اپنے والدین، بہن بھائیوں اور دیگر اہم خونی رشتوں کی خدمت سے محروم رہتے ہیں اور اس خدمت کا قرض کندھوں پر اٹھائے اپنی اپنی قبروں میں چلے جاتے ہیں۔
سماجی رشتوں میں میاں بیوی کا رشتہ بیشتر جگہوں پر خونی رشتوں سے زیادہ مضبوط اورگہرا چلا آرہا ہے اور یہ بھی دیکھنے میں ملتا ہے کہ سارے خونی رشتے اس کاغذی رشتے کے سامنے مانند پڑ جاتے ہیں۔ بیوی کے آگے ماں باپ، بہن بھائی سبھی ہیچ نظر آتے ہیں بالخصوص ماں باپ کے ساتھ بہو بیٹے کا سلوک بڑا ظالمانہ ہوتا ہے کاش اولادیں یہ جان پاتیں کہ ماں باپ سے سلوک ایک ایسی کہانی ہے جسے لکھتے تو وہ ہیں مگر ان کی اولاد اسے پڑھ کر سناتی ہے۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ سب سے زیادہ مشکل جنگیں گھروں میں لڑی جاتی ہیں اور یہ جنگیں بہت ہی کٹھن ہوتی ہیں لیکن یہ ہمیشہ بے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں اس لیے بھی کہ اپنوں سے لڑنے میں ہمیشہ ہار ہی ہوتی ہے۔ کاش ہر گھر کے مکیں اس صداقت پر یقین کر پاتے کہ زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنانا پڑتا ہے کبھی برداشت کرکے اور کبھی کچھ نظرانداز کرکے۔ کیونکہ رشتوں میں جب دراڑ آجائے تو زندگیاں لگ جاتی ہیں انھیں پُرکرنے میں۔ ویسے بھی انسانی محرومیاں، بچپن کی زیادتیاں، بچپن کی مار اور بچپن کے سمجھوتے ہماری ذات کے خلا بن جاتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے جاتے ہیں، ہم کبھی اس خلا کوکتابوں سے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں،کبھی عورتوں سے،کبھی شعروں سے کبھی دولت اور شہرت سے لیکن یہ خلا کبھی پُر نہیں ہوتے۔
ازدواجی رشتوں کی حقیقت بھی اب عیاں ہو گئی ہے کہ نئی ارینج اور لَو میرج بھی ایک سال یا چھ مہینے مشکل سے چل پاتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح حد درجہ بڑھتی جا رہی ہے اور یوں ہمارا پورے کا پورا سماج انسانی رشتوں کے حوالے سے نحیف وتنہا نظر آتا ہے۔ بیشتر لوگ اپنے سماجی یا گھریلو حالات سے دل برداشتہ ہوکرخودکشی تک کر لیتے ہیں وگرنہ مر مر کر تو ہر کوئی جی رہا ہے یا جی لیتا ہے۔
زندگی اور خربوزے میں اسی وجہ سے ایک قدر مشترک رکھی گئی ہے کہ پھیکی اور پھیکے ہونے پر بھی دل اسے پھینکنے یا چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ انسان کھانے اور پانی کے بغیر چند دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن امید اور تمنا کے بغیر ایک پل جینا بھی محال ہوتا ہے، افسوس ہمارے ہاں لاکھوں دولخت انسان امید کے بغیر ہی جی رہے ہیں۔
رشتوں کی حقیقت کے حوالے سے یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ رشتہ کتنا ہی پرانا خونی یا پھر دیرپا کیوں نہ ہو رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے میں ہوتی ہے افسوس ہم سبھی سے برداشت کی برکت رخصت ہوچکی ہے۔ ہمیں زندگی صرف اپنے لیے یا کسی اور کے لیے وقف نہیں کرنی چاہیے جن کے ساتھ ہم زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ زندگی ان کے نام ہونی چاہیے جن کے بنا ہم زندگی نہیں گزار سکتے۔