طاقتور کی دنیا

ایران نے ہرجگہ اپنے حامی گروہوں اور ملکوں کومسلح کیاہے اورجنگ کے لیے آمادہ بھی

raomanzarhayat@gmail.com

سسیرو (Cicero) کے افکار کو سامنے رکھ کرآج کے حالات کے متعلق لکھنا چاہتا تھا۔ مگرذہن امریکی صدر کا مسلمان ملک کے دورہ کی جانب چلاگیا۔سسیروکے ہزاروں برس پہلے کہے اورلکھے ہوئے خیالات تھوڑی دیر کے لیے ذہن کے نہاں خانہ میں غائب ہوگئے۔مگروہ عظیم فلسفی کہاں غائب ہوسکتا ہے۔

روم کی عظیم تہذیب کاروشن دماغ، جس نے ہزاروں برس پہلے حکومت،ریاست اور لوگوں کے درمیان حقوق اورفرائض کی بات کی۔الیکشن کی بات کی۔ جس نے ملک کے ہرطبقہ کاکردار بہترین طریقے سے اُجاگرکرڈالا۔خیراس بڑے آدمی کی گہری باتیں اورآج کی دنیا پر اس کے اثرات پھرکبھی لکھوںگا۔

ڈونلڈٹرمپ ایک مشکل انسان ہے۔ اس نے جس طرح امریکا بلکہ دنیاکا سب سے طاقتورعہدہ حاصل کیا، اس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ٹرمپ ایک سترسالہ انسان ہے جوحقائق کوحالات کے مطابق ڈھالنے کی اہمیت سے واقف ہے۔ سعودی عرب اورمسلمانوں کے متعلق اس کے منفی خیالات سے ہرکوئی واقف ہے۔مگریہ کوئی نہیں جانتاتھاکہ امریکی صدراتنی تیزی سے عملیت پسندی کی جانب گامزن ہوگا۔مقصد صرف ایک، بس امریکا کی ترقی۔ سعودی عرب کے حالیہ دورے کے متعلق بہت کچھ لکھاجارہاہے اورجاتا رہے گا۔مگراس دورہ سے سعودی عرب کے شاہی خاندان کی فکری کمزوری کھل کر سامنے آگئی ہے۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ ایران نے ہرجگہ اپنے حامی گروہوں اور ملکوں کومسلح کیاہے اورجنگ کے لیے آمادہ بھی۔مگریہ کام توسعودی عرب اوردیگر ممالک عرصہ درازسے کرتے چلے آرہے ہیں۔مسلم دنیامیں ہر طرف سعودی عرب اورایران کی پراکسی وار جاری ہے۔ دونوں ملکوں کے پاس اَن گنت جوازہیں مگرحقیقت میں کوئی جوازنہیں۔عسکری اعتبارسے سعودی عرب اورایران دونوں طاقتورممالک میں نہیں آتے۔گلوبل فائر پاور انڈکس اس حقیقت کی تصدیق کرتاہے۔

یہ انڈکس دنیاکے تمام ممالک کی فوجی،فضائی اوربحری قوت کاتجزیہ کرتاہے اوراس کے بعدایک فہرست کے طورپرشایع کردیتاہے۔ ایران اس میں بیسویں نمبرپرہے۔سعودی عرب چوبیس نمبرپرموجودہے۔یعنی دونوں متحارب ملک تقریباً ایک جیسے ہیں۔دلیل کی بنیادپردیکھیں تودونوں ممالک کسی بھی فریق کوبھرپورنقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ مگرڈونلڈٹرمپ نے کمال سمجھداری سے تمام اسلامی دنیا کے سامنے ایران کوایک دشمن بناکرپیش کیا ہے۔ اس کوشش سے امریکا کوچارسوارب ڈالرکے جنگی ہتھیار بیچنے کاموقعہ ملاہے۔

بتایاگیاتھاکہ سعودی بادشاہ کبھی کسی غیرملکی حکمران کو بذات خود ائیرپورٹ پرخوش آمدیدنہیںکہتا۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ میں یہ روایت بھی ٹوٹ گئی ۔بادشاہ خود صدرکولینے ان کے جہازتک گئے ۔اس سے صرف ایک بات سامنے آئی کہ امریکی صدرکوئی بھی ہو،بہرحال وہ معززترین حاکم سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔یہ اہمیت مصرکے صدرسیسی یا اردن کے بادشاہ کے نصیب میںنہیںآئی۔اب،توجہ دوسری طرف لے جائیے۔ سعودی عرب مسلم دنیا میں ایک سخت گیر معاشرے کی ترجمانی کرتاہے۔سعودی معاشرہ میں خواتین کی آزادی ایسی نہیں جیسی پاکستان یا مصر میں ہے۔


سیاست، فیصلہ سازی اورحکومت میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ان کے لباس کے متعلق ایک ضابطہ اورقانون موجودہے ۔ ٹرمپ اوراس کی فیملی نے کئی روایتوں کو توڑا ہے ۔فسٹ لیڈی ملینا ٹرمپ نے وہی لباس پہنا جو امریکا میں پہنتی ہے۔امریکی طرزکی اسکرٹ اوراس کے ساتھ ساتھ مغربی روایت کے مطابق برہنہ سر۔اس نے کوئی اسکارف نہیں پہنا۔ اس سے بادشاہ نے بالکل اسی طرزسے ہاتھ ملایاجس طرح صدرسے ملایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ امریکی خاتون اول کو ایسا استثنا کیوں؟۔بس اتنا کہوں گا کہ یہ طاقتوروں کی دنیا ہے۔

اب اس رویے کی طرف بھی توجہ فرمائیے جو میڈیا کے مطابق پاکستان کے ساتھ روارکھاگیا۔ اس پر بعض حضرات جذباتی بھی ہوئے ہوگئے ۔ سچ کیاہے اس کے لیے ہمیں ٹھنڈے دل ودما غ سے سوچناہوگا۔دنیاکا کوئی ایک ملک بتادیں جہاں پاکستانیوں کی بحیثیت قوم احترام ہو۔ بہت تلخ بات ہے۔مگرگزشتہ تیس سے چالیس برسوں میں قومی وقارکی حدپاکستانی ائیرپورٹ پرہی ختم ہوجاتی ہے۔ دنیاکے متعدد ملک دیکھ چکاہوں۔تقریباًہربراعظم میں جانے کااتفاق ہوا ہے۔

ایک ملک یاایک بھی غیرملکی ائیرپورٹ نہیں دیکھا،جہاں پاکستانی پاسپورٹ کی اہمیت ہو۔ آپ مغربی ممالک کوتوجانے دیجیے۔سعودی عرب میں پاکستانیوں کی کیاقدرومنزلت ہے۔اندازہ ایک منٹ میں کسی بھی پاکستانی کی رام کہانی سن کر ہوجاتا ہے۔ جب سعودی عرب میں ہمیں کوئی اہمیت حاصل ہے، تو صاحب، سرکاری وفدکی ناقدری کاکیاگلہ بلکہ کیسا گلہ۔ عرض کروںگاکہ نوازشریف کاتوپھربھی ذاتی احترام اورعزت ہے۔کبھی کسی سے پوچھیے کہ زرداری صاحب اوربینظیرسے ان کاکیسارویہ تھا۔ میں ان دانشوروں سے اتفاق نہیں کرتاجوبتارہے ہیں کہ ہماری بے عزتی کی گئی ہے۔

صاحب،آپ کی عزت ہوئی کب تھی کہ آپ اس سلوک کاروناروئیں۔طالبعلم،وزیراعظم کی تقریرنہ کرنے کوبھی متنازع نہیں سمجھتاکیونکہ یہ اختیارصرف اورصرف ہوسٹ(Host)ملک کاہوتاہے کہ وہ کسی سے تقریر کرائے یانہ کرائے۔ وہاں مسلمان ممالک کے تمام جمہوری اورغیرجمہوری فرمانروا موجودتھے۔سعودی حکومت ہرایک سے تقریرنہیں کراسکتی تھی۔یہ اختیارہماری حکومت کا نہیں ہے کہ ہم زبردستی تقریرکریں۔لہذا،ہم ہرسفارتی عمل کوبھی متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ادھر سوشل میڈیا پرسعودی تحفوں کی ایک غیرمصدقہ فہرست گردش میں ہے۔ جس کی کوئی تصدیق نہیں کرتا۔ اس میں ہیرے جواہرات،سونے کی تلوار،دنیاکی سب سے قیمتی کشتی کاذکرہورہاہے۔پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یہ تمام تحفے ڈونلڈٹرمپ کوذاتی حیثیت میں دیے گئے ہیں مگر بھائی امریکی قانون اس درجہ موثرہے کہ ٹرمپ کسی کو تحفے کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ۔ اس سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ فہرست مکمل طورپرغیرتصدیق شدہ ہے۔

امریکی صدرکے سعودی دورے سے امریکا کو اقتصادی طورپر بے انتہا فائدہ ہوا۔سعودی شاہی خاندان کو بھی فائدہ ہوا کہ سابقہ صدربارک اوباما کے دورکے سرد تعلقات یکدم بہت اچھے اورقریبی نظرآنے لگے۔اصل حقیقت کیا ہے۔ اقتدار کی شطرنج پرکس مہرے سے کب اورکونساکام لیا جانا ہے،اس پرکچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے۔مگرایک عنصرکھل کرسامنے آگیاہے۔دنیامیں اصل جوہر طاقت اورقوت کاہے۔لیکن کمزورفریق ہمیشہ گلہ ہی کرتے نظرآتے ہیں۔اس لیے کہ اس سے زیادہ کچھ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ مگر صاحب، کیساگلہ اورکس سے گلہ۔ کمزور قوموں کی بات کون سنتاہے۔یہ دنیاصرف اورصرف طاقتور کی ہے۔
Load Next Story