پاکستان کرکٹ کا سرتاج مصباح الحق
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے<br />
<br />
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
Fortune Favours The Brave انگریزی کی ایک مشہورکہاوت ہے۔ یعنی ہمت مرداں مدد خدا۔ یہ کہاوت پاکستانی کرکٹ کے ہیرو مصباح الحق پر صادق آتی ہے۔ ان کی کپتانی میں ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر کالی آندھی کو ۔دو، ایک سے ٹیسٹ سیریز میں شکست دے کر ہماری کرکٹ ٹیم نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو اس سے پہلے کوئی بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم سرانجام نہیں دے سکی تھی۔ یہ فتح حاصل کرکے کپتان نے ایک دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرکے پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کیا ہے۔ بے شک ایسے مایہ ناز کھلاڑی روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ بقول علامہ اقبال:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
انھوں نے اپنی مرضی سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ جوکہ ایک لائق تحسین اور آبرو مندانہ بروقت فیصلہ ہے۔ ایسا ہی فیصلہ عظیم کھلاڑی یونس خان نے بھی کیا ہے جسے کرکٹ کے تمام حلقوں میں بہت سراہا جا رہا ہے۔ نئے کھلاڑیوں کو موقع دینے کے لحاظ سے یہ فیصلہ انتہائی درست اور بروقت ہے۔
2010 میں جن انتہائی ناسازگار حالات میں مصباح الحق کو پاکستان کرکٹ کی باگ ڈور سونپی گئی تھی وہ بیان سے باہر ہیں۔ لارڈز کے میچ میں اسپاٹ فکسنگ کے الزامات کی وجہ سے پاکستان کی پوری ٹیم کے حوصلے بری طرح پست تھے ۔
ان نامساعد حالات میں کپتانی کی ذمے داری قبول کرنا آسان نہیں تھا، پھر اس کے بعد میاں والی کے اس سپوت نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھائے پوری قوم اور دنیائے کرکٹ اس کی ہمیشہ گواہی دیتی رہے گی۔ اس دوران ان کے ناقدین ان پر تیر پر تیر برساتے رہے۔ کسی نے انھیں مسٹر ٹک ٹک کا خطاب دیا تو کسی نے انھیں سست رفتار کہا۔ بعض لوگوں نے ان پر چند کھلاڑیوں کو فیور کرنے کے الزامات بھی لگائے مگر انھوں نے اپنی یکسوئی کو ہر صورت برقرار رکھا اور اپنی تمام تر توجہ اپنی اور اپنی ٹیم کی بہتری پر مرکوز رکھی تاوقتیکہ انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے پانسہ پلٹ دیا اور عمران خان جیسے نابغہ روزگارکرکٹر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
مصباح نے اپنے شان دارکیریئر کا آغاز 2001 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کے خلاف کھیلے گئے ٹیسٹ میچ سے کیا تھا۔ اس کے بعد تقریباً چھ برس انھوں نے گوشہ گمنامی میں گزارے جو کسی بھی کھلاڑی کے لیے بڑا کٹھن مرحلہ ہوسکتا تھا اور اس کے بعد دوبارہ ٹیم میں اپنی جگہ بنانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ لیکن مصباح نے ثابت کردیا کہ اگر انسان ہمت، استقامت کا دامن تھامے رکھے تو کوئی مشکل ایسی نہیں کہ جو آسان نہ ہوجائے۔
مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود
چنانچہ 2007 میں اپنی شان دار کارکردگی کا ورلڈ T20 میں مظاہرہ کرکے مصباح نے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلیا اور اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پھر اس کے بعد 2010 میں قومی ٹیم کی کپتانی سنبھالنے کے بعد وہ اپنی ٹیم کی ڈھال بن گئے اور پاکستانی ٹیم کے معمار عبدالحفیظ کاردار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک روشن مثال بن گئے۔
وہ اس نازک مرحلے میں بلے بازی کے جوہر دکھانے کے لیے مرد میدان بن کر فیلڈ میں آئے جب ان کی ٹیم مشکلات میں گھری ہوئی ہوتی تھی۔ اس لحاظ سے اگر انھیں مرد میدان کے بجائے مرد بحران کا خطاب دیا جائے تو زیادہ مناسب اور موزوں ہوگا۔ ان کی اضافی خوبی یہ تھی کہ بوقت ضرورت وہ انتہائی برق رفتاری سے بلے بازی کرکے مخالف ٹیم کے باؤلروں کے چھکے چھڑا دیتے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے یہ کوئی ان کا ہمزاد ہو۔ متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کے خلاف ان کی دھواں دھار بلے بازی کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے۔ ون ڈے ورلڈ کپ میں بھی 2015 میں وہ سرفہرست رہے۔
اس میگا ایونٹ میں انھوں نے پاکستان کے لیے 350 رنز اسکور کیے جس کے بعد وہ اس فارمیٹ سے ریٹائر ہوگئے۔ وہ ایک ٹھنڈے مزاج کے Calculated کھلاڑی ہیں اور وہ اپنا Tempoکبھی Lose نہیں کرتے۔ وقت پڑنے پر وہ سرویون رچرڈز جیسی طوفانی بلے بازی بھی کرسکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی MBA کی قابلیت کو کرکٹ میں بھرپور انداز سے استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ تحمل، نظم، ضبط، بردباری، ٹیم اسپرٹ، جو ہر شناسی اور دور اندیشی کے علاوہ زبردست قوت فیصلہ کی غیر معمولی صلاحیتیں بھی ان کی نمایاں خوبیوں میں شامل ہیں۔ اپنی ان تمام خوبیوں کو انھوں نے اپنی ٹیم کے حق میں خوب استعمال کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بکھری ہوئی ٹیم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادیا۔
جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچوں میں پے در پے شکست کے باوجود عظیم مصباح نے حوصلہ نہیں ہارا بلکہ ان شکستوں سے بھی سبق حاصل کیا اور اپنے تلخ تجربوں سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ انگلینڈ کے ساتھ گزشتہ ٹیسٹ سیریز میں انھوں نے اپنے حریف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان کے راستے میں کئی اتار چڑھاؤ آئے مگر وہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھتے چلے گئے۔ انھوں نے سیریز کے بعد سیریز جیتیں اور اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا۔
کپتان بننے سے پہلے انھوں نے 19 ٹیسٹ میچوں میں 1008 رنز اسکور کیے جس کی اوسط شرح 36.60 تھی۔ کپتان بننے کے بعد انھوں نے 42 ٹیسٹ میچوں میں تقریباً 4000 رنز بنائے جس سے ان کی عمدہ بلے بازی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے منفرد انداز سے اپنے بعد آنے والے کھلاڑیوں کے لیے روشن نقوش چھوڑے ہیں۔ جنھیں اپناکر وہ اپنا اور اپنی ٹیم کا مستقبل روشن کرسکتے ہیں۔ مصباح وہ کھلاڑی ہیں جنھوں نے کھیل کے تینوں Formats سے اپنے نکتہ عروج پر ریٹائرمنٹ لی ہے۔
مصباح الحق اپنی ٹیم کے ہمراہ جب گزشتہ 17 مئی کو وطن واپسی لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ پر پہنچے تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ ان پر پھول برسائے گئے۔ اور مصباح زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ عوام کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مصباح نے پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا ہے۔ پاکستان کی فاتح ٹیم کے کپتان نے کہا کہ ان کی ٹیم کی فتح تمام کھلاڑیوں کی مشترکہ کوشش اور پاکستانی قوم کی پرخلوص دعاؤں کا ثمر ہے۔ انھوں نے اپنی اور اپنی ٹیم کی کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری فتح میں ٹیم کے کوچوں اور Selectors کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اپنے مستقبل کے منصوبے کے بارے میں انھوں نے فی الحال کچھ کہنے سے اجتناب کیا۔ تاہم PCB کو اس عظیم کھلاڑی کے تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ان کی اعلیٰ خدمات کی پاکستانی کرکٹ کو بہت ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ریٹائر ہونے والے عظیم کھلاڑی یونس خان کی صلاحیتوں سے بھی PCB کو خوب خوب فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یاد رہے کہ تجربے کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
انھوں نے اپنی مرضی سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ جوکہ ایک لائق تحسین اور آبرو مندانہ بروقت فیصلہ ہے۔ ایسا ہی فیصلہ عظیم کھلاڑی یونس خان نے بھی کیا ہے جسے کرکٹ کے تمام حلقوں میں بہت سراہا جا رہا ہے۔ نئے کھلاڑیوں کو موقع دینے کے لحاظ سے یہ فیصلہ انتہائی درست اور بروقت ہے۔
2010 میں جن انتہائی ناسازگار حالات میں مصباح الحق کو پاکستان کرکٹ کی باگ ڈور سونپی گئی تھی وہ بیان سے باہر ہیں۔ لارڈز کے میچ میں اسپاٹ فکسنگ کے الزامات کی وجہ سے پاکستان کی پوری ٹیم کے حوصلے بری طرح پست تھے ۔
ان نامساعد حالات میں کپتانی کی ذمے داری قبول کرنا آسان نہیں تھا، پھر اس کے بعد میاں والی کے اس سپوت نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھائے پوری قوم اور دنیائے کرکٹ اس کی ہمیشہ گواہی دیتی رہے گی۔ اس دوران ان کے ناقدین ان پر تیر پر تیر برساتے رہے۔ کسی نے انھیں مسٹر ٹک ٹک کا خطاب دیا تو کسی نے انھیں سست رفتار کہا۔ بعض لوگوں نے ان پر چند کھلاڑیوں کو فیور کرنے کے الزامات بھی لگائے مگر انھوں نے اپنی یکسوئی کو ہر صورت برقرار رکھا اور اپنی تمام تر توجہ اپنی اور اپنی ٹیم کی بہتری پر مرکوز رکھی تاوقتیکہ انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے پانسہ پلٹ دیا اور عمران خان جیسے نابغہ روزگارکرکٹر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
مصباح نے اپنے شان دارکیریئر کا آغاز 2001 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کے خلاف کھیلے گئے ٹیسٹ میچ سے کیا تھا۔ اس کے بعد تقریباً چھ برس انھوں نے گوشہ گمنامی میں گزارے جو کسی بھی کھلاڑی کے لیے بڑا کٹھن مرحلہ ہوسکتا تھا اور اس کے بعد دوبارہ ٹیم میں اپنی جگہ بنانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ لیکن مصباح نے ثابت کردیا کہ اگر انسان ہمت، استقامت کا دامن تھامے رکھے تو کوئی مشکل ایسی نہیں کہ جو آسان نہ ہوجائے۔
مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود
چنانچہ 2007 میں اپنی شان دار کارکردگی کا ورلڈ T20 میں مظاہرہ کرکے مصباح نے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلیا اور اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پھر اس کے بعد 2010 میں قومی ٹیم کی کپتانی سنبھالنے کے بعد وہ اپنی ٹیم کی ڈھال بن گئے اور پاکستانی ٹیم کے معمار عبدالحفیظ کاردار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک روشن مثال بن گئے۔
وہ اس نازک مرحلے میں بلے بازی کے جوہر دکھانے کے لیے مرد میدان بن کر فیلڈ میں آئے جب ان کی ٹیم مشکلات میں گھری ہوئی ہوتی تھی۔ اس لحاظ سے اگر انھیں مرد میدان کے بجائے مرد بحران کا خطاب دیا جائے تو زیادہ مناسب اور موزوں ہوگا۔ ان کی اضافی خوبی یہ تھی کہ بوقت ضرورت وہ انتہائی برق رفتاری سے بلے بازی کرکے مخالف ٹیم کے باؤلروں کے چھکے چھڑا دیتے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے یہ کوئی ان کا ہمزاد ہو۔ متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کے خلاف ان کی دھواں دھار بلے بازی کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے۔ ون ڈے ورلڈ کپ میں بھی 2015 میں وہ سرفہرست رہے۔
اس میگا ایونٹ میں انھوں نے پاکستان کے لیے 350 رنز اسکور کیے جس کے بعد وہ اس فارمیٹ سے ریٹائر ہوگئے۔ وہ ایک ٹھنڈے مزاج کے Calculated کھلاڑی ہیں اور وہ اپنا Tempoکبھی Lose نہیں کرتے۔ وقت پڑنے پر وہ سرویون رچرڈز جیسی طوفانی بلے بازی بھی کرسکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی MBA کی قابلیت کو کرکٹ میں بھرپور انداز سے استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ تحمل، نظم، ضبط، بردباری، ٹیم اسپرٹ، جو ہر شناسی اور دور اندیشی کے علاوہ زبردست قوت فیصلہ کی غیر معمولی صلاحیتیں بھی ان کی نمایاں خوبیوں میں شامل ہیں۔ اپنی ان تمام خوبیوں کو انھوں نے اپنی ٹیم کے حق میں خوب استعمال کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بکھری ہوئی ٹیم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادیا۔
جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچوں میں پے در پے شکست کے باوجود عظیم مصباح نے حوصلہ نہیں ہارا بلکہ ان شکستوں سے بھی سبق حاصل کیا اور اپنے تلخ تجربوں سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ انگلینڈ کے ساتھ گزشتہ ٹیسٹ سیریز میں انھوں نے اپنے حریف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان کے راستے میں کئی اتار چڑھاؤ آئے مگر وہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھتے چلے گئے۔ انھوں نے سیریز کے بعد سیریز جیتیں اور اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا۔
کپتان بننے سے پہلے انھوں نے 19 ٹیسٹ میچوں میں 1008 رنز اسکور کیے جس کی اوسط شرح 36.60 تھی۔ کپتان بننے کے بعد انھوں نے 42 ٹیسٹ میچوں میں تقریباً 4000 رنز بنائے جس سے ان کی عمدہ بلے بازی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے منفرد انداز سے اپنے بعد آنے والے کھلاڑیوں کے لیے روشن نقوش چھوڑے ہیں۔ جنھیں اپناکر وہ اپنا اور اپنی ٹیم کا مستقبل روشن کرسکتے ہیں۔ مصباح وہ کھلاڑی ہیں جنھوں نے کھیل کے تینوں Formats سے اپنے نکتہ عروج پر ریٹائرمنٹ لی ہے۔
مصباح الحق اپنی ٹیم کے ہمراہ جب گزشتہ 17 مئی کو وطن واپسی لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ پر پہنچے تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ ان پر پھول برسائے گئے۔ اور مصباح زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ عوام کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مصباح نے پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا ہے۔ پاکستان کی فاتح ٹیم کے کپتان نے کہا کہ ان کی ٹیم کی فتح تمام کھلاڑیوں کی مشترکہ کوشش اور پاکستانی قوم کی پرخلوص دعاؤں کا ثمر ہے۔ انھوں نے اپنی اور اپنی ٹیم کی کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری فتح میں ٹیم کے کوچوں اور Selectors کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اپنے مستقبل کے منصوبے کے بارے میں انھوں نے فی الحال کچھ کہنے سے اجتناب کیا۔ تاہم PCB کو اس عظیم کھلاڑی کے تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ان کی اعلیٰ خدمات کی پاکستانی کرکٹ کو بہت ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ریٹائر ہونے والے عظیم کھلاڑی یونس خان کی صلاحیتوں سے بھی PCB کو خوب خوب فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یاد رہے کہ تجربے کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔