مصباح الحق نے تینوں فارمیٹس میں ایک کپتان کی حمایت کر دی

ٹیم کو مشکلات سے نکالنے کیلیے جارحانہ مزاج بدلا توسست روی کے طعنے ملے، سابق کپتان

پی ایس ایل تھری تک کھیلنا چاہتا ہوں،کرکٹ رگوں میں بسی ہے، تعلق برقرار رکھوں گا، ،سابق اسٹار۔ فوٹو : فائل

پاکستان کرکٹ کے سب سے کامیاب کپتان مصباح الحق نے تینوں فارمیٹس کیلیے ایک قائد کی حمایت کر دی۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں پاکستان کے سب سے کامیاب کپتان نے کہا کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیت کر جس طرح میرے کیریئر کا اختتام ہوا ہے اس پر مطمئن ہوں اور بہت سکون محسوس کر رہا ہوں۔ ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اپنے اندر کوئی بڑی تبدیلی محسوس نہیں کر رہا تاہم کرکٹ کھیلنے کے دوران ٹریننگ اور پریکٹس کا دباؤ اب نہیں ہے، اب فیملی کو زیادہ وقت دے سکتا ہوں۔

مصباح الحق نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے باوجود مستقبل میں کسی نہ کسی صورت میں کرکٹ سے اپنا تعلق برقرار رکھوں گا، یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کھیل سے اپنا تعلق بالکل ختم کر سکوں۔ ساری زندگی جو کام کرتے ہوئے گزاری ہو اس سے بھلا کیسے دور ہو سکتا ہوں، کرکٹ سے مجھے جنون کی حد تک پیار ہے اور یہ میری رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے۔

اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ انگلینڈ کے خلاف یو اے ای میں کھیلی گئی سیریز کے بعد ہی ریٹائر ہونا چاہتا تھا لیکن کہا گیا کہ انگلینڈ کے اگلے دورے میں تجربہ کار کھلاڑیوں کی ضرورت ہوگی اس لیے اپنا فیصلہ واپس لیا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بعد فوری طور پر ویسٹ انڈیز کا دورہ تھا جس پر میں نے اس دورے تک کھیلنے کا فیصلہ کیا، اگر آسٹریلوی دورے میں کامیاب ہو جاتے تب بھی ویسٹ انڈیز میں میری آخری سیریز ہوتی کیونکہ ریٹائرمنٹ کا فیصلہ بہت پہلے کر چکا تھا۔ پہلی بار ویسٹ انڈیز میں ٹیسٹ سیریز جیتنے کی خواہش بھی میرے دل میں تھی جو پوری ہوئی، اپنے کیریئر کا اس طرح اختتام میرے لیے بہت اطمینان بخش ہے۔


مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے مصباح کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ تھری تک کھیلنا چاہتا ہوں جس کے بعد کھیل چھوڑنے کا ارادہ کر رکھا ہے، اس کے بعد سوچوں گا کہ میرا تجربہ کس طرح ملک کے کام آسکتا ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ میں آؤں یا نہیں لیکن کوشش ہوگی کہ ضلع، ریجن یا ڈپارٹمنٹ، کسی بھی سطح پر کرکٹ کی بہتری کے لیے کام کر سکوں۔

مصباح نے مزید کہا کہ میری کرکٹ کی بنیاد ٹینس اور ٹیپ بال رہی ہے جس میں گیند روکنے کا تصور نہیں ہوتا اور صرف باؤنڈریز ہی پیش نظر ہوتی ہیں، میں شروع سے ہارڈ ہٹر رہا ہوں تاہم پاکستان ٹیم کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے مجھے اپنا مزاج تبدیل کرنا پڑا، اس لیے صرف مجھ پر سست بیٹنگ کا الزام عائد کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں آنے کے بعد خود کو طویل کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا لیکن جب پاکستانی ٹیم میں چوتھے پانچویں نمبر پر کھیلنا شروع کیا اور ابتدائی دو تین وکٹیں جلد گرتے دیکھیں تو پھر حالات کے مطابق بیٹنگ کرنی پڑی۔

ٹھنڈے مزاج کے حامل سابق کپتان نے مزیدکہا کہ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچز جیتنے کے باوجود مجھ پر بہت زیادہ تنقید کی گئی جس کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آتی تاہم میں نے تنقید کا جواب ہمیشہ اپنی کارکردگی سے دینے کی کوشش کی۔ تنقید مثبت و تعمیری ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تنقید کے نام پر لوگوں کی بے عزت اور ذلیل کیا جاتا ہے، میڈیا کو اخلاقیات کی حدوں سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی تینوں فارمیٹس کیلیے ایک ہی کپتان کا تجربہ کامیاب ہو سکتا ہے، لیکن اس کا انحصار کپتان کی اپنی صلاحیت پر ہے، اگر وہ پرفارمر ہے اور اسے قیادت کی سمجھ بوجھ ہے تو اس کا فائدہ ٹیم کو ہوگا کیونکہ وہ واحد کپتان ہوگا، اس لیے منصوبہ بندی میں سلیکٹرز اور ٹیم منیجمنٹ کے ساتھ مسائل درپیش نہیں ہوں گے۔

سابق کپتان نے کہا کہ اظہر علی کے ساتھ انتہائی نارروا سلوک ہوا، جس پر مجھے بے حد افسوس ہے، ٹیم کی ناقص کارکردگی کا سارا ملبہ کپتان پر گرا دیا جاتا ہے، اظہر علی پر میڈیا کی جانب سے بہت تنقید کی گئی، بورڈ کی جانب سے بھی حمایت کم ہونے پر ہی انھوں نے ٹیسٹ کی نائب کپتانی چھوڑی اور انھوں نے بالکل درست فیصلہ کیا۔ بحیثیت بیٹسمین اظہر علی کی کارکردگی بہت اچھی ہے اور پاکستان کے لیے ان کے رنز بہت قیمتی ہیں۔
Load Next Story