نئے صوبے کا قیاممتفقہ فیصلہ کیا جائے
پنجاب کی اس تقسیم میں مقامی نمایندہ افراد کی کثرت رائے سے رضا مندی شامل نہیں جس کا ہونا لازمی امر تھا۔
پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے قائم پارلیمانی کمیشن نے آئینی ترامیم کے لیے سفارشات کو حتمی شکل دے دی ہے۔ مجوزہ نئے صوبے کا نام ''بہاولپور جنوبی پنجاب'' تجویز کیا گیا ہے، اس طرح بہاولپور اور ملتان کے الگ الگ دو صوبوں کے بجائے ایک ہی صوبہ بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ مجوزہ نئے صوبے کے لیے قومی اسمبلی کی 59 اور صوبائی اسمبلی کی 124 نشستیں ہوں گی۔ کمیشن کی سفارشات آج قومی اسمبلی کو بھجوا دی جائیں گی۔ آئینی ترامیم کے اس مسودے پر آج چیئرمین کمیشن اور دیگر ارکان دستخط کریں گے۔ مجوزہ نئے صوبے میں 3 ڈویژن' بہاولپور' ڈیرہ غازی خان' ملتان جب کہ دو اضلاع بھکر اور میانوالی بھی شامل ہوں گے جب کہ جھنگ کو نئے صوبے میں شامل کرنے کا فیصلہ قومی اسمبلی کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ملک میں نئے صوبے بنانا کوئی غیر آئینی بات نہیں ہے ۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا یونٹ ہے اور شہریوں کو انتظامی معاملات میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے لیے ایک طویل عرصے سے مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آرہا تھا کہ انتظامی معاملات میں عوام کو فوری اور بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے لیے نئے صوبوں کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔ ایک جانب کچھ افراد کی جانب سے لسانیت کی بنیاد پر سرائیکی صوبے کی آوازیں اٹھنے لگیں تو دوسری جانب بہاولپور ریاست کی بحالی کا مطالبہ بھی منظر عام پر آ گیا۔
یوں مختلف سیاسی گروہوں نے اس تقسیم کو اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بناتے ہوئے اس کے لیے اپنی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ کچھ عرصہ سے حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ بڑی شدومد سے کیا جانے لگا۔ صدر زرداری نے کئی بار اس امر کا واضح عندیہ دیا کہ جنوبی پنجاب جلد الگ صوبہ بنے گا۔ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے صوبے کی تقسیم کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ صوبے کو تقسیم کرنا ہی مقصود ہے تو لسانی بنیادوں کے بجائے انتظامی یونٹ بنائے جائیں اور پنجاب کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں کو بھی انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرنے لیے قومی کمیشن بنایا جائے۔ صوبہ خیبر پختون خوا کی تقسیم کے حوالے سے ہزارہ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا، اس کے لیے باقاعدہ تحریک جاری ہے۔
اس طرح بلوچستان کی تقسیم کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا۔ اب مرکزی حکمران جماعت پیپلز پارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کی حمایت سے اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کی مخالفت کے باوجود پنجاب میں نئے صوبہ ''بہاولپور جنوبی پنجاب'' کا آئینی مسودہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس مقصد کے لیے 24 ویں آئینی ترمیمی بل کے ذریعے آئین کے سات آرٹیکلز میں ترامیم تجویزکی گئی ہیں۔ ان آرٹیکلز میں آئین کے آرٹیکلز ون' 176,106,59,51 اے 18 اور 104 شامل ہیں۔ پارلیمانی کمیشن کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں جے یو آئی (ف) ایم کیو ایم اور اے این پی کے ارکان بھی شامل تھے۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جن کی پنجاب میں نہ کوئی صوبائی سیٹ ہے اور نہ قومی سیٹ جب کہ پنجاب کی سب سے بڑی صوبائی حکمران سیاسی جماعت اور سب سے بڑی مرکزی اپوزیشن مسلم لیگ ن نے اس پارلیمانی کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔
اس طرح پنجاب کی اس تقسیم میں مقامی نمایندہ افراد کی کثرت رائے سے رضا مندی شامل نہیں جس کا ہونا لازمی امر تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے کے بغیر اس تقسیم کا مستقبل میں بہت سے مسائل کو جنم دینے کا خدشہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔ اس وقت جب اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ مقرر اور نئے الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے اور الیکشن میں چند ماہ رہ گئے ہیں، صوبہ پنجاب کی تقسیم کی کوشش اپنے اندر بہت سے تحفظات اور خدشات سمیٹے ہوئے ہے۔ بہتر ہوتا کہ حکومت قومی اتفاق رائے سے ایک صوبے کی تقسیم کے بجائے تمام صوبوں کی تقسیم کا مسئلہ حل کرتی تاکہ دوسرے گروہوں کے مطالبات بھی پورے ہو جاتے اور مستقبل میں کسی قسم کے مسائل پیدا ہونے کا امکان نہ رہتا۔
علاوہ ازیں بعض حلقوں کی جانب سے یہ اعتراضات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ صوبہ پنجاب کی تقسیم سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کی جارہی ہے نا کہ عوام کے مسائل کے حل اور ان کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے' مرکزی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کو خدشہ ہے کہ وہ آیندہ انتخابات میں پنجاب میں واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے گی چونکہ وسطی پنجاب کے مقابلے میں جنوبی پنجاب میں اس کی سیاسی پوزیشن بہتر ہے لہٰذا وہ جنوبی پنجاب کی حکمرانی کا تاج اپنے سرپر سجانا چاہتی ہے۔ اب جب انتخابات قریب آ رہے ہیں توآخر پیپلز پارٹی کو پنجاب کی تقسیم کی اتنی جلدی کیوں ہے وہ یہ معاملہ آنے والی نئی حکومت پر بھی چھوڑ سکتی تھی جب کہ سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے جنوبی پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ نیا صوبہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کا مطالبہ ہے' بعض لوگ اپنے مقاصد کے لیے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
دریں اثناء یہ بھی خوش آیند بات ہے کہ کمیشن کی رپورٹ میں لسانیت کے بجائے انتظامی بنیادوں پر صوبے کی تقسیم کی سفارش کی گئی ہے۔ کسی بھی صوبائی یونٹ کی لسانی بنیادوں پر تقسیم ہمیشہ نفرت اور انتشار کو جنم دیتی ہے جس کا سلسلہ کبھی رکنے میں نہیں آتا۔ انتظامی بنیادوں پر ہونے والی تقسیم ہی عوامی مسائل کا بہترین حل ہوتی ہے۔ نئے صوبے کے قیام سے وسائل اور پانی کی تقسیم کے مسائل بھی سر اٹھا سکتے ہیں جب کہ صوبوں کے درمیان وسائل اور پانی کی تقسیم کے تنازعات پہلے ہی سے موجود ہیں۔ اسی نکتے کی جانب کمیشن نے اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام معاملات طے کر لیے گئے ہیں۔ وسائل کی تقسیم پر کسی کو اعتراض نہ ہو گا' کسی اور صوبے کے حقوق متاثر ہوں گے نہ پانی کا حصہ سلب ہو گا۔
اگر تمام معاملات بخوبی طے پا گئے ہیں تو یہ خوش آیند امر ہے مگر اس کمیشن میں اپوزیشن تو شریک ہی نہیں ہوئی صرف حکومت میں شریک جماعتوں کے تعاون سے طے پانے والے معاملات تحفظات کو جنم دیتے رہیں گے۔ بہتر ہوتا کہ حکومت قومی کمیشن تشکیل دیتی اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس میں شریک کرتی تاکہ قومی اتفاق رائے سے صوبوں کی تقسیم کا مسئلہ حل کیا جاتا۔ اطلاعات کے مطابق کمیشن کی رپورٹ میں ایک اور نئے صوبے ہزارہ کے قیام کی تجویز بھی پیش کی جا رہی ہے۔ نئے صوبوں کی تقسیم ایک حساس معاملہ ہے بہترہے حکومت صرف اتحادی جماعتوں کو ہی اس عمل میں شریک نہ کرے بلکہ تمام اپوزیشن جماعتوں اور مقامی نمایندہ افراد کو بھی اس میں شامل کرے تاکہ تمام پیچیدگیوں کو متفقہ طور پر حل کیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی تنازعے اور خلفشار کے بغیر سر اٹھانے والے نئے مسائل سے بخوبی نمٹا جا سکے۔
ملک میں نئے صوبے بنانا کوئی غیر آئینی بات نہیں ہے ۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا یونٹ ہے اور شہریوں کو انتظامی معاملات میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے لیے ایک طویل عرصے سے مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آرہا تھا کہ انتظامی معاملات میں عوام کو فوری اور بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے لیے نئے صوبوں کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔ ایک جانب کچھ افراد کی جانب سے لسانیت کی بنیاد پر سرائیکی صوبے کی آوازیں اٹھنے لگیں تو دوسری جانب بہاولپور ریاست کی بحالی کا مطالبہ بھی منظر عام پر آ گیا۔
یوں مختلف سیاسی گروہوں نے اس تقسیم کو اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بناتے ہوئے اس کے لیے اپنی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ کچھ عرصہ سے حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ بڑی شدومد سے کیا جانے لگا۔ صدر زرداری نے کئی بار اس امر کا واضح عندیہ دیا کہ جنوبی پنجاب جلد الگ صوبہ بنے گا۔ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے صوبے کی تقسیم کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ صوبے کو تقسیم کرنا ہی مقصود ہے تو لسانی بنیادوں کے بجائے انتظامی یونٹ بنائے جائیں اور پنجاب کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں کو بھی انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرنے لیے قومی کمیشن بنایا جائے۔ صوبہ خیبر پختون خوا کی تقسیم کے حوالے سے ہزارہ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا، اس کے لیے باقاعدہ تحریک جاری ہے۔
اس طرح بلوچستان کی تقسیم کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا۔ اب مرکزی حکمران جماعت پیپلز پارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کی حمایت سے اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کی مخالفت کے باوجود پنجاب میں نئے صوبہ ''بہاولپور جنوبی پنجاب'' کا آئینی مسودہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس مقصد کے لیے 24 ویں آئینی ترمیمی بل کے ذریعے آئین کے سات آرٹیکلز میں ترامیم تجویزکی گئی ہیں۔ ان آرٹیکلز میں آئین کے آرٹیکلز ون' 176,106,59,51 اے 18 اور 104 شامل ہیں۔ پارلیمانی کمیشن کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں جے یو آئی (ف) ایم کیو ایم اور اے این پی کے ارکان بھی شامل تھے۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جن کی پنجاب میں نہ کوئی صوبائی سیٹ ہے اور نہ قومی سیٹ جب کہ پنجاب کی سب سے بڑی صوبائی حکمران سیاسی جماعت اور سب سے بڑی مرکزی اپوزیشن مسلم لیگ ن نے اس پارلیمانی کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔
اس طرح پنجاب کی اس تقسیم میں مقامی نمایندہ افراد کی کثرت رائے سے رضا مندی شامل نہیں جس کا ہونا لازمی امر تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے کے بغیر اس تقسیم کا مستقبل میں بہت سے مسائل کو جنم دینے کا خدشہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔ اس وقت جب اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ مقرر اور نئے الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے اور الیکشن میں چند ماہ رہ گئے ہیں، صوبہ پنجاب کی تقسیم کی کوشش اپنے اندر بہت سے تحفظات اور خدشات سمیٹے ہوئے ہے۔ بہتر ہوتا کہ حکومت قومی اتفاق رائے سے ایک صوبے کی تقسیم کے بجائے تمام صوبوں کی تقسیم کا مسئلہ حل کرتی تاکہ دوسرے گروہوں کے مطالبات بھی پورے ہو جاتے اور مستقبل میں کسی قسم کے مسائل پیدا ہونے کا امکان نہ رہتا۔
علاوہ ازیں بعض حلقوں کی جانب سے یہ اعتراضات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ صوبہ پنجاب کی تقسیم سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کی جارہی ہے نا کہ عوام کے مسائل کے حل اور ان کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے' مرکزی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کو خدشہ ہے کہ وہ آیندہ انتخابات میں پنجاب میں واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے گی چونکہ وسطی پنجاب کے مقابلے میں جنوبی پنجاب میں اس کی سیاسی پوزیشن بہتر ہے لہٰذا وہ جنوبی پنجاب کی حکمرانی کا تاج اپنے سرپر سجانا چاہتی ہے۔ اب جب انتخابات قریب آ رہے ہیں توآخر پیپلز پارٹی کو پنجاب کی تقسیم کی اتنی جلدی کیوں ہے وہ یہ معاملہ آنے والی نئی حکومت پر بھی چھوڑ سکتی تھی جب کہ سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے جنوبی پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ نیا صوبہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کا مطالبہ ہے' بعض لوگ اپنے مقاصد کے لیے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
دریں اثناء یہ بھی خوش آیند بات ہے کہ کمیشن کی رپورٹ میں لسانیت کے بجائے انتظامی بنیادوں پر صوبے کی تقسیم کی سفارش کی گئی ہے۔ کسی بھی صوبائی یونٹ کی لسانی بنیادوں پر تقسیم ہمیشہ نفرت اور انتشار کو جنم دیتی ہے جس کا سلسلہ کبھی رکنے میں نہیں آتا۔ انتظامی بنیادوں پر ہونے والی تقسیم ہی عوامی مسائل کا بہترین حل ہوتی ہے۔ نئے صوبے کے قیام سے وسائل اور پانی کی تقسیم کے مسائل بھی سر اٹھا سکتے ہیں جب کہ صوبوں کے درمیان وسائل اور پانی کی تقسیم کے تنازعات پہلے ہی سے موجود ہیں۔ اسی نکتے کی جانب کمیشن نے اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام معاملات طے کر لیے گئے ہیں۔ وسائل کی تقسیم پر کسی کو اعتراض نہ ہو گا' کسی اور صوبے کے حقوق متاثر ہوں گے نہ پانی کا حصہ سلب ہو گا۔
اگر تمام معاملات بخوبی طے پا گئے ہیں تو یہ خوش آیند امر ہے مگر اس کمیشن میں اپوزیشن تو شریک ہی نہیں ہوئی صرف حکومت میں شریک جماعتوں کے تعاون سے طے پانے والے معاملات تحفظات کو جنم دیتے رہیں گے۔ بہتر ہوتا کہ حکومت قومی کمیشن تشکیل دیتی اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس میں شریک کرتی تاکہ قومی اتفاق رائے سے صوبوں کی تقسیم کا مسئلہ حل کیا جاتا۔ اطلاعات کے مطابق کمیشن کی رپورٹ میں ایک اور نئے صوبے ہزارہ کے قیام کی تجویز بھی پیش کی جا رہی ہے۔ نئے صوبوں کی تقسیم ایک حساس معاملہ ہے بہترہے حکومت صرف اتحادی جماعتوں کو ہی اس عمل میں شریک نہ کرے بلکہ تمام اپوزیشن جماعتوں اور مقامی نمایندہ افراد کو بھی اس میں شامل کرے تاکہ تمام پیچیدگیوں کو متفقہ طور پر حل کیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی تنازعے اور خلفشار کے بغیر سر اٹھانے والے نئے مسائل سے بخوبی نمٹا جا سکے۔